دور حاضر کا ’مجنوں‘ 20 برس سے ریلوے اسٹیشن پر ’ لیلیٰ‘ کا منتظر
دو دہائی قبل آہ جی کی محبت نے اس سے ریلوے اسٹیشن پرملاقات کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ آج تک اس کا انتطار کررہا ہے
MONTREAL, CANADA:
مجنوں، فرہاد اور مہیوال کے نام تو یقیناً آپ نے سنے ہوں گے۔ گزرے وقتوں کے یہ وہ عاشق صادق تھے جن کے جذبۂ عشق نے انھیں امر کردیا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ مجنوں اور فرہاد جیسا جذبۂ عشق رکھنے والے عاشق آج بھی موجود ہیں۔
تائیوان سے تعلق رکھنے والا 47 سالہ آہ جی پچھلے 20برس سے ضلع تاینان کے ریلوے اسٹیشن پر مقیم ہے۔ جی نہیں، آپ غلط سمجھے! وہ محکمہ ریلوے کا ملازم نہیں ہے جسے رہائش کے لیے اسٹیشن پر کوئی کوارٹر ملا ہوا ہو۔ درحقیقت یہ دیوانہ پچھلے دو عشروں سے اپنی محبوبہ کا انتظار کررہا ہے! دو دہائی قبل آہ جی کی محبت نے اس سے ریلوے اسٹیشن پر ملاقات کے لیے آنے کا وعدہ کیا تھا، مگر یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ آہ جی کی محبت نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ محبوب سے ملے بغیر واپس چلا جائے، چناں چہ وہ آج بھی ایفائے عہد کا منتظر ہے۔ اس عاشق صادق کو آج بھی یقین ہے کہ اس کی محبت ضرور اس سے ملنے آئے گی۔
اسٹیشن پر انتظار کے ابتدائی چند برسوں کے دوران آہ جی، آنے جانے والے مسافروںکو ہمیشہ داخلی سیڑھیوں کے آس پاس اور کسی کا استقبال کرنے کے لیے تیار نظر آتا تھا۔ پھر اس نے خارجی راستے کے ساتھ موجود دروازے کو اپنی ' آرام گاہ' بنا لیا۔ یہاں صبح سویرے سے رات گئے تک بیٹھا باہر جانے والے مسافروں کو تکتا رہتا تھا۔ رفتہ رفتہ ریلوے اسٹیشن کا عملہ اور باقاعدگی سے ریل گاڑیوں میں سفر کرنے والے لوگ آہ جی اور اس کی داستان سے واقف ہوگئے۔ بہت سے لوگوں نے اس سے اظہاری ہمدردی کرتے ہوئے اسے اپنی محبوبہ کا انتظار ترک کرکے گھر واپس چلے جانے کا مشورہ بھی دیا۔ ترک انتظار کا مشورہ دینے والوں کو آہ جی ہمیشہ یہ جواب دیتا تھا کہ اسے اپنی محبت پر پورا اعتماد ہے اور ایک نہ ایک دن وہ ضرور اپنا وعدہ پورا کرنے آئے گی۔ آہ جی کے اہل خانہ نے بھی بہتیری کوششیں کیں کہ کسی طرح وہ دیوانگی ترک کردے، مگر یہ کوششیں بے سود رہیں۔
اپنے محبوب کے منتظر آہ جی کو کھانے پینے، اوڑھنے پہننے کی کوئی پروا نہیں۔ ان برسوں کے دوران اس کا انحصار سماجی کارکنوں اور مسافروں پر رہا جو دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کھانے پینے کی اشیاء دے دیتے تھے۔ ہر چند روز کے بعد آہ جی کے اہل خانہ بھی اس سے ملنے آتے رہے۔ وہ اس کے لیے نئے لباس اور ضرورت کی دوسری چیزیں لے کر آتے تھے۔ پھر ان کی آمد کا درمیانی وقفہ طویل ہوتا گیا، اور اب شاذ ہی اس سے کوئی رشتے دار ملنے آتا ہے۔
تین سال پہلے سماجی کارکنوں نے آہ جی کے لیے ایک قریبی رہائشی عمارت میں رہنے سہنے کا انتظام بھی کردیا تھا، مگر اس نے یہ کہتے ہوئے اسٹیشن چھوڑنے سے انکار کردیا کہ اب وہ انتظار کا عادی ہوچکا ہے۔ ایک بار لوگوں نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے آہ جی کو اسپتال میں بھی داخل کروادیا تھا، مگر وہ چند ہی روز کے بعد فرار ہوکر دوبارہ اپنی سابقہ جگہ یعنی ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔
پچھلے دنوں تاینان کے سماجی امور سے متعلق ادارے نے آہ جی کے ' اعزاز ' میں عشائیے کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں اس کے اہل خانہ اور دوستوں کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ دوران تقریب آہ جی کے گھر والوں، دوست احباب کے علاوہ شہر کے ڈپٹی میئر نے بھی اسے ' پاگل پن' چھوڑ کر گھر چلے جانے پر اصرار کیا، مگر آہ جی نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ وہ اپنے محبوب کے انتظار کا عادی ہوچکا ہے، اور اسٹیشن سے کہیں نہیں جائے گا۔
مجنوں، فرہاد اور مہیوال کے نام تو یقیناً آپ نے سنے ہوں گے۔ گزرے وقتوں کے یہ وہ عاشق صادق تھے جن کے جذبۂ عشق نے انھیں امر کردیا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ مجنوں اور فرہاد جیسا جذبۂ عشق رکھنے والے عاشق آج بھی موجود ہیں۔
تائیوان سے تعلق رکھنے والا 47 سالہ آہ جی پچھلے 20برس سے ضلع تاینان کے ریلوے اسٹیشن پر مقیم ہے۔ جی نہیں، آپ غلط سمجھے! وہ محکمہ ریلوے کا ملازم نہیں ہے جسے رہائش کے لیے اسٹیشن پر کوئی کوارٹر ملا ہوا ہو۔ درحقیقت یہ دیوانہ پچھلے دو عشروں سے اپنی محبوبہ کا انتظار کررہا ہے! دو دہائی قبل آہ جی کی محبت نے اس سے ریلوے اسٹیشن پر ملاقات کے لیے آنے کا وعدہ کیا تھا، مگر یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ آہ جی کی محبت نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ محبوب سے ملے بغیر واپس چلا جائے، چناں چہ وہ آج بھی ایفائے عہد کا منتظر ہے۔ اس عاشق صادق کو آج بھی یقین ہے کہ اس کی محبت ضرور اس سے ملنے آئے گی۔
اسٹیشن پر انتظار کے ابتدائی چند برسوں کے دوران آہ جی، آنے جانے والے مسافروںکو ہمیشہ داخلی سیڑھیوں کے آس پاس اور کسی کا استقبال کرنے کے لیے تیار نظر آتا تھا۔ پھر اس نے خارجی راستے کے ساتھ موجود دروازے کو اپنی ' آرام گاہ' بنا لیا۔ یہاں صبح سویرے سے رات گئے تک بیٹھا باہر جانے والے مسافروں کو تکتا رہتا تھا۔ رفتہ رفتہ ریلوے اسٹیشن کا عملہ اور باقاعدگی سے ریل گاڑیوں میں سفر کرنے والے لوگ آہ جی اور اس کی داستان سے واقف ہوگئے۔ بہت سے لوگوں نے اس سے اظہاری ہمدردی کرتے ہوئے اسے اپنی محبوبہ کا انتظار ترک کرکے گھر واپس چلے جانے کا مشورہ بھی دیا۔ ترک انتظار کا مشورہ دینے والوں کو آہ جی ہمیشہ یہ جواب دیتا تھا کہ اسے اپنی محبت پر پورا اعتماد ہے اور ایک نہ ایک دن وہ ضرور اپنا وعدہ پورا کرنے آئے گی۔ آہ جی کے اہل خانہ نے بھی بہتیری کوششیں کیں کہ کسی طرح وہ دیوانگی ترک کردے، مگر یہ کوششیں بے سود رہیں۔
اپنے محبوب کے منتظر آہ جی کو کھانے پینے، اوڑھنے پہننے کی کوئی پروا نہیں۔ ان برسوں کے دوران اس کا انحصار سماجی کارکنوں اور مسافروں پر رہا جو دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کھانے پینے کی اشیاء دے دیتے تھے۔ ہر چند روز کے بعد آہ جی کے اہل خانہ بھی اس سے ملنے آتے رہے۔ وہ اس کے لیے نئے لباس اور ضرورت کی دوسری چیزیں لے کر آتے تھے۔ پھر ان کی آمد کا درمیانی وقفہ طویل ہوتا گیا، اور اب شاذ ہی اس سے کوئی رشتے دار ملنے آتا ہے۔
تین سال پہلے سماجی کارکنوں نے آہ جی کے لیے ایک قریبی رہائشی عمارت میں رہنے سہنے کا انتظام بھی کردیا تھا، مگر اس نے یہ کہتے ہوئے اسٹیشن چھوڑنے سے انکار کردیا کہ اب وہ انتظار کا عادی ہوچکا ہے۔ ایک بار لوگوں نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے آہ جی کو اسپتال میں بھی داخل کروادیا تھا، مگر وہ چند ہی روز کے بعد فرار ہوکر دوبارہ اپنی سابقہ جگہ یعنی ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔
پچھلے دنوں تاینان کے سماجی امور سے متعلق ادارے نے آہ جی کے ' اعزاز ' میں عشائیے کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں اس کے اہل خانہ اور دوستوں کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ دوران تقریب آہ جی کے گھر والوں، دوست احباب کے علاوہ شہر کے ڈپٹی میئر نے بھی اسے ' پاگل پن' چھوڑ کر گھر چلے جانے پر اصرار کیا، مگر آہ جی نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ وہ اپنے محبوب کے انتظار کا عادی ہوچکا ہے، اور اسٹیشن سے کہیں نہیں جائے گا۔