جعلی ڈگری فراڈ ’’ایگزیکٹ‘‘ کے دفاتر پر چھاپے 45 ملازمین گرفتار
وزیرداخلہ کی ہدایت پر کمپنی کے کراچی میں ہیڈکوارٹرز اور اسلام آباد آفس میں کارروائی، 2 دفاتر سیل کردیئے گئے
PESHAWAR/ISLAMABAD:
ایف آئی اے نے جعلی ڈگری فراڈ میں ملوث آئی ٹی کمپنی ''ایگزیکٹ'' کے کراچی اور اسلام آباد کے دفاتر پر چھاپے مار کر ایگزیکٹو باڈی کے ارکان سمیت 45 سے زائد ملازمین کو حراست میں لے لیاجب کہ روات میں دونوں دفاتر سیل کر دیے اور لیپ ٹاپ، کمپیوٹرز، فائلیں، دفتری ریکارڈ، اہم دستاویزات، ڈیٹا اسٹوریج ڈیوائسز قبضے میں لے لی گئیں۔
چھاپے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر مارے گئے، ایگزیکٹ کے اکاؤنٹس اور 10 سال کی اندرون و بیرون ملک ٹرانزیکشن کی تفصیلات بھی طلب کر لی گئیں۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے بھی ایگزیکٹ کمپنی کی رپورٹ طلب کر لی۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے طاہر تنویر نے بتایا کہ ایگزیکٹ راولپنڈی کے روات میں موجود دونوں دفاتر سیل کر دیے گئے ہیں۔ ایگزیکٹ کے ریجنل ڈائریکٹر کرنل (ر) جمیل احمد سمیت28 افراد کو حراست میں لیکر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، صرف گارڈز اور ویٹروں کو گھر جانے کی اجازت دی گئی، ایف آئی اے نے 40 کمپیوٹر بھی قبضے میں لے لیے۔ تمام ملازمین کی فہرست بھی حاصل کرلی گئی۔
کراچی میں ایف آئی اے کی کارپوریٹ کرائم سیل اور سائبر کرائم سیل کی2 ٹیموں نے الگ الگ ایگزیکٹ کے ہیڈکوارٹرز پر چھاپے مارے، 2 سرور اور ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ ایف آئی اے کی ٹیمیں 4گھنٹے سے زائد ایگزیکٹ کے دفتر میں موجود رہیں اور ایچ آر منیجر سمیت اعلی افسروں کے بیانات قلمبند کیے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپے کے دوران کمپنی کے چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ کو طلب کیا گیا تاہم انھیں بتایا گیا کہ وہ شہر میں موجود نہیں ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے شعیب شیخ کو آج طلب کر لیا ہے۔ شعیب شیخ ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سیل کے سامنے پیش ہونے کیلیے نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز کا آئی ٹی ڈپارٹمنٹ بھی سیل کر دیا ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qog0a_fia-raid-in-rawalpindi_news
ایف آئی اے حکام ایگزیکٹ کے ملازمین کو انھی کی گاڑیوں میں بٹھا کر ساتھ لے گئے، ایگزیکٹ کیخلاف ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی تفتیش شروع کردی گئی۔ گرفتار ملازمین میں خواتین بھی شامل ہیں، ایگزیکٹ کے ذریعے پاکستان میں ہونیوالی ویب ہوسٹنگ کا 10 سالہ ڈیٹا اور ایگزیکٹ کی ویب سائٹ ڈیزائن کرنیوالی کمپنیوں کا بھی ڈیٹا طلب کر لیا گیا۔ ایف آئی اے نے ایف بی آر سے ایگزیکٹ کے اثاثوں کی تفصیل اور معاونت طلب کرلی ہے۔
قبل ازیں وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ''ایگزیکٹ'' کے جعلی ڈگریوں سے متعلق کاروبار کی نیویارک ٹائمز کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو فوری تحقیقات کاحکم دیا۔ انھوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کہ اس سارے معاملے کی فوری طور پر تحقیق کرکے رپورٹ پیش کی جائے اوراس بات کا تعین کیا جائے کہ نیویارک ٹائمز کی اس خبر میں کتنی صداقت ہے اورکیا مذکورہ کمپنی کسی ایسے غیرقانونی کام میں ملوث ہے جس سے دنیا میں ملک کی نیک نامی پرحرف آ سکتا ہے۔ جس کے بعد ایف آئی اے نے 7 رکنی کمیٹی بنا کر تحقیقات شروع کر دی، کمیٹی کے سربراہ ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ شاہد حیات ہیں۔ کمیٹی میں اسلام آباد سے4 اور سندھ سے2 ایڈیشنل ڈائریکٹرز لیے گئے ہیں۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qohyt_interior-minister_news
علاوہ ازیں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق ایگزیکٹ کمپنی کچھ سافٹ ویئر ایپلیکیشنز ضرور فروخت کرتی ہے مگر سابق درون خانہ افراد، کمپنی کے ریکارڈز اور اس کی ویب سائٹس کے تفصیلی تجزیے کے مطابق ایگزیکٹ کا مرکزی کاروبار جعلی تعلیمی ڈگریوں کی فروخت ہے۔ اس کمپنی نے اپنی اسکول اور پورٹل ویب سائٹس کو جارحانہ انداز میں پوزیشن کیا ہے تاکہ وہ آن لائن سرچ میں سب سے نمایاں نظر آئیں اور ان کے ذریعے خواہش مند بین الاقوامی کسٹمرز کو گھیرا جاسکے۔ کمپنی کے کوالٹی کنٹرول افسر یاسر جمشید کا جنھوں نے اکتوبر میں ایگزیکٹ چھوڑ دی تھی، کہنا تھا کہ بے چارے کسٹمرز سمجھتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی ہے مگر یہ یونیورسٹی نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہاں سارا کاروبار پیسے کا ہے۔ ایگزیکٹ کے بانی اور چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں پروجیکٹس تخلیق کرتے ہیں، ہمارے کلائنٹس کی ایک طویل فہرست ہے، مگر انھوں نے ایسے کلائنٹس کے نام بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ نیویارک ٹائمز نے اسکول سائٹس سمیت 370سے زیادہ ویب سائٹس کا تجزیہ کیا اور اس کے ساتھ ہی سرچ پورٹلز کی سپورٹنگ باڈی ایکری ڈیشن کے جعلی اداروں، ریکورٹمنٹ ایجنسیوں، زبانیں سکھانے والے اسکولز اور حتیٰ کہ ایک لاء فرم کا جائزہ لیا جن پر ایگزیکٹ کے ڈیجیٹل فنگر پرنٹس پائے گئے۔ 2007 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک جعلی پولیس کرمنالوجسٹ جین موریسن کو جیل بھیجا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے جن اداروں سے ڈگریاں لیں ان میں روشول یونیورسٹی شامل تھی جس کی مالک ایگزیکٹ ہے۔
شعیب شیخ کا دعوٰی ہے کہ وہ ایگزیکٹ کی آمدنی کا 65 فیصد حصہ خیراتی اداروں کو عطیے کے طور پر دیتے ہیں اور انھوں نے پچھلے سال ایک ایسے پروگرام کا اعلان بھی کیا تھا جس کے تحت 2019 تک ایک کروڑ پاکستانی بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائیگا۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایگزیکٹ کے ڈپلومہ آپریشن کے دائرہ کار کو دیکھتے ہوئے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جعلی ڈگریاں ہی مبینہ طور پر اس کے نئے میڈیا بزنس کو چلانے کے لیے مالی ایندھن فراہم کر رہی ہیں۔ ذرائع نے ان حوالے سے بتایا کہ کس طرح ملازمین جعلی اور جھوٹی رپورٹیں تیار کرتے ہیں ان ایگزیکٹ یونیورسٹیوں کے بارے میں جو سی این این کے ایک سٹیزن جرنلزم ویب سائٹ کی I Report ہے۔ اگرچہ سی این این کا اصرار ہے کہ اس نے رپورٹ کو ویری فائی یا اس کی توثیق نہیں کی مگر ایگزیکٹ اسے سی این این لوگو کے طور پر پبلسٹی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ کرسٹینا گارڈنر جسے بل فورڈ یونیورسٹی کی سینئر مشیر اور (ساؤتھ ویسٹرن انرجی )جو ہوسٹن میں عام طور پر رجسٹرڈ ہے اس کی نائب صدر بتایا گیا ہے۔ ایک ای میل میں ساؤتھ ویسٹرن کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی میں ایسے نام کی کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ ایگزیکٹ کے ملازمین کا اکثر رویہ سابقہ کسٹمرز سے جارحانہ ہوتا ہے اور ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ مزید خریداری کریں۔ کچھ تو خود کو امریکن آفیشل ظاہر کرتے ہیں اور کلائنٹس کو خوانچہ فروش کی طرح کہتے ہیں کہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹنمنٹ کے تصدیقی مکتوبات اور لیٹرز پر ہزاروں ڈالر خرچ کریں جن کی ادائیگی آف شور فرموں کے ذریعے سے کی جاتی ہے۔ وہ کسٹمرز کو دھمکاتے بھی ہیں انھیں کہتے ہیں کہ ان کی ڈگریاں بے کار ہوں گی اگر انھوں نے پیسے ادا نہیں کیے۔ یہ بات ایک سابق ملازم نے بتائی جس نے ایگزیکٹ کی ملازمت 2013 میں چھوڑی۔ 2013 میں ڈریو جانسن کی جو سابقہ اولمپین سوئمنگ کوچ تھے کے بارے میں پتہ چلا کہ کی بوگس روش ویل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔ شعیب احمد شیخ کا کہنا ہے کہ جب وہ ایک کمرے کے گھر میں رہتے تھے تو ان کی زندگی کا نصب العین دنیا کا امیر ترین شخص بننا تھا، بل گیٹس سے بھی زیادہ امیر! ایک اور موقعے پر انھوں نے اپنے ادارے ایگزیکٹ کو جسے انھوں نے 1997 میں قائم کیا تھا، گلوبل سافٹ ویئر لیڈر قرار دیا۔ ان کے ادارے کا لوگو جو ایک دائرے کی شکل اور اڑتے ہوئے عقاب پر مشتمل ہے حیران کن حد تک امریکی صدر کی مہر سے ملتا جلتا ہے۔
ان کے نئے چینل ''بول'' میں شامل ہونے والے کئی لوگوں نے بتایا کہ سافٹ ویئر بزنس سے تعلق رکھنے کے باوجود شعیب احمد شیخ ای میل اور موبائل فون استعمال کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ایگزیکٹ کے انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ میں پچھلے سال 3 مہینے کام کرنے والے جمشید جو صارفین کی فون کالز مانیٹر کرتے تھے کافی پریشان ہوئے جب انھوں نے دیکھا کہ کس طرح صارفین کو ہزاروں ڈالر خرچ کرنے پر اکسایا جاتا ہے اور بعد میں جب وہ ریفنڈ کا تقاضا کرتے ہیں تو ان کی درخواست رد کردی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا مجھے ایسا لگا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں۔ اکتوبر میں جمشید نے ایگزیکٹ کو چھوڑ دیا اور متحدہ عرب امارات چلے گئے جہاں وہ اپنے ساتھ ایگزیکٹ میں پیسہ خرچ کرنیوالے 22 افراد کی ادائیگیوں کا انٹرنل ریکارڈ لے گئے جس کی کل مالیت 6 لاکھ ڈالر بنتی تھی۔ جمشید نے تب سے ان افراد میں سے بیشتر سے رابطہ کیا اور انھیں اپنی سرمایہ کاری سے ریفنڈ کرانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ جعلی ڈپلومہ کے کاروبار میں ایگزیکٹ کی شمولیت 2009 میں بے نقاب ہوتے ہوتے رہ گئی جب امریکی ریاست مشی گن کی ایک خاتون نے ایگزیکٹ کی ملکیت میں چلنے والی2 ویب سائٹس ''بیلفرڈ ہائی اسکول'' اور ''بیلفرڈ یونیورسٹی'' پر مقدمہ دائر کردیا کیونکہ ان ویب سائٹس کی جانب سے دیئے جانے والا آن لائن ڈپلومہ ان خاتون کے لیے بے سود ثابت ہوا تھا۔ جلد ہی یہ مقدمہ پھیل کر ''کلاس ایکشن لا سوٹ'' بن گیا اور اس میں تقریباً 30,000 امریکی مدعی شامل ہوگئے۔ وکیل استغاثہ ٹامس ایچ ہاؤلیٹ نے ایک انٹریو میں کہا کہ انھیں سیکڑوں لوگوں کی کہانیاں پتہ چلی ہیں جنھیں اس طریقے سے دھوکہ دیا گیا۔انہی میں مس لابر بھی شامل تھیں جو مقدمہ قائم ہوجانے کے بعد اس میں شامل ہوئیں۔ مگر اس مقدمے کا مدعا علیہ جو سامنے آیا وہ ایگزیکٹ کمپنی نہیں تھی بلکہ سلیم قریشی نامی ایک پاکستانی تھا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ ویب سائٹس اپنے اپارٹمنٹس سے چلاتا تھا۔ اپنی گواہی میں سلیم قریشی نے ایگزیکٹ کمپنی سے اپنے کسی بھی تعلق سے یکسر انکار کیا حالانکہ بیلفرڈ ہائی اسکول اور بیلفرڈ یونیورسٹی کے زیر استعمال میل باکسوں میں ایگزیکٹ ہیڈ کوارٹرز کے پتے کو ''فارورڈنگ ایڈریس'' کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ 2012 میں ختم ہوا جب جج نے سلیم قریشی اور بیلفرڈ کو 22 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ ٹامس ہاؤلیٹ نے بتایا کہ کسی بھی مدعی کو کچھ بھی رقم موصول نہیں ہوئی۔ آج بھی بیلفرڈ ذرا سے مختلف ویب سائٹ ایڈریس کے ساتھ اپنا کاروبار کر رہا ہے۔
ایگزیکٹ کمپنی کے سابقہ ملازمین کا کہنا ہے ان کی ایگزیکٹ میں ملازمت کے دوران دونوں بیلفرڈ کے اداروں کو ایگزیکٹ اپنا قیمتی برانڈ قرار دیتی تھی۔ ایک سابق سافٹ ویئر انجینئر نے بتایا کہ 2006 میں ڈپلومہ کے کاروبار سے ایگزیکٹ ایک دن میں 4000 ڈالر کما رہی تھی۔ اس حساب سے موجودہ آمدنی کا اندازہ مختلف تخمینوں سے 30 گنا زیادہ بنتا ہے جو ایگزیکٹ کو دبئی، بیلسز اور برٹسی ورجن آئی لین ڈ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے ذریعے سے ملتا ہے۔ ایگزیکٹ نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکیوں سے رپورٹروں، مخالف کمپنیوں اور ناقدین کو مرعوب کئے رکھا ہے۔ ایگزیکٹ کے دباؤ کی وجہ سے ممتاز برطانوی اخبار ''دی میل'' کو 2006 میں انٹرنیٹ پر سے ایک آرٹیکل ہٹانا پڑا۔ بعد میں ایک فرضی لا فرم کا نام لیتے ہوئے کمپنی نے بوٹسوانا میں ایک کنزیومر رائٹس گروپ کو بیٹھنے پر مجبور کردیا جس نے ایگزیکٹ کے زیر اہتمام ہیڈوے یونیورسٹی پر تنقید کی تھی۔ مضمون نگاری کے بزنس میں ایگزیکٹ کی مقابل کمپنی ''اسٹوڈنٹ نیٹ ورک ریورسز'' نے جب ایگزیکٹ کو دھوکہ دہی پر مبنی ویب سائٹ قرار دیا تو ایگزیکٹ نے اس پر 2009 میں مقدمہ کردیا مگر اس کمپنی نے مقدمے کا جواب مقدمے سے دیا جس میں ایگزیکٹ کو 7 لاکھ ڈالر ہرجانے کا حکم دیا گیا مگر کمپنی کے وکیل کے مطابق یہ رقم ہنوز ملنا باقی ہے۔ پاکستان میں ایگزیکٹ کے بزنس ماڈل کو زیادہ خطرات کا سامنا ہے جہاں وہ اپنے ڈگریوں کے کاروبار کی تشہیر نہیں کرتا۔ جب نیویارک ٹائمز کے رپورٹروں نے ایگزیکٹ کے تحت چلنے والی 12 تعلیمی ویب سائٹس سے رابطہ کیا اور ان سے ان کے ایگزیکٹ اور اس کے کراچی کے آفس سے تعلق کے بارے میں سوال کیا تو سیلز نمائندوں نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا۔ بعض نے دعویٰ کیا کہ ان کی کمپنی امریکا کی کمپنی ہے، بعض نے ایگزیکٹ سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کیا اور بعض نے فوری فون بند کردیا۔
لندن سے جاری بیان میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ امریکی اخبار نے دماغ کے پرخچے اڑا دینے والا انکشاف کیاہے جب کہ پاکستان کے انتہائی حساس ترین اداروں کی اتنے بڑے اور گھناؤنے فراڈ سے لا علمی نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ تمام محب وطن پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹ سے متعلق امریکی اخبار کی رپورٹ اگر حقائق پر مبنی ہے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ اس کمپنی نے یہ گھناؤنا عمل کرکے پاکستان میں رہ کر اسے ہی نقصان پہنچانے اور ملک سے غداری کا عمل کیا ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qqdap_altaf-hussain_news
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹ نے لوگوں کو جعلی سرٹیفیکٹ فراہم کیے جن کی تصدیق کسی ادارے سے بھی نہیں کی جاسکتی جب کہ اس معاملے پر پاکستان میں تفتیش شروع ہوچکی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ امریکا نے ایگزیکٹ کمپنی سے دستاویزات کی تصدیق کا کوئی معاہدہ نہیں ، لہٰذا اس معاملے پر زیادہ تبصرہ نہیں کرسکتے کیونکہ تفتیش کے بعد اصل حقائق سامنے آئیں گے۔
ایف آئی اے نے جعلی ڈگری فراڈ میں ملوث آئی ٹی کمپنی ''ایگزیکٹ'' کے کراچی اور اسلام آباد کے دفاتر پر چھاپے مار کر ایگزیکٹو باڈی کے ارکان سمیت 45 سے زائد ملازمین کو حراست میں لے لیاجب کہ روات میں دونوں دفاتر سیل کر دیے اور لیپ ٹاپ، کمپیوٹرز، فائلیں، دفتری ریکارڈ، اہم دستاویزات، ڈیٹا اسٹوریج ڈیوائسز قبضے میں لے لی گئیں۔
چھاپے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر مارے گئے، ایگزیکٹ کے اکاؤنٹس اور 10 سال کی اندرون و بیرون ملک ٹرانزیکشن کی تفصیلات بھی طلب کر لی گئیں۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے بھی ایگزیکٹ کمپنی کی رپورٹ طلب کر لی۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے طاہر تنویر نے بتایا کہ ایگزیکٹ راولپنڈی کے روات میں موجود دونوں دفاتر سیل کر دیے گئے ہیں۔ ایگزیکٹ کے ریجنل ڈائریکٹر کرنل (ر) جمیل احمد سمیت28 افراد کو حراست میں لیکر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، صرف گارڈز اور ویٹروں کو گھر جانے کی اجازت دی گئی، ایف آئی اے نے 40 کمپیوٹر بھی قبضے میں لے لیے۔ تمام ملازمین کی فہرست بھی حاصل کرلی گئی۔
کراچی میں ایف آئی اے کی کارپوریٹ کرائم سیل اور سائبر کرائم سیل کی2 ٹیموں نے الگ الگ ایگزیکٹ کے ہیڈکوارٹرز پر چھاپے مارے، 2 سرور اور ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ ایف آئی اے کی ٹیمیں 4گھنٹے سے زائد ایگزیکٹ کے دفتر میں موجود رہیں اور ایچ آر منیجر سمیت اعلی افسروں کے بیانات قلمبند کیے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپے کے دوران کمپنی کے چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ کو طلب کیا گیا تاہم انھیں بتایا گیا کہ وہ شہر میں موجود نہیں ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے شعیب شیخ کو آج طلب کر لیا ہے۔ شعیب شیخ ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سیل کے سامنے پیش ہونے کیلیے نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز کا آئی ٹی ڈپارٹمنٹ بھی سیل کر دیا ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qog0a_fia-raid-in-rawalpindi_news
ایف آئی اے حکام ایگزیکٹ کے ملازمین کو انھی کی گاڑیوں میں بٹھا کر ساتھ لے گئے، ایگزیکٹ کیخلاف ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی تفتیش شروع کردی گئی۔ گرفتار ملازمین میں خواتین بھی شامل ہیں، ایگزیکٹ کے ذریعے پاکستان میں ہونیوالی ویب ہوسٹنگ کا 10 سالہ ڈیٹا اور ایگزیکٹ کی ویب سائٹ ڈیزائن کرنیوالی کمپنیوں کا بھی ڈیٹا طلب کر لیا گیا۔ ایف آئی اے نے ایف بی آر سے ایگزیکٹ کے اثاثوں کی تفصیل اور معاونت طلب کرلی ہے۔
قبل ازیں وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ''ایگزیکٹ'' کے جعلی ڈگریوں سے متعلق کاروبار کی نیویارک ٹائمز کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو فوری تحقیقات کاحکم دیا۔ انھوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کہ اس سارے معاملے کی فوری طور پر تحقیق کرکے رپورٹ پیش کی جائے اوراس بات کا تعین کیا جائے کہ نیویارک ٹائمز کی اس خبر میں کتنی صداقت ہے اورکیا مذکورہ کمپنی کسی ایسے غیرقانونی کام میں ملوث ہے جس سے دنیا میں ملک کی نیک نامی پرحرف آ سکتا ہے۔ جس کے بعد ایف آئی اے نے 7 رکنی کمیٹی بنا کر تحقیقات شروع کر دی، کمیٹی کے سربراہ ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ شاہد حیات ہیں۔ کمیٹی میں اسلام آباد سے4 اور سندھ سے2 ایڈیشنل ڈائریکٹرز لیے گئے ہیں۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qohyt_interior-minister_news
علاوہ ازیں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق ایگزیکٹ کمپنی کچھ سافٹ ویئر ایپلیکیشنز ضرور فروخت کرتی ہے مگر سابق درون خانہ افراد، کمپنی کے ریکارڈز اور اس کی ویب سائٹس کے تفصیلی تجزیے کے مطابق ایگزیکٹ کا مرکزی کاروبار جعلی تعلیمی ڈگریوں کی فروخت ہے۔ اس کمپنی نے اپنی اسکول اور پورٹل ویب سائٹس کو جارحانہ انداز میں پوزیشن کیا ہے تاکہ وہ آن لائن سرچ میں سب سے نمایاں نظر آئیں اور ان کے ذریعے خواہش مند بین الاقوامی کسٹمرز کو گھیرا جاسکے۔ کمپنی کے کوالٹی کنٹرول افسر یاسر جمشید کا جنھوں نے اکتوبر میں ایگزیکٹ چھوڑ دی تھی، کہنا تھا کہ بے چارے کسٹمرز سمجھتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی ہے مگر یہ یونیورسٹی نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہاں سارا کاروبار پیسے کا ہے۔ ایگزیکٹ کے بانی اور چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں پروجیکٹس تخلیق کرتے ہیں، ہمارے کلائنٹس کی ایک طویل فہرست ہے، مگر انھوں نے ایسے کلائنٹس کے نام بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ نیویارک ٹائمز نے اسکول سائٹس سمیت 370سے زیادہ ویب سائٹس کا تجزیہ کیا اور اس کے ساتھ ہی سرچ پورٹلز کی سپورٹنگ باڈی ایکری ڈیشن کے جعلی اداروں، ریکورٹمنٹ ایجنسیوں، زبانیں سکھانے والے اسکولز اور حتیٰ کہ ایک لاء فرم کا جائزہ لیا جن پر ایگزیکٹ کے ڈیجیٹل فنگر پرنٹس پائے گئے۔ 2007 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک جعلی پولیس کرمنالوجسٹ جین موریسن کو جیل بھیجا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے جن اداروں سے ڈگریاں لیں ان میں روشول یونیورسٹی شامل تھی جس کی مالک ایگزیکٹ ہے۔
شعیب شیخ کا دعوٰی ہے کہ وہ ایگزیکٹ کی آمدنی کا 65 فیصد حصہ خیراتی اداروں کو عطیے کے طور پر دیتے ہیں اور انھوں نے پچھلے سال ایک ایسے پروگرام کا اعلان بھی کیا تھا جس کے تحت 2019 تک ایک کروڑ پاکستانی بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائیگا۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایگزیکٹ کے ڈپلومہ آپریشن کے دائرہ کار کو دیکھتے ہوئے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جعلی ڈگریاں ہی مبینہ طور پر اس کے نئے میڈیا بزنس کو چلانے کے لیے مالی ایندھن فراہم کر رہی ہیں۔ ذرائع نے ان حوالے سے بتایا کہ کس طرح ملازمین جعلی اور جھوٹی رپورٹیں تیار کرتے ہیں ان ایگزیکٹ یونیورسٹیوں کے بارے میں جو سی این این کے ایک سٹیزن جرنلزم ویب سائٹ کی I Report ہے۔ اگرچہ سی این این کا اصرار ہے کہ اس نے رپورٹ کو ویری فائی یا اس کی توثیق نہیں کی مگر ایگزیکٹ اسے سی این این لوگو کے طور پر پبلسٹی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ کرسٹینا گارڈنر جسے بل فورڈ یونیورسٹی کی سینئر مشیر اور (ساؤتھ ویسٹرن انرجی )جو ہوسٹن میں عام طور پر رجسٹرڈ ہے اس کی نائب صدر بتایا گیا ہے۔ ایک ای میل میں ساؤتھ ویسٹرن کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی میں ایسے نام کی کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ ایگزیکٹ کے ملازمین کا اکثر رویہ سابقہ کسٹمرز سے جارحانہ ہوتا ہے اور ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ مزید خریداری کریں۔ کچھ تو خود کو امریکن آفیشل ظاہر کرتے ہیں اور کلائنٹس کو خوانچہ فروش کی طرح کہتے ہیں کہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹنمنٹ کے تصدیقی مکتوبات اور لیٹرز پر ہزاروں ڈالر خرچ کریں جن کی ادائیگی آف شور فرموں کے ذریعے سے کی جاتی ہے۔ وہ کسٹمرز کو دھمکاتے بھی ہیں انھیں کہتے ہیں کہ ان کی ڈگریاں بے کار ہوں گی اگر انھوں نے پیسے ادا نہیں کیے۔ یہ بات ایک سابق ملازم نے بتائی جس نے ایگزیکٹ کی ملازمت 2013 میں چھوڑی۔ 2013 میں ڈریو جانسن کی جو سابقہ اولمپین سوئمنگ کوچ تھے کے بارے میں پتہ چلا کہ کی بوگس روش ویل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔ شعیب احمد شیخ کا کہنا ہے کہ جب وہ ایک کمرے کے گھر میں رہتے تھے تو ان کی زندگی کا نصب العین دنیا کا امیر ترین شخص بننا تھا، بل گیٹس سے بھی زیادہ امیر! ایک اور موقعے پر انھوں نے اپنے ادارے ایگزیکٹ کو جسے انھوں نے 1997 میں قائم کیا تھا، گلوبل سافٹ ویئر لیڈر قرار دیا۔ ان کے ادارے کا لوگو جو ایک دائرے کی شکل اور اڑتے ہوئے عقاب پر مشتمل ہے حیران کن حد تک امریکی صدر کی مہر سے ملتا جلتا ہے۔
ان کے نئے چینل ''بول'' میں شامل ہونے والے کئی لوگوں نے بتایا کہ سافٹ ویئر بزنس سے تعلق رکھنے کے باوجود شعیب احمد شیخ ای میل اور موبائل فون استعمال کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ایگزیکٹ کے انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ میں پچھلے سال 3 مہینے کام کرنے والے جمشید جو صارفین کی فون کالز مانیٹر کرتے تھے کافی پریشان ہوئے جب انھوں نے دیکھا کہ کس طرح صارفین کو ہزاروں ڈالر خرچ کرنے پر اکسایا جاتا ہے اور بعد میں جب وہ ریفنڈ کا تقاضا کرتے ہیں تو ان کی درخواست رد کردی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا مجھے ایسا لگا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں۔ اکتوبر میں جمشید نے ایگزیکٹ کو چھوڑ دیا اور متحدہ عرب امارات چلے گئے جہاں وہ اپنے ساتھ ایگزیکٹ میں پیسہ خرچ کرنیوالے 22 افراد کی ادائیگیوں کا انٹرنل ریکارڈ لے گئے جس کی کل مالیت 6 لاکھ ڈالر بنتی تھی۔ جمشید نے تب سے ان افراد میں سے بیشتر سے رابطہ کیا اور انھیں اپنی سرمایہ کاری سے ریفنڈ کرانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ جعلی ڈپلومہ کے کاروبار میں ایگزیکٹ کی شمولیت 2009 میں بے نقاب ہوتے ہوتے رہ گئی جب امریکی ریاست مشی گن کی ایک خاتون نے ایگزیکٹ کی ملکیت میں چلنے والی2 ویب سائٹس ''بیلفرڈ ہائی اسکول'' اور ''بیلفرڈ یونیورسٹی'' پر مقدمہ دائر کردیا کیونکہ ان ویب سائٹس کی جانب سے دیئے جانے والا آن لائن ڈپلومہ ان خاتون کے لیے بے سود ثابت ہوا تھا۔ جلد ہی یہ مقدمہ پھیل کر ''کلاس ایکشن لا سوٹ'' بن گیا اور اس میں تقریباً 30,000 امریکی مدعی شامل ہوگئے۔ وکیل استغاثہ ٹامس ایچ ہاؤلیٹ نے ایک انٹریو میں کہا کہ انھیں سیکڑوں لوگوں کی کہانیاں پتہ چلی ہیں جنھیں اس طریقے سے دھوکہ دیا گیا۔انہی میں مس لابر بھی شامل تھیں جو مقدمہ قائم ہوجانے کے بعد اس میں شامل ہوئیں۔ مگر اس مقدمے کا مدعا علیہ جو سامنے آیا وہ ایگزیکٹ کمپنی نہیں تھی بلکہ سلیم قریشی نامی ایک پاکستانی تھا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ ویب سائٹس اپنے اپارٹمنٹس سے چلاتا تھا۔ اپنی گواہی میں سلیم قریشی نے ایگزیکٹ کمپنی سے اپنے کسی بھی تعلق سے یکسر انکار کیا حالانکہ بیلفرڈ ہائی اسکول اور بیلفرڈ یونیورسٹی کے زیر استعمال میل باکسوں میں ایگزیکٹ ہیڈ کوارٹرز کے پتے کو ''فارورڈنگ ایڈریس'' کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ 2012 میں ختم ہوا جب جج نے سلیم قریشی اور بیلفرڈ کو 22 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ ٹامس ہاؤلیٹ نے بتایا کہ کسی بھی مدعی کو کچھ بھی رقم موصول نہیں ہوئی۔ آج بھی بیلفرڈ ذرا سے مختلف ویب سائٹ ایڈریس کے ساتھ اپنا کاروبار کر رہا ہے۔
ایگزیکٹ کمپنی کے سابقہ ملازمین کا کہنا ہے ان کی ایگزیکٹ میں ملازمت کے دوران دونوں بیلفرڈ کے اداروں کو ایگزیکٹ اپنا قیمتی برانڈ قرار دیتی تھی۔ ایک سابق سافٹ ویئر انجینئر نے بتایا کہ 2006 میں ڈپلومہ کے کاروبار سے ایگزیکٹ ایک دن میں 4000 ڈالر کما رہی تھی۔ اس حساب سے موجودہ آمدنی کا اندازہ مختلف تخمینوں سے 30 گنا زیادہ بنتا ہے جو ایگزیکٹ کو دبئی، بیلسز اور برٹسی ورجن آئی لین ڈ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے ذریعے سے ملتا ہے۔ ایگزیکٹ نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکیوں سے رپورٹروں، مخالف کمپنیوں اور ناقدین کو مرعوب کئے رکھا ہے۔ ایگزیکٹ کے دباؤ کی وجہ سے ممتاز برطانوی اخبار ''دی میل'' کو 2006 میں انٹرنیٹ پر سے ایک آرٹیکل ہٹانا پڑا۔ بعد میں ایک فرضی لا فرم کا نام لیتے ہوئے کمپنی نے بوٹسوانا میں ایک کنزیومر رائٹس گروپ کو بیٹھنے پر مجبور کردیا جس نے ایگزیکٹ کے زیر اہتمام ہیڈوے یونیورسٹی پر تنقید کی تھی۔ مضمون نگاری کے بزنس میں ایگزیکٹ کی مقابل کمپنی ''اسٹوڈنٹ نیٹ ورک ریورسز'' نے جب ایگزیکٹ کو دھوکہ دہی پر مبنی ویب سائٹ قرار دیا تو ایگزیکٹ نے اس پر 2009 میں مقدمہ کردیا مگر اس کمپنی نے مقدمے کا جواب مقدمے سے دیا جس میں ایگزیکٹ کو 7 لاکھ ڈالر ہرجانے کا حکم دیا گیا مگر کمپنی کے وکیل کے مطابق یہ رقم ہنوز ملنا باقی ہے۔ پاکستان میں ایگزیکٹ کے بزنس ماڈل کو زیادہ خطرات کا سامنا ہے جہاں وہ اپنے ڈگریوں کے کاروبار کی تشہیر نہیں کرتا۔ جب نیویارک ٹائمز کے رپورٹروں نے ایگزیکٹ کے تحت چلنے والی 12 تعلیمی ویب سائٹس سے رابطہ کیا اور ان سے ان کے ایگزیکٹ اور اس کے کراچی کے آفس سے تعلق کے بارے میں سوال کیا تو سیلز نمائندوں نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا۔ بعض نے دعویٰ کیا کہ ان کی کمپنی امریکا کی کمپنی ہے، بعض نے ایگزیکٹ سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کیا اور بعض نے فوری فون بند کردیا۔
لندن سے جاری بیان میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ امریکی اخبار نے دماغ کے پرخچے اڑا دینے والا انکشاف کیاہے جب کہ پاکستان کے انتہائی حساس ترین اداروں کی اتنے بڑے اور گھناؤنے فراڈ سے لا علمی نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ تمام محب وطن پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹ سے متعلق امریکی اخبار کی رپورٹ اگر حقائق پر مبنی ہے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ اس کمپنی نے یہ گھناؤنا عمل کرکے پاکستان میں رہ کر اسے ہی نقصان پہنچانے اور ملک سے غداری کا عمل کیا ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qqdap_altaf-hussain_news
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹ نے لوگوں کو جعلی سرٹیفیکٹ فراہم کیے جن کی تصدیق کسی ادارے سے بھی نہیں کی جاسکتی جب کہ اس معاملے پر پاکستان میں تفتیش شروع ہوچکی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ امریکا نے ایگزیکٹ کمپنی سے دستاویزات کی تصدیق کا کوئی معاہدہ نہیں ، لہٰذا اس معاملے پر زیادہ تبصرہ نہیں کرسکتے کیونکہ تفتیش کے بعد اصل حقائق سامنے آئیں گے۔