پاکستان فلم انڈسٹری بالی ووڈ کے نقش قدم پر
فلم انڈسٹری تخلیق کی بجائے جعل سازی کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ بالی ووڈ، ہالی ووڈ کو اورلالی ووڈ، بالی ووڈ کوکاپی کررہا ہے۔
''یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی فلموں کی اندھی تقلید کرنے والے پاکستانی فلم سازوں نے بھی اب کہانی کے بجائے آئٹم سانگ یا دوسرے لفظوں میں ''جسم کی نمائش'' کو ہی کمائی کا ذریعہ ڈھونڈھ لیا ہے''۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ فلم انڈسٹری کی بنیاد تھیٹر سے پڑی تھی البتہ برصغیر میں فلم انڈسٹری کا باقاعدہ آغاز 1913ء میں ہوا جب یہاں پہلی فلم ''راجہ ہریش چندرا'' ریلیز ہوئی۔ اسے برصغیر کی پہلی خاموش فلم کے نام کے ساتھ بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اُس دور میں وڈیو کے ساتھ ساونڈ ریکارڈنگ ممکن نہ تھی، اس لئے فلموں کا ابتدائی دور خاموش فلموں کا دور کہلایا۔ مگر ہلتی تصویروں سے تفریح کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا تھا جس کیلئے فلم کی بنیاد رکھی گئی تھی اِسی لئے فلم کے ساتھ مختلف تجربات ہوتے رہے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب سازندے سینما میں موجود ہوتے تھے جو فلم کے سین کے ساتھ ساتھ موسیقی ترتیب دیتے تھے اور یوں تصویر کے ساتھ صوتی امتزاج کی ریت ڈالی گئی۔
پھر وڈیو کے ساتھ ساونڈ ریکارڈنگ کی ایجاد کے ساتھ ہی فلموں میں بھی یہ ٹیکنالوجی در آئی۔ 1931ء میں ہندوستان میں پہلی''بولنے والی فلم'' ''جہان آراء'' ریلیز کی گئی۔ ساونڈ ریکارڈنگ کے ساتھ ہی ساتھ فلموں میں گیتوں کا رواج بھی شروع ہوگیا کیونکہ اس فلم میں 12 گانے تھے۔ اس دور میں فلمیں چونکہ طویل ہوتی تھیں اس وجہ سے گانوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اِسی دور میں ایک فلم ''اندرسبھا'' ریلیز ہوئی تھی جس میں 59 گانے تھے اور اسی دور کی ایک فلم ''شیریں فرہاد'' میں 42 گیت تھے۔
برصغیر کی سینما انڈسٹری نے لاہور، بمبئی اور کلکتہ میں آنکھ کھولی البتہ لاہور کو اس حوالے سے ایک خصوصی مقام اورمرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہاں پر اردو اور پنجابی میں فلمیں بنائی جاتی تھیں جس میں زیادہ تر فنانسر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور لکھاری غیر مسلم ہوا کرتے تھے، اسی باعث ان فلموں میں غیر مسلم تہذیب و تمدن، روایات اور کلچر کی چھاپ نمایاں تھی۔ اس ماحول میں فضلی برادران (سبطین فضلی، حسنین فضلی) اور سید شوکت حسین رضوی نے اپنی فلموں کے ذریعے کسی حد تک مسلم معاشرے کی عکاسی کی کوشش کی۔ آزادی سے قبل ''امتیاز علی تاج'' نے بھی مغلیہ دور پر ایک فلم ''انارکلی'' بنانے کی کوشش کی مگر یہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔
برصغیر کی تقسیم کے دوران ہونیوالے فسادات میں لاہور میں فلمسازی کا ڈھانچہ مکمل طور پرتباہ ہوگیا۔ اسی باعث قیام پاکستان کے وقت دیگر وسائل اور ذرائع کی طرح یہ نو زائیدہ ملک تفریحی مواقعوں سے بھی بالکل عاری تھا مگر جب یہاں پر فلم انڈسٹری نے اپنے قدم جمانے شروع کیے تو اس دیکھ کر صاف اندازہ ہوگیا کہ وہ بھارتی فلم انڈسٹری سے متاثر ہے اور اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔
پاکستان میں فلمسازی کا آغاز، ابتدائی دور کی فلمیں، اُن کی کہانیاں، کردار، ماحول غرض ہر چیز ہمیں واضح طور پر بھارتی فلم انڈسٹری سے متاثر نظر آتی ہے۔ حتی کہ ہمارے اداکاروں کے نام بھی سنتوش کمار (سید موسیٰ رضا)، سدھیر (شاہ زمان خان) اور درپن (سید عشرت رضا) بھارتی ماحول کی عکاسی کرتے تھے۔ لاہور میں فلم سازی کے آغاز کے باوجود بھارتی فلموں کی درآمد بھی ہوتی رہی ۔اس حوالے سے ابتدا میں دونوں ملکوں کے درمیان فلموں کے تبادلے کے معاہدے بھی ہوئے۔ البتہ 65ء کی جنگ شروع ہوتے ہی صدر ایوب خاں نے بھارتی فلموں پر پابندی عائد کر دی۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں جا کر''چند'' فلموں کی درآمد کیلئے اس پابندی کو نرم کیا گیا۔جس سے بھارتی فلموں کی نمائش کے راستے کھل گئے اور فلموں کی درآمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔اس نے ملکی سینما انڈسٹری کو آخری دموں تک پہنچا دیا اوربعد میں ''وی سی آر'' اور پھر CD اور DVD کی ایجاد نے سینما انڈسٹری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
سینماوں کی جگہ شاپنگ مال اور پلازے بن گئے، آرٹسٹ بھوکیں مرنے لگے، حکومت فلمی صنعت کی بحالی کیلئے بلند و بانگ دعوے کرنے لگی مگر عملاً صورتحال دگرگوں ہی رہی۔ اس دوران صرف ایک اچھی پاکستانی فلم ''رام چند پاکستانی'' سامنے آئی اور یہ اپنی نوعیت کی وہ واحد فلم تھی جسے بیک وقت پاکستانی اور بھارتی سینما میں نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔ پھر ایک لمبی خاموشی طاری ہوگئی، جس میں وقتاً فوقتاً وزیر ثقافت کی جانب سے کبھی کبھار کوئی بیان سامنے آجاتا مگر قطعاً کوئی بحالی دیکھنے میں نہ آئی۔ ایسے میں میڈیا ہاوسز نے کچھ عملی اقدامات اٹھائے اور پہلے ''خدا کیلئے'' ریلیز کی، اس فلم نے اچھا بزنس کیا، لوگوں نے ایک عرصے کے بعد سینما کی جانب رخ کیا۔ یہ فلم ایک سنجیدہ معاشرتی اور عالمی موضوع پر تھی جس پر تنقید و تحسین ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ پھر 'بول'، 'وار'، 'میں ہوں شاہد آفریدی'، 'چنبیلی' اور 'زندہ بھاگ' جیسی موضوعاتی فلمیں بنیں، جنہیں شائقین نے بہت حد تک سراہا بھی۔ مگر شاید ملکی سینما انڈسٹری کو اپنی بحالی عزیز نہیں تھی اس لئے پھر انہی اقدامات پر عمل شروع کردیا گیا جن کی وجہ سے پہلے سینما گھر ویران ہوئے تھے۔
اب تو فلم انڈسٹری تخلیق کے بجائے جعل سازی اور کاپی انڈسٹری بن چکی ہے۔ بالی ووڈ، ہالی ووڈ کو کاپی کر رہا ہے اور لالی ووڈ نے بالی ووڈ کو کاپی کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ تو بالی ووڈ کا شروع سے ہی وتیرہ ہے کہ جب اچھے، سنجیدہ اور معاشرتی موضوعات موجود نہ ہوں تو ''بے مقصد ایکشن اور آئٹم سانگ'' کے تڑکے کے ساتھ فلم بیچنے کی کوششوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ آئٹم سانگ کا کہانی سے تو کوئی لینا دینا ہوتا نہیں لیکن اس سے فلم میں ''مصالحہ'' اچھا آجاتا ہے اور فلم بک بھی جاتی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی فلموں کی اندھی تقلید کرنے والے پاکستانی فلم سازوں نے بھی اب کہانی کے بجائے آئٹم سانگ یا دوسرے لفظوں میں ''جسم کی نمائش'' کو ہی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ سب سے پہلے پاکستانی فلم ''میں ہوں شاہد آفریدی'' میں ماہ نور بلوچ اور متیرا کے آئٹم سانگ شامل کیے گئے تھے۔ اب تو ایک ریس سی لگ گئی ہے کیونکہ اب ہر نئی آنے والی پاکستانی فلم آئٹم سانگ کے تڑکے سے بھرپور ہوتی ہے۔ ''نامعلوم افراد'' میں مہوش حیات کا آئٹم سانگ، ''جلیبی'' میں ژالے سرحدی کے آئٹم سانگ شامل تھے اور اب جلد ریلیز ہونے والی فلم ''کراچی سے لاہور'' میں عائشہ عمر کے آئٹم سانگ کے ذریعے فلم بزنس چمکانا چاہتی ہے۔
ہماری فلمز کے ڈائریکٹرز کو سمجھنا ہوگا کہ فلم کسی بازاری جنس کا نہیں تفریح، تعلیم و تربیت، اصلاح اور تعمیرو ترقی کا نام ہے۔ اگر انہوں نے عوام کو وہی کچھ دینا ہے جو بھارتی انڈسٹری انہیں دے رہی ہے تو وہ کیونکر اور کس بنیاد پر واپس سینما کو پلٹیں؟ اسی فلم انڈسٹری نے ابھی ہمیں ''زندہ بھاگ'' جیسی ایک اچھی اور موضوعاتی فلم مہیا کی ہے جس پر سنیئر اداکار ''راحت کاظمی'' نے بھی کہا کہ ''محسوس ہوتا ہے کہ فلم انڈسٹری اپنے احیاء کی جانب گامزن ہے اور میں خود بھی چاہتا ہوں کہ اس طرح کی فلم بناوں''۔
مگر ہم نے بھارتی نقالی میں معاشرے کے موضوعات کو چھوڑ کر مصالحہ جات کو پکڑ لیا حالانکہ ہمارے پاس تو دو پڑوسیوں ایران اور چین کی مثال بھی موجود ہے جو آج بھی اپنی فلم کے ذریعے اپنے ثقافتی، سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی نظریات و روایات کا پرچار کر رہے ہیں اور ان کی یہی فلمیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ آسکر کیلئے بھی نامزد ہوتی ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہم اس ڈگر پر چل رہے ہیں جس پر چل کر آج بھارت کا یہ حال ہوا ہے کہ ''اوم پوری'' جیسے سینئر فنکار کو بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ ''بھارت میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کی ایک بڑی وجہ آئٹم سانگز بھی ہیں''۔ یہ لنکا تو گھر کا بھیدی ڈھا رہا ہے کہ آج کی بھارتی فلم سماجی شعور بیدار کرنے کے بجائے محض کاروبار کا ایک ذریعہ بن چکی ہے اور یہ کہ فلمسازوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہی نہیں۔
بھارتی فلم انڈسٹری تو اب مصالحہ فلم سے بھی ایک قدم آگے بڑھنے جا رہی ہے اور حال ہی میں بھارتی فلمساز ''ایکتا کپور'' نے''ڈرٹی پکچرز'' اور''راگنی ایم ایم ایس 2'' کے بعد ''جس'' فلم بنانے کا عندیہ دیا ہے ہمارے ہاں ابھی تک اس کا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔
ایک طرف پاکستانی ڈرامہ ہے جس نے ناول سے رجوع کرنے کے بعد ایسی کروٹ لی ہے کہ موضوع ہی یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب ڈرامہ عشقِ مجازی سے عشق حقیقی کی طرف سفر کا نام بن کر رہ گیا ہے۔ ماضی قریب کے ''میری ذات ذرہ بے نشاں''، ''میں عبدالقادر ہوں''، ''شہرِذات'' سمیت جتنے بھی کامیاب اور سپر ہٹ ڈرامے دیکھیں ان میں ایک ہی موضوع نظر آتا ہے، عشق حقیقی! اور دوسری جانب ہماری فلم انڈسٹری ہے جس نے بھارت کا لال چہرہ دیکھ کر اپنے منہ پر خود ہی طمانچے مارنے شروع کر دئیے ہیں حالانکہ بھارتی فلم انڈسٹری میں آئٹم سانگ کے تڑکے سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کی جھلک اوم پوری کے بیان میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ بس اب اُمید اور خواہش تو یہی ہے کہ جس قدر جلدی پاکستانی فلم انڈسٹری خود کو بھارتی تقلید سے دور کرلے تو بہتر ہے کیونکہ جب ہم آئٹم سانگ کو اپنا سکتے ہیں تو پھر نیم برہنگی سے بڑھ کر مکمل برہنگی سے بھی یکسر انکار نہیں کرسکتے ہیں۔
[poll id="441"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ فلم انڈسٹری کی بنیاد تھیٹر سے پڑی تھی البتہ برصغیر میں فلم انڈسٹری کا باقاعدہ آغاز 1913ء میں ہوا جب یہاں پہلی فلم ''راجہ ہریش چندرا'' ریلیز ہوئی۔ اسے برصغیر کی پہلی خاموش فلم کے نام کے ساتھ بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اُس دور میں وڈیو کے ساتھ ساونڈ ریکارڈنگ ممکن نہ تھی، اس لئے فلموں کا ابتدائی دور خاموش فلموں کا دور کہلایا۔ مگر ہلتی تصویروں سے تفریح کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا تھا جس کیلئے فلم کی بنیاد رکھی گئی تھی اِسی لئے فلم کے ساتھ مختلف تجربات ہوتے رہے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب سازندے سینما میں موجود ہوتے تھے جو فلم کے سین کے ساتھ ساتھ موسیقی ترتیب دیتے تھے اور یوں تصویر کے ساتھ صوتی امتزاج کی ریت ڈالی گئی۔
پھر وڈیو کے ساتھ ساونڈ ریکارڈنگ کی ایجاد کے ساتھ ہی فلموں میں بھی یہ ٹیکنالوجی در آئی۔ 1931ء میں ہندوستان میں پہلی''بولنے والی فلم'' ''جہان آراء'' ریلیز کی گئی۔ ساونڈ ریکارڈنگ کے ساتھ ہی ساتھ فلموں میں گیتوں کا رواج بھی شروع ہوگیا کیونکہ اس فلم میں 12 گانے تھے۔ اس دور میں فلمیں چونکہ طویل ہوتی تھیں اس وجہ سے گانوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اِسی دور میں ایک فلم ''اندرسبھا'' ریلیز ہوئی تھی جس میں 59 گانے تھے اور اسی دور کی ایک فلم ''شیریں فرہاد'' میں 42 گیت تھے۔
برصغیر کی سینما انڈسٹری نے لاہور، بمبئی اور کلکتہ میں آنکھ کھولی البتہ لاہور کو اس حوالے سے ایک خصوصی مقام اورمرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہاں پر اردو اور پنجابی میں فلمیں بنائی جاتی تھیں جس میں زیادہ تر فنانسر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور لکھاری غیر مسلم ہوا کرتے تھے، اسی باعث ان فلموں میں غیر مسلم تہذیب و تمدن، روایات اور کلچر کی چھاپ نمایاں تھی۔ اس ماحول میں فضلی برادران (سبطین فضلی، حسنین فضلی) اور سید شوکت حسین رضوی نے اپنی فلموں کے ذریعے کسی حد تک مسلم معاشرے کی عکاسی کی کوشش کی۔ آزادی سے قبل ''امتیاز علی تاج'' نے بھی مغلیہ دور پر ایک فلم ''انارکلی'' بنانے کی کوشش کی مگر یہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔
برصغیر کی تقسیم کے دوران ہونیوالے فسادات میں لاہور میں فلمسازی کا ڈھانچہ مکمل طور پرتباہ ہوگیا۔ اسی باعث قیام پاکستان کے وقت دیگر وسائل اور ذرائع کی طرح یہ نو زائیدہ ملک تفریحی مواقعوں سے بھی بالکل عاری تھا مگر جب یہاں پر فلم انڈسٹری نے اپنے قدم جمانے شروع کیے تو اس دیکھ کر صاف اندازہ ہوگیا کہ وہ بھارتی فلم انڈسٹری سے متاثر ہے اور اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔
پاکستان میں فلمسازی کا آغاز، ابتدائی دور کی فلمیں، اُن کی کہانیاں، کردار، ماحول غرض ہر چیز ہمیں واضح طور پر بھارتی فلم انڈسٹری سے متاثر نظر آتی ہے۔ حتی کہ ہمارے اداکاروں کے نام بھی سنتوش کمار (سید موسیٰ رضا)، سدھیر (شاہ زمان خان) اور درپن (سید عشرت رضا) بھارتی ماحول کی عکاسی کرتے تھے۔ لاہور میں فلم سازی کے آغاز کے باوجود بھارتی فلموں کی درآمد بھی ہوتی رہی ۔اس حوالے سے ابتدا میں دونوں ملکوں کے درمیان فلموں کے تبادلے کے معاہدے بھی ہوئے۔ البتہ 65ء کی جنگ شروع ہوتے ہی صدر ایوب خاں نے بھارتی فلموں پر پابندی عائد کر دی۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں جا کر''چند'' فلموں کی درآمد کیلئے اس پابندی کو نرم کیا گیا۔جس سے بھارتی فلموں کی نمائش کے راستے کھل گئے اور فلموں کی درآمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔اس نے ملکی سینما انڈسٹری کو آخری دموں تک پہنچا دیا اوربعد میں ''وی سی آر'' اور پھر CD اور DVD کی ایجاد نے سینما انڈسٹری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
سینماوں کی جگہ شاپنگ مال اور پلازے بن گئے، آرٹسٹ بھوکیں مرنے لگے، حکومت فلمی صنعت کی بحالی کیلئے بلند و بانگ دعوے کرنے لگی مگر عملاً صورتحال دگرگوں ہی رہی۔ اس دوران صرف ایک اچھی پاکستانی فلم ''رام چند پاکستانی'' سامنے آئی اور یہ اپنی نوعیت کی وہ واحد فلم تھی جسے بیک وقت پاکستانی اور بھارتی سینما میں نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔ پھر ایک لمبی خاموشی طاری ہوگئی، جس میں وقتاً فوقتاً وزیر ثقافت کی جانب سے کبھی کبھار کوئی بیان سامنے آجاتا مگر قطعاً کوئی بحالی دیکھنے میں نہ آئی۔ ایسے میں میڈیا ہاوسز نے کچھ عملی اقدامات اٹھائے اور پہلے ''خدا کیلئے'' ریلیز کی، اس فلم نے اچھا بزنس کیا، لوگوں نے ایک عرصے کے بعد سینما کی جانب رخ کیا۔ یہ فلم ایک سنجیدہ معاشرتی اور عالمی موضوع پر تھی جس پر تنقید و تحسین ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ پھر 'بول'، 'وار'، 'میں ہوں شاہد آفریدی'، 'چنبیلی' اور 'زندہ بھاگ' جیسی موضوعاتی فلمیں بنیں، جنہیں شائقین نے بہت حد تک سراہا بھی۔ مگر شاید ملکی سینما انڈسٹری کو اپنی بحالی عزیز نہیں تھی اس لئے پھر انہی اقدامات پر عمل شروع کردیا گیا جن کی وجہ سے پہلے سینما گھر ویران ہوئے تھے۔
اب تو فلم انڈسٹری تخلیق کے بجائے جعل سازی اور کاپی انڈسٹری بن چکی ہے۔ بالی ووڈ، ہالی ووڈ کو کاپی کر رہا ہے اور لالی ووڈ نے بالی ووڈ کو کاپی کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ تو بالی ووڈ کا شروع سے ہی وتیرہ ہے کہ جب اچھے، سنجیدہ اور معاشرتی موضوعات موجود نہ ہوں تو ''بے مقصد ایکشن اور آئٹم سانگ'' کے تڑکے کے ساتھ فلم بیچنے کی کوششوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ آئٹم سانگ کا کہانی سے تو کوئی لینا دینا ہوتا نہیں لیکن اس سے فلم میں ''مصالحہ'' اچھا آجاتا ہے اور فلم بک بھی جاتی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی فلموں کی اندھی تقلید کرنے والے پاکستانی فلم سازوں نے بھی اب کہانی کے بجائے آئٹم سانگ یا دوسرے لفظوں میں ''جسم کی نمائش'' کو ہی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ سب سے پہلے پاکستانی فلم ''میں ہوں شاہد آفریدی'' میں ماہ نور بلوچ اور متیرا کے آئٹم سانگ شامل کیے گئے تھے۔ اب تو ایک ریس سی لگ گئی ہے کیونکہ اب ہر نئی آنے والی پاکستانی فلم آئٹم سانگ کے تڑکے سے بھرپور ہوتی ہے۔ ''نامعلوم افراد'' میں مہوش حیات کا آئٹم سانگ، ''جلیبی'' میں ژالے سرحدی کے آئٹم سانگ شامل تھے اور اب جلد ریلیز ہونے والی فلم ''کراچی سے لاہور'' میں عائشہ عمر کے آئٹم سانگ کے ذریعے فلم بزنس چمکانا چاہتی ہے۔
ہماری فلمز کے ڈائریکٹرز کو سمجھنا ہوگا کہ فلم کسی بازاری جنس کا نہیں تفریح، تعلیم و تربیت، اصلاح اور تعمیرو ترقی کا نام ہے۔ اگر انہوں نے عوام کو وہی کچھ دینا ہے جو بھارتی انڈسٹری انہیں دے رہی ہے تو وہ کیونکر اور کس بنیاد پر واپس سینما کو پلٹیں؟ اسی فلم انڈسٹری نے ابھی ہمیں ''زندہ بھاگ'' جیسی ایک اچھی اور موضوعاتی فلم مہیا کی ہے جس پر سنیئر اداکار ''راحت کاظمی'' نے بھی کہا کہ ''محسوس ہوتا ہے کہ فلم انڈسٹری اپنے احیاء کی جانب گامزن ہے اور میں خود بھی چاہتا ہوں کہ اس طرح کی فلم بناوں''۔
مگر ہم نے بھارتی نقالی میں معاشرے کے موضوعات کو چھوڑ کر مصالحہ جات کو پکڑ لیا حالانکہ ہمارے پاس تو دو پڑوسیوں ایران اور چین کی مثال بھی موجود ہے جو آج بھی اپنی فلم کے ذریعے اپنے ثقافتی، سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی نظریات و روایات کا پرچار کر رہے ہیں اور ان کی یہی فلمیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ آسکر کیلئے بھی نامزد ہوتی ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہم اس ڈگر پر چل رہے ہیں جس پر چل کر آج بھارت کا یہ حال ہوا ہے کہ ''اوم پوری'' جیسے سینئر فنکار کو بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ ''بھارت میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کی ایک بڑی وجہ آئٹم سانگز بھی ہیں''۔ یہ لنکا تو گھر کا بھیدی ڈھا رہا ہے کہ آج کی بھارتی فلم سماجی شعور بیدار کرنے کے بجائے محض کاروبار کا ایک ذریعہ بن چکی ہے اور یہ کہ فلمسازوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہی نہیں۔
بھارتی فلم انڈسٹری تو اب مصالحہ فلم سے بھی ایک قدم آگے بڑھنے جا رہی ہے اور حال ہی میں بھارتی فلمساز ''ایکتا کپور'' نے''ڈرٹی پکچرز'' اور''راگنی ایم ایم ایس 2'' کے بعد ''جس'' فلم بنانے کا عندیہ دیا ہے ہمارے ہاں ابھی تک اس کا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔
ایک طرف پاکستانی ڈرامہ ہے جس نے ناول سے رجوع کرنے کے بعد ایسی کروٹ لی ہے کہ موضوع ہی یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب ڈرامہ عشقِ مجازی سے عشق حقیقی کی طرف سفر کا نام بن کر رہ گیا ہے۔ ماضی قریب کے ''میری ذات ذرہ بے نشاں''، ''میں عبدالقادر ہوں''، ''شہرِذات'' سمیت جتنے بھی کامیاب اور سپر ہٹ ڈرامے دیکھیں ان میں ایک ہی موضوع نظر آتا ہے، عشق حقیقی! اور دوسری جانب ہماری فلم انڈسٹری ہے جس نے بھارت کا لال چہرہ دیکھ کر اپنے منہ پر خود ہی طمانچے مارنے شروع کر دئیے ہیں حالانکہ بھارتی فلم انڈسٹری میں آئٹم سانگ کے تڑکے سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کی جھلک اوم پوری کے بیان میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ بس اب اُمید اور خواہش تو یہی ہے کہ جس قدر جلدی پاکستانی فلم انڈسٹری خود کو بھارتی تقلید سے دور کرلے تو بہتر ہے کیونکہ جب ہم آئٹم سانگ کو اپنا سکتے ہیں تو پھر نیم برہنگی سے بڑھ کر مکمل برہنگی سے بھی یکسر انکار نہیں کرسکتے ہیں۔
[poll id="441"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس