کراچی کی بد امنی کاحَل …گورنر راج ہے
سندھ اور کراچی کی صورت ِ حال بلا شبہ گھمبیر ہے ۔ زخم ایک نہیں، جسم زخموں سے چُور ہے
سندھ اور کراچی کی صورت ِ حال بلا شبہ گھمبیر ہے ۔ زخم ایک نہیں، جسم زخموں سے چُور ہے، پنجہ کجا کجا نہم ۔۔ تن ھمہ داغ داغ شو کی کیفیّت ہے۔ بیماری ایک نہیں بہت سے اعضاء کام چھوڑ چکے ہیں۔گردے خراب ہیں،جگر کمزور ہے، دل کی شریانوں میں خون نہیں پہنچ رہا،دماغی حالت پوری طرح صحیح نہیں !!
اس صورت ِ حال پر دل دکھتا ہے مگر یہ لا علاج نہیں اس کی صحیح تشخیص کی ضرورت ہے۔محدود علم اور مخصوص سوچ رکھنے والے'' گنجہائے گرانمایہ''سانحے کی آڑ لے کر کبھی جمہوریت کو گالی دیتے ہیں اور کبھی ملک کو ۔ متاثرین کا ردّ ِعمل جذباتی ہوتا ہے مگر ٹی وی پر تجزیہ کرنے والوں کو حقائق اور دلائل کی بنیاد پر مسئلے کو Identify کرکے اس کا حل تجویز کرنا چاہیے۔
ملک میں درندگی اور بربریت کا شیطانی کھیل کھیلنے والوں کے خلاف پوری قوم یکسُّو ہو کر جنگ کر رہی ہے ( فوج اور پولیس سب سے آگے سینہ سپر ہیں)مگر سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ میں دونوں طرف ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ان کی تعداد بعض اوقات زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں، پوری قوم مظلوم اسماعیلیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور وحشی درندوں پر لعن طعن کر رہی ہے۔
کچھ دہشت گرد بلاشبہ کچھ فرقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں مگر اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے اصل دشمن کا ٹارگٹ کوئی مسلک نہیں ملک ہے ، درندہ صفت شیطانی ٹولے کسی ایک کمیونٹی کو نہیں پوری قوم کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، اس جنگ کا نشانہ بننے والے پچاس ہزار شہیدوں میں سے زیادہ تعداد بڑے فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ بالآخر فتح ریاست ِپاکستان کی ہو گی اور درندگی کا مظاہرہ کرنے والے دہشت گرد نیست و نابود ہو جائیں گے مگر ہمیں یہ جنگ حوصلے اور حکمت سے لڑنی ہے۔ زندہ قَومیں بڑے سے بڑے حادثے کی صورت میں نہ حوصلہ چھوڑتی ہیں اور نہ خوفزدہ اور بد حواس ہو تی ہیں۔
مسئلہ 1995 سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اُس وقت ایک سیاسی طاقت کو (یا ان کے عسکری ونگ کو)کچلنے کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومت نے یکسوئی کے ساتھ اپنے تمام تر وسائل جھونک دیے تھے۔ فوج کی سپورٹ بھی حاصل تھی ، آئی بی کے سربراہ اور آپریشن کے سالار جنرل نصیراللہ بابر جیسے ایماندار ، نڈر اور فائٹر وزیرِ داخلہ نے خود کراچی میں ڈیرہ ڈال دیا تھا۔
آج قانون شکنوں کے گروہ ایک نہیں آدھی درجن کے قریب ہیں جن میں سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگز، فرقہ پرست دہشت گردتنظمیں، طالبان،القاعدہ اور دیگر مافیاز شامل ہیں۔ غیر ملکی مداخلت اورمدد کہیں زیادہ ہے ۔ پولیس کی استعداد اور پیشہ وارانہ صلاحیت بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہے۔ صوبے کی گورننس بے حد ناقص اور غیر معیاری ہے، پولیس کو اتنے بڑے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے جس جذبے (Motivation)کی ضرورت ہے وہ پولیس کی اپنی کمانڈ پیدا کر تی ہے اور وسائل حکومت فراہم کرتی ہے۔ اس وقت دونوں یہ ذمے داری نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
کچھ بڑی رکاوٹیں درج ذیل ہیں:
۱:صوبہ سندھ کی برُی گورننس۔پولیس کی آسامیاں ممبروںمیں تقسیم ہوں یا بیچی جائیں، equipmentکی خریداری میںکمیشن کھایا جائے اور اچھے افسروں کو برداشت نہ کیا جائے (کراچی کے تین آپریشنل ڈی آئی جیز میں سے اچھی شہرت رکھنے والے دوڈی آئی جیز ہٹا دیے گئے ہیں) سرکاری ملازم کبھی شکیب قریشی کو پیسے دیکر لگتے ہوں، کبھی ٹپی کو اور کبھی فریال تالپور کو تو ایسی گورننس کو کیا کہا جائے گا؟
۲:صوبے کی دونوں بڑی پارٹیوں(پی پی پی اور ایم کیو ایم) میں خلوص اور نیک نیتی کا فقدان
۳:اسلام آباد اور کراچی کی سوچ اور سمت یکساں نہیں۔
۴:کراچی پولیس اور رینجرز میں ہم آہنگی کا فقدان۔ جنرل رضوان اختر کے دور میں ربط اور تعاون بہتر تھا۔ اب سولو فلائٹ کا رجحان زیادہ ہے۔
۵:کمانڈ اور آپریشنل لیول پر پولیس کی استعداد (Capacity) کے بنیادی مسائل،جب ستمبر 2013 میںآپریشن شروع ہوا تو خیال تھا کہ پولیس کو مطلوبہ وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
۶:پولیس کا فرسودہ نظام جس نے پولیس کی آپریشنل اٹانومی سَلب کر رکھی ہے جس کے باعث پولیس فوری طور پر respond نہیں کر سکتی اور جس کے تحت کوئی فورس نئے دور کے چیلنجز سے نبرد آزما نہیں ہو سکتی ۔
بد قسمتی سے کرپشن اور بد ترین گورننس زرداری حکومت کا طرّہء امتیاز بن چکا ہے۔ باخبر حضرات سمجھتے ہیں کہ سندھ کی سیاسی قیادت کا ایجنڈا اور پروگرام یہی طرز ِ حکمرانی ہے جسے بدلنے یا ٹھیک کرنے کا کوئی ارادہ یا نیّت نہیں ہے۔ بری گورننس خوفناک امراض اور خطرناک بیماریوں کی ماں ہے جو جرائم، مجرموں کے منظم گروہوں اور مافیاز کو جنم دیتی ہے۔ گورننس اچھی ہوتی جو عوام کو تحفّظ، انصاف اور ان کی بنیادی ضروریات (services ) فراہم کرتی اور مختلف علاقوں کو نظر انداز نہ کرتی توآج لینڈ مافیا ، بھتہ مافیا اور ڈرگ مافیاز سے کراچی پاک ہوتا۔
کراچی کی حالیہ واردات میں بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی راء کے ملوث ہونے کے واضح امکانات ہیں مگر ان تجزیہ کاروں پر حیرانی ہوتی ہے جو راء کا نام آتے ہی یوں اچھلتے ہیں جیسے ان کی دم پر پاؤںرکھ دیا گیا ہو ، جیسے بھارت کی مبیّنہ مداخلت کا ذکر کرنا کوئی جرم ہو ۔ اسلام سے بغض رکھنے والے ان عناصر کی خواہش ہوتی ہے کہ دہشت گردی کی ہر واردات کا ذمے دار صرف اسلام کو قرار دیا جائے، وہ اس کی آڑ میں اسلامی اقدار پر وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے اثرات خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ اس سے اپنے دین سے محبت کرنے والی قوم میں غم و غصّہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے نوجوان انتہا پسندی کی طرف چل پڑتے ہیں۔
بعض تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ نیکٹا کو فعال بنانے اور اسے فنڈز فراہم کرنے سے دہشتگردی کے مسئلے پر قابو پا لیا جائیگا۔ اس سلسلے میں گذاراش ہے کہ اس جنگ میں لیڈ رول چونکہ فوج کے پاس ہے اس لیے نیکٹا کا کردار محدود اور غیر اہم سا رہے گا اور اس کے سربراہ کی حیثیت بارہویں کھلاڑی سے زیادہ نہیں ہوگی۔
چونکہ ریاست پاکستان نے اپنے باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے اس لیے اس جنگ میں مرکزی کردار وزارت ِ داخلہ نے ادا کرنا ہے مگر وزیر اعظم کے عدمِ اعتماد کے باعث وزارتِ داخلہ اس وقت غیر فعال ہے ۔ وزیرِ داخلہ بڑے قابل اور اعلیٰ پائے کے مقررّ ہیں مگر ان کی اصل فیلڈ سیاست ہے جہاں ان کی صلاحیّتوں کا بہتر استعمال ہو سکتا ہے، ملک دشمنوں سے نبرد آزما جانبازوں کا کہنا ہے کہ اِس جنگ کو لیڈ کرنے کے لیے کسی مرد ِمیدان کی ضرورت ہے جو سیاست سے بالاتر ہو کر فیصلے کر سکے، جنرل نصیر اللہ بابر کی طرح نڈر ہو، فیلڈ کمانڈرز کی اس تک رسائی ہو(وہ ان سے ایک کال یا SMS کے فاصلے پر ہو) اور جو پولیس فورس کی حساسیّت کا ادراک رکھتا ہو۔ وزرت ِ داخلہ کے غیر فعال ہونے سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
صوت ِ احوال کی بہتری کیسے ممکن ہے؟سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت اصلاحِ احوال کے لیے اقدامات کرے لیکن سندھ اور کراچی کے با خبر حضرات کے خیال میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ محدود مدت کے لیے گورنر راج لگا کر امن و امان کی صورت ِ حال بہتر بنائی جائے، اس کے بھی منفی پہلو زیادہ ہیں۔ سندھ کے عوام کی نمایندگی بہر حال پی پی پی اور ایم کیو ایم ہی کرتی ہیں۔
کوئی بھی اچھا کام یا آپریشن عوامی تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے عوامی تائید کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ اس سے مختلف صوبوں میں غیر آئینی اقدامات کے دروازے کھل جائیں گے اور مارشل لاء کی راہ ہموار ہو گی جو ملک کے لیے تباہ کن ہوگا۔ ناچیز کی رائے میں حل گورنر راج نہیں، بااختیارایپکس کمیٹی ہے۔ ایپکس کمیٹی اپنے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے (زبردستی ) اعلیٰ پائے کے افسران تعّینات کرائے اور امن و امان کی بحالی تک سیاسی اور سرکاری مداخلت کے دروازے مکمل طور پر بند کرادے۔
مرکزی حکومت نے جب ناچیز کو آئی جی سندھ لگانے کا عندیہ دیا تو کئی لوگوں نے پوچھا ''کراچی کے حالت ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟''تو میرا واضح جواب تھا کہ آئی جی کو اپنی ٹیم بنانے کا مکمّل اختیار دیا جائے تو چار سے پانچ مہینوں میں امن بحال ہو جائے گا اور عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ آج بھی سندھ پولیس کو اعلیٰ پائے کی کمانڈ میّسر آجائے تو چار پانچ مہینوں میں حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔
اگر ایپکس کمیٹی آئی جی اور سی سی پی او کے عہدوں پر ایسے افسر تعینات کروا سکے جو نڈر، ایماندار اور غیر جانبدار ہوں تو آئی بی کی معاونت سے چند مہینوں میں مافیاز اور ملک کے اندر جڑیں رکھنے والے دہشت گردوں کو کچلا جا سکتا ہے ۔ رہی غیر ملکی مداخلت اورمدد سے ہونے والی دہشت گردی تو اسے روکنے، محدود کر دینے یااس کے مکمّل انسداد کے لیے عسکری انٹیلی جنس اداروں کی تمام صلاحتیں اور وسائل بروئے کار لانا ہوں گے اور یہ بھی ڈیڑھ دو برسوں میں ہو سکتا ہے، بالکل ہو سکتا ہے۔
اس صورت ِ حال پر دل دکھتا ہے مگر یہ لا علاج نہیں اس کی صحیح تشخیص کی ضرورت ہے۔محدود علم اور مخصوص سوچ رکھنے والے'' گنجہائے گرانمایہ''سانحے کی آڑ لے کر کبھی جمہوریت کو گالی دیتے ہیں اور کبھی ملک کو ۔ متاثرین کا ردّ ِعمل جذباتی ہوتا ہے مگر ٹی وی پر تجزیہ کرنے والوں کو حقائق اور دلائل کی بنیاد پر مسئلے کو Identify کرکے اس کا حل تجویز کرنا چاہیے۔
ملک میں درندگی اور بربریت کا شیطانی کھیل کھیلنے والوں کے خلاف پوری قوم یکسُّو ہو کر جنگ کر رہی ہے ( فوج اور پولیس سب سے آگے سینہ سپر ہیں)مگر سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ میں دونوں طرف ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ان کی تعداد بعض اوقات زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں، پوری قوم مظلوم اسماعیلیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور وحشی درندوں پر لعن طعن کر رہی ہے۔
کچھ دہشت گرد بلاشبہ کچھ فرقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں مگر اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے اصل دشمن کا ٹارگٹ کوئی مسلک نہیں ملک ہے ، درندہ صفت شیطانی ٹولے کسی ایک کمیونٹی کو نہیں پوری قوم کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، اس جنگ کا نشانہ بننے والے پچاس ہزار شہیدوں میں سے زیادہ تعداد بڑے فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ بالآخر فتح ریاست ِپاکستان کی ہو گی اور درندگی کا مظاہرہ کرنے والے دہشت گرد نیست و نابود ہو جائیں گے مگر ہمیں یہ جنگ حوصلے اور حکمت سے لڑنی ہے۔ زندہ قَومیں بڑے سے بڑے حادثے کی صورت میں نہ حوصلہ چھوڑتی ہیں اور نہ خوفزدہ اور بد حواس ہو تی ہیں۔
مسئلہ 1995 سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اُس وقت ایک سیاسی طاقت کو (یا ان کے عسکری ونگ کو)کچلنے کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومت نے یکسوئی کے ساتھ اپنے تمام تر وسائل جھونک دیے تھے۔ فوج کی سپورٹ بھی حاصل تھی ، آئی بی کے سربراہ اور آپریشن کے سالار جنرل نصیراللہ بابر جیسے ایماندار ، نڈر اور فائٹر وزیرِ داخلہ نے خود کراچی میں ڈیرہ ڈال دیا تھا۔
آج قانون شکنوں کے گروہ ایک نہیں آدھی درجن کے قریب ہیں جن میں سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگز، فرقہ پرست دہشت گردتنظمیں، طالبان،القاعدہ اور دیگر مافیاز شامل ہیں۔ غیر ملکی مداخلت اورمدد کہیں زیادہ ہے ۔ پولیس کی استعداد اور پیشہ وارانہ صلاحیت بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہے۔ صوبے کی گورننس بے حد ناقص اور غیر معیاری ہے، پولیس کو اتنے بڑے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے جس جذبے (Motivation)کی ضرورت ہے وہ پولیس کی اپنی کمانڈ پیدا کر تی ہے اور وسائل حکومت فراہم کرتی ہے۔ اس وقت دونوں یہ ذمے داری نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
کچھ بڑی رکاوٹیں درج ذیل ہیں:
۱:صوبہ سندھ کی برُی گورننس۔پولیس کی آسامیاں ممبروںمیں تقسیم ہوں یا بیچی جائیں، equipmentکی خریداری میںکمیشن کھایا جائے اور اچھے افسروں کو برداشت نہ کیا جائے (کراچی کے تین آپریشنل ڈی آئی جیز میں سے اچھی شہرت رکھنے والے دوڈی آئی جیز ہٹا دیے گئے ہیں) سرکاری ملازم کبھی شکیب قریشی کو پیسے دیکر لگتے ہوں، کبھی ٹپی کو اور کبھی فریال تالپور کو تو ایسی گورننس کو کیا کہا جائے گا؟
۲:صوبے کی دونوں بڑی پارٹیوں(پی پی پی اور ایم کیو ایم) میں خلوص اور نیک نیتی کا فقدان
۳:اسلام آباد اور کراچی کی سوچ اور سمت یکساں نہیں۔
۴:کراچی پولیس اور رینجرز میں ہم آہنگی کا فقدان۔ جنرل رضوان اختر کے دور میں ربط اور تعاون بہتر تھا۔ اب سولو فلائٹ کا رجحان زیادہ ہے۔
۵:کمانڈ اور آپریشنل لیول پر پولیس کی استعداد (Capacity) کے بنیادی مسائل،جب ستمبر 2013 میںآپریشن شروع ہوا تو خیال تھا کہ پولیس کو مطلوبہ وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
۶:پولیس کا فرسودہ نظام جس نے پولیس کی آپریشنل اٹانومی سَلب کر رکھی ہے جس کے باعث پولیس فوری طور پر respond نہیں کر سکتی اور جس کے تحت کوئی فورس نئے دور کے چیلنجز سے نبرد آزما نہیں ہو سکتی ۔
بد قسمتی سے کرپشن اور بد ترین گورننس زرداری حکومت کا طرّہء امتیاز بن چکا ہے۔ باخبر حضرات سمجھتے ہیں کہ سندھ کی سیاسی قیادت کا ایجنڈا اور پروگرام یہی طرز ِ حکمرانی ہے جسے بدلنے یا ٹھیک کرنے کا کوئی ارادہ یا نیّت نہیں ہے۔ بری گورننس خوفناک امراض اور خطرناک بیماریوں کی ماں ہے جو جرائم، مجرموں کے منظم گروہوں اور مافیاز کو جنم دیتی ہے۔ گورننس اچھی ہوتی جو عوام کو تحفّظ، انصاف اور ان کی بنیادی ضروریات (services ) فراہم کرتی اور مختلف علاقوں کو نظر انداز نہ کرتی توآج لینڈ مافیا ، بھتہ مافیا اور ڈرگ مافیاز سے کراچی پاک ہوتا۔
کراچی کی حالیہ واردات میں بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی راء کے ملوث ہونے کے واضح امکانات ہیں مگر ان تجزیہ کاروں پر حیرانی ہوتی ہے جو راء کا نام آتے ہی یوں اچھلتے ہیں جیسے ان کی دم پر پاؤںرکھ دیا گیا ہو ، جیسے بھارت کی مبیّنہ مداخلت کا ذکر کرنا کوئی جرم ہو ۔ اسلام سے بغض رکھنے والے ان عناصر کی خواہش ہوتی ہے کہ دہشت گردی کی ہر واردات کا ذمے دار صرف اسلام کو قرار دیا جائے، وہ اس کی آڑ میں اسلامی اقدار پر وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے اثرات خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ اس سے اپنے دین سے محبت کرنے والی قوم میں غم و غصّہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے نوجوان انتہا پسندی کی طرف چل پڑتے ہیں۔
بعض تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ نیکٹا کو فعال بنانے اور اسے فنڈز فراہم کرنے سے دہشتگردی کے مسئلے پر قابو پا لیا جائیگا۔ اس سلسلے میں گذاراش ہے کہ اس جنگ میں لیڈ رول چونکہ فوج کے پاس ہے اس لیے نیکٹا کا کردار محدود اور غیر اہم سا رہے گا اور اس کے سربراہ کی حیثیت بارہویں کھلاڑی سے زیادہ نہیں ہوگی۔
چونکہ ریاست پاکستان نے اپنے باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے اس لیے اس جنگ میں مرکزی کردار وزارت ِ داخلہ نے ادا کرنا ہے مگر وزیر اعظم کے عدمِ اعتماد کے باعث وزارتِ داخلہ اس وقت غیر فعال ہے ۔ وزیرِ داخلہ بڑے قابل اور اعلیٰ پائے کے مقررّ ہیں مگر ان کی اصل فیلڈ سیاست ہے جہاں ان کی صلاحیّتوں کا بہتر استعمال ہو سکتا ہے، ملک دشمنوں سے نبرد آزما جانبازوں کا کہنا ہے کہ اِس جنگ کو لیڈ کرنے کے لیے کسی مرد ِمیدان کی ضرورت ہے جو سیاست سے بالاتر ہو کر فیصلے کر سکے، جنرل نصیر اللہ بابر کی طرح نڈر ہو، فیلڈ کمانڈرز کی اس تک رسائی ہو(وہ ان سے ایک کال یا SMS کے فاصلے پر ہو) اور جو پولیس فورس کی حساسیّت کا ادراک رکھتا ہو۔ وزرت ِ داخلہ کے غیر فعال ہونے سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
صوت ِ احوال کی بہتری کیسے ممکن ہے؟سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت اصلاحِ احوال کے لیے اقدامات کرے لیکن سندھ اور کراچی کے با خبر حضرات کے خیال میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ محدود مدت کے لیے گورنر راج لگا کر امن و امان کی صورت ِ حال بہتر بنائی جائے، اس کے بھی منفی پہلو زیادہ ہیں۔ سندھ کے عوام کی نمایندگی بہر حال پی پی پی اور ایم کیو ایم ہی کرتی ہیں۔
کوئی بھی اچھا کام یا آپریشن عوامی تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے عوامی تائید کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ اس سے مختلف صوبوں میں غیر آئینی اقدامات کے دروازے کھل جائیں گے اور مارشل لاء کی راہ ہموار ہو گی جو ملک کے لیے تباہ کن ہوگا۔ ناچیز کی رائے میں حل گورنر راج نہیں، بااختیارایپکس کمیٹی ہے۔ ایپکس کمیٹی اپنے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے (زبردستی ) اعلیٰ پائے کے افسران تعّینات کرائے اور امن و امان کی بحالی تک سیاسی اور سرکاری مداخلت کے دروازے مکمل طور پر بند کرادے۔
مرکزی حکومت نے جب ناچیز کو آئی جی سندھ لگانے کا عندیہ دیا تو کئی لوگوں نے پوچھا ''کراچی کے حالت ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟''تو میرا واضح جواب تھا کہ آئی جی کو اپنی ٹیم بنانے کا مکمّل اختیار دیا جائے تو چار سے پانچ مہینوں میں امن بحال ہو جائے گا اور عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ آج بھی سندھ پولیس کو اعلیٰ پائے کی کمانڈ میّسر آجائے تو چار پانچ مہینوں میں حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔
اگر ایپکس کمیٹی آئی جی اور سی سی پی او کے عہدوں پر ایسے افسر تعینات کروا سکے جو نڈر، ایماندار اور غیر جانبدار ہوں تو آئی بی کی معاونت سے چند مہینوں میں مافیاز اور ملک کے اندر جڑیں رکھنے والے دہشت گردوں کو کچلا جا سکتا ہے ۔ رہی غیر ملکی مداخلت اورمدد سے ہونے والی دہشت گردی تو اسے روکنے، محدود کر دینے یااس کے مکمّل انسداد کے لیے عسکری انٹیلی جنس اداروں کی تمام صلاحتیں اور وسائل بروئے کار لانا ہوں گے اور یہ بھی ڈیڑھ دو برسوں میں ہو سکتا ہے، بالکل ہو سکتا ہے۔