جعلی ڈپلومے‘ اصلی نوٹ پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ نے کروڑوں کما لیے نیویارک ٹائمز

کمپنی کےداخلی ریکارڈز اورعدالتی دستاویزات بھی جو نیویارک ٹائمز نے حاصل کی ہیں سابق ملازمین کےبیانات کی تصدیق کرتے ہیں۔

کمپنی کےداخلی ریکارڈز اورعدالتی دستاویزات بھی جو نیویارک ٹائمز نے حاصل کی ہیں سابق ملازمین کےبیانات کی تصدیق کرتے ہیں۔ فوٹو:فائل

انٹرنیٹ کی کھڑکی سے دیکھا جائے تو ہمیں تعلیم کی ایک وسیع سلطنت نظر آتی ہے۔ سیکڑوں یونیورسٹیاں اور ہائی اسکولز باوقار ناموں اور ایسے مناظر کے ساتھ جن میں سورج کی روشنی میں نہاتے ہوئے امریکن کیمپوں میں مسکراتے ہوئے پروفیسر آپ کو دعوتِ تعلیم دے رہے ہیں۔

ان کی جگماتی ایک کلک پر یقینی طور پر کھل جانے والی ویب سائٹس درجنوں شعبوں مثلاً نرسنگ اور سول انجینئرنگ تک میں آن لائن ڈگریاں پیش کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکی میڈیا سی این این کی آئی رپورٹ ویب سائٹ پر متاثر کن تصدیق نامے ہیں، پرجوش ویڈیو گواہیاں ہیں اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی تصدیقی اسناد ہیں جن پر وزیر خارجہ جان کیری کے دستخط موجود ہیں۔

ایک پروموشنل ویڈیو میں ایک خاتون ایک لاء اسکول کے سربراہ کی حیثیت سے بڑے فخر سے اپنا تعارف کراتی ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں دنیا کی معروف ترین فیکلٹی میں سے ایک کی میزبانی کا اعزازحاصل ہے۔ آئیے اور نیو فورڈ یونیورسٹی کا حصہ بن جائیے تاکہ آپ مہارت اور کارکردگی کے آسمان کو چھو سکیں۔ تاہم قریبی جائزہ لینے پر یہ ساری تصویر میراج کی طرح سامنے سے شوں کرکے اڑ جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ ساری خبریں جھوٹی اور گھڑی ہوئی ہیں۔ پروفیسرز معاوضے پر کام کرنے والے اداکار ہیں۔ یونیورسٹی کیمپسوں کا وجود ایسا ہی ہے جیسے وہ کمپیوٹر سروسز کے اسٹاک فوٹو ہوں۔ ڈگریوں کا دور دور تک کہیں سے کوئی الحاق یا ایکریڈیشن نہیں ہے۔

آئیے اس سے متعلق کوریج AXACTویب سائٹس کو ٹریک کرتے ہیں۔

حقیقت میں تعلیم کی اس وسیع ظاہری دنیا میں جو کم ازکم 370 ویب سائٹس پر پھیلی ہوئی ہے بہت تھوڑا حصہ سچائی اور حقیقت پر مبنی اور اصل ہے سوائے کروڑوں ڈالر کی اس تخمینہ شدہ آمدنی کے جو ہر سال دنیا بھر کے ہزاروں افراد سے بٹوری جاتی ہے اور یہ ساری رقم پاکستان کی ایک ڈھکے چھپے انداز میں کام کرنے والی سوفٹ ویئر کمپنی کو ادا کی جاتی ہے۔

یہ کمپنی ایگزیکٹ کراچی کے پورٹ سٹی سے آپریٹ کر رہی ہے جہاں اس کے دو ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں۔ یہ خود کو پاکستان کا سب سے بڑا سوفٹ ویئر ایکسپورٹر قرار دیتی ہے اس کے ملازمین کے لیے سلیکون ویلی اسٹائل ایمپلائی کے ہم پلہ معاوضہ اور سوئمنگ پول اور بحری جہاز جیسی مراعات ہیں۔

ایگزیکٹ کچھ سوفٹ ویئر ایپلیکیشنز ضرور فروخت کرتی ہے مگر سابق (INSIDERS)اندرون خانہ افراد، کمپنی کے ریکارڈز اور اس کی ویب سائٹس کے تفصیلی تجزیے کے مطابق ایگزیکٹ کا مرکزی کاروبار جعلی تعلیمی ڈگریوں کے فروخت کے صدیوں پرانے گھپلے میں ملوث ہونا ہے جسے اس کمپنی نے عالمی سطح پر انٹرنیٹ دور کی ایک اسکیم میں تبدیل کردیا ہے۔

جیسے جیسے آن لائن ایجوکیشن میں لوگوں کی دلچسپی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اس سے میچ کرتے ہوئے کمپنی نے اپنی اسکول اور پورٹل ویب سائٹس کو جارحانہ انداز میں پوزیشن کیا ہے تاکہ وہ آن لائن سرچ میں سب سے نمایاں نظر آئیں اور ان کے ذریعے خواہش مند بین الاقوامی کسٹمرز کو گھیرا جاسکے۔

جیساکہ سابق ملازمین بتاتے ہیں ایگزیکٹ کے ہیڈ کوارٹرز میں ٹیلی فون سیلز ایجنٹس شفٹوں میں چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں بعض اوقات وہ ایسے کسٹمرز کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جن کو اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ وہ مشکوک قسم کی اٹیسٹڈ ڈگری پیسے دے کر خرید رہے ہیں مگر بسا اوقات یہ ایجنٹس ایسے لوگوں کو گھیرتے ہیں جو صحیح قسم کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انھیں سن کر ایسے کورس ورک کے لیے ENROLLکرتے ہیں جو کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرتا یا وہ انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ ان کی زندگی کے تجربات پہلے ہی اتنے ہیں جن پر انھیں ڈپلومہ مل سکتا ہے۔

زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے یہ سیلز ایجنٹس فالواپ کے طور پر دوسری حرکتیں بھی کرتے ہیں مثلاً امریکی سرکاری حکام کا جھوٹا روپ دھارنا اور اس طرح وہ اپنے کسٹمرز کو مہنگی اسناد یا تصدیقی دستاویزات خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔

جیساکہ سابق ملازمین اور فراڈ کے ماہرین نے تخمینہ لگایا ہے اس طرح کمایا گیا ریونیو کروڑوں ڈالر میں ہوتا ہے جسے آف شور OFFSHOREکمپنیوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جمع کیا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں تعلیم کی اس جعلی سلطنت کے مالک کی حیثیت سے ایگزیکٹ کا کردار پس منظر میں دھندلا دھندلا رہتا ہے جس کے لیے درپردہ پروکسی انٹرنیٹ سروسز، سخت مقابلے والے قانونی ہتھکنڈوں اور پاکستان میں قانون اور ضابطوں کے روایتی فقدان کا سہارا لیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں کوالٹی کنٹرول افسریاسرجمشید کا جنھوں نے اکتوبر میں ایگزیکٹ چھوڑ دی تھی، کہنا تھا کہ بے چارے کسٹمرز سمجھتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی ہے مگر یہ یونیورسٹی نام کی کوئی چیزنہیں۔ یہاں سارا کاروبار پیسے کا ہے۔

ہماری طرف سے پورے ہفتے انٹرویو کی درخواستیں کی جاتی رہیں اور جمعرات کو تفصیلی سوالات کی ایک فہرست بھی جمع کرائی گئی مگر ان تمام کوششوں پر ایگزیکٹ کا ردعمل اور جواب ایک خط تھا جو اس کے وکیلوں کی طرف سے ہفتے کو نیویارک ٹائمز کو بھیجا گیا۔ خط میں ایک ڈھکی چھپی سی تردید تھی اور ٹائمز کے رپورٹر پر الزام لگایا گیا کہ وہ بقول ان کے ہمارے پاس کچی پکی کہانیاں اور سازشی تھیوریز لے کر آئے تھے۔

اس سے پہلے نومبر 2013 میں پاکستان کے میڈیا سیکٹر کے بارے میں انٹرویو دیتے ہوئے ایگزیکٹ کے بانی اور چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ نے ایگزیکٹ کو ایک ایسی آئی ٹی اور آئی ٹی نیٹ ورک سروسز کمپنی قرار دیا تھا جو چھوٹے اور میڈیم سائز کے کاروباری اداروں کی خدمت کرتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں پروجیکٹس تخلیق کرتے ہیں، ہمارے کلائنٹس کی ایک طویل فہرست ہے، مگر انھوں نے ایسے کلائنٹس کے نام بتانے سے صاف انکار کردیا۔

کمپنی کے داخلی ریکارڈز اور عدالتی دستاویزات بھی جو نیویارک ٹائمز نے حاصل کی ہیں سابق ملازمین کے بیانات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ٹائمز نے اسکول سائٹس سمیت 370 سے زیادہ ویب سائٹس کا تجزیہ کیا اور اس کے ساتھ ہی سرچ پورٹلز کی سپورٹنگ باڈی ایکری ڈیشن کے جعلی اداروں، ریکورٹمنٹ ایجنسیوں، زبانیں سکھانے والے اسکولز اور حتیٰ کہ ایک لاء فرم کا جائزہ لیا جن پر ایگزیکٹ کے ڈیجیٹل فنگر پرنٹس پائے گئے۔

اکیڈمک میدان میں ڈپلومہ دینے والے کارخانے ہمیشہ سے ایک مصیبت سمجھے جاتے ہیں، مگر انٹرنیٹ بیسڈ ڈگری کی اسکیموں کے پھیلاؤ سے بجاطور پر یہ تشویش بڑھ گئی ہے کہ یہ ممکنہ طور پر امیگریشن فراڈ میں استعمال ہوسکتے ہیں اور پبلک سیفٹی اور لیگل سسٹم کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ مثال کے طورپر2007 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک جعلی پولیس کرمنالوجسٹ جین موریسن کو جیل بھیجا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے جن اداروں سے ڈگریاں لیں ان میں روشول یونیورسٹی شامل تھی جس کی مالک ایگزیکٹ ہے۔

ان تمام باتوں میں سے بہت کم پاکستان میں کسی کو معلوم ہے جہاں ایگزیکٹ نے اپنے ڈپلومہ بزنس کے بارے میں سوالات کو ہمیشہ گول مول رکھا ہے اور خود کو زبردست کامیابی کے حامل ادارے اور ایک ماڈل کارپوریٹ سٹیزن کے طور پر پیش کیا ہے۔

"جیتنا اور لوگوں کا خیال کرنا'' مسٹر شیخ کا نصب العین ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایگزیکٹ کی آمدنی کا 65 فیصد حصہ خیراتی اداروں کو عطیے کے طور پر دیتے ہیں اور انھوں نے پچھلے سال ایک ایسے پروگرام کا اعلان بھی کیا تھا جس کے تحت 2019 تک ایک کروڑ پاکستانی بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔

تازہ ترین بات یہ ہے کہ وہ اب پاکستان کے بااثر ترین میڈیا مغل بننے کے لیے ہاتھ پاؤں ما رہے ہیں تقریباً دو سال ہونے کو آئے ہیں جب سے ایگزیکٹ ایک براڈ کاسٹ اسٹوڈیو تعمیر کر رہا ہے اور انتہائی جارحانہ انداز میں ایک ٹیلی ویژن اور نیوز پیپر گروپ ''بول'' کے لیے جس کی لانچنگ اسی سال شیڈولڈ ہے نامی گرامی صحافیوں کو بھرتی کر رہا ہے۔

آخر اتنے اولوالعزم وینچر کے لیے اتنا خطیر فنڈ کہاں سے آرہا ہے؟ یہ پاکستان میں قیاس آرائیوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ایگزیکٹ نے کئی قانونی پٹیشنز دائر کر رکھی ہیں جو زیر سماعت ہیں اور مسٹر شیخ نے بھی بڑے شدومد سے عوامی سطح پر اپنے حریف میڈیا اداروں کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انھیں پاکستانی فوج یا جرائم کے منظم (زیرزمین) گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم جو بات ایگزیکٹ کے ڈپلومہ آپریشن کے دائرہ کار کو دیکھتے ہوئے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جعلی ڈگریاں ہی مبینہ طور پر اس نئے میڈیا بزنس کو چلانے کے لیے مالی ایندھن فراہم کر رہی ہیں۔

اس سلسلے میں ایک ریٹائرڈ ایف بی آئی ایجنٹ ایلن ایزل کا جو ''ڈپلومہ ملز'' کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں کہنا یہ ہے کہ یہ سب سے بڑا آپریشن ہے جو ہم نے شاید ہی پہلے کبھی دیکھا ہو۔ اسے ہم سانسیں روک دینے والا گھپلا قرار دے سکتے ہیں۔

پہلی نظر میں ایگزیکٹ کی جامعات اور ہائی اسکولز مصنوعی مماثلتوں سے منسلک ہیں۔ جیسے سلک ویب سائٹس، ٹول فری امریکن کنٹیکٹ نمبرز اور سوچے سمجھے جانی پہچانی آوازوں والے نام مثلاً برکلے، کولمبیانا اور ماؤنٹ لنکن۔

لیکن دیگر اشارے اور سراغ عمومی ملکیت کی طرف لے جاتے ہیں۔ کئی سائٹس اسی جعلی ایکریڈیٹیشن باڈیزسے منسلک ہیں اور ان کے یکساں گرافکس ہیں، مثال کے طور پر ایک فلوٹنگ سبز کھڑکی (فلوٹنگ گرین ونڈو) جس پر ایک ایسی عورت کا اسکیچ ہے جس نے سر پر کچھ اوڑھ رکھا ہے جو کسٹمرز یا گاہکوں کو دعوت دے رہی ہے۔

دیگر تکنیکی عمومی چیزیں ہیں جو مشترک بھی ہیں جیسے کسٹمائزڈ کوڈنگ کی یکسانیت، اور یہ حقیقت کہ ایک وسیع اکثریتی روٹ ان چیزوں کی ٹریفک کے لیے ہے جو دو کمپیوٹر سرور سے کام کرتے ہیں یہ ان ہی کمیونٹی کے ذریعے جو قبرص یا لٹویا میں رجسٹرڈ ہیں۔

پانچ سابقہ ملازمین نے ان میں سے بعض سائٹس کی تصدیق کی ہے جو ایگزیکٹ کی ان ہاؤس تخلیق ہیں۔ جہاں ایگزیکٹو و آن لائن اسکولوں کو مال بنانے والی برانڈز کے طور پر ٹریٹ کرتے ہیں۔ یہ برانڈ شاندار طریقے سے اور نہایت نفاست سے بنائی جاتی ہیں اور پوری قوت سے ان کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ جبکہ بلا روک ٹوک جعل سازی اور دھوکہ دہی کے ساتھ۔

پروفیسرز اور ببلی طالب علم وڈیوز میں پروفیشنل طور پر بطور اداکار استعمال کیے جاتے ہیں۔ سابق ملازمین کے بقول بعض اسٹینڈانز (منتظر لوگ) مختلف اسکولوں کے اشتہارات میں نمودار ہوتے ہیں۔

ذرائع نے ان حوالے سے بتایا کہ کس طرح ملازمین جعلی اور جھوٹی رپورٹیں تیار کرتے ہیں ان ایگزیکٹ یونیورسٹیوں کے بارے میں جو سی این این کے ایک سٹیزن جرنلزم ویب سائٹ کی I Report ہے۔

اگرچہ CNN کا اصرار ہے کہ اس نے رپورٹ کو ویری فائی یا اس کی توثیق نہیں کی مگر AXACT اسے CNN لوگو کے طور پر پبلسٹی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے جسے کئی ویب سائٹس پر دیکھا جاسکتا ہے سوشل میڈیا اس کو مزید قانونی جواز دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لنکڈاِن (Linkedin)ایسے پروفائلز پر مشتمل ہے جن سے مراد AXACT یونیورسٹیز کے فیکلٹی ممبران کی ہے۔جیسے کرسٹینا گارڈنر جسے بل فورڈ یونیورسٹی کی سینئر مشیر اور (ساؤتھ ویسٹرن انرجی )جو ہوسٹن میں عام طور پر رجسٹرڈ ہے اس کی نائب صدر بتایا گیا ہے۔ ایک ای میل میں ساؤتھ ویسٹرن کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی میں ایسے نام کی کوئی ملازمہ نہیں ہے۔

AXACT کے بزنس کا مرکز بہرحال ایک سیلز ٹیم ہے جو نوجوان اور پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ رواں انگریزی بولتے ہیں عربی میں فصیح اور دسترس رکھتے ہیں، وہ فون پر کسٹمرز پر رابطہ رکھتے ہیں جن کے ویب سائٹس کے ذریعے راغب کیا جاتا ہے۔ وہ ہائی اسکول ڈپلومہ سے لے کر جس کی مالیت یا قیمت ادائیگی 350 ڈالر کے لگ بھگ ہے مکمل ڈاکٹرل ڈگریز تک جن کی مالیت 4000 ڈالر یا اس سے زائد ہے آفر کرتے ہیں۔

''یہ ایک سیلز اورینٹڈ بزنس کی بنیاد رکھتا ہے۔'' ایک سابق ملازم نے یہ بات بتائی جو دیگر لوگوں کی طرح نام نہ بتانے کی شرط پر بولا تاکہ AXACT انتظامیہ اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کرسکے۔

ایک نئے کسٹمر کی حیثیت ایک شروعات (Start)سے ہوتی ہے ۔ ان کے ماہانہ ٹارگٹ یا اہداف تک پہنچنے کے لیے AXACT کے سیلز ایجنٹس کو انتہائی سخت تربیت ملتی ہے ان کی ٹیکٹکس ''اپ سیلنگ'' کہلاتی ہے سابق ملازمین کے مطابق بتایا گیا۔۔

بعض اوقات کمپنی کی پروڈکٹس سے عدم دلچسپی رکھنے والوں کو کال کیا جاتا ہے اور طالب علموں سے رابطہ کرکے انھیں بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کارپوریٹ ریکروٹنگ ایجنٹص ہیں ان کے پاس بڑی اور پرکشش تنخواہوں کی آفر ہے مگر اس وقت جب طالب علم ایک آن لائن کورس خریدیں۔

''اپ سیلنگ'' کا ایک اور طریقہ پرکشش ملازمت کا جھانسہ دینے کا یہ ہے کہ امریکی حکومت کے عہدیداروں کے بھیس اور ان کے نام سے واردات کرتے ہیں جو کسٹمرز کو دھونس دھمکی اور چالاکی سے گھیرتے ہیں تاکہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مصدقہ اسناد خریدیں جن پر سیکریٹری کے دستخط ہیں۔

AXACT کے ملازمین کا اکثر رویہ سابقہ کسٹمرز سے جارحانہ ہوتا ہے اور ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ مزید خریداری کریں۔ کچھ تو خود کو امریکن آفیشل ظاہر کرتے ہیں اور کلائنٹس کو خوانچہ فروش کی طرح کہتے ہیں کہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹنمنٹ کے تصدیقی مکتوبات اور لیٹرز پر ہزاروں ڈالر خرچ کریں جن کی ادائیگی آف شور فرموں کے ذریعے سے کی جاتی ہے۔

ایسے سرٹیفکیٹس جن کے ذریعے ڈگری بیرون ملک قبولیت اور منظوری میں مدد ملتی ہے جو قانونی طور پر امریکا میں خریدے بھی جاتے ہیں اور 100 ڈالر کم پر ملتے ہیں لیکن مشرق وسطیٰ کے ممالک میں AXACT آفیشل ڈاکومنٹس فروخت کرتے ہیں جس میں کچھ جعلی ہوتے ہیں دیگر مختلف حربوں اور طریقے سے تیار ہوتے ہیں ان سے ہر ایک ہزاروں ڈالر میں بکتا ہے۔

وہ کسٹمرز کو دھمکاتے بھی ہیں انھیں کہتے ہیں کہ ان کی ڈگریاں بے کار ہوں گی اگر انھوں نے پیسے ادا نہیں کیے۔ یہ بات ایک سابق ملازم نے بتائی جس نے AXACT کی ملازمت 2013 میں چھوڑی۔

AXACT والے اپنی ویب سائٹس کو خوبی کے ساتھ سنوارتے رہتے ہیں تاکہ پرنسپل مارکیٹ میں کسٹمرز کو اپیل کرسکیں۔ یہ مارکیٹس امریکا اور تیل سے مالا مال پرشین گلف ممالک ہیں۔ ایک سعودی شہری نے جعلی ڈگری اور اسناد پر 4 لاکھ ڈالر خرچ کیے یہ بات سابق ملازم مسٹر جمشید نے بتائی۔ رقوم عموماً کم تلہکہ خیز اور تعجب انگیز ہیں مگر پھر بھی ان میں بہت کچھ ہے۔

ایک مصری شخص نے گزشتہ سال 12 ہزار ڈالر میں نکسن یونیورسٹی سے انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور دیگر سرٹیفکیٹس بھی حاصل کیے جن پر مسٹر کیری کے دستخط تھے تاہم اس نے یہ بات تسلیم کرلی کہ اس نے اخلاقی طور پر سرحد پار کی۔ اس کا پس منظر اشتہاریات کا تھا۔ اس نے یہ بات ٹیلی فونک انٹرویو میں کہی۔ وہ بھی نام نہ بتانے کی شرط پر یہ انکشاف کر گئے کہ کہیں قانون کے بندھن میں نہ جکڑے جائیں۔

لیکن انھیں یقین تھا کہ ڈاکومنٹس حقیقی تھے۔ ''میں یہی سمجھا کہ وہ امریکا سے آئی ہیں۔'' انھوں نے کہا اس پر غیر ملکی مہریں تھیں، وہ شاندار اور پرتاثیر لگ رہی تھیں۔''

ڈگری آپریشنز کے کئی کسٹمرز جو اس دھندے میں پروموشن یا عہدے میں بڑھوتری کی امید لگائے ہوئے ہیں اس امر سے آگاہ ہوتے ہیں کہ وہ Knock of Rolexکے برابر کی تعلیمی سند لے رہے ہیں بعض پکڑے بھی گئے ہیں۔

https://www.dailymotion.com/video/x2qlz0v_axact-employee_news

امریکا میں 2008 میں ایک فیڈرل پراسیکیوشن میں بتایا گیا کہ 350 فیڈرل ملازمین جن میں ڈپارٹمنٹ اسٹیٹ اینڈ جسٹس بھی شامل ہے ایسے تعلیمی کوائف رکھتے تھے جو واشنگٹن اسٹیٹ میں Non_AXACT_Related Mill Operation Based تھیں۔

بعض AXACTکے زیر ملکیت اسکول ویب سائٹس میں اس سے قبل خبروں کو فراڈ پر مبنی قرار دیا گیا تھا جبکہ اس میں کمپنی کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ مثلاً 2013 میں ڈریو جانسن کی جو سابقہ اولمپین سوئم کوچ تھے ایک نیوز رپورٹ میں شناخت ہوچکی تھی کہ وہ AXACT کی بوگس روش ویل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔

بعض اوقات اس کے اثرات بے انتہا تباہ کن نکلے۔ برطانیہ میں پولیس کو 700 کیسز کی دوبارہ جانچ پڑتال کرنا پڑی کہ مسٹر موریسن جسے فریب کارانہ انداز میں پولیس کرامنولوجسٹ اور روش ویل گریجویٹ کا کریڈنشل دیا گیا تھا وہ اس عہدے پر کام کر رہے تھے۔ 2007 میں مسٹر موریسن نے اپنے ٹرائل کے دوران کہا ''یہ کام یونیورسٹی جانے سے آسان تھا۔''


مشرقی وسطیٰ میں AXACT کی طرف سے ایئرلائن ایمپلائز کے لیے ایروناٹیکل ڈگریاں بیچی گئیں نیز اسپتال ورکرز کو میڈیکل ڈگریاں بھی فروخت کی گئیں۔ ایک نرس نے جو ابوظہبی کے بڑے اسپتال میں کام پر مامور تھیں اعتراف کیا کہ اس نے پروموشن لینے کی خاطر AXACT کی جعلی میڈیکل ڈگری 60,000 ڈالر میں خریدی تھی۔

تاہم اس ضمن میں مزید شواہد ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ AXACT کسٹمرز کو دھوکہ دیا جاتا رہا ہے۔ اور انھیں بہلانے پھسلانے کے لیے وعدہ کیا جاتا ہے کہ انھیں بہترین آن لائن تعلیم دی جائے گی۔ Bay City MIC۔ کی ایک بیکری ورکر ایلزبتھ لابر نے کچھ تعلیم گھر پر حاصل کی تھی مگر اسے ایک ہائی اسکول ڈپلومہ چاہیے تھا تاکہ کالج میں داخلہ لے سکے۔ 2006 میں اس نے بیل فورڈ ہائی اسکول کو کال کی جہاں سے اسے 249 ڈالر ادا کرنے کو کہا گیا اور اسے 20 سوالات پر مبنی معلومات کے آن لائن ٹیسٹ کی ہدایت ملی۔

کئی ہفتے بعد لابر وعدے کے مطابق کورس کا انتظار کرتی رہی مگر اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اسے بذریعہ ڈاک ڈپلومہ ارسال کیا گیا تھا۔ جب اس نے اس ڈپلومہ کو استعمال کرنے کی کوشش کی اور مقامی کالج سے رابطہ کیا تو ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ کسی کام کا نہیں۔ لابر کا کہنا ہے کہ ''میں اس قدر برہم ہوئی کہ کچھ نہ پوچھیے۔''

گزشتہ مئی کو ابوظہبی کے ایک تعمیراتی فرم کے جونیئر اکاؤنٹنٹ موہن نے 3300ڈالر دیے اس یقین کے ساتھ کہ وہ 18 ماہ کے ایک آن لائن ماسٹر پروگرام آن بزنس ایڈمنسٹریشن کے فارغ التحصیل ہوں گے۔ یہ پروگرام AXACT کے زیرانتظام گرانٹ ٹاؤن یونیورسٹی کا تھا۔

ایک سیلز ایجنٹ نے 39 سالہ بھارتی شہری موہن کو یقین دلایا تھا۔ جبکہ موہن نے اس سے کہا کہ وہ صرف چاہتا ہے کہ اس کی جزوی شناخت ایک کوالٹی ادارے سے وابستہ کی ہو مگر اس کے برعکس اسے ایک سستا ٹیبلٹ کمپیوٹر میل کے ذریعے ملا جس میں نمایاں ایک اسکول لوگو تھا مگر نہ ایجوکیشن درخواست تھی اور نہ کورس ورک۔ پھر بھی اس سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ اور پیسے دو۔

https://www.dailymotion.com/video/x2qm1a1_fake-universities_news

جب ایک فون کالر نے اپنا تعارف امریکن سفارت خانے کے ایک افسر کے طور پر کرایا اور موہن پر برس پڑا اس کی انگریزی اہلیت مایوس کن ہے تو وہ گلوبل انسٹیٹیوٹ آف انگلش لینگویج ٹریننگ سرٹیفکیشن میں داخلے پر رضا مند ہوا جس کے لیے فیس 7500 ڈالر تھی۔ یہ ویب سائٹ بھی AXACT کی تھی۔

ایک اور کال ہفتے بعد آئی وہ شخص موہن پر دباؤ ڈالتا رہا کہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی تصدیقی صنعت جس پر مسٹر کیری کے دستخط ہیں خریدے۔ موہن نے اپنے کریڈٹ کارڈ پر 7500 ڈالر چارجز ادا کیے۔

پھر ستمبر میں ایک دوسرے آدمی نے رابطہ کیا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کا نمائندہ تھا۔ اس نے موہن کو انتباہ کیا کہ اگر اس نے اپنی ڈگری کی قانونی تصدیق نہیں کرائی تو اسے ممکنہ Deportation کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس پر گھبرا کر موہن نے AXACT میں اپنے سیلز ایجنٹ سے رابطہ کیا اور اٹھارہ ہزار ڈالر کی قسطیں ادا کرنے پر رضامند ہوگیا۔

اکتوبر تک اس پر 30 ہزار ڈالر کا قرضہ چڑھ چکا تھا اور وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ اس نے انڈیا میں اپنے والدین کو رقم بھیجنا چھوڑ دی تھی اور اس کی بیوی بھی اس کی پریشانیوں سے لاعلم تھی جس نے حال ہی میں بچے کو جنم دیا تھا۔

بل گیٹس کے تعاقب میں:

پاکستان میں ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹو شعیب احمد شیخ اپنے آپ کو ایسے شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے اپنے بل بوتے پر ایک بڑا کاروبار بنایا اور جو کاروبار کے ساتھ فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہتا ہے۔

اپنی ایک تقریر میں جو ایگزیکٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے، شعیب احمد شیخ کہتے ہیں کہ جب وہ ایک کمرے کے گھر میں رہتے تھے تو ان کی زندگی کا نصب العین دنیا کا امیر ترین شخص بننا تھا، بل گیٹس سے بھی زیادہ امیر! ایک اور موقعے پر انھوں نے اپنے ادارے ایگزیکٹ کو جسے انھوں نے 1997 میں قائم کیا تھا، گلوبل سافٹ ویئر لیڈر قرار دیا۔ ان کے ادارے کا لوگو جو ایک دائرے کی شکل اور اڑتے ہوئے عقاب پر مشتمل ہے حیران کن حد تک امریکی صدر کی مہر سے ملتا جلتا ہے۔

ان کے نئے چینل ''بول'' میں شامل ہونے والے کئی لوگوں نے بتایا کہ سافٹ ویئر بزنس سے تعلق رکھنے کے باوجود شعیب احمد شیخ ای میل اور موبائل فون استعمال کرنے کے عادی نہیں ہیں۔

مگر ان کا کاروباری جذبہ ماند نہیں پڑا ہے۔ پچھلے سال انھوں نے اپنے مستقبل کے ہیڈ کوارٹرز گیل ایگزیکٹ منصوبے کا اعلان کیا جس کا اپنا ریل کا نظام ہوگا اور 20 ہزار ملازمین کی گنجائش ہوگی۔ دوسری طرف ان کا خدمت خلق کا جذبہ بھی ویسے ہی زور و شور سے موجزن ہے جس کے ساتھ حکومت سے نالاں کئی پاکستانیوں کی نیک خواہشات شامل ہیں۔

ایک کروڑ بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ پچھلے سال شعیب احمد شیخ نے لوگوں کی چھوٹی موٹی لڑائیوں کا تصفیہ کرنے کے لیے ایک اور پروجیکٹ کا آغاز کیا تاکہ لوگ ملک میں رائج پیچیدہ نظام انصاف میں جانے کے بجائے اپنے جھگڑے دوسرے فورم پر باآسانی حل کرلیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستانی معیشت میں کروڑوں ڈالر کا اضافہ کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

انھوں نے ایک تقریر میں اعلان کیا کہ دنیا کی کوئی طاقت انھیں ان کے خوابوں کی تکمیل سے نہیں روک سکتی۔ مگر ان کے کچھ ملازم ایسے تھے جو باوجود اچھی تنخواہ اور سہولیات کے جو انھیں AXACT کی طرف سے مل رہی تھیں، AXACTکے کاروبار کی اصلی ہیئت کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوگئے۔

AXACTکے انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ میں پچھلے سال تین مہینے کام کرنے والے جمشید جو صارفین کی فون کالز مانیٹر کرتے تھے کافی پریشان ہوئے جب انھوں نے دیکھا کہ کس طرح صارفین کو ہزاروں ڈالر خرچ کرنے پر اکسایا جاتا ہے اور بعد میں جب وہ ریفنڈ کا تقاضا کرتے ہیں تو ان کی درخواست رد کردی جاتی ہے۔

''مجھے ایسا لگا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ''۔ انھوں نے کہا۔

اکتوبر میں جمشید نے AXACT چھوڑ دیا اور متحدہ عرب امارات چلے گئے جہاں وہ اپنے ساتھ AXACTمیں پیسہ خرچ کرنے والے 22 افراد کی ادائیگیوں کا انٹرنل ریکارڈ لے گئے جس کی کل مالیت 6 لاکھ ڈالر بنتی تھی۔

جمشید نے تب سے ان افراد میں سے بیشتر سے رابطہ کیا اور انھیں اپنی سرمایہ کاری AXACTسے ریفنڈ کرانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ زیادہ تر لوگوں نے جمشید کی پیشکش کو ایک اور فراڈ کی کوشش سمجھ کر مسترد کردیا مگر کچھ نے جن میں موہن بھی شامل تھے، یہ پیشکش قبول کرلی۔

بالآخر کئی ہفتوں کی تھکا دینے والی بات چیت کے بعد AXACT نے موہن کو پچھلے سال 31,300 ڈالر ریفنڈ کردیے۔

موہن نے اس پر کچھ اطمینان کا اظہار ضرور کیا مگر اس کے باوجود وہ پچھتاوے کے احساس سے دوچار تھے۔انھوں نے سر ہلاتے ہوئے کہا ''میں بیوقوف تھا۔یہ سب کچھ مجھے تباہ و برباد کرسکتا تھا۔''

https://www.dailymotion.com/video/x2qkh20_fake-degrees_news

دھوکہ دہی اور دھمکیاں:

جعلی ڈپلومہ کے کاروبار میں AXACT کی شمولیت 2009 میں بے نقاب ہوتے ہوتے رہ گئی جب امریکی ریاست مشی گن کی ایک خاتون نے AXACT کی ملکیت میں چلنے والی دو ویب سائٹس ''بیلفرڈ ہائی اسکول'' اور ''بیلفرڈ یونیورسٹی'' پر مقدمہ دائر کردیا کیونکہ ان ویب سائٹس کی جانب سے دیے جانے والا آن لائن ڈپلومہ ان خاتون کے لیے بے سود ثابت ہوا تھا۔

جلد ہی یہ مقدمہ پھیل کر ''کلاس ایکشن لا سوٹ'' بن گیا اور اس میں تقریباً 30,000 امریکی مدعی شامل ہوگئے۔ وکیل استغاثہ ٹامس ایچ ہاؤلیٹ نے ایک انٹریو میں کہا کہ انھیں سیکڑوں لوگوں کی کہانیاں پتہ چلی ہیں جنھیں اس طریقے سے دھوکہ دیا گیا۔انہی میں مس لابر بھی شامل تھیں جو مقدمہ قائم ہوجانے کے بعد اس میں شامل ہوئیں۔

مگر اس مقدمے کا مدعا علیہ جو سامنے آیا وہ AXACT کمپنی نہیں تھی بلکہ سلیم قریشی نامی ایک پاکستانی تھا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ ویب سائٹس اپنے اپارٹمنٹس سے چلاتا تھا۔ تین سال سے زیادہ ہونے والی مقدمے کی اس سماعت میں سلیم قریشی صرف ایک ویڈیو بیان کے ذریعے نظروں کے سامنے آیا جس میں وہ کراچی کے ایک کمرے میں انتہائی کم روشنی میں موجود تھا جس میں اس کے چہرے کی ٹھیک سے شناخت بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس کے ایک ساتھی نے بھی جس کا نام جان اسمتھ ظاہر کیا گیا ویڈیو کے ذریعے گواہی دی جس میں وہ کالے چشمے پہنے ہوئے تھا۔

کورٹ دستاویزات کے مطابق سلیم قریشی نے اپنی صفائی میں کیس لڑنے والے امریکی وکلا کو 4 لاکھ ڈالر فیس ادا کی جسے دبئی کے مختلف کرنسی ایکسچینج اسٹورز کے ذریعے بھجوایا گیا۔ حال ہی میں ایک رپورٹر اس کا کراچی کا دیا گیا پتہ ڈھونڈنے میں ناکام ہوا۔

وکیل استغاثہ ٹامس ایچ ہاؤلیٹ نے کہا کہ انھیں ایک غلط اور ایک طرح سے مفرور مدعا علیہ کا سامنا ہے۔اپنی گواہی میں سلیم قریشی نے AXACT کمپنی سے اپنے کسی بھی تعلق سے یکسر انکار کیا حالانکہ بیلفرڈ ہائی اسکول اور بیلفرڈ یونیورسٹی کے زیر استعمال میل باکسوں میں AXACTہیڈ کوارٹر کے پتے کو ''فارورڈنگ ایڈریس'' کے طور پر درج کیا گیا تھا۔

یہ مقدمہ 2012 میں ختم ہوا جب جج نے سلیم قریشی اور بیلفرڈ کو 22 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ ٹامس ہاؤلیٹ نے بتایا کہ کسی بھی مدعی کو کچھ بھی رقم موصول نہیں ہوئی۔

آج بھی بیلفرڈ ذرا سے مختلف ویب سائٹ ایڈریس کے ساتھ اپنا کاروبار کر رہا ہے۔ AXACT کمپنی کے سابقہ ملازمین کا کہنا ہے ان کی AXACT میں ملازمت کے دوران دونوں بیلفرڈ کے اداروں کو AXACT اپنا قیمتی برانڈ قرار دیتی تھی۔

سابقہ ملازمین کے مطابق AXACT یقینا سافٹ ویئر سے متعلق کام کرتی ہے جن میں ویب سائٹس ڈیزائن اور اسمارٹ فون اپیلی کیشنز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ AXACT کا ایک اور یونٹ 100 افراد کے عملے پر مشتمل ہے جو کالج کے طلبا کے لیے ٹرم پیپرز تیار کرتا ہے۔

مگر ان ملازمین کا کہنا ہے کہ AXACT کے ڈپلومہ کے کاروبار نے باقی تمام یونٹوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک سابق سافٹ ویئر انجینئر نے بتایا کہ 2006 میں ڈپلومہ کے کاروبار سے AXACT ایک دن میں 4000 ڈالر کما رہی تھی۔اس حساب سے موجودہ آمدنی کا اندازہ مختلف تخمینوں سے 30 گنا زیادہ بنتا ہے جو AXACT کو دبئی، بیلسز اور برٹسی ورجن آئی لین ڈ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے ذریعے سے ملتا ہے۔

AXACT نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکیوں سے رپورٹروں، مخالف کمپنیوں اور ناقدین کو مرعوب کیے رکھا ہے۔ AXACT کے دباؤ کی وجہ سے ممتاز برطانوی اخبار ''دی میل'' کو 2006 میں انٹرنیٹ پر سے ایک آرٹیکل ہٹانا پڑا۔ بعد میں ایک فرضی لا فرم کا نام لیتے ہوئے کمپنی نے بوٹسوانا میں ایک کنزیومر رائٹس گروپ کو بیٹھنے پر مجبور کردیا جس نے AXACT کے زیر اہتمام ہیڈوے یونیورسٹی پر تنقید کی تھی۔

مضمون نگاری کے بزنس میں AXACT کی مقابل کمپنی ''اسٹوڈنٹ نیٹ ورک ریورسز'' نے جب AXACT کو دھوکہ دہی پر مبنی ویب سائٹ قرار دیا تو AXACT نے اس پر 2009 میں مقدمہ کردیا مگر اس کمپنی نے مقدمے کا جواب مقدمے سے دیا جس میں AXACT کو 7 لاکھ ڈالر ہرجانے کا حکم دیا گیا مگر کمپنی کے وکیل کے مطابق یہ رقم ہنوز ملنا باقی ہے۔

2013 میں شعیب احمد شیخ نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ ان کی کمپنی پر امریکا، برطانیہ اور پاکستان کے میڈیا اور انٹرنیٹ پر الزامات لگائے گئے ہیں مگر انھوں نے مزید کہا کہ ایسے الزامات پر اکثر ان کی کمپنی نے قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا ہے۔

''ہم نے ہر راستہ اختیار کیا ہے، ہم عدالتوں میں گئے ہیں۔'' انھوں نے کہا ''جھوٹ اس طرح پروان نہیں چڑھتا۔'' شعیب احمد شیخ نے کہا کہ ان کا نیا میڈیا پروجیکٹ ''بول'' ان کے اپنے فنڈز سے لایا جائے گا۔

جب بہت بڑی سرمایہ کاری غیر یقینی صورتحال میں ہو اور جب بے پناہ محنت درکار ہو تو ایک معمہ یہ ہے کہ AXACTمیڈیا بزنس میں آنے کے لیے اپنا سب کچھ کیوں داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہے۔ ''بول'' نے ابھی سے پاکستان میں دوسرے میڈیا کے گروپوں کے جگمگاتے اسٹار جمع کرکے ایک تہلکہ مچا دیا ہے جنھیں غیر معمولی بھاری تنخواہوں پہ رکھا گیا ہے۔ شعیب احمد شیخ کا کہنا ہے کہ وہ حب الوطنی کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ ''بول'' پاکستان کی مثبت اور درست تصویر اجاگر کرے گا۔ وہ شاید یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ ان کا میڈیا میں آنا ان کے لیے مزید اثر و رسوخ کا باعث بنے گا۔

بہرحال پاکستان میں AXACTکے بزنس ماڈل کو زیادہ خطرات کا سامنا ہے جہاں وہ اپنے ڈگریوں کے کاروبار کی تشہیر نہیں کرتا۔

جب ٹائمز کے رپورٹروں نے AXACT کے تحت چلنے والی 12 تعلیمی ویب سائٹس سے جمعے کو رابطہ کیا اور ان سے ان کے AXACT اور اس کے کراچی کے آفس سے تعلق کے بارے میں سوال کیا تو سیلز نمائندوں نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا۔ بعض نے دعویٰ کیا کہ ان کی کمپنی امریکا کی کمپنی ہے، بعض نے AXACT سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کیا اور بعض نے فوری فون بند کردیا۔

''میرے دوست یہ ایک یونیورسٹی ہے'' ایک نمائندے نے AXACT کے بارے میں استفسار پر کہا ''مجھے نہیں پتہ آپ کیا بات کر رہے ہیں۔''

https://www.dailymotion.com/video/x2qki5g_axact_news
Load Next Story