کچھ تو شرم کرو کچھ تو حیا کرو
پارلیمانی زبان میں یوں سمجھ لیں پنڈولم کی حرکت کو آپ دیواری گھڑی کے ٹھکمے کہہ سکتے ہیں۔
عنوان پڑھ کر قارئین کو قطعاً شرم و حیا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں نے تسلی کرلی ہے مذکورہ بالا الفاظ نہ صرف پارلیمانی ہیں بلکہ بیچ حاضر پارلیمنٹ کے ایک سکہ بند پارلیمنٹیرین نے دوسرے نووارد پارلیمنٹیرین کو مخاطب کرکے ادا کیے تھے۔ جو نہ صرف بغیر اطلاع، بلا اجازت پورے چار ماہ تک غیر حاضر رہنے، پارلیمنٹ پر باہر سے مغلظات غیرپارلیمانی کے برسٹ مارنے کے بعد اسی پارلیمنٹ کے اندر تشریف لائے تھے۔ جن کی وجہ شہرت ''اوئے نواز شریف'' ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ غیر پارلیمانی رویہ دیگر سیاستدانوں کے درمیان سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟
اگر سیاستدانوں کا ''من ترا ٹانگیں گھسیٹم تو مرا ٹانگیں گھسیٹ'' والا رویہ جمہوریت کا حسن ہے تو پھر سیاستدانوں کا کالا دھن اور غیر ملکی اثاثے ملکہ حسن جمہوریت کے جھمکے ہوئے۔ جو لازماً سیاسی ٹھمکوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پارلیمانی زبان میں یوں سمجھ لیں پنڈولم کی حرکت کو آپ دیواری گھڑی کے ٹھکمے کہہ سکتے ہیں۔ ایک طرف صوابدیدی فنڈز، دوسری طرف صوابدیدی اختیارات، ایک طرف ترقیاتی فنڈز تو دوسری طرف ترقیاتی گھپلے، ایک طرف اپنی تنخواہ بڑھانے کا اختیار تو دوسری طرف عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگانے کی آزادی وغیرہ۔ علاوہ ازیں غیر سیاسی ٹھمکا رقاصہ کی اس غیر پارلیمانی حرکت کو کہتے ہیں جس کو اشرافیہ دیدے پھاڑ کر اور شرفا نظریں نیچی کرکے گھورتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں بھارت کے انا ہزارے نے ممبئی میں ایک سڑک چھاپ دھرنا دیا تھا۔ اس کا مطالبہ یہ تھا کہ بھارت سرکار سیاستدانوں کے کالے دھن کو جو غیر ملکی بینکوں میں محفوظ ہے قومی اثاثہ (لوک ورثہ) قرار دینے کی قانون سازی کرے تاکہ اس کو بحق سرکار ضبط کیا جاسکے۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ وہ صرف قانون سازی کی بات کر رہا تھا گویا اس کو قانون پر عمل درآمد کا پکا یقین تھا۔
پاکستان میں چور اس احمق کو کہتے ہیں جو چوری کرتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے۔ لیکن اعلیٰ نسل کے خاندانی چوروں کا معاملہ جدا ہے۔ ان کا سلسلہ نسب علی بابا والے چالیس چوروں سے ملتا ہے جن کے خزانے کے در کھلنے کا پاس ورڈ ''کھل جا سم سم'' تھا۔ جو ایک ہی تھا اس لیے اس پر چھاپہ مارنا آسان تھا لیکن آج کل تو ہر ایک کا اپنا خزانہ ہے اور اپنا ہی پاس ورڈ ہے۔ آج کے شہزادے اور شہزادیاں جو ہم پر حکمرانی کی تربیت لے رہے ہیں دو کھرب روپے بینکوں سے قرضہ لے کر ہڑپ کرچکے ہیں ماشاء اللہ بدہضمی تو دور کی بات ایک کھٹی ڈکار تک نہیں لی۔
سوال یہ ہے کہ آخر ملکہ حسن جمہوریت کے جھمکوں (کالا دھن اور غیر ملکی اثاثوں) کا سراغ کیسے لگایا جائے؟ اور پھر ثابت کس طرح کیا جائے؟ ایک فلم میں عوامی اداکار علاؤ الدین نے اپنی بیوی کے کانوں میں نئے جھمکے دیکھ کر تین رہنما تفتیشی سوالات کے ذریعے سراغ لگانے اور اس کے جوابات کے ذریعے ان کو شرم و حیا کا مسئلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ رہنما تفتیشی سوالات درج ذیل ہیں تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئیں۔
(1)۔کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟
(2)۔کس نے دیے ہیں یہ جھمکے؟
(3)۔کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے؟
جس ملک میں علمی، سائنسی اور تحقیقی طریقہ تفتیش فیل ہوجائے وہاں فلمی طریقہ تفتیش کیا خاک کامیاب ہوگا؟وجہ؟
فرض کریں چوراہے پر ٹریفک کانسٹیبل نے موٹرسائیکل والے کو روکا ہوا ہے۔ اینٹی کرپشن والے گھات لگائے بیٹھے واچ کر رہے ہیں۔ لڑکا کانسٹیبل کو پچاس کا نوٹ پیش کرتا ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل مشتعل ہوکر چلاتا ہے ''کچھ تو شرم کرو! کچھ تو حیا کرو!میں نے تو آج تک رشوت کی کمائی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔'' لڑکا پچاس کا نوٹ جیب میں رکھ کر سو کا نوٹ پیش کرتا ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل بڑبڑا کر منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہے۔ لڑکا سیدھا سامنے والی پان کی دکان پر جاتا ہے جو ٹریفک کانسٹیبل کی آف شور کمپنی ہے اور پان والا اس کا فرنٹ مین۔ لڑکا سو کا نوٹ اس کے حوالے کرتا ہے اینٹی کرپشن والے چھاپہ مار کر سو کا نوٹ تحویل میں لے لیتے ہیں۔ جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کس نے دیا ہے یہ سو کا نوٹ؟ کہاں سے آیا ہے یہ سو کا نوٹ؟ نیا اینٹی کرپشن آفیسر خوش ہوتا ہے کہ اس نے رنگے ہاتھوں مجرم کو پکڑ لیا۔ لیکن پرانا ماتحت آفیسر سمجھاتا ہے ''سر جی! رشوت کی رقم پان والے نے لی ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل کو رشوت خور کیسے ثابت کروگے؟'' صحیح قانونی طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے مجسٹریٹ کی موجودگی میں سو کے نوٹ پر کوئی خفیہ نشان لگا دیا جائے یا نمبر نوٹ کرلیا جائے۔ پھر یہی نوٹ لڑکا بطور رشوت ٹریفک کانسٹیبل کو پیش کرے اور ٹریفک کانسٹیبل مجسٹریٹ کی موجودگی میں وہی نوٹ لیتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا جائے۔''
نتیجتاً مال پاکستان کا لوٹا جاتا ہے۔ لیکن دین دبئی میں ہوتی ہے۔ اور ذخیرہ اندوزی سوئس بینکوں میں۔ رشوت لینے والا اتنا پوتر کے رشوت کے مال کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔ ثابت ہو تو کیسے؟
گلوبل ولیج میں مادرزاد اشرافیہ کا یہ حال ہے کہ دن کو شوہر پاکستان میں سیاست کرتے ہیں، بیوی اٹلی میں شاپنگ کرتی ہے، بچے آکسفورڈ میں پڑھتے ہیں، والد امریکا میں چیک اپ کراتے ہیں، رات کو دبئی میں اپنی رہائش گاہ میں ڈنر کرکے دن بھر کے تھکے ہارے پڑ کر سو جاتے ہیں۔ بے چارے!
اب مقطعہ میں آ پھنسی ہے سخن گسترانہ بات۔ کرپشن کے خاتمے کا ایک ایسا تیر بہدف طریقہ بھی ہے جس کو پڑھ کر ہر فرد پھڑک اٹھے گا۔ لیکن اس کے لیے حکمرانوں کی رضامندی لازمی ہے اور وہ ہرگز ہرگز راضی نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود بیان کردینے میں کیا مضائقہ ہے؟ ماضی میں عمران خان 90دن میں کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کرچکے ہیں بشرطیکہ ان کو وزارت عظمیٰ پر فائز کردیا جائے۔ اگر دل کڑا کرکے موجودہ حکمران 90 دن کے لیے عمران کو وزارت عظمیٰ دے دیتے ہیں تو 90 دن بعد دو باتیں ہوں گی۔ اگر عمران خان کامیاب ہوگئے تو ملک کو کرپشن سے نجات مل جائے گی اور اگر ناکام ہوتے ہیں تو میاں نواز شریف کو عمران خان سے... ورنہ حالات حاضرہ کے مطابق اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سارے مگرمچھ خالص دودھ کے دھلے، اصلی گھی میں تلے، شرم و حیا کے پتلے ثابت ہوں گے۔
اگر سیاستدانوں کا ''من ترا ٹانگیں گھسیٹم تو مرا ٹانگیں گھسیٹ'' والا رویہ جمہوریت کا حسن ہے تو پھر سیاستدانوں کا کالا دھن اور غیر ملکی اثاثے ملکہ حسن جمہوریت کے جھمکے ہوئے۔ جو لازماً سیاسی ٹھمکوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پارلیمانی زبان میں یوں سمجھ لیں پنڈولم کی حرکت کو آپ دیواری گھڑی کے ٹھکمے کہہ سکتے ہیں۔ ایک طرف صوابدیدی فنڈز، دوسری طرف صوابدیدی اختیارات، ایک طرف ترقیاتی فنڈز تو دوسری طرف ترقیاتی گھپلے، ایک طرف اپنی تنخواہ بڑھانے کا اختیار تو دوسری طرف عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگانے کی آزادی وغیرہ۔ علاوہ ازیں غیر سیاسی ٹھمکا رقاصہ کی اس غیر پارلیمانی حرکت کو کہتے ہیں جس کو اشرافیہ دیدے پھاڑ کر اور شرفا نظریں نیچی کرکے گھورتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں بھارت کے انا ہزارے نے ممبئی میں ایک سڑک چھاپ دھرنا دیا تھا۔ اس کا مطالبہ یہ تھا کہ بھارت سرکار سیاستدانوں کے کالے دھن کو جو غیر ملکی بینکوں میں محفوظ ہے قومی اثاثہ (لوک ورثہ) قرار دینے کی قانون سازی کرے تاکہ اس کو بحق سرکار ضبط کیا جاسکے۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ وہ صرف قانون سازی کی بات کر رہا تھا گویا اس کو قانون پر عمل درآمد کا پکا یقین تھا۔
پاکستان میں چور اس احمق کو کہتے ہیں جو چوری کرتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے۔ لیکن اعلیٰ نسل کے خاندانی چوروں کا معاملہ جدا ہے۔ ان کا سلسلہ نسب علی بابا والے چالیس چوروں سے ملتا ہے جن کے خزانے کے در کھلنے کا پاس ورڈ ''کھل جا سم سم'' تھا۔ جو ایک ہی تھا اس لیے اس پر چھاپہ مارنا آسان تھا لیکن آج کل تو ہر ایک کا اپنا خزانہ ہے اور اپنا ہی پاس ورڈ ہے۔ آج کے شہزادے اور شہزادیاں جو ہم پر حکمرانی کی تربیت لے رہے ہیں دو کھرب روپے بینکوں سے قرضہ لے کر ہڑپ کرچکے ہیں ماشاء اللہ بدہضمی تو دور کی بات ایک کھٹی ڈکار تک نہیں لی۔
سوال یہ ہے کہ آخر ملکہ حسن جمہوریت کے جھمکوں (کالا دھن اور غیر ملکی اثاثوں) کا سراغ کیسے لگایا جائے؟ اور پھر ثابت کس طرح کیا جائے؟ ایک فلم میں عوامی اداکار علاؤ الدین نے اپنی بیوی کے کانوں میں نئے جھمکے دیکھ کر تین رہنما تفتیشی سوالات کے ذریعے سراغ لگانے اور اس کے جوابات کے ذریعے ان کو شرم و حیا کا مسئلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ رہنما تفتیشی سوالات درج ذیل ہیں تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئیں۔
(1)۔کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟
(2)۔کس نے دیے ہیں یہ جھمکے؟
(3)۔کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے؟
جس ملک میں علمی، سائنسی اور تحقیقی طریقہ تفتیش فیل ہوجائے وہاں فلمی طریقہ تفتیش کیا خاک کامیاب ہوگا؟وجہ؟
فرض کریں چوراہے پر ٹریفک کانسٹیبل نے موٹرسائیکل والے کو روکا ہوا ہے۔ اینٹی کرپشن والے گھات لگائے بیٹھے واچ کر رہے ہیں۔ لڑکا کانسٹیبل کو پچاس کا نوٹ پیش کرتا ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل مشتعل ہوکر چلاتا ہے ''کچھ تو شرم کرو! کچھ تو حیا کرو!میں نے تو آج تک رشوت کی کمائی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔'' لڑکا پچاس کا نوٹ جیب میں رکھ کر سو کا نوٹ پیش کرتا ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل بڑبڑا کر منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہے۔ لڑکا سیدھا سامنے والی پان کی دکان پر جاتا ہے جو ٹریفک کانسٹیبل کی آف شور کمپنی ہے اور پان والا اس کا فرنٹ مین۔ لڑکا سو کا نوٹ اس کے حوالے کرتا ہے اینٹی کرپشن والے چھاپہ مار کر سو کا نوٹ تحویل میں لے لیتے ہیں۔ جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کس نے دیا ہے یہ سو کا نوٹ؟ کہاں سے آیا ہے یہ سو کا نوٹ؟ نیا اینٹی کرپشن آفیسر خوش ہوتا ہے کہ اس نے رنگے ہاتھوں مجرم کو پکڑ لیا۔ لیکن پرانا ماتحت آفیسر سمجھاتا ہے ''سر جی! رشوت کی رقم پان والے نے لی ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل کو رشوت خور کیسے ثابت کروگے؟'' صحیح قانونی طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے مجسٹریٹ کی موجودگی میں سو کے نوٹ پر کوئی خفیہ نشان لگا دیا جائے یا نمبر نوٹ کرلیا جائے۔ پھر یہی نوٹ لڑکا بطور رشوت ٹریفک کانسٹیبل کو پیش کرے اور ٹریفک کانسٹیبل مجسٹریٹ کی موجودگی میں وہی نوٹ لیتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا جائے۔''
نتیجتاً مال پاکستان کا لوٹا جاتا ہے۔ لیکن دین دبئی میں ہوتی ہے۔ اور ذخیرہ اندوزی سوئس بینکوں میں۔ رشوت لینے والا اتنا پوتر کے رشوت کے مال کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔ ثابت ہو تو کیسے؟
گلوبل ولیج میں مادرزاد اشرافیہ کا یہ حال ہے کہ دن کو شوہر پاکستان میں سیاست کرتے ہیں، بیوی اٹلی میں شاپنگ کرتی ہے، بچے آکسفورڈ میں پڑھتے ہیں، والد امریکا میں چیک اپ کراتے ہیں، رات کو دبئی میں اپنی رہائش گاہ میں ڈنر کرکے دن بھر کے تھکے ہارے پڑ کر سو جاتے ہیں۔ بے چارے!
اب مقطعہ میں آ پھنسی ہے سخن گسترانہ بات۔ کرپشن کے خاتمے کا ایک ایسا تیر بہدف طریقہ بھی ہے جس کو پڑھ کر ہر فرد پھڑک اٹھے گا۔ لیکن اس کے لیے حکمرانوں کی رضامندی لازمی ہے اور وہ ہرگز ہرگز راضی نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود بیان کردینے میں کیا مضائقہ ہے؟ ماضی میں عمران خان 90دن میں کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کرچکے ہیں بشرطیکہ ان کو وزارت عظمیٰ پر فائز کردیا جائے۔ اگر دل کڑا کرکے موجودہ حکمران 90 دن کے لیے عمران کو وزارت عظمیٰ دے دیتے ہیں تو 90 دن بعد دو باتیں ہوں گی۔ اگر عمران خان کامیاب ہوگئے تو ملک کو کرپشن سے نجات مل جائے گی اور اگر ناکام ہوتے ہیں تو میاں نواز شریف کو عمران خان سے... ورنہ حالات حاضرہ کے مطابق اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سارے مگرمچھ خالص دودھ کے دھلے، اصلی گھی میں تلے، شرم و حیا کے پتلے ثابت ہوں گے۔