میرے وطن کو کیا ہوا
عام شہری کے پاس اگر ایک ٹی ٹی یا رہزن کے پاس سے نکلے تو سزا ٹھیک ہے
لاہور:
ہر روز بد سے بدتر خبر پہلے مقامی سطح کی خبریں دہشت گردی کے واقعات جو بسیں زائرین کو لے کر کوئٹہ سے براستہ مستونگ نوکنڈی بسوں میں گھس کر، یا بم سے اڑانے کے واقعات، پھر کراچی جیسے شہر میں ایسا ہی حالیہ واقعہ جس پر اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین کی زبان سے مذمت پرنس کریم آغا خان کی مذمت اور تشویش پھر منی لانڈرنگ کے واقعات اور اس شعبے میں ماڈل گرلز کا استعمال پھر ماڈل گرلز اور گرفتار ملزمہ کو جیل میں آسائشوں کا جال اب یہی بحث جاری تھی کہ ایگزیکٹ کرائم کی نیویارک ٹائمز میں نقاب کشائی جہاں اپنے ملک کے ناموں کا خصوصاً صاحبان اقتدار کا استعمال اور اسمبلی میں جعلی ڈگری والوں کی موجودگی جب کہ ایک موقع پر بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ کا قول ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی، جہاں صداقت کا یہ معیار ہو تو وہاں جرائم کی کیا انتہا ہوگی۔
اب اگر جرائم اس طرح پروان چڑھتے رہے تو پھر پاکستان جرائم گاہ بن جائے گا اس میں ایگزیکٹ کی شمولیت کے بعد تو سائبر کرائم کا خانہ بھی پُر ہوگیا جس کو دنیا میں سائبر کرائم (Cyber Crime)کی فیکٹری کہا گیا۔
تو کیا یہاں کی انتظامیہ اور ایجنسی کی بے خبری ایک سوالیہ نشان ہیں۔ مگر جب یہ خبر نیویارک ٹائمز نے صفحہ اول پر شایع کی تو ارباب اقتدار کو ہوش آیا کیونکہ اس ادارے کے ٹاپ ایگزیکٹو کی ارباب اقتدار سے بھی علیک سلیک ہے مگر جب جان کیری کے جعلی دستخط استعمال ہوئے تو امریکا نے اپنے اخبار اور نشریاتی اداروں سے اس خبر کو نشر کیا اور بالآخر دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس خبر کو نشر یا شایع کیا گیا ابھی تو صرف جعلی ڈگری کا شور ہے۔
تنخواہیں خود بول رہی تھیں کہ عام ریٹ کے مقابل دس گنا ملک کے نامور اینکر پرسنوں کی وابستگی چیف ایگزیکٹو نے 26 روپے انکم ٹیکس 2012-13 میں جب کہ عام آدمی جو ٹیکس کے دائرے کار میں لوگ آتے ہیں ان کا ٹیکس آخر یہ سب کیا، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ارکان سے نہاں رہا تو کیوں اور کیسے، 20مئی کے پورے اخبار ایگزیکٹ کی خبروں سے بھرے ہیں مگر جلد ہی دیگر معاملات کی طرح سرد خانے میں یہ سب دفن ہوجائیں گے اور پھر نئے نام سے یہ اٹھیں گے کالعدم پارٹیاں نئے نام اور نئے دم خم سے اٹھتی ہیں جیسے انھوں نے کبھی کوئی جرم کیا ہی نہ تھا۔
پنجاب اسمبلی کی رکن محترمہ ثریا نسیم نے بھی ایگزیکٹ پر لب کشائی فرمائی ہے کہ ان کے بیٹے بھی وہاں نوکری پر گئے تھے مگر چند روز میں آگئے ایسے بہت سے کیسز ہیں جو جاری تھے مگر کسی میں جرأت نہ تھی کہ وہ حقیقت بیان کرے میڈیکل فری، سال میں دو بار چھٹیاں تمام ملازمین کو گاڑیوں یا ٹرانسپورٹ کی سہولتیں اور دیگر مراعات جو پاکستان میں عام طور پر نہ خاص طور پر کہیں موجود ہیں۔
دنیا میں نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ سائبرکرائم کے قوانین بھی وضع نہ کیے جاسکے بس غریب آدمیوں پر یلغار ہے دھونس ہے، اور خوف طاری کیے جا رہے ہیں مثلاً کے الیکٹرک کا شور سنیے بجلی کا بل نہ دیا تو جائیداد ضبط، قید وبند، آپریشن برق، نام کا اشتہار افسوس کہ ان تمام چیزوں کا اطلاق صرف مجبور بے کس لوگوں پر ہوگا اور پیٹ کاٹ کے بل بھرنے کی یہ ترغیب رہے اور بل کی ادائیگی کے مقابلے میں اشتہار کا پیٹ بھرا جا رہا ہے۔
زیادہ عرصہ نہ ہوا صرف ایک ہفتہ قبل کی بات ہے کہ سائٹ ایریا کی ایک فیکٹری میں ایک شخص جو کسی وزیر کے ساتھی ہیں یا کاروباری پارٹنر جو 30 لاکھ روپیہ کی بجلی چوری میں پکڑے گئے اور 3 لاکھ روپے ماہانہ کی بجلی چوری میں مصروف تھے کیا ہوا ان کا؟ کس نے مقدمہ درج کیا؟ کس نے بات آگے بڑھائی بس ایک خبر آئی کروڑوں روپے کے اشتہار ایک اور خرچ کی مد۔ اگر یہ خرچ وہ اپنے میٹریل اور بجلی کے ناقص پی ایم ٹی لائنوں کو درست کرنے پر خرچ کرتے تو بہتر تھا مگر اس طرح میٹر ریڈر کو قوت بخشنا اور بجلی کے عملے کو حد سے تجاوز کرنے کے اختیارات دیتا ہے جو سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آخر یہ قانون کس اسمبلی نے منظور کیا اور کن کن بڑے چوروں کو پکڑا گیا حکومت کے مختلف ادارے بجلی گیس اور دیگر یوٹیلیٹی بل کے نادہندگان ہیں مگر ستم ظریفی تو دیکھیے
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
عام شہری کے پاس اگر ایک ٹی ٹی یا رہزن کے پاس سے نکلے تو سزا ٹھیک ہے مگر ذوالفقار مرزا کے پاس اور ان کی فوج قانون کی گرفت سے باہر۔ مانا کہ ذوالفقار مرزا کے الزامات میں ممکنہ صداقت ہوسکتی ہے مگر اس سے معلوم ہوا کہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے ہر جرم قابل معافی ہے اگر وہ نام نہاد جمہوری اداروں کے نام پر ہو تو ۔کرپشن کا کمال اس میں پوشیدہ ہوگا موجودہ صورتحال تو ایسی ہے کہ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر نمبر ون کرپٹ ملک قرار دیا جائے اس میں ہر صاحب اقتدار اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے اورکرپشن کے پھیلاؤ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
لہٰذا اگر ملک کو بچانا مقصود ہے تو پھر ملک کی پوری سیاسی اور نشریاتی تبدیلی کے ساتھ تنخواہوں میں فرق کو کم کرنا ہوگا، ملک میں موجود دانشوروں، ادیبوں، سیاسی تجزیہ کاروں کو آگے لانا ہوگا نہ کہ مختلف ایجنسیوں کے وفاداروں کو عالم و فاضل بناکر پیش کرنا جن کو نہ اردو زبان پر گرفت ہے، نہ ادب نہ سائنس فلسفہ اور تاریخ مگر پھر بھی وہ ملک کے دانشور ہیں جن کو اردو زبان کا تلفظ نہ آتا ہو اور نہ اردو کے آہنگ کو جانتے ہوں تو پھر ان لوگوں کو کون اور اچانک کہاں سے لایا جاتا ہے۔
ملک سے میرٹ کو خیرباد کہہ دیا گیا ہے ، اس لیے ملک میں کئی قسم کے افکار پروان چڑھ رہے ہیں جو خیالات میں متصادم ہیں اس لیے ملک کی کوئی سیاسی لائن نہیں بن پا رہی ہے ساری دنیا کی فکری جنگیں پاکستان میں لڑی جا رہی ہیں، اس لیے بھی پاکستان میں بدنظمی اور انسان دشمنی جاری ہے مگر اس ملک سے عوام کو بے انتہا توقعات تھیں کہ انگریز کی غلامی کے بجائے اپنی حکومت ہوگی جہاں نسل و رنگ کی حکومت نہ ہوگی بلکہ انصاف ملے گا سماجی اور معاشی انصاف کہ جس ملک میں ایک کی تنخواہ 25 لاکھ، 18 لاکھ،10 لاکھ اور پھر 15 ہزار،8 ہزار اور حکومت کے چھوٹے ملازمین دس گیارہ ہزار، ذرا ان کا بجٹ صاحب اقتدار بنا کر دکھائیں، بجلی کا بل، صرف دو وقت کا کھانا اگر ایک بچہ ہو تو اس کا خرچ جسم پر کپڑوں کا خرچ پھر اگر تعلیم دینی ہے تو اس کا خرچ میاں بیوی کی سفید پوشی لہٰذا تنخواہوں میں کوئی مناسب فرق تو ہو یا وہ ملک و ملت کے لیے کچھ ایسا کر تو رہا ہو آخر یہ انسان دشمنی ہم کو کہاں لے جا رہی ہے۔
ہماری حب الوطنی کو کیا اور کیوں پرکھا جا رہا ہے، اگر اب بھی ملک میں معاشی مساوات کو لاگو نہ کیا گیا یا کم ازکم تنخواہوں میں زمین و آسمان کا فرق کم نہ کیا گیا تو ہر قسم کی کارروائی ناکام ہوجائے گی مانا کہ ایگزیکٹ پر کارروائی کی گئی مگر جس انداز میں کی گئی وہ مناسب نہ تھی مگر عام ملازمین کو رسوا کرنا مناسب نہ تھا البتہ مخصوص ملازمین کو حراست میں لیا جانا اچھا عمل تھا ۔ البتہ چار پانچ ہزار لوگوں کا اچانک بے روزگار ہونا عام ملازمین پر اس کے منفی اثرات ضرور پڑیں گے مگر ملک کو زمینداری کی حدود مقرر کرنا جاگیرداری سماج کا خاتمہ ہاری لیڈروں سے مشورہ کرنا ضروری ہے ورنہ بھونچال آکے رہے گا جس سے پاکستان کی وحدت پر برے اثرات پڑیں گے اور ہر طرف سے یہ آواز آئے گی کہ میرے وطن کو کیا ہوا، اور سنیے مجاز:
بوڑھے بچے سب دکھیارے دکھیا نر ہیں دکھیا ناری
بول اری او دھرتی بول! راج سنگھاسن ڈانوں ڈول
(مجاز لکھنوی)
ہر روز بد سے بدتر خبر پہلے مقامی سطح کی خبریں دہشت گردی کے واقعات جو بسیں زائرین کو لے کر کوئٹہ سے براستہ مستونگ نوکنڈی بسوں میں گھس کر، یا بم سے اڑانے کے واقعات، پھر کراچی جیسے شہر میں ایسا ہی حالیہ واقعہ جس پر اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین کی زبان سے مذمت پرنس کریم آغا خان کی مذمت اور تشویش پھر منی لانڈرنگ کے واقعات اور اس شعبے میں ماڈل گرلز کا استعمال پھر ماڈل گرلز اور گرفتار ملزمہ کو جیل میں آسائشوں کا جال اب یہی بحث جاری تھی کہ ایگزیکٹ کرائم کی نیویارک ٹائمز میں نقاب کشائی جہاں اپنے ملک کے ناموں کا خصوصاً صاحبان اقتدار کا استعمال اور اسمبلی میں جعلی ڈگری والوں کی موجودگی جب کہ ایک موقع پر بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ کا قول ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی، جہاں صداقت کا یہ معیار ہو تو وہاں جرائم کی کیا انتہا ہوگی۔
اب اگر جرائم اس طرح پروان چڑھتے رہے تو پھر پاکستان جرائم گاہ بن جائے گا اس میں ایگزیکٹ کی شمولیت کے بعد تو سائبر کرائم کا خانہ بھی پُر ہوگیا جس کو دنیا میں سائبر کرائم (Cyber Crime)کی فیکٹری کہا گیا۔
تو کیا یہاں کی انتظامیہ اور ایجنسی کی بے خبری ایک سوالیہ نشان ہیں۔ مگر جب یہ خبر نیویارک ٹائمز نے صفحہ اول پر شایع کی تو ارباب اقتدار کو ہوش آیا کیونکہ اس ادارے کے ٹاپ ایگزیکٹو کی ارباب اقتدار سے بھی علیک سلیک ہے مگر جب جان کیری کے جعلی دستخط استعمال ہوئے تو امریکا نے اپنے اخبار اور نشریاتی اداروں سے اس خبر کو نشر کیا اور بالآخر دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس خبر کو نشر یا شایع کیا گیا ابھی تو صرف جعلی ڈگری کا شور ہے۔
تنخواہیں خود بول رہی تھیں کہ عام ریٹ کے مقابل دس گنا ملک کے نامور اینکر پرسنوں کی وابستگی چیف ایگزیکٹو نے 26 روپے انکم ٹیکس 2012-13 میں جب کہ عام آدمی جو ٹیکس کے دائرے کار میں لوگ آتے ہیں ان کا ٹیکس آخر یہ سب کیا، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ارکان سے نہاں رہا تو کیوں اور کیسے، 20مئی کے پورے اخبار ایگزیکٹ کی خبروں سے بھرے ہیں مگر جلد ہی دیگر معاملات کی طرح سرد خانے میں یہ سب دفن ہوجائیں گے اور پھر نئے نام سے یہ اٹھیں گے کالعدم پارٹیاں نئے نام اور نئے دم خم سے اٹھتی ہیں جیسے انھوں نے کبھی کوئی جرم کیا ہی نہ تھا۔
پنجاب اسمبلی کی رکن محترمہ ثریا نسیم نے بھی ایگزیکٹ پر لب کشائی فرمائی ہے کہ ان کے بیٹے بھی وہاں نوکری پر گئے تھے مگر چند روز میں آگئے ایسے بہت سے کیسز ہیں جو جاری تھے مگر کسی میں جرأت نہ تھی کہ وہ حقیقت بیان کرے میڈیکل فری، سال میں دو بار چھٹیاں تمام ملازمین کو گاڑیوں یا ٹرانسپورٹ کی سہولتیں اور دیگر مراعات جو پاکستان میں عام طور پر نہ خاص طور پر کہیں موجود ہیں۔
دنیا میں نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ سائبرکرائم کے قوانین بھی وضع نہ کیے جاسکے بس غریب آدمیوں پر یلغار ہے دھونس ہے، اور خوف طاری کیے جا رہے ہیں مثلاً کے الیکٹرک کا شور سنیے بجلی کا بل نہ دیا تو جائیداد ضبط، قید وبند، آپریشن برق، نام کا اشتہار افسوس کہ ان تمام چیزوں کا اطلاق صرف مجبور بے کس لوگوں پر ہوگا اور پیٹ کاٹ کے بل بھرنے کی یہ ترغیب رہے اور بل کی ادائیگی کے مقابلے میں اشتہار کا پیٹ بھرا جا رہا ہے۔
زیادہ عرصہ نہ ہوا صرف ایک ہفتہ قبل کی بات ہے کہ سائٹ ایریا کی ایک فیکٹری میں ایک شخص جو کسی وزیر کے ساتھی ہیں یا کاروباری پارٹنر جو 30 لاکھ روپیہ کی بجلی چوری میں پکڑے گئے اور 3 لاکھ روپے ماہانہ کی بجلی چوری میں مصروف تھے کیا ہوا ان کا؟ کس نے مقدمہ درج کیا؟ کس نے بات آگے بڑھائی بس ایک خبر آئی کروڑوں روپے کے اشتہار ایک اور خرچ کی مد۔ اگر یہ خرچ وہ اپنے میٹریل اور بجلی کے ناقص پی ایم ٹی لائنوں کو درست کرنے پر خرچ کرتے تو بہتر تھا مگر اس طرح میٹر ریڈر کو قوت بخشنا اور بجلی کے عملے کو حد سے تجاوز کرنے کے اختیارات دیتا ہے جو سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آخر یہ قانون کس اسمبلی نے منظور کیا اور کن کن بڑے چوروں کو پکڑا گیا حکومت کے مختلف ادارے بجلی گیس اور دیگر یوٹیلیٹی بل کے نادہندگان ہیں مگر ستم ظریفی تو دیکھیے
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
عام شہری کے پاس اگر ایک ٹی ٹی یا رہزن کے پاس سے نکلے تو سزا ٹھیک ہے مگر ذوالفقار مرزا کے پاس اور ان کی فوج قانون کی گرفت سے باہر۔ مانا کہ ذوالفقار مرزا کے الزامات میں ممکنہ صداقت ہوسکتی ہے مگر اس سے معلوم ہوا کہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے ہر جرم قابل معافی ہے اگر وہ نام نہاد جمہوری اداروں کے نام پر ہو تو ۔کرپشن کا کمال اس میں پوشیدہ ہوگا موجودہ صورتحال تو ایسی ہے کہ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر نمبر ون کرپٹ ملک قرار دیا جائے اس میں ہر صاحب اقتدار اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے اورکرپشن کے پھیلاؤ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
لہٰذا اگر ملک کو بچانا مقصود ہے تو پھر ملک کی پوری سیاسی اور نشریاتی تبدیلی کے ساتھ تنخواہوں میں فرق کو کم کرنا ہوگا، ملک میں موجود دانشوروں، ادیبوں، سیاسی تجزیہ کاروں کو آگے لانا ہوگا نہ کہ مختلف ایجنسیوں کے وفاداروں کو عالم و فاضل بناکر پیش کرنا جن کو نہ اردو زبان پر گرفت ہے، نہ ادب نہ سائنس فلسفہ اور تاریخ مگر پھر بھی وہ ملک کے دانشور ہیں جن کو اردو زبان کا تلفظ نہ آتا ہو اور نہ اردو کے آہنگ کو جانتے ہوں تو پھر ان لوگوں کو کون اور اچانک کہاں سے لایا جاتا ہے۔
ملک سے میرٹ کو خیرباد کہہ دیا گیا ہے ، اس لیے ملک میں کئی قسم کے افکار پروان چڑھ رہے ہیں جو خیالات میں متصادم ہیں اس لیے ملک کی کوئی سیاسی لائن نہیں بن پا رہی ہے ساری دنیا کی فکری جنگیں پاکستان میں لڑی جا رہی ہیں، اس لیے بھی پاکستان میں بدنظمی اور انسان دشمنی جاری ہے مگر اس ملک سے عوام کو بے انتہا توقعات تھیں کہ انگریز کی غلامی کے بجائے اپنی حکومت ہوگی جہاں نسل و رنگ کی حکومت نہ ہوگی بلکہ انصاف ملے گا سماجی اور معاشی انصاف کہ جس ملک میں ایک کی تنخواہ 25 لاکھ، 18 لاکھ،10 لاکھ اور پھر 15 ہزار،8 ہزار اور حکومت کے چھوٹے ملازمین دس گیارہ ہزار، ذرا ان کا بجٹ صاحب اقتدار بنا کر دکھائیں، بجلی کا بل، صرف دو وقت کا کھانا اگر ایک بچہ ہو تو اس کا خرچ جسم پر کپڑوں کا خرچ پھر اگر تعلیم دینی ہے تو اس کا خرچ میاں بیوی کی سفید پوشی لہٰذا تنخواہوں میں کوئی مناسب فرق تو ہو یا وہ ملک و ملت کے لیے کچھ ایسا کر تو رہا ہو آخر یہ انسان دشمنی ہم کو کہاں لے جا رہی ہے۔
ہماری حب الوطنی کو کیا اور کیوں پرکھا جا رہا ہے، اگر اب بھی ملک میں معاشی مساوات کو لاگو نہ کیا گیا یا کم ازکم تنخواہوں میں زمین و آسمان کا فرق کم نہ کیا گیا تو ہر قسم کی کارروائی ناکام ہوجائے گی مانا کہ ایگزیکٹ پر کارروائی کی گئی مگر جس انداز میں کی گئی وہ مناسب نہ تھی مگر عام ملازمین کو رسوا کرنا مناسب نہ تھا البتہ مخصوص ملازمین کو حراست میں لیا جانا اچھا عمل تھا ۔ البتہ چار پانچ ہزار لوگوں کا اچانک بے روزگار ہونا عام ملازمین پر اس کے منفی اثرات ضرور پڑیں گے مگر ملک کو زمینداری کی حدود مقرر کرنا جاگیرداری سماج کا خاتمہ ہاری لیڈروں سے مشورہ کرنا ضروری ہے ورنہ بھونچال آکے رہے گا جس سے پاکستان کی وحدت پر برے اثرات پڑیں گے اور ہر طرف سے یہ آواز آئے گی کہ میرے وطن کو کیا ہوا، اور سنیے مجاز:
بوڑھے بچے سب دکھیارے دکھیا نر ہیں دکھیا ناری
بول اری او دھرتی بول! راج سنگھاسن ڈانوں ڈول
(مجاز لکھنوی)