ایگزیکٹ ہیڈ آفس پر پھر چھاپہ ڈگریاں دستاویزات مونوگرام و دیگر سامان برآمد
تحقیقاتی ٹیم نے امبوزڈ اسٹیمپ کرنے والی کمپوٹرمشینیں اور مزید 4 کمپیوٹرز بھی قبضے میں لے لئے۔
جعلی ڈگری اسکینڈل میں ملوث ایگزیکٹ کمپنی کے کراچی ہیڈآفس پرایف آئی اے نے جمعرات کوایک اورچھاپہ مارااور مزید سامان قبضے میں لے لیا۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق حساس شواہد سے بھرے کمپیوٹرزکو ایک رکشے میں2اہلکاروں کے ساتھ ایف آئی اے کے دفترمنتقل کیاگیا۔ قبضے میں لیے گئے سامان میں مزید 4کمپیوٹر اور غیرترسیل شدہ ڈگریاں، سرٹیفکیٹس، غیرملکی یونیورسٹیوں کے مونوگرام، اسٹیمپ باکس بھی شامل ہیں۔ غیر ترسیل شدہ ڈگریاں گاہکوں تک پہنچائی جاناتھیں۔ دفترسے اسٹیمپ بنانے والی الیکٹرونک مشین بھی قبضے میں لے لی گئی۔ ڈگریوں کوامبوسڈ اسٹیمپنگ کرنے والی4کمپیوٹرائزڈ مشینیں بھی تحویل میں لی گئی ہیں۔
دیگر شہروں سے فارنسک ماہرین بھی کراچی پہنچ گئے جنھوں نے اہم ڈیٹاجمع کرنا شروع کردیا ہے۔ ایگزیکٹ کے 30سے زائد ملازمین کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ ایف آئی اے نے شعیب شیخ کودوسرا نوٹس جاری کردیا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ایگزیکٹ کے کمپیوٹرز سے اسکین ڈگریاں حاصل کر لی ہیں اور ان ڈگریوں کے اصلی یا جعلی ہونے کی تحقیق کی جا رہی ہے۔ یہ پتہ بھی چلایا جا رہا ہے کہ ڈگری دینے والی یونیورسٹی اصلی ہے یا جعلی۔ ایف آئی اے راولپنڈی میں ایگزیکٹ کے خلاف انکوائری ڈپٹی ڈائریکٹر طاہر تنویر سے لے کرڈپٹی ڈائریکٹر کارپوریٹ برانچ جلیل خان کو سونپ دی گئی ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qzjk0_fia-sealed-axact_news
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارنے ایف آئی اے سے ایگزیکٹ کے بارے میں تازہ رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ آن لائن کے مطابق کراچی میں ایف آئی اے حکام نے ایگزیکٹ کے 6 ملازمین یاسین وہرہ، ذیشان انور، رحیم کیشوانی، سلیم، سعیدعلی، اصغر پر تحقیقات مکمل ہونے تک ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qzmth_axact-officers-statements_news
ایگزیکٹ کمپنی کے سی ای اوشعیب شیخ بیان ریکارڈکرانے ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیںہوئے جبکہ 6افسران نے اپنے بیانات ریکارڈ کرادیے۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے شعیب شیخ کوآج دن 11بجے طلب کیاتھا تاہم وہ بیان دینے نہ آئے۔ ایف آئی اے نے انھیں دوسرانوٹس جاری کردیا ہے اوربیان ریکارڈ کرانے کے لیے48گھنٹے دیے ہیں۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ اگرشعیب شیخ 48گھنٹے میں پیش نہیں ہوتے توانھیں تیسرانوٹس جاری کیا جائے گاجس کے بعدانھیں عدالت کے ذریعے طلب کیاجائے گا۔
ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے 6افسران کوبھی طلبی کے نوٹس بھیجے تھے جس کے بعد ایگزیکٹ ریجنل ہیڈ کرنل(ر) جمیل احمد، سینئر منیجرسیفٹی اینڈسیکیورٹی کرنل(ر) محمدیونس، اسسٹنٹ منیجرایچ آر عابدخان، اسسٹنٹ منیجرآئی ٹی امجد، سیلزلیڈرز حسنین الرحمٰن اورسجاد حیدرنے انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر بیانات ریکارڈ کرادیے۔
دوسری جانب خلیجی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایگزیکٹ کمپنی میں بطور کالٹی ایشورینس آڈیٹر کام کرنے والے یاسر جمشید کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹ کمپنی کی جعلسازی کے راز افشا کرنے کے لئے حکام سے ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں تاہم مجھے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی 2 ہزار ملازمین پر مشتمل ٹیم کا کام سیلز ایجنٹ اور ڈگری حاصل کرنے والے افراد کے درمیان فون پر ہونے والی گفتگو سن کر اسے تحریری شکل میں ترتیب دینا تھا جب کہ ڈگریوں کی فروخت کے لئے سیلز ایجنٹ خود کو امریکی حکومت کا نمائندہ بھی قرار دیتے اور کبھی انہیں بلیک میل کرتے ہوئے دھمکیاں بھی دیتے۔
یاسر شاہ نے انکشاف کیا کہ ال این نامی خاتون نے تین سال کے دوران 18 جعلی ڈگریاں ایگزیکٹ کمپنی سے خریدیں اور ایک کال کے دوران میں نے سنا کہ سیلز ایجنٹ خود کو امریکی حکومت کا نمائندہ ظاہرکرتے ہوئے خاتون سے بات کر رہے تھے جب کہ سیلز ایجنٹ نے خاتون کو بلیک میل کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری حکام نے ان کی ڈگری میں بے قاعدگیاں تلاش کی ہیں جس کی بنیاد پر ڈگری کو جعلی قرار دیا جاسکتا ہے اور اگر انہوں نے 90 ہزار درہم جمع نہ کرائے تو وہ اپنی ڈگری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔
سابق ایگزیکٹ کمپنی کے ملازم نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ہر ٹیم میں 973 سیلز ایجنٹ ہیں جو جعلی ڈگریوں کی آن لائن فروخت کرتے ہوئے کمپنی کو یومیہ 40 ہزارڈالر منافع دیتے ہیں جب کہ ہر سیلز ایجنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یومیہ 299 ڈالر کا کاروبار کرے۔ انہوں نے بتایا کہ سیلز ایجنٹ کسٹمر کو ڈگری فروخت کرنے کے لئے کبھی انہیں مختلف پیشکش کرتے اور کبھی دھمکیوں کا سہارا بھی لیتے ہیں یہی نہیں ایگزیکٹ دبئی کی جانب سے آئی ٹی کمپنیوں کو دی جانے والی چھوٹ کا ناجائز استعمال کر رہی ہے جسے افشاں کرنے کے لئے حکام سے ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہوں۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qyih8
ایکسپریس نیوزکے مطابق حساس شواہد سے بھرے کمپیوٹرزکو ایک رکشے میں2اہلکاروں کے ساتھ ایف آئی اے کے دفترمنتقل کیاگیا۔ قبضے میں لیے گئے سامان میں مزید 4کمپیوٹر اور غیرترسیل شدہ ڈگریاں، سرٹیفکیٹس، غیرملکی یونیورسٹیوں کے مونوگرام، اسٹیمپ باکس بھی شامل ہیں۔ غیر ترسیل شدہ ڈگریاں گاہکوں تک پہنچائی جاناتھیں۔ دفترسے اسٹیمپ بنانے والی الیکٹرونک مشین بھی قبضے میں لے لی گئی۔ ڈگریوں کوامبوسڈ اسٹیمپنگ کرنے والی4کمپیوٹرائزڈ مشینیں بھی تحویل میں لی گئی ہیں۔
دیگر شہروں سے فارنسک ماہرین بھی کراچی پہنچ گئے جنھوں نے اہم ڈیٹاجمع کرنا شروع کردیا ہے۔ ایگزیکٹ کے 30سے زائد ملازمین کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ ایف آئی اے نے شعیب شیخ کودوسرا نوٹس جاری کردیا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ایگزیکٹ کے کمپیوٹرز سے اسکین ڈگریاں حاصل کر لی ہیں اور ان ڈگریوں کے اصلی یا جعلی ہونے کی تحقیق کی جا رہی ہے۔ یہ پتہ بھی چلایا جا رہا ہے کہ ڈگری دینے والی یونیورسٹی اصلی ہے یا جعلی۔ ایف آئی اے راولپنڈی میں ایگزیکٹ کے خلاف انکوائری ڈپٹی ڈائریکٹر طاہر تنویر سے لے کرڈپٹی ڈائریکٹر کارپوریٹ برانچ جلیل خان کو سونپ دی گئی ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qzjk0_fia-sealed-axact_news
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارنے ایف آئی اے سے ایگزیکٹ کے بارے میں تازہ رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ آن لائن کے مطابق کراچی میں ایف آئی اے حکام نے ایگزیکٹ کے 6 ملازمین یاسین وہرہ، ذیشان انور، رحیم کیشوانی، سلیم، سعیدعلی، اصغر پر تحقیقات مکمل ہونے تک ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qzmth_axact-officers-statements_news
ایگزیکٹ کمپنی کے سی ای اوشعیب شیخ بیان ریکارڈکرانے ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیںہوئے جبکہ 6افسران نے اپنے بیانات ریکارڈ کرادیے۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے شعیب شیخ کوآج دن 11بجے طلب کیاتھا تاہم وہ بیان دینے نہ آئے۔ ایف آئی اے نے انھیں دوسرانوٹس جاری کردیا ہے اوربیان ریکارڈ کرانے کے لیے48گھنٹے دیے ہیں۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ اگرشعیب شیخ 48گھنٹے میں پیش نہیں ہوتے توانھیں تیسرانوٹس جاری کیا جائے گاجس کے بعدانھیں عدالت کے ذریعے طلب کیاجائے گا۔
ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے 6افسران کوبھی طلبی کے نوٹس بھیجے تھے جس کے بعد ایگزیکٹ ریجنل ہیڈ کرنل(ر) جمیل احمد، سینئر منیجرسیفٹی اینڈسیکیورٹی کرنل(ر) محمدیونس، اسسٹنٹ منیجرایچ آر عابدخان، اسسٹنٹ منیجرآئی ٹی امجد، سیلزلیڈرز حسنین الرحمٰن اورسجاد حیدرنے انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر بیانات ریکارڈ کرادیے۔
دوسری جانب خلیجی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایگزیکٹ کمپنی میں بطور کالٹی ایشورینس آڈیٹر کام کرنے والے یاسر جمشید کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹ کمپنی کی جعلسازی کے راز افشا کرنے کے لئے حکام سے ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں تاہم مجھے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی 2 ہزار ملازمین پر مشتمل ٹیم کا کام سیلز ایجنٹ اور ڈگری حاصل کرنے والے افراد کے درمیان فون پر ہونے والی گفتگو سن کر اسے تحریری شکل میں ترتیب دینا تھا جب کہ ڈگریوں کی فروخت کے لئے سیلز ایجنٹ خود کو امریکی حکومت کا نمائندہ بھی قرار دیتے اور کبھی انہیں بلیک میل کرتے ہوئے دھمکیاں بھی دیتے۔
یاسر شاہ نے انکشاف کیا کہ ال این نامی خاتون نے تین سال کے دوران 18 جعلی ڈگریاں ایگزیکٹ کمپنی سے خریدیں اور ایک کال کے دوران میں نے سنا کہ سیلز ایجنٹ خود کو امریکی حکومت کا نمائندہ ظاہرکرتے ہوئے خاتون سے بات کر رہے تھے جب کہ سیلز ایجنٹ نے خاتون کو بلیک میل کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری حکام نے ان کی ڈگری میں بے قاعدگیاں تلاش کی ہیں جس کی بنیاد پر ڈگری کو جعلی قرار دیا جاسکتا ہے اور اگر انہوں نے 90 ہزار درہم جمع نہ کرائے تو وہ اپنی ڈگری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔
سابق ایگزیکٹ کمپنی کے ملازم نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ہر ٹیم میں 973 سیلز ایجنٹ ہیں جو جعلی ڈگریوں کی آن لائن فروخت کرتے ہوئے کمپنی کو یومیہ 40 ہزارڈالر منافع دیتے ہیں جب کہ ہر سیلز ایجنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یومیہ 299 ڈالر کا کاروبار کرے۔ انہوں نے بتایا کہ سیلز ایجنٹ کسٹمر کو ڈگری فروخت کرنے کے لئے کبھی انہیں مختلف پیشکش کرتے اور کبھی دھمکیوں کا سہارا بھی لیتے ہیں یہی نہیں ایگزیکٹ دبئی کی جانب سے آئی ٹی کمپنیوں کو دی جانے والی چھوٹ کا ناجائز استعمال کر رہی ہے جسے افشاں کرنے کے لئے حکام سے ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہوں۔
https://www.dailymotion.com/video/x2qyih8