’’را‘‘ کی سرگرمیاں بھارتی فلموں پر پابندی
پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بہت سر گرم کردار ادا کر رہی ہے
اب جب کہ یہ حقیقت تقریباً پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' بہت سر گرم کردار ادا کر رہی ہے با خبر ذریعوں کے مطابق وفاقی حکومت نے بڑی سنجیدگی سے اس تجویز پر غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی در آمد اور نمائش پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ ایک طرف ''را'' پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے تباہی پھیلا رہی ہو اور ہماری قوم کا ایک بڑا طبقہ مزے لے لے کر بھارتی فلمیں دیکھ رہا ہو۔
اس سلسلے میں وفاقی سطح پر ایک اطلاع کے مطابق مختلف گروپوں کی طرف سے مختلف نوعیت کی تجاویز سامنے آ رہی ہیں، مثلاً محب وطن پاکستانیوں کا ایک طاقتور گروپ تو بغیر کسی کنفیوژن اور تحفظات کے مکمل پابندی کے حق میں ہے۔ دوسرا گروپ جزوی پابندی چاہتا ہے جب کہ تیسرا گروپ بھارتی فلموں کی نمائش جاری رکھنے کے عوض قومی مفاد میں بھارت سے کچھ باتیں منوانا چاہتا ہے۔ ان ہی گروپوں کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے مندرجہ ذیل تین آپشنز شارٹ لسٹ کیے ہیں۔
پہلی تجویز تو یہ ہے کہ بھارتی فلموں پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے اسے بھی تفصیل سے اسٹڈی کیا گیا ہے جہاں تک ٹی وی چینلز پر بھارتی فلمیں دکھائے جانے کا تعلق ہے پہلے یہ خدشات پائے جاتے تھے کہ انڈین فلموں کے ایک بلیک آئوٹ سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گا جسے پر کرنا مشکل ہو گا۔
مگر اب مختلف چینلز پر دکھائے جانے والے پاکستانی ڈراموں نے یہ خلا پر کر دیا ہے خاص طور پر ناظرین میں شامل ننانوے فی صد خواتین بھارتی فلموں کے مقابلے میں پاکستانی ڈرامے زیادہ خشوع و خضوع سے دیکھ رہی ہیں۔ ادھر سینمائوں میں بھارتی فلموں کی نمائش سے زیادہ تر امرا (ELITES) کا ایک محدود طبقہ محظوظ ہو رہا ہے یہ طبقہ بڑی اچھی قسمت لکھوا کر لایا ہے چاہے ملک میں قیامت ہی کیوں نہ برپا ہو رہی ہو، اس طبقے کی سرگرمیاں (عیاشیاں) جاری رہتی ہیں اور وہ زندگی کی تمام اچھی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔
جن میں سے ایک سینما گھر جا کر خاصے مہنگے ٹکٹ خرید کر ایئرکنڈیشنڈ ہال میں بھارتی فلمیں دیکھنا بھی شامل ہے۔ اس لیے بھارتی فلموں کی در آمد اور نمائش بند ہونے سے من حیث القوم عام لوگوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بد قسمتی سے جتنے سینما گھر عوام کے لیے قابل رسائی علاقوں میں تھے وہ پہلے ہی شاپنگ مالز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
لیکن سچی بات ہے کہ ایک اور گروپ بھارتی فلموں پر مکمل پابندی کو انتہائی اور سخت اقدام سمجھتا ہے اور جزوی پابندی کے حق میں ہے، اگر اس گروپ کے احساسات و جذبات کا خیال رکھا جائے تو حکومت کو ایک نرم اور ڈھیلی ڈھالی سنسر شپ عائد کر کے صرف سلیکٹڈ فلمیں پاکستان میں دکھانی ہوں گی یعنی وہ فلمیں جو تشدد VIOLENCE اور بے ہودگی VULGARITY سے پاک ہوں اور فیملی کے ساتھ دیکھی جا سکیں ایسی فلموں کو اپنے اچھے مقصد اور پیغام کی وجہ سے ان انگریزی فلموں کی طرح جن کو بچوں اور بڑوں کو رٹایا جا رہا ہے بار بار دکھایا جائے گا جب تک ناظرین کو ان کے مکالمے ازبر نہیں ہو جاتے۔
ایسی فلموں میں سے ایسی غیرضروری اور فضول ناچ اور گانے بھی نکال دیے جائیں گے جو عوام کے اخلاق و کردار پر برے اثرات مرتب کرتے ہوں، مثلاً آج کل بھارتی فلموں میں یہ ٹرینڈ عام ہے کہ ایسا فری فار آل پبلک ڈانس ضرور دکھایا جاتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں میل فیمیل ایکسٹراز حصہ لیتے ہیں اس کا بھی ایک اقتصادی پہلو ہے بھارتی فلمساز سمجھتے ہیں کہ یہ ایکسٹراز خود کو دیکھنے کے چکر میں اپنی فیملی کے ساتھ اگر ایک فلم دیکھ لیں تو فلم چل جاتی ہے اور کم از کم فلم بنانے کا خرچہ نکل آتا ہے، ایسے پبلک ڈانس اگر فلموں سے نکال دیے جائیں تو فلم بینوں کا خاصا وقت بچایا جا سکتا ہے۔
شاید ہم حسب عادت اپنے اصل موضوع سے ہٹ کر کسی اور طرف نکل گئے۔ ایک تیسرے گروپ کی سفارشات پر جو بظاہر ''سپر پیٹریاٹ'' لگتا ہے حکومت اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ بھارتی فلموں کی نمائش کے بدلے بھارت سے کچھ شرطیں منوائی جائیں۔ مثلاً پاکستان میں دکھائی جانے والی بھارتی فلم میں ایک پاکستانی اداکارہ یا اداکار کا کام کرنا لازمی ہو گا یا پھر فلم کے یونٹ میں ہدایت کار، مصنف، کیمرہ مین، ایڈیٹر کوئی نہ کوئی ایک ضرور پاکستانی ہو گا۔ ایک اور تجویز یہ بھی ہے کہ اچھے دور اور پرانے وقتوں کی پاکستانی مقبول فلمیں بھارت میں ''ری کنڈیشنڈ'' کروا کے پاکستان میں دکھائی جائیں، کئی کلاسیکل فلمیں ایسی ہیں جو ''ری میکنگ'' کے بعد مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر سکتی ہیں۔ بہرکیف حکومت کو بہت جلد ان میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنا ہو گا جن میں سے مکمل پابندی کا فیصلہ ماہرین کے خیال میں سب سے آسان لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کے لیے برسر اقتدار جماعت کو آئین میں کوئی ترمیم لانی پڑے اور کوئی نیا قانون بنانا پڑے جو مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔
دریں اثناء بھارتی فلموں پر پابندی کی خبر سے صرف پاکستان میں ہی نہیں بھارتی فلم انڈسٹری میں بھی خاصی بے چینی پھیل گئی ہے۔ پریشان ہونے والوں میں زیادہ تر صف اول کے بھارتی ہیرو اور ہیروئنیں شامل ہیں۔ یہ لوگ پاکستان میں اپنی فلمیں دکھائے جانے کے سبب اپنے فلمسازوں سے مبینہ طور پر زیادہ معاوضے کا ڈیمانڈ کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دنیا بھر میں شہرت اور مقبولیت میں بھی پاکستانی پرستاروں کا بڑا ہاتھ ہے جو اپنی فلموں سے محرومی کا غم بھارتی فلمیں دیکھ کر ہلکا کرتے ہیں۔
ایک صاحب کے بقول جب انھوں نے رد عمل جاننے کے لیے شاہ رخ خان، امیتابھ بچن، سلمان خان، عامر خان اور اداکارائوں میں ایشوریا رائے، کترینہ کیف، مادھوری ڈکشٹ وغیرہ سے رابطہ کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ زیادہ تر بھارتی اداکاروں اور اداکارائوں کے منہ پابندی کی خبر سن کر لٹک گئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے پاکستان میں ان کی فلموں کی نمائش بند ہونے سے ان کی دنیا اندھیر ہو جائے گی ان میں سے زیادہ تر سمجھتے ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا میں ان کے بارے میں زیادہ مثبت انداز میں خبریں شایع ہوتی ہیں بلکہ شاہ رخ اور کترینہ کیف کا یہ تک کہنا تھا کہ جب وہ لوگ پاکستان سے باہر ہو جاتے ہیں تو پاکستانی پرستار زیادہ خلوص اور گرم جوشی سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
امیتابھ بچن کی رائے تھی کہ پابندی مناسب نہیں کیوں کہ بھارتی فلمیں پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اس کھڑکی کو جس کے ذریعے پاکستانی اپنے انڈین بھائیوں کے دکھ درد دیکھ رہے اور محسوس کر رہے ہیں بند نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں ان کے خیال میں وہ دن بھی کبھی نہ کبھی ضرور آنا چاہیے کہ بھارت میں بھی اتنی ہی تعداد میں پاکستانی فلموں کی نمائش ہو سکے اور اس کے لیے بقول ان کے بھارتی فلمسازوں کو پہل کرنا چاہیے۔ اداکار نصیر الدین شاہ کا بھی کہنا تھا کہ انھیں بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے اپنی فلموں پر زیادہ اچھا فیڈ بیک ملتا ہے اور اگر پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی لگی تو خاص طور پر ان کا بڑا نقصان ہو گا۔ بقول ان کے بھارتی فلموں کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں وہ درحقیقت سماجی اور ثقافتی رابطوں کا ذریعہ ہیں جن کو جاری رہنا چاہیے۔
وفاقی حکومت بہر حال ایک اچھے خاصے مخمصے سے دو چار ہو گئی ہے، ایک طرف ملکی و قومی تقاضے ہیں اور دوسری طرف کاروباری مفادات اور اسے بہت جلد ان میں سے کسی ایک راستے کا چنائو کرنا ہے۔
اس سلسلے میں وفاقی سطح پر ایک اطلاع کے مطابق مختلف گروپوں کی طرف سے مختلف نوعیت کی تجاویز سامنے آ رہی ہیں، مثلاً محب وطن پاکستانیوں کا ایک طاقتور گروپ تو بغیر کسی کنفیوژن اور تحفظات کے مکمل پابندی کے حق میں ہے۔ دوسرا گروپ جزوی پابندی چاہتا ہے جب کہ تیسرا گروپ بھارتی فلموں کی نمائش جاری رکھنے کے عوض قومی مفاد میں بھارت سے کچھ باتیں منوانا چاہتا ہے۔ ان ہی گروپوں کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے مندرجہ ذیل تین آپشنز شارٹ لسٹ کیے ہیں۔
پہلی تجویز تو یہ ہے کہ بھارتی فلموں پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے اسے بھی تفصیل سے اسٹڈی کیا گیا ہے جہاں تک ٹی وی چینلز پر بھارتی فلمیں دکھائے جانے کا تعلق ہے پہلے یہ خدشات پائے جاتے تھے کہ انڈین فلموں کے ایک بلیک آئوٹ سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گا جسے پر کرنا مشکل ہو گا۔
مگر اب مختلف چینلز پر دکھائے جانے والے پاکستانی ڈراموں نے یہ خلا پر کر دیا ہے خاص طور پر ناظرین میں شامل ننانوے فی صد خواتین بھارتی فلموں کے مقابلے میں پاکستانی ڈرامے زیادہ خشوع و خضوع سے دیکھ رہی ہیں۔ ادھر سینمائوں میں بھارتی فلموں کی نمائش سے زیادہ تر امرا (ELITES) کا ایک محدود طبقہ محظوظ ہو رہا ہے یہ طبقہ بڑی اچھی قسمت لکھوا کر لایا ہے چاہے ملک میں قیامت ہی کیوں نہ برپا ہو رہی ہو، اس طبقے کی سرگرمیاں (عیاشیاں) جاری رہتی ہیں اور وہ زندگی کی تمام اچھی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔
جن میں سے ایک سینما گھر جا کر خاصے مہنگے ٹکٹ خرید کر ایئرکنڈیشنڈ ہال میں بھارتی فلمیں دیکھنا بھی شامل ہے۔ اس لیے بھارتی فلموں کی در آمد اور نمائش بند ہونے سے من حیث القوم عام لوگوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بد قسمتی سے جتنے سینما گھر عوام کے لیے قابل رسائی علاقوں میں تھے وہ پہلے ہی شاپنگ مالز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
لیکن سچی بات ہے کہ ایک اور گروپ بھارتی فلموں پر مکمل پابندی کو انتہائی اور سخت اقدام سمجھتا ہے اور جزوی پابندی کے حق میں ہے، اگر اس گروپ کے احساسات و جذبات کا خیال رکھا جائے تو حکومت کو ایک نرم اور ڈھیلی ڈھالی سنسر شپ عائد کر کے صرف سلیکٹڈ فلمیں پاکستان میں دکھانی ہوں گی یعنی وہ فلمیں جو تشدد VIOLENCE اور بے ہودگی VULGARITY سے پاک ہوں اور فیملی کے ساتھ دیکھی جا سکیں ایسی فلموں کو اپنے اچھے مقصد اور پیغام کی وجہ سے ان انگریزی فلموں کی طرح جن کو بچوں اور بڑوں کو رٹایا جا رہا ہے بار بار دکھایا جائے گا جب تک ناظرین کو ان کے مکالمے ازبر نہیں ہو جاتے۔
ایسی فلموں میں سے ایسی غیرضروری اور فضول ناچ اور گانے بھی نکال دیے جائیں گے جو عوام کے اخلاق و کردار پر برے اثرات مرتب کرتے ہوں، مثلاً آج کل بھارتی فلموں میں یہ ٹرینڈ عام ہے کہ ایسا فری فار آل پبلک ڈانس ضرور دکھایا جاتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں میل فیمیل ایکسٹراز حصہ لیتے ہیں اس کا بھی ایک اقتصادی پہلو ہے بھارتی فلمساز سمجھتے ہیں کہ یہ ایکسٹراز خود کو دیکھنے کے چکر میں اپنی فیملی کے ساتھ اگر ایک فلم دیکھ لیں تو فلم چل جاتی ہے اور کم از کم فلم بنانے کا خرچہ نکل آتا ہے، ایسے پبلک ڈانس اگر فلموں سے نکال دیے جائیں تو فلم بینوں کا خاصا وقت بچایا جا سکتا ہے۔
شاید ہم حسب عادت اپنے اصل موضوع سے ہٹ کر کسی اور طرف نکل گئے۔ ایک تیسرے گروپ کی سفارشات پر جو بظاہر ''سپر پیٹریاٹ'' لگتا ہے حکومت اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ بھارتی فلموں کی نمائش کے بدلے بھارت سے کچھ شرطیں منوائی جائیں۔ مثلاً پاکستان میں دکھائی جانے والی بھارتی فلم میں ایک پاکستانی اداکارہ یا اداکار کا کام کرنا لازمی ہو گا یا پھر فلم کے یونٹ میں ہدایت کار، مصنف، کیمرہ مین، ایڈیٹر کوئی نہ کوئی ایک ضرور پاکستانی ہو گا۔ ایک اور تجویز یہ بھی ہے کہ اچھے دور اور پرانے وقتوں کی پاکستانی مقبول فلمیں بھارت میں ''ری کنڈیشنڈ'' کروا کے پاکستان میں دکھائی جائیں، کئی کلاسیکل فلمیں ایسی ہیں جو ''ری میکنگ'' کے بعد مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر سکتی ہیں۔ بہرکیف حکومت کو بہت جلد ان میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنا ہو گا جن میں سے مکمل پابندی کا فیصلہ ماہرین کے خیال میں سب سے آسان لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کے لیے برسر اقتدار جماعت کو آئین میں کوئی ترمیم لانی پڑے اور کوئی نیا قانون بنانا پڑے جو مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔
دریں اثناء بھارتی فلموں پر پابندی کی خبر سے صرف پاکستان میں ہی نہیں بھارتی فلم انڈسٹری میں بھی خاصی بے چینی پھیل گئی ہے۔ پریشان ہونے والوں میں زیادہ تر صف اول کے بھارتی ہیرو اور ہیروئنیں شامل ہیں۔ یہ لوگ پاکستان میں اپنی فلمیں دکھائے جانے کے سبب اپنے فلمسازوں سے مبینہ طور پر زیادہ معاوضے کا ڈیمانڈ کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دنیا بھر میں شہرت اور مقبولیت میں بھی پاکستانی پرستاروں کا بڑا ہاتھ ہے جو اپنی فلموں سے محرومی کا غم بھارتی فلمیں دیکھ کر ہلکا کرتے ہیں۔
ایک صاحب کے بقول جب انھوں نے رد عمل جاننے کے لیے شاہ رخ خان، امیتابھ بچن، سلمان خان، عامر خان اور اداکارائوں میں ایشوریا رائے، کترینہ کیف، مادھوری ڈکشٹ وغیرہ سے رابطہ کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ زیادہ تر بھارتی اداکاروں اور اداکارائوں کے منہ پابندی کی خبر سن کر لٹک گئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے پاکستان میں ان کی فلموں کی نمائش بند ہونے سے ان کی دنیا اندھیر ہو جائے گی ان میں سے زیادہ تر سمجھتے ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا میں ان کے بارے میں زیادہ مثبت انداز میں خبریں شایع ہوتی ہیں بلکہ شاہ رخ اور کترینہ کیف کا یہ تک کہنا تھا کہ جب وہ لوگ پاکستان سے باہر ہو جاتے ہیں تو پاکستانی پرستار زیادہ خلوص اور گرم جوشی سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
امیتابھ بچن کی رائے تھی کہ پابندی مناسب نہیں کیوں کہ بھارتی فلمیں پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اس کھڑکی کو جس کے ذریعے پاکستانی اپنے انڈین بھائیوں کے دکھ درد دیکھ رہے اور محسوس کر رہے ہیں بند نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں ان کے خیال میں وہ دن بھی کبھی نہ کبھی ضرور آنا چاہیے کہ بھارت میں بھی اتنی ہی تعداد میں پاکستانی فلموں کی نمائش ہو سکے اور اس کے لیے بقول ان کے بھارتی فلمسازوں کو پہل کرنا چاہیے۔ اداکار نصیر الدین شاہ کا بھی کہنا تھا کہ انھیں بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے اپنی فلموں پر زیادہ اچھا فیڈ بیک ملتا ہے اور اگر پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی لگی تو خاص طور پر ان کا بڑا نقصان ہو گا۔ بقول ان کے بھارتی فلموں کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں وہ درحقیقت سماجی اور ثقافتی رابطوں کا ذریعہ ہیں جن کو جاری رہنا چاہیے۔
وفاقی حکومت بہر حال ایک اچھے خاصے مخمصے سے دو چار ہو گئی ہے، ایک طرف ملکی و قومی تقاضے ہیں اور دوسری طرف کاروباری مفادات اور اسے بہت جلد ان میں سے کسی ایک راستے کا چنائو کرنا ہے۔