کچھ سمجھ آیا
ہ پانی بہت کم پیتا ہے اور پیتا بھی ہے تو دو چار گھونٹ ورنہ مہینوں تک بغیر پانی کے گزر جاتے ہیں
زرافہ ایک عجیب جانور ہے، لمبا دیکھنے میں دھیما نرم خو، اصول پسند لیکن جب آپ اس کے خواص کے بارے میں پڑھیں گے تو آپ کو حیرت ہو گی کہ یہ وہ جانور ہے جس کی شرافت اور امن پسندی شکاریوں کو اس سے ناراض رکھتی ہے، اس کا قد چھ سے سات میٹر تک ہوتا ہے اس کی نظر بہت تیز ہوتی ہے، دراز قد ہونے کے باعث یہ دور تک دیکھ سکتا ہے جیسے ہی اسے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے یہ سب کو چوکنا کر دیتا ہے۔
یہ جانوروں کا دوست ہے ان کے لیے امن اور تحفظ کا احساس ہے لیکن انسانوں اور شکاریوں کے لیے یہ ان جانوروں کے لیے ریڈار کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ درخت کی شاخوں میں منہ ڈالے سو جاتا ہے اور اونچے درختوں کے سبز پتے اور نرم ٹہنیاں کھاتا ہے۔ یہ پانی بہت کم پیتا ہے اور پیتا بھی ہے تو دو چار گھونٹ ورنہ مہینوں تک بغیر پانی کے گزر جاتے ہیں، پانی پینے کے لیے اس کی لمبی گردن اور اونچی ٹانگیں عذاب بن جاتی ہیں۔
آپ مختلف جانوروں کے بارے میں پڑھیں تو آپ کو دلچسپی کی ایسی ایسی باتیں ملیں گی لیکن یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں ہر طرح کے خواص رکھے ہیں لیکن انسان ایک ایسی اعلیٰ مخلوق ہے کہ جس میں ہر جانور کے خواص ملیں گے۔ شیر کی طرح بہادر، گیدڑ کی طرح ڈرپوک، بکری کی طرح بزدل، لومڑی کی طرح چالاک مکار، بلی کی طرح عیار، گدھے کی طرح احمق اور سانپ کی طرح زہریلا لیکن پھر بھی انسان کا درجہ اعلیٰ مقام پر ہے۔
اشرف المخلوقات ہونا ہمارے لیے ایک عزت کا مقام ہے لیکن ہم اپنے اس مقام کو بچانا نہیں چاہتے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا، کہیں کسی تقریب میں کسی خاتون سے ملاقات ہوئی۔ انھیں جوانی سے ہی شوگر کا مرض لاحق تھا۔ کھانے سے پہلے انھیں انسولین کا انجکشن لینا پڑتا تھا، خاصی خوش شکل خاتون تھیں، ان کے شوہر گلف میں رہتے تھے۔ معاشرے میں ان کا اچھا خاصا مقام تھا، باتوں باتوں میں وہ اپنے دکھڑے روتی رہیں، اگر میں مزید سنتی رہتی تو شاید وہ رو بھی پڑتیں، اچانک میرے منہ سے یہ جملہ نکلا ''انسان بھی کتنا ناشکرا ہے، خدا نے اشرف المخلوقات میں پیدا کیا اتنا اعلیٰ مقام دیا، کیا کر لیتے ہم اگر وہ ہمیں ایک مکڑی، بچھو، یا بلی پیدا کرتے یا ایک پھول جو تھوڑے دنوں میں ہی مرجھا جاتا، ہم سوچتے ہی نہیں۔'' خاتون کو جیسے بریک لگ گیا۔
میں خود سوچ میں پڑ گئی تھی کہ کبھی اس انداز سے سوچا ہی نہیں، خاتون کے چہرے پر ندامت کے آثار نمایاں ہوئے، کہنے لگیں ''یہ تو ہے۔۔۔۔ ہمیں تو اس ذات باری کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں اتنی نعمتیں دیں اس نے۔ اتنے پیارے پیارے رشتے دیے۔ دیکھو ناں میرا میاں باہر رہتا ہے لیکن اس کا دل مجھ میں اور بچوں میں اٹکا رہتا ہے، میرے بچے بھی اتنے اچھے، اتنے پیارے، میری بیٹی نے نویں جماعت میں پچاس فیصد سے زیادہ نمبر لیے تو اسے وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے لیپ ٹاپ ملا اور سولر انرجی کا چھوٹا سا سسٹم بھی، ہماری بجلی چلی جاتی ہے ناں تو ہم بڑے آرام سے لائٹ اور پنکھا چلا لیتے ہیں، میری بیٹی کو پڑھنے کا بڑا شوق ہے، ہم تو بہاولپور میں رہتے ہیں میرے گھر کی طرف کالج نہیں ہے پر میری بیٹی کہتی ہے کہ میں لاہور جاؤں گی وہاں ہوسٹل میں رہوں گی، لیکن آگے پڑھوں گی۔'' ایک کے بعد ایک وہ سب غم بھول کر پروردگار کی نعمتوں کو گنتی جا رہی تھی۔
ہم بہت خوش نصیب ہیں ایک بہت پیارے نعمتوں سے بھرپور ملک میں پیدا ہوئے ہیں، لیکن ہمارا پسندیدہ مشغلہ دوسروں کی ٹانگ کھینچنا، انھیں نیچا دکھانا، ان کی خامیاں تلاش کرنا اور اس مشق میں لگے رہنا کہ ایسا کوئی نقطہ ملے کہ ان کا بینڈ بجایا جا سکے، چاہے گھر ہو، سسرال میکہ یا آفس یا سیاست کا میدان یہاں تک کہ ہم مرے ہوئے لوگوں کے بھی بخیے ادھیڑنے سے باز نہیں آتے، یہاں تک کہ ہم اپنی بری خصلت کے باعث خونخوار جانور بن جاتے ہیں۔
سوٹڈ بوٹڈ خونخوار جانور۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتی ہے، ترکیبیں بُنتی ہے لیکن یہ بھول جاتی ہے کہ اس عقل کی اصل چابی تو کسی اور کے پاس ہے اور وہ ذات باری جسے چاہے اسے عطا کر دے بالکل ایسے جیسے بڑے بڑے سرجن، ڈاکٹرز کے سامنے ایک عطائی ڈاکٹر کار آمد ثابت ہو۔
اتنی تمام لمبی چوڑی بحث کا مقصد یہ ہے کہ ہماری سیاسی میدان بازی میں ایک اور پھندے کا اضافہ ہونے چلا ہے ناہید خان اور صفدر عباسی عمل کرنے چلے ہیں، بلاول بھٹو کچھ ناراض ناراض سے الگ بیٹھے ہیں دراصل وہ جس ماحول میں پلے بڑھے وہاں انسانی حقوق کی پاسداری کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو اس بات پر ناراض ہیں کہ تھر میں قحط کی صورتحال اور بچوں کے مرنے کی شرح میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اس لیے کہ وہ انگلینڈ میں بچپن سے یہی دیکھتے آئے ہیں کہ عوام کے حقوق کا کس طرح خیال رکھنا چاہیے ووٹ اور ٹیکس کا صحیح استعمال کیسے کیا جاتا ہے لیکن ان کے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انھیں ابھی نوآموز کہہ کر سیاسی پلیٹ فارم سے علیحدہ رکھا جا رہا ہے کہ ابھی انھیں تجربے کی ضرورت ہے۔
یہ ہے ہمارا سیاسی معیار۔ بہرحال بات زرافے سے شروع ہوئی تھی یہ دودھ دینے والے جانوروں میں سب سے دراز قد ہے اس کا ننھا منھا بچہ بھی پیدائش کے وقت ڈیڑھ میٹر کا ہوتا ہے۔ مٹھی میں ننھے منے بچے روز مر رہے ہیں، کراچی اب واٹر ٹینکرز پر آ گیا ہے۔ صارفین پھر بھی پانی کے بل ادا کر رہے ہیں اور سنا ہے کہ بجلی کے واجبات کسی ادارے پر بہت بڑھ چکے ہیں ادائیگی نہیں ہوئی، لیکن کیوں؟ کیا کسی کو علم ہے؟
یہ جانوروں کا دوست ہے ان کے لیے امن اور تحفظ کا احساس ہے لیکن انسانوں اور شکاریوں کے لیے یہ ان جانوروں کے لیے ریڈار کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ درخت کی شاخوں میں منہ ڈالے سو جاتا ہے اور اونچے درختوں کے سبز پتے اور نرم ٹہنیاں کھاتا ہے۔ یہ پانی بہت کم پیتا ہے اور پیتا بھی ہے تو دو چار گھونٹ ورنہ مہینوں تک بغیر پانی کے گزر جاتے ہیں، پانی پینے کے لیے اس کی لمبی گردن اور اونچی ٹانگیں عذاب بن جاتی ہیں۔
آپ مختلف جانوروں کے بارے میں پڑھیں تو آپ کو دلچسپی کی ایسی ایسی باتیں ملیں گی لیکن یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں ہر طرح کے خواص رکھے ہیں لیکن انسان ایک ایسی اعلیٰ مخلوق ہے کہ جس میں ہر جانور کے خواص ملیں گے۔ شیر کی طرح بہادر، گیدڑ کی طرح ڈرپوک، بکری کی طرح بزدل، لومڑی کی طرح چالاک مکار، بلی کی طرح عیار، گدھے کی طرح احمق اور سانپ کی طرح زہریلا لیکن پھر بھی انسان کا درجہ اعلیٰ مقام پر ہے۔
اشرف المخلوقات ہونا ہمارے لیے ایک عزت کا مقام ہے لیکن ہم اپنے اس مقام کو بچانا نہیں چاہتے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا، کہیں کسی تقریب میں کسی خاتون سے ملاقات ہوئی۔ انھیں جوانی سے ہی شوگر کا مرض لاحق تھا۔ کھانے سے پہلے انھیں انسولین کا انجکشن لینا پڑتا تھا، خاصی خوش شکل خاتون تھیں، ان کے شوہر گلف میں رہتے تھے۔ معاشرے میں ان کا اچھا خاصا مقام تھا، باتوں باتوں میں وہ اپنے دکھڑے روتی رہیں، اگر میں مزید سنتی رہتی تو شاید وہ رو بھی پڑتیں، اچانک میرے منہ سے یہ جملہ نکلا ''انسان بھی کتنا ناشکرا ہے، خدا نے اشرف المخلوقات میں پیدا کیا اتنا اعلیٰ مقام دیا، کیا کر لیتے ہم اگر وہ ہمیں ایک مکڑی، بچھو، یا بلی پیدا کرتے یا ایک پھول جو تھوڑے دنوں میں ہی مرجھا جاتا، ہم سوچتے ہی نہیں۔'' خاتون کو جیسے بریک لگ گیا۔
میں خود سوچ میں پڑ گئی تھی کہ کبھی اس انداز سے سوچا ہی نہیں، خاتون کے چہرے پر ندامت کے آثار نمایاں ہوئے، کہنے لگیں ''یہ تو ہے۔۔۔۔ ہمیں تو اس ذات باری کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں اتنی نعمتیں دیں اس نے۔ اتنے پیارے پیارے رشتے دیے۔ دیکھو ناں میرا میاں باہر رہتا ہے لیکن اس کا دل مجھ میں اور بچوں میں اٹکا رہتا ہے، میرے بچے بھی اتنے اچھے، اتنے پیارے، میری بیٹی نے نویں جماعت میں پچاس فیصد سے زیادہ نمبر لیے تو اسے وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے لیپ ٹاپ ملا اور سولر انرجی کا چھوٹا سا سسٹم بھی، ہماری بجلی چلی جاتی ہے ناں تو ہم بڑے آرام سے لائٹ اور پنکھا چلا لیتے ہیں، میری بیٹی کو پڑھنے کا بڑا شوق ہے، ہم تو بہاولپور میں رہتے ہیں میرے گھر کی طرف کالج نہیں ہے پر میری بیٹی کہتی ہے کہ میں لاہور جاؤں گی وہاں ہوسٹل میں رہوں گی، لیکن آگے پڑھوں گی۔'' ایک کے بعد ایک وہ سب غم بھول کر پروردگار کی نعمتوں کو گنتی جا رہی تھی۔
ہم بہت خوش نصیب ہیں ایک بہت پیارے نعمتوں سے بھرپور ملک میں پیدا ہوئے ہیں، لیکن ہمارا پسندیدہ مشغلہ دوسروں کی ٹانگ کھینچنا، انھیں نیچا دکھانا، ان کی خامیاں تلاش کرنا اور اس مشق میں لگے رہنا کہ ایسا کوئی نقطہ ملے کہ ان کا بینڈ بجایا جا سکے، چاہے گھر ہو، سسرال میکہ یا آفس یا سیاست کا میدان یہاں تک کہ ہم مرے ہوئے لوگوں کے بھی بخیے ادھیڑنے سے باز نہیں آتے، یہاں تک کہ ہم اپنی بری خصلت کے باعث خونخوار جانور بن جاتے ہیں۔
سوٹڈ بوٹڈ خونخوار جانور۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتی ہے، ترکیبیں بُنتی ہے لیکن یہ بھول جاتی ہے کہ اس عقل کی اصل چابی تو کسی اور کے پاس ہے اور وہ ذات باری جسے چاہے اسے عطا کر دے بالکل ایسے جیسے بڑے بڑے سرجن، ڈاکٹرز کے سامنے ایک عطائی ڈاکٹر کار آمد ثابت ہو۔
اتنی تمام لمبی چوڑی بحث کا مقصد یہ ہے کہ ہماری سیاسی میدان بازی میں ایک اور پھندے کا اضافہ ہونے چلا ہے ناہید خان اور صفدر عباسی عمل کرنے چلے ہیں، بلاول بھٹو کچھ ناراض ناراض سے الگ بیٹھے ہیں دراصل وہ جس ماحول میں پلے بڑھے وہاں انسانی حقوق کی پاسداری کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو اس بات پر ناراض ہیں کہ تھر میں قحط کی صورتحال اور بچوں کے مرنے کی شرح میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اس لیے کہ وہ انگلینڈ میں بچپن سے یہی دیکھتے آئے ہیں کہ عوام کے حقوق کا کس طرح خیال رکھنا چاہیے ووٹ اور ٹیکس کا صحیح استعمال کیسے کیا جاتا ہے لیکن ان کے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انھیں ابھی نوآموز کہہ کر سیاسی پلیٹ فارم سے علیحدہ رکھا جا رہا ہے کہ ابھی انھیں تجربے کی ضرورت ہے۔
یہ ہے ہمارا سیاسی معیار۔ بہرحال بات زرافے سے شروع ہوئی تھی یہ دودھ دینے والے جانوروں میں سب سے دراز قد ہے اس کا ننھا منھا بچہ بھی پیدائش کے وقت ڈیڑھ میٹر کا ہوتا ہے۔ مٹھی میں ننھے منے بچے روز مر رہے ہیں، کراچی اب واٹر ٹینکرز پر آ گیا ہے۔ صارفین پھر بھی پانی کے بل ادا کر رہے ہیں اور سنا ہے کہ بجلی کے واجبات کسی ادارے پر بہت بڑھ چکے ہیں ادائیگی نہیں ہوئی، لیکن کیوں؟ کیا کسی کو علم ہے؟