فلم انڈسٹری کا بحران ختم کرنے کے لیے ہرسال50 سے 60 فلمیں بنانا ہوں گی
2014 میں 15 سے زائد فلمیں بنیں جن میں سے صرف 6 فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاسکیں،ان میں صرف دو فلمیں ہی کامیاب ہوسکیں
پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بحالی کے بعد بلند وبانگ دعوے صرف دعوے ہی رہے اس میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی، فلم انڈسٹری کے سینئر لوگ ایک طویل عرصہ سے اس بات کے خواہش مند تھے کہ کسی طرح فلم انڈسٹری کا بڑھتا ہوا بحران ختم ہوجائے اور فلم انڈسٹری مکمل تباہی سے بچ جائے مگر ایسا نہ ہوسکا۔
فلم انڈسٹری کے وہ لوگ جنہوں نے غیر معیاری فلمیں بنا کر اس انڈسٹری کو تباہی تک پہنچایا اچانک غائب ہوگئے، لیکن بہت سے ایسے لوگ جو چاہتے تھے کہ کوئی ایسا موقع آجائے کہ دم توڑتی ہوئی فلم انڈسٹری میں جان پڑ جائے،مگر وہ اس فیصلہ تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے کہ یہ کس طرح ممکن ہے،اسی دوران پاکستان میں بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت بھی مل گئی جس نے سینئر فنکاروں اور ان افراد کو جوکوشش کررہے تھے کہ کوئی راستہ نکل آئے ان کو بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے شدید دھچکا لگا۔
اس کے باوجود انہوں نے کوششیں جاری رکھیں، بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے خلاف شدید ردعمل بھی سامنے آیا، بھارتی فلموں کی نمائش کے بعد سنیما انڈسٹری فعال ہونا شروع ہوگئی،اسی دوران پاکستان میں چند نئے جدید سنیما گھروں نے فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا، اور وہ لوگ جو سنیما سے دور ہوگئے تھے دوبارہ آنا شروع ہوگئے۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کے ڈسٹری بیوٹرز نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا، جدید سنیما گھروں میں ان کی فلموں نے شاندار بزنس کیا، اور پھر پاکستان میں سنیما انڈسٹری کو بھی تقویت ملی۔
سنیما انڈسٹری کی بحالی فلم انڈسٹری کی بحالی کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوئی، سنیماانڈسٹری کی کامیابی نے پاکستان میں فلمیں بنانے کے خواہش مند افراد میںاس خواہش کو جگا دیا کہ لوگ سنیماؤں پر آکر بھارتی فلمیں دیکھ آرہے ہیں، اگر ہم فلمیں بنائیں گے تو وہ ہماری فلمیں دیکھنے بھی ضرور آئیں گے۔ یہ سوچ ان لوگوں میں بیدار ہوئی جو ٹیلی ویژن پر ڈرامے بنانے میں مصروف تھے، سب سے پہلے اداکار ،پروڈیوسر عبداﷲ اور شہزاد نوا زنے کم بجٹ کی فلم'' چنبیلی'' بنائی جو ایک تجربہ کے طور بنائی گئی تھی اور جس کا مقصد یہ تھا کیا پاکستان میں فلمیں بن سکتی ہیں؟اس فلم کی کامیابی سے پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بحالی کا عمدہ آغاز ہوا، اور پہلی بار فلم بین پاکستانی فلم دیکھنے کراچی کے جدید سنیما گھروں تک پہنچے۔
فلم دیکھنے والوں کو جدید سنیما گھروں نے بھی متاثر کیا، انہیں ایک اچھے ماحول میں اپنی فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے کا موقع ملا، پاکستان میں جدید سنیما گھروں کے قیام کی ابتداء کرنے والے ندیم مانڈوی والا جو پہلے ہی یہ بات کہہ چکے تھے ایک دن ضرور آئے گا جب ہمارے سنیماؤں میں پاکستانی فلمیں دیکھنے والوں کا بھی جم غفیر ہوگا ۔
بھارتی فلموں کے ساتھ فلم بین پاکستانی فلمیں بھی دیکھنے آئیں گے اور یہ بات درست ثابت ہوئی، پہلی پاکستانی فلم کی کامیابی کے بعد بہت سے لوگوںکا حوصلہ بڑھا اور پھر پاکستانی فلموں نے تسلسل کے ساتھ پاکستانی سنیماؤں میںکامیابی حاصل کی، پاکستانی فلموں نے کسی حد تک بھارتی فلموں کی اجارداری کو ختم کردیا۔
پاکستانی فلموں کی کامیابی نے پاکستان میں فلموں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اس طرف متوجہ کرلیا، گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستانی فلموں کی کامیابی نے فلم انڈسٹری کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا اور اب صورتحال کسی حد تک پاکستانی فلموں کے حق میں جا رہی ہے لیکن اسے ہم تسلی بخش نہیں کہہ سکتے، کیونکہ 2014ء میں 15 سے زائد فلمیں بنیں لیکن ان میں سے صرف 6 فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاسکیں،ان میں صرف دو فلمیں ہی کامیاب ہوسکیں۔
خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ 2015ء میں15سے زائد فلمیں ریلیز کی جائیں گی لیکن اب تک جبکہ سال کے چھ ماہ گزر چکے ہیں صرف تین پاکستانی فلمیں ہی نمائش کے لیے پیش کی جاسکیں،اس وقت بھی 12سے زائد فلمیں مکمل ہوچکی ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اب تک ان فلموں کی نمائش کا فیصلہ نہیں ہوسکا جبکہ سنیما مالکان کا یہ گلہ کسی حد تک درست ہے کہ ہم نے پاکستانی فلموں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے لیکن اب اگر وہ لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں تو یہ ان کی کوتاہی ہے یہ شکوہ کرنا کہ سنیما مالکان تعاون نہیں کرتے یہ کسی بھی طور پر درست نہیں۔
اس وقت کراچی میں نئے اور جدید سنیما گھروں کی تعداد 30 سے زائد ہوچکی ہے پاکستانی سنیما اب پاکستانی فلموں کی نمائش کے منتظر ہیں،لیکن پاکستانی فلمیں مکمل ہونے کے باوجود اگر نمائش کے لیے پیش نہیں کی جارہیں تو اس کے قصور وار پروڈیوسرز ہیں جومواقع ملنے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ فلم انڈسٹری کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب سال میں کم از کم50 سے60 فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں یہ صرف اردو فلموں کی بات ہورہی ہے جبکہ پنجابی اور پشتو فلموں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ایک دور تھا جب پاکستان میں سالانہ 200 سے زائد فلمیں ریلیز کی جاتی تھیں لیکن اب اگر ایک سال میں50 یا 60فلمیں بھی نہ ریلیز ہوں تو پھر فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے کی جانے والی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوں گی۔
بے شک اس وقت جو فلمیں بن رہی ہیں ان کی تعداد کم ہے لیکن وہ موضوعات کے اعتبار سے بہترین معیاری فلمیں ہیں جنہیں بڑے بڑے فلم فیسٹول میں پسند کیا گیا اور انہیں ایوارڈ بھی ملے لیکن ہمارے فلم سازوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی فلمیں جلد از جلد مکمل کرکے پاکستانی فلم بینوں کے سامنے پیش کریں تاکہ ہمارے سروں پر مسلط بھارتی فلموں کا جلد از جلد خاتمہ ہو، وہ سنیما مالکان جو پاکستان میں سنیما انڈسٹری میں یہ سوچ کر سرمایہ کاری کررہے ہیں کہ ہمیں پاکستان کی فلم انڈسٹری کو پروموٹ کرنا ہے اور ماضی کی طرح فلم انڈسٹری کے اسی دور کو واپس لانا ہے جو ہماری پہچان تھا تو اب یہ ذمہ داری ان فلمیں بنانے والوں کی بھی ہے کہ وہ سنیما انڈسٹری کے اعتماد کو بحال کرنے میں بھرپور تعاون کریں تاکہ سنیما انڈسٹری سے وابستہ افراد کا یہ شکوہ بھی ختم ہوجائے کہ وہ فلمیں بنانے والوں سے تعاون نہیں کرتے۔
فلم انڈسٹری کے وہ لوگ جنہوں نے غیر معیاری فلمیں بنا کر اس انڈسٹری کو تباہی تک پہنچایا اچانک غائب ہوگئے، لیکن بہت سے ایسے لوگ جو چاہتے تھے کہ کوئی ایسا موقع آجائے کہ دم توڑتی ہوئی فلم انڈسٹری میں جان پڑ جائے،مگر وہ اس فیصلہ تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے کہ یہ کس طرح ممکن ہے،اسی دوران پاکستان میں بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت بھی مل گئی جس نے سینئر فنکاروں اور ان افراد کو جوکوشش کررہے تھے کہ کوئی راستہ نکل آئے ان کو بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے شدید دھچکا لگا۔
اس کے باوجود انہوں نے کوششیں جاری رکھیں، بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے خلاف شدید ردعمل بھی سامنے آیا، بھارتی فلموں کی نمائش کے بعد سنیما انڈسٹری فعال ہونا شروع ہوگئی،اسی دوران پاکستان میں چند نئے جدید سنیما گھروں نے فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا، اور وہ لوگ جو سنیما سے دور ہوگئے تھے دوبارہ آنا شروع ہوگئے۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کے ڈسٹری بیوٹرز نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا، جدید سنیما گھروں میں ان کی فلموں نے شاندار بزنس کیا، اور پھر پاکستان میں سنیما انڈسٹری کو بھی تقویت ملی۔
سنیما انڈسٹری کی بحالی فلم انڈسٹری کی بحالی کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوئی، سنیماانڈسٹری کی کامیابی نے پاکستان میں فلمیں بنانے کے خواہش مند افراد میںاس خواہش کو جگا دیا کہ لوگ سنیماؤں پر آکر بھارتی فلمیں دیکھ آرہے ہیں، اگر ہم فلمیں بنائیں گے تو وہ ہماری فلمیں دیکھنے بھی ضرور آئیں گے۔ یہ سوچ ان لوگوں میں بیدار ہوئی جو ٹیلی ویژن پر ڈرامے بنانے میں مصروف تھے، سب سے پہلے اداکار ،پروڈیوسر عبداﷲ اور شہزاد نوا زنے کم بجٹ کی فلم'' چنبیلی'' بنائی جو ایک تجربہ کے طور بنائی گئی تھی اور جس کا مقصد یہ تھا کیا پاکستان میں فلمیں بن سکتی ہیں؟اس فلم کی کامیابی سے پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بحالی کا عمدہ آغاز ہوا، اور پہلی بار فلم بین پاکستانی فلم دیکھنے کراچی کے جدید سنیما گھروں تک پہنچے۔
فلم دیکھنے والوں کو جدید سنیما گھروں نے بھی متاثر کیا، انہیں ایک اچھے ماحول میں اپنی فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے کا موقع ملا، پاکستان میں جدید سنیما گھروں کے قیام کی ابتداء کرنے والے ندیم مانڈوی والا جو پہلے ہی یہ بات کہہ چکے تھے ایک دن ضرور آئے گا جب ہمارے سنیماؤں میں پاکستانی فلمیں دیکھنے والوں کا بھی جم غفیر ہوگا ۔
بھارتی فلموں کے ساتھ فلم بین پاکستانی فلمیں بھی دیکھنے آئیں گے اور یہ بات درست ثابت ہوئی، پہلی پاکستانی فلم کی کامیابی کے بعد بہت سے لوگوںکا حوصلہ بڑھا اور پھر پاکستانی فلموں نے تسلسل کے ساتھ پاکستانی سنیماؤں میںکامیابی حاصل کی، پاکستانی فلموں نے کسی حد تک بھارتی فلموں کی اجارداری کو ختم کردیا۔
پاکستانی فلموں کی کامیابی نے پاکستان میں فلموں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اس طرف متوجہ کرلیا، گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستانی فلموں کی کامیابی نے فلم انڈسٹری کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا اور اب صورتحال کسی حد تک پاکستانی فلموں کے حق میں جا رہی ہے لیکن اسے ہم تسلی بخش نہیں کہہ سکتے، کیونکہ 2014ء میں 15 سے زائد فلمیں بنیں لیکن ان میں سے صرف 6 فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاسکیں،ان میں صرف دو فلمیں ہی کامیاب ہوسکیں۔
خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ 2015ء میں15سے زائد فلمیں ریلیز کی جائیں گی لیکن اب تک جبکہ سال کے چھ ماہ گزر چکے ہیں صرف تین پاکستانی فلمیں ہی نمائش کے لیے پیش کی جاسکیں،اس وقت بھی 12سے زائد فلمیں مکمل ہوچکی ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اب تک ان فلموں کی نمائش کا فیصلہ نہیں ہوسکا جبکہ سنیما مالکان کا یہ گلہ کسی حد تک درست ہے کہ ہم نے پاکستانی فلموں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے لیکن اب اگر وہ لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں تو یہ ان کی کوتاہی ہے یہ شکوہ کرنا کہ سنیما مالکان تعاون نہیں کرتے یہ کسی بھی طور پر درست نہیں۔
اس وقت کراچی میں نئے اور جدید سنیما گھروں کی تعداد 30 سے زائد ہوچکی ہے پاکستانی سنیما اب پاکستانی فلموں کی نمائش کے منتظر ہیں،لیکن پاکستانی فلمیں مکمل ہونے کے باوجود اگر نمائش کے لیے پیش نہیں کی جارہیں تو اس کے قصور وار پروڈیوسرز ہیں جومواقع ملنے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ فلم انڈسٹری کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب سال میں کم از کم50 سے60 فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں یہ صرف اردو فلموں کی بات ہورہی ہے جبکہ پنجابی اور پشتو فلموں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ایک دور تھا جب پاکستان میں سالانہ 200 سے زائد فلمیں ریلیز کی جاتی تھیں لیکن اب اگر ایک سال میں50 یا 60فلمیں بھی نہ ریلیز ہوں تو پھر فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے کی جانے والی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوں گی۔
بے شک اس وقت جو فلمیں بن رہی ہیں ان کی تعداد کم ہے لیکن وہ موضوعات کے اعتبار سے بہترین معیاری فلمیں ہیں جنہیں بڑے بڑے فلم فیسٹول میں پسند کیا گیا اور انہیں ایوارڈ بھی ملے لیکن ہمارے فلم سازوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی فلمیں جلد از جلد مکمل کرکے پاکستانی فلم بینوں کے سامنے پیش کریں تاکہ ہمارے سروں پر مسلط بھارتی فلموں کا جلد از جلد خاتمہ ہو، وہ سنیما مالکان جو پاکستان میں سنیما انڈسٹری میں یہ سوچ کر سرمایہ کاری کررہے ہیں کہ ہمیں پاکستان کی فلم انڈسٹری کو پروموٹ کرنا ہے اور ماضی کی طرح فلم انڈسٹری کے اسی دور کو واپس لانا ہے جو ہماری پہچان تھا تو اب یہ ذمہ داری ان فلمیں بنانے والوں کی بھی ہے کہ وہ سنیما انڈسٹری کے اعتماد کو بحال کرنے میں بھرپور تعاون کریں تاکہ سنیما انڈسٹری سے وابستہ افراد کا یہ شکوہ بھی ختم ہوجائے کہ وہ فلمیں بنانے والوں سے تعاون نہیں کرتے۔