’’آج کیا پکایا ہے‘‘
ہمارے پاکستان کی یہ حیثیت موجود ہے اور زندہ ہے۔ ہمارا پڑوسی جو اپنے زعم میں ایک ’سپر پاور‘ ہے
بڑے بڑے زمینداروں جن کی دور دور تک پھیلی ہوئی زمینوں میں ریلوے کے بھی دو دو اسٹیشن آتے ہیں یہ منظر میں نے ملتان سے بہاول پور جاتے ہوئے دیکھا جب ایک کے بعد دوسرا ریلوے اسٹیشن ایک زمیندار کی ملکیتی زمینوں میں موجود تھا۔
وہ ارب پتی کاروباری رؤسا جن کا پورا ملک مقروض دکھائی دیتا ہے پھر ایسے ڈیرہ دار جن کے زیر اثر علاقے میں ہر مرد ان کا پیدائشی ملازم ہے اور ہر عورت ان کی پسند کی محتاج ہے کہ وہ آزاد ہے یا نہیں ہے اور اس کے پاس قدرت کا جو کچھ ہے وہ اس کا اپنا یا اس کے متوقع شوہر کا ہے یا نہیں ہے۔ اس پرلے درجے کے بے رحمانہ ماحول میں جو زندہ ہیں اور انسانی شرف سے محروم زندگی بسر کرنے کی جرات کر رہے ہیں ان سے کوئی خود داری کی کیا توقع کر سکتا ہے ان کی توانائیاں تو ان کا ماحول کھا گیا اور اب وہ کسی نہ کسی طرح بس زندہ رہ کر کمال کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری قوم انھی خاک افتادہ یعنی قرآنی زبان میں بھی زمین کے اپنی کمزور ترین خاک بسر لوگوں کی قوم ہے اور گوناگوں تہذیبی اور جغرافیائی پابندیوں میں پھنسی ہوئی ہے ایسے میں ہم اپنے آپ سے اور ہمارے دوست ہم سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔ ہم اٹھارہ بیس کروڑ پاکستانی جو وسیع سمندر اور سربفلک پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہیں اپنے اس جغرافیے کی وجہ سے ایک دلکش ملک اور قوم ہیں۔ ہمارے شمال میں انسانوں کا ایک سمندر آباد ہے وسطی ایشیا کے زرخیز ملک ہیں پھر روس ہے جو اپنی عظمت رفتہ پر آنسو بہا رہا ہے اور یہ عظمت رفتہ بڑے نام والی تھی دنیا میں دوسرے بڑے نام والی مگر اس کا آفتاب اپنی دھوپ کے ساتھ ہی غروب ہو رہا تھا اور ایک خاص بات جو یاد رہے گی وہ یہ تھی کہ اس دوسری بڑی سپر پاور کے سفیر جناب سرور عظیموف نے اس کالم نگار سے کہا کہ وہ پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک رسائی کے خواہش مند ہیں۔
وہ سرد پانیوں میں بہت ٹھٹھر چکے ہیں۔ میں ان کی کسی خدمت کی پوزیشن میں ہر گز نہیں تھا لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری پڑوسی سپر پاور اب ضعف کی کس کیفیت میں پہنچ چکی ہے کہ ایک کالم نگار سے بھی اتنا کچھ طلب کر رہی ہے جو اس طاقت کے مقام و رتبہ سے بہت ہی کمتر ہے۔
بات پاکستان کے جغرافیے کی ہے تو اب تک زندہ دوسری سپر پاور نے پاکستان کو حکم دیا کہ وہ شمال کی سمت اس کی پیش قدمی کو آسان بنائے یوں یہ ملک اپنے غیر معمولی جغرافیے کی طاقت کی وجہ سے وقت کی دونوں سپر پاورز کا مطلوب رہا۔ ایک جو کمزور تھی اس نے ایک رعایت کی درخواست کی اور دوسری جو عروج پر تھی اس نے بھی اپنے لیے ایک سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا لیکن دونوں کی محتاجی واضح تھی اور ہماری حکومتوں کی تابعداری بھی جن کو اپنی طاقت کا احساس نہیں تھا اور اگر تھا تو وہ اس جرات سے خالی جو کسی آزاد ملک میں ہوا کرتی ہے اور پھر جس حکومت میں سوچ کا خانہ خالی ہو صرف خوف ہی خوف ہو وہ اپنی خداداد حیثیت سے فائدہ اٹھاتی ہے اور کچھ لے کر ہی سر جھکاتی ہے۔
ہمارے پاکستان کی یہ حیثیت موجود ہے اور زندہ ہے۔ ہمارا پڑوسی جو اپنے زعم میں ایک 'سپر پاور' ہے بذریعہ افغانستان کہیں آگے جانا چاہتی ہے کیونکہ وہ وسطی ایشیا تک پاکستان کی مرضی کے بغیر نہیں جا سکتی۔ میں نے وسطی ایشیا کے بعض شہروں میں بھارت کے بنے ہوئے ہوٹل دیکھے ہیں اور ان میں قیام سے معذرت کی ہے لیکن وسطی ایشیا کی سابق روسی مقبوضہ ریاستوں میں روس کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ بھارت پر کرنا چاہتا ہے مگر وہ وہاں جاتے کیسے بیچ میں ایک دشمن ملک حائل ہے۔
بھارت کو ہم پاکستانی اگرچہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کیونکہ ہمارا ماضی ہمیں دشمنی کے اس تعلق سے آزاد نہیں کرتا لیکن دیوار کی دوسری طرف موجود ایک گھر کے ساتھ قطعاً لاتعلقی مشکلات کا سبب بنتی ہے اس لیے دروازہ نہیں تو کوئی کھڑکی ضرور کھلی رہنی چاہیے تا کہ اگر دوسرے گھر میں کچھ اچھا مزیدار کھانا پکا ہو تو مشرقی روایات کے مطابق اس کا تبادلہ کیا جا سکے۔ یہ ضرور ہے کہ ماضی کی تلخیاں راستے میں آ جاتی ہیں جو بدمزہ کر دیتی ہیں لیکن پھر بھی دوسرے گھر میں آواز دینا آسان رہنا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ لاتعداد الجھنوں کے شکار رہیں گے۔
آزادی سے پہلے کی الجھنیں جنھیں اندرا گاندھی نے ایک ہزار برس کی الجھنیں بلکہ غلامی کہا تھا پھر آزادی کے وقت بھی فسادات نے دونوں قوموں کو پریشان کر دیا اور آزادی کی زندگی میں جنگیں بھی برپا ہوئیں اور کشمیر جیسا مسئلہ اب تک موجود ہے یوں آزادی کے بعد بھی حالات پرسکون نہیں رہے لیکن دونوں ملکوں میں علیک سلیک ضرور ہونی چاہیے وہ علیک سلیک نہیں جس کا ذکر ہمارے لیڈر نے کیا تھا کہ الیکشن میں قوم نے مجھے بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے ووٹ دیے ہیں۔
افسوس کہ یہ بات حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور ایک خطرناک خواہش کی غماز بھی لیکن اس میں اعتدال پیدا کیا جا سکتا ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے پر قربان نہ ہوں بس تعلقات بہتر رکھیں مشترکہ موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہیں اور بندیا اور ساڑھی کی تعریف بھی کرتے رہیں تا کہ ذہنوں کی تلخیاں کچھ کم ہوں لیکن کیا کریں کہ بھارت پاکستان کو ضرب شدید لگائے بغیر چین نہیں لیتا اور اب تو ایٹم بم نے دونوں ملکوں کے درمیان بہت سارے مسئلے حل کر دیے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں جتنے بھی ہیں وہ دوسرے کی تباہی کے لیے کافی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اب جنگ کی بات چھوڑ کر تخریب کاری شروع کر دی ہے اور اس کے لیے اپنا جاسوسی ادارہ سرگرم کر دیا ہے یہ سوچے بغیر کہ ہماری بھی ایک آئی ایس آئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی ایک ڈراؤنا خواب تھی۔
اس کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ بھارت نے حسب معمول پاکستان میں اپنے ہمدردوں کو پھر سے سرگرم کر دیا ہے۔ یہ پاکستان کے خلاف بھارت کا پرانا ہتھیار ہے اور آزمودہ بھی لیکن ایک مشکل ہے کہ پاکستانی قوم کو بھارت کے اس ہتھیار کا خوب علم ہے اور وہ اس کی کاٹ کو جانتے ہیں اور اس کا علاج بھی ان کے پاس موجود ہے۔ ان دنوں چین کے ساتھ راہداری کا سلسلہ چلا ہے تو یہ لوگ یوں لگتا ہے جیسے یہ راستہ ان کے اوپر سے گزر کر جائے گا۔ ان میں بعض نے بے تاب ہو کر کہہ دیا ہے کہ ہم اسے بھی کالا باغ ڈیم بنا دیں گے۔ یہ بات مختصر نہیں ہے اس کا ذکر پھر کریں گے۔ ذرا تفصیل کے ساتھ۔
وہ ارب پتی کاروباری رؤسا جن کا پورا ملک مقروض دکھائی دیتا ہے پھر ایسے ڈیرہ دار جن کے زیر اثر علاقے میں ہر مرد ان کا پیدائشی ملازم ہے اور ہر عورت ان کی پسند کی محتاج ہے کہ وہ آزاد ہے یا نہیں ہے اور اس کے پاس قدرت کا جو کچھ ہے وہ اس کا اپنا یا اس کے متوقع شوہر کا ہے یا نہیں ہے۔ اس پرلے درجے کے بے رحمانہ ماحول میں جو زندہ ہیں اور انسانی شرف سے محروم زندگی بسر کرنے کی جرات کر رہے ہیں ان سے کوئی خود داری کی کیا توقع کر سکتا ہے ان کی توانائیاں تو ان کا ماحول کھا گیا اور اب وہ کسی نہ کسی طرح بس زندہ رہ کر کمال کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری قوم انھی خاک افتادہ یعنی قرآنی زبان میں بھی زمین کے اپنی کمزور ترین خاک بسر لوگوں کی قوم ہے اور گوناگوں تہذیبی اور جغرافیائی پابندیوں میں پھنسی ہوئی ہے ایسے میں ہم اپنے آپ سے اور ہمارے دوست ہم سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔ ہم اٹھارہ بیس کروڑ پاکستانی جو وسیع سمندر اور سربفلک پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہیں اپنے اس جغرافیے کی وجہ سے ایک دلکش ملک اور قوم ہیں۔ ہمارے شمال میں انسانوں کا ایک سمندر آباد ہے وسطی ایشیا کے زرخیز ملک ہیں پھر روس ہے جو اپنی عظمت رفتہ پر آنسو بہا رہا ہے اور یہ عظمت رفتہ بڑے نام والی تھی دنیا میں دوسرے بڑے نام والی مگر اس کا آفتاب اپنی دھوپ کے ساتھ ہی غروب ہو رہا تھا اور ایک خاص بات جو یاد رہے گی وہ یہ تھی کہ اس دوسری بڑی سپر پاور کے سفیر جناب سرور عظیموف نے اس کالم نگار سے کہا کہ وہ پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک رسائی کے خواہش مند ہیں۔
وہ سرد پانیوں میں بہت ٹھٹھر چکے ہیں۔ میں ان کی کسی خدمت کی پوزیشن میں ہر گز نہیں تھا لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری پڑوسی سپر پاور اب ضعف کی کس کیفیت میں پہنچ چکی ہے کہ ایک کالم نگار سے بھی اتنا کچھ طلب کر رہی ہے جو اس طاقت کے مقام و رتبہ سے بہت ہی کمتر ہے۔
بات پاکستان کے جغرافیے کی ہے تو اب تک زندہ دوسری سپر پاور نے پاکستان کو حکم دیا کہ وہ شمال کی سمت اس کی پیش قدمی کو آسان بنائے یوں یہ ملک اپنے غیر معمولی جغرافیے کی طاقت کی وجہ سے وقت کی دونوں سپر پاورز کا مطلوب رہا۔ ایک جو کمزور تھی اس نے ایک رعایت کی درخواست کی اور دوسری جو عروج پر تھی اس نے بھی اپنے لیے ایک سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا لیکن دونوں کی محتاجی واضح تھی اور ہماری حکومتوں کی تابعداری بھی جن کو اپنی طاقت کا احساس نہیں تھا اور اگر تھا تو وہ اس جرات سے خالی جو کسی آزاد ملک میں ہوا کرتی ہے اور پھر جس حکومت میں سوچ کا خانہ خالی ہو صرف خوف ہی خوف ہو وہ اپنی خداداد حیثیت سے فائدہ اٹھاتی ہے اور کچھ لے کر ہی سر جھکاتی ہے۔
ہمارے پاکستان کی یہ حیثیت موجود ہے اور زندہ ہے۔ ہمارا پڑوسی جو اپنے زعم میں ایک 'سپر پاور' ہے بذریعہ افغانستان کہیں آگے جانا چاہتی ہے کیونکہ وہ وسطی ایشیا تک پاکستان کی مرضی کے بغیر نہیں جا سکتی۔ میں نے وسطی ایشیا کے بعض شہروں میں بھارت کے بنے ہوئے ہوٹل دیکھے ہیں اور ان میں قیام سے معذرت کی ہے لیکن وسطی ایشیا کی سابق روسی مقبوضہ ریاستوں میں روس کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ بھارت پر کرنا چاہتا ہے مگر وہ وہاں جاتے کیسے بیچ میں ایک دشمن ملک حائل ہے۔
بھارت کو ہم پاکستانی اگرچہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کیونکہ ہمارا ماضی ہمیں دشمنی کے اس تعلق سے آزاد نہیں کرتا لیکن دیوار کی دوسری طرف موجود ایک گھر کے ساتھ قطعاً لاتعلقی مشکلات کا سبب بنتی ہے اس لیے دروازہ نہیں تو کوئی کھڑکی ضرور کھلی رہنی چاہیے تا کہ اگر دوسرے گھر میں کچھ اچھا مزیدار کھانا پکا ہو تو مشرقی روایات کے مطابق اس کا تبادلہ کیا جا سکے۔ یہ ضرور ہے کہ ماضی کی تلخیاں راستے میں آ جاتی ہیں جو بدمزہ کر دیتی ہیں لیکن پھر بھی دوسرے گھر میں آواز دینا آسان رہنا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ لاتعداد الجھنوں کے شکار رہیں گے۔
آزادی سے پہلے کی الجھنیں جنھیں اندرا گاندھی نے ایک ہزار برس کی الجھنیں بلکہ غلامی کہا تھا پھر آزادی کے وقت بھی فسادات نے دونوں قوموں کو پریشان کر دیا اور آزادی کی زندگی میں جنگیں بھی برپا ہوئیں اور کشمیر جیسا مسئلہ اب تک موجود ہے یوں آزادی کے بعد بھی حالات پرسکون نہیں رہے لیکن دونوں ملکوں میں علیک سلیک ضرور ہونی چاہیے وہ علیک سلیک نہیں جس کا ذکر ہمارے لیڈر نے کیا تھا کہ الیکشن میں قوم نے مجھے بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے ووٹ دیے ہیں۔
افسوس کہ یہ بات حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور ایک خطرناک خواہش کی غماز بھی لیکن اس میں اعتدال پیدا کیا جا سکتا ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے پر قربان نہ ہوں بس تعلقات بہتر رکھیں مشترکہ موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہیں اور بندیا اور ساڑھی کی تعریف بھی کرتے رہیں تا کہ ذہنوں کی تلخیاں کچھ کم ہوں لیکن کیا کریں کہ بھارت پاکستان کو ضرب شدید لگائے بغیر چین نہیں لیتا اور اب تو ایٹم بم نے دونوں ملکوں کے درمیان بہت سارے مسئلے حل کر دیے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں جتنے بھی ہیں وہ دوسرے کی تباہی کے لیے کافی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اب جنگ کی بات چھوڑ کر تخریب کاری شروع کر دی ہے اور اس کے لیے اپنا جاسوسی ادارہ سرگرم کر دیا ہے یہ سوچے بغیر کہ ہماری بھی ایک آئی ایس آئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی ایک ڈراؤنا خواب تھی۔
اس کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ بھارت نے حسب معمول پاکستان میں اپنے ہمدردوں کو پھر سے سرگرم کر دیا ہے۔ یہ پاکستان کے خلاف بھارت کا پرانا ہتھیار ہے اور آزمودہ بھی لیکن ایک مشکل ہے کہ پاکستانی قوم کو بھارت کے اس ہتھیار کا خوب علم ہے اور وہ اس کی کاٹ کو جانتے ہیں اور اس کا علاج بھی ان کے پاس موجود ہے۔ ان دنوں چین کے ساتھ راہداری کا سلسلہ چلا ہے تو یہ لوگ یوں لگتا ہے جیسے یہ راستہ ان کے اوپر سے گزر کر جائے گا۔ ان میں بعض نے بے تاب ہو کر کہہ دیا ہے کہ ہم اسے بھی کالا باغ ڈیم بنا دیں گے۔ یہ بات مختصر نہیں ہے اس کا ذکر پھر کریں گے۔ ذرا تفصیل کے ساتھ۔