برقی جھٹکے ریلیف کہاں ہے
ملک میں آمریت کا راج ہو یا جمہوریت کا نظام یا فوجی حکومت عوام کو اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں
ہم نے گزشتہ کسی کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ جمہوری یا انتخابی عمل سے کامیاب ہونے والی عوامی حکومت کا اولین فرض منصبی عوامی فلاحی امور کی انجام دہی اور اس تسلسل میں شہریوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی عوامی حکومت کا نصب العین ہوتا ہے۔
ملک میں آمریت کا راج ہو یا جمہوریت کا نظام یا فوجی حکومت عوام کو اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ طرز حکومت کیسا ہو ان کی صرف اور صرف کسی حد تک تشفی میں بنیادی ضروریات زندگی کا بروقت فلاحی انداز میں حصول ان کی ترجیحات میں شامل ہوا کرتی ہیں۔ بلاشبہ وہی حکومتیں عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہتی ہیں جو ہر حال میں انھی عوامی فلاحی بنیادی معاملات کو دیانتداری کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتی ہیں۔ بجلی، شہر کا بلدیاتی نظام، گیس کی فراہمی اور صحت جیسے بنیادی عوامی فلاح و خدما ت کے ادارے ہیں جن کا ہمارے خیال میں براہ راست حکومت کی نگرانی میں ہونا بے حد ضروری ہے۔
ان اداروں کو چند عوام دشمن اشرافی مافیا کے حوالے کرنا ملک اور اس کی عوام کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے جس سے سراسر حکومت کی نیک نیتی، متاثر ہوتی ہے۔ جو قوم پانی و بجلی جیسے بنیادی مسائل میں الجھی رہے، اس قوم سے ترقی کی توقع کس طرح ممکن ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں جب ہم ترقی یافتہ اقوام کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے عوامی فلاح و بہبود کو سامنے رکھتے ہوئے ''فلاحی ریاست'' کے قیام پر زور دیا اور قابل غور امر یہ ہے کہ اس فلاحی ریاست کا تصور بھی انھوں نے اسی دین حنیف ''اسلام'' سے ہی سیکھا۔
دو کروڑ آبادی پر مشتمل سمندری، ساحلی، صنعتی شہر اور صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی جسے ''منی پاکستان'' بھی کہا جاتا ہے۔ ملک کا ہر باشعور شہری اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتا کہ یہ شہر اپنی انھی خوبیوں کی وجہ سے مجموعی طور پر نہ صرف ملک اور ا س کی معیشت کی ترقی کا ضامن ہے بلکہ خوشحال معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
لفظ دہشت گردی، کرپشن دو عشرے سے ہمارے سماج میں اس طرح سے سرایت کر گیا ہے جیسے لکڑی کے اندر دیمک اور یہ دونوں عمیق برائیاں ہمارے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے صحراؤں، پہاڑوں میں اس وقت کی سپر طاقت سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا اور اتحادی قوتوں کے ساتھ مل کر بھرپور حصہ لیا، مقصد پورا ہونے پر انھوں نے پاکستان کو دنیا میں دہشت گردی کی قومی پہچان دی، طالبان، القاعدہ، داعش جیسی انسان دشمن عسکری قوتوں کو ڈالرائزیشن کے سحر کن کشش سے مالا مال کیا جس کے خاتمے کے لیے ہمارا کثیرملکی عوامی سرمایہ بھی برباد ہو چکا ہے۔
دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے اپریشن سے کسی حد تک وقتی ریلیف ضرور ملا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بجلی کے صارفین کی تین اقسام ہیں ایک وہ صارف جو بجلی چوری کرنے کے عادی ہیں، کنڈا مافیا، ہر شخص جانتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کراچی الیکٹرک کی کالی بھیڑوں کے ذریعے ہی انجام دیا جاتا ہے۔ بجلی یا برقی فراہمی اور روانی پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ بجلی ہے تو پانی ہے اور یہ بات روز عیاں کی طرح ثابت ہو چکی ہے کہ پانی اور بجلی انسان کی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ شکر ہے خدا کا۔ ہوا مفت میں مل جاتی ہے ورنہ اس میں بھی انسانی قباحتیں آ سکتی ہیں۔
بیشک اس میں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کی طرف سے اپنے بندوں کی فلاح ہے۔ دوسری قسم ان صارفین کی ہے جو ایمانداری اور کفایت شعاری سے ضرورت کے تحت بجلی کا استعمال کرتے ہیں اور واجبات کی ادائیگی کو بروقت کمپنی کے جاری کردہ ماہانہ بل کے ذریعے ممکن بناتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو واجبات کے نادہندگان ہیں۔ کراچی الیکٹر ک کی طرف سے طے شدہ ٹیرف جو بجلی کے بل کی پشت پر درج ہیں۔ ملاحظہ فرما سکتے ہیں جو سراسر صارفین کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
' 'گرمی کے موسم میں بجلی کی طلب میں اضافہ ہونا فطری عمل ہے۔ پنکھوں کے چلنے سے ظاہر ہے یونٹس میں بھی اضافہ لازمی امر ہے۔ عین گرمیوں کی درمیانی شب، جب انسان سارا دن کا تھکا ہارا ہو ا پنی فطری نیند جس کا وہ حق دار ہے اس وقت محروم ہو جاتا ہے جب یکدم بجلی غائب ہو جائے اور یوں یہ سلسلہ 4 سے 5 گھنٹے مسلسل جاری رہتا ہے۔ برق فراہمی کی ٹھیکیدار کمپنی KE نے KW&SB کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی، مزے کی بات یہ ہے کہ KW&SB حکومت سندھ کے زیراثر ایک فعال عوامی ادارہ ہے۔ شہر میں مصنوعی پانی کی قلت پیدا کرنا K.E کی طرف سے ایک نامناسب عمل ہے۔ میں نے کہا نہ کہ عوامی خدمات کے اداروں کی فروخت حکومت کی سنگین غلطی ہے۔
KW&SBاورK.E کے درمیان واجبات کی عدم ادائیگی کی مد میں ہونے والے تضادات و تنازعات جنم لے چکے ہیں۔ جس سے کسی کو فائدہ ہو نہ ہو عوام اس جھگڑے میں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہر طرف سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ہائے پانی! ہائے پانی۔ اب دیکھیے عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اضافی خطیر رقوم پر مشتمل بلوں کا اجراء اور تیز رفتار میٹروں کی تنصیب کا عمل ہنوز مسلسل ایک عرصے سے جاری ہے۔ نئے میٹر یا ایک سے زائد میٹروں کی تنصیب جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
یہ تمام عمل اس قدر پیچیدہ ہے کہ ایماندار صارف تنگ آ کر بجلی کی چوری پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کے الیکٹرک کے ایماندار صارفین کے لیے ایک رعایتی پیکیج کے ذریعے انھیں ریلیف دیا جائے تا کہ بجلی کی چوری کی کسی حد تک روک تھام ہو سکے نہ کہ اضافہ۔ اس سلسلے میں ہمارا مشورہ ہے کہ کمپنی کی انتظامیہ صارفین کے ساتھ اخلاقی ضابطے کے تحت گفت و شنید کے پرامن طریقے کو اپنائے ۔
بلاشبہ رواں دور روپے پیسے اور مالی اسٹیٹس کا ہے۔ تمام اخلاقی ضابطے ایک طرف۔ روپے پیسے یا زر کے حصول میں ہر جائز و ناجائز طریقہ زیر استعمال لانا کہاں کا انصاف ہے۔ کیونکہ جدید مادی دور بھی کہتا ہے کہ ''زر'' ہی سب کچھ ہے۔ آج کل میڈیا خصوصا ً ٹی وی چینلز پر بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف ''کراچی الیکٹرک کا برق آپریشن'' کے بارے میں خوفناک انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے۔
جس سے بجلی چور یا نادہندگان تو کیا خوفزدہ ہونگے البتہ ہم جیسے شریف النفس انسان ضرور دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ نمائشی فورس کے ایکشن دیکھ کر ہمیں پنجابی فلموں کے ولن یاد آ گئے۔ جائیداد کی ضبطگی، تین کروڑ روپے کی بھاری مالیت کا جرمانہ، قید و بندکی صعوبتیں، ناموں کی میڈیا میں تشہیر وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام ایکشن کس قانون اور ضابطے کے تحت سرانجام دیے جا رہے ہیں۔
پولیس کی نمائش اس انداز سے کی جا رہی ہے جیسے وہ ان کے تنخواہ دار ملازم ہوں۔ ہماری دانست میں K.E پولیس سے زیادہ طاقتور ہے وہ قوم کو بجلی کے ایسے شارٹ سرکٹ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ پوری قوم ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو سکتی ہے۔ اب آپ خود ہی دیکھ لیں انھوں نے ادارہ فراہمی آب کی صرف تین دن برق سپلائی میں تعطل پیدا کیا۔ پورا شہر عجب سراسیمگی کا شکار ہو گیا ہماری بجلی کی ٹھیکیدار کمپنی سے یہی التجا ہے کہ اشتہار بازی کے متفرقہ بھاری اخراجات کرنے کی بجائے کراچی کے عوام کو ریلیف پیکیج دے کر اپنا قبلہ درست کر لیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ سندھ پولیس بھی صوبائی حکومت کے زیر اثر ہے اور سندھ کے صوبائی وزیر برائے اطلاعات و بلدیات شرجیل میمن کا یہ کہنا کہ وفاق کے نجی کمیشن کی طرف سے کراچی الیکٹرک کو نجی سیکٹر کے حوالے کرتے وقت صوبائی حکومت کو اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ ادھر صوبائی حکومت کے زیر اثر ادارہ فراہمی آب (KW&SB) بقول کراچی الیکٹرک کے یہ ادارہ بھی واجبات کی عدم ادائیگی کا شکار ہے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ کراچی کے عوام کو ریلیف مل سکے۔
ملک میں آمریت کا راج ہو یا جمہوریت کا نظام یا فوجی حکومت عوام کو اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ طرز حکومت کیسا ہو ان کی صرف اور صرف کسی حد تک تشفی میں بنیادی ضروریات زندگی کا بروقت فلاحی انداز میں حصول ان کی ترجیحات میں شامل ہوا کرتی ہیں۔ بلاشبہ وہی حکومتیں عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہتی ہیں جو ہر حال میں انھی عوامی فلاحی بنیادی معاملات کو دیانتداری کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتی ہیں۔ بجلی، شہر کا بلدیاتی نظام، گیس کی فراہمی اور صحت جیسے بنیادی عوامی فلاح و خدما ت کے ادارے ہیں جن کا ہمارے خیال میں براہ راست حکومت کی نگرانی میں ہونا بے حد ضروری ہے۔
ان اداروں کو چند عوام دشمن اشرافی مافیا کے حوالے کرنا ملک اور اس کی عوام کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے جس سے سراسر حکومت کی نیک نیتی، متاثر ہوتی ہے۔ جو قوم پانی و بجلی جیسے بنیادی مسائل میں الجھی رہے، اس قوم سے ترقی کی توقع کس طرح ممکن ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں جب ہم ترقی یافتہ اقوام کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے عوامی فلاح و بہبود کو سامنے رکھتے ہوئے ''فلاحی ریاست'' کے قیام پر زور دیا اور قابل غور امر یہ ہے کہ اس فلاحی ریاست کا تصور بھی انھوں نے اسی دین حنیف ''اسلام'' سے ہی سیکھا۔
دو کروڑ آبادی پر مشتمل سمندری، ساحلی، صنعتی شہر اور صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی جسے ''منی پاکستان'' بھی کہا جاتا ہے۔ ملک کا ہر باشعور شہری اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتا کہ یہ شہر اپنی انھی خوبیوں کی وجہ سے مجموعی طور پر نہ صرف ملک اور ا س کی معیشت کی ترقی کا ضامن ہے بلکہ خوشحال معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
لفظ دہشت گردی، کرپشن دو عشرے سے ہمارے سماج میں اس طرح سے سرایت کر گیا ہے جیسے لکڑی کے اندر دیمک اور یہ دونوں عمیق برائیاں ہمارے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے صحراؤں، پہاڑوں میں اس وقت کی سپر طاقت سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا اور اتحادی قوتوں کے ساتھ مل کر بھرپور حصہ لیا، مقصد پورا ہونے پر انھوں نے پاکستان کو دنیا میں دہشت گردی کی قومی پہچان دی، طالبان، القاعدہ، داعش جیسی انسان دشمن عسکری قوتوں کو ڈالرائزیشن کے سحر کن کشش سے مالا مال کیا جس کے خاتمے کے لیے ہمارا کثیرملکی عوامی سرمایہ بھی برباد ہو چکا ہے۔
دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے اپریشن سے کسی حد تک وقتی ریلیف ضرور ملا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بجلی کے صارفین کی تین اقسام ہیں ایک وہ صارف جو بجلی چوری کرنے کے عادی ہیں، کنڈا مافیا، ہر شخص جانتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کراچی الیکٹرک کی کالی بھیڑوں کے ذریعے ہی انجام دیا جاتا ہے۔ بجلی یا برقی فراہمی اور روانی پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ بجلی ہے تو پانی ہے اور یہ بات روز عیاں کی طرح ثابت ہو چکی ہے کہ پانی اور بجلی انسان کی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ شکر ہے خدا کا۔ ہوا مفت میں مل جاتی ہے ورنہ اس میں بھی انسانی قباحتیں آ سکتی ہیں۔
بیشک اس میں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کی طرف سے اپنے بندوں کی فلاح ہے۔ دوسری قسم ان صارفین کی ہے جو ایمانداری اور کفایت شعاری سے ضرورت کے تحت بجلی کا استعمال کرتے ہیں اور واجبات کی ادائیگی کو بروقت کمپنی کے جاری کردہ ماہانہ بل کے ذریعے ممکن بناتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو واجبات کے نادہندگان ہیں۔ کراچی الیکٹر ک کی طرف سے طے شدہ ٹیرف جو بجلی کے بل کی پشت پر درج ہیں۔ ملاحظہ فرما سکتے ہیں جو سراسر صارفین کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
' 'گرمی کے موسم میں بجلی کی طلب میں اضافہ ہونا فطری عمل ہے۔ پنکھوں کے چلنے سے ظاہر ہے یونٹس میں بھی اضافہ لازمی امر ہے۔ عین گرمیوں کی درمیانی شب، جب انسان سارا دن کا تھکا ہارا ہو ا پنی فطری نیند جس کا وہ حق دار ہے اس وقت محروم ہو جاتا ہے جب یکدم بجلی غائب ہو جائے اور یوں یہ سلسلہ 4 سے 5 گھنٹے مسلسل جاری رہتا ہے۔ برق فراہمی کی ٹھیکیدار کمپنی KE نے KW&SB کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی، مزے کی بات یہ ہے کہ KW&SB حکومت سندھ کے زیراثر ایک فعال عوامی ادارہ ہے۔ شہر میں مصنوعی پانی کی قلت پیدا کرنا K.E کی طرف سے ایک نامناسب عمل ہے۔ میں نے کہا نہ کہ عوامی خدمات کے اداروں کی فروخت حکومت کی سنگین غلطی ہے۔
KW&SBاورK.E کے درمیان واجبات کی عدم ادائیگی کی مد میں ہونے والے تضادات و تنازعات جنم لے چکے ہیں۔ جس سے کسی کو فائدہ ہو نہ ہو عوام اس جھگڑے میں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہر طرف سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ہائے پانی! ہائے پانی۔ اب دیکھیے عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اضافی خطیر رقوم پر مشتمل بلوں کا اجراء اور تیز رفتار میٹروں کی تنصیب کا عمل ہنوز مسلسل ایک عرصے سے جاری ہے۔ نئے میٹر یا ایک سے زائد میٹروں کی تنصیب جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
یہ تمام عمل اس قدر پیچیدہ ہے کہ ایماندار صارف تنگ آ کر بجلی کی چوری پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کے الیکٹرک کے ایماندار صارفین کے لیے ایک رعایتی پیکیج کے ذریعے انھیں ریلیف دیا جائے تا کہ بجلی کی چوری کی کسی حد تک روک تھام ہو سکے نہ کہ اضافہ۔ اس سلسلے میں ہمارا مشورہ ہے کہ کمپنی کی انتظامیہ صارفین کے ساتھ اخلاقی ضابطے کے تحت گفت و شنید کے پرامن طریقے کو اپنائے ۔
بلاشبہ رواں دور روپے پیسے اور مالی اسٹیٹس کا ہے۔ تمام اخلاقی ضابطے ایک طرف۔ روپے پیسے یا زر کے حصول میں ہر جائز و ناجائز طریقہ زیر استعمال لانا کہاں کا انصاف ہے۔ کیونکہ جدید مادی دور بھی کہتا ہے کہ ''زر'' ہی سب کچھ ہے۔ آج کل میڈیا خصوصا ً ٹی وی چینلز پر بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف ''کراچی الیکٹرک کا برق آپریشن'' کے بارے میں خوفناک انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے۔
جس سے بجلی چور یا نادہندگان تو کیا خوفزدہ ہونگے البتہ ہم جیسے شریف النفس انسان ضرور دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ نمائشی فورس کے ایکشن دیکھ کر ہمیں پنجابی فلموں کے ولن یاد آ گئے۔ جائیداد کی ضبطگی، تین کروڑ روپے کی بھاری مالیت کا جرمانہ، قید و بندکی صعوبتیں، ناموں کی میڈیا میں تشہیر وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام ایکشن کس قانون اور ضابطے کے تحت سرانجام دیے جا رہے ہیں۔
پولیس کی نمائش اس انداز سے کی جا رہی ہے جیسے وہ ان کے تنخواہ دار ملازم ہوں۔ ہماری دانست میں K.E پولیس سے زیادہ طاقتور ہے وہ قوم کو بجلی کے ایسے شارٹ سرکٹ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ پوری قوم ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو سکتی ہے۔ اب آپ خود ہی دیکھ لیں انھوں نے ادارہ فراہمی آب کی صرف تین دن برق سپلائی میں تعطل پیدا کیا۔ پورا شہر عجب سراسیمگی کا شکار ہو گیا ہماری بجلی کی ٹھیکیدار کمپنی سے یہی التجا ہے کہ اشتہار بازی کے متفرقہ بھاری اخراجات کرنے کی بجائے کراچی کے عوام کو ریلیف پیکیج دے کر اپنا قبلہ درست کر لیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ سندھ پولیس بھی صوبائی حکومت کے زیر اثر ہے اور سندھ کے صوبائی وزیر برائے اطلاعات و بلدیات شرجیل میمن کا یہ کہنا کہ وفاق کے نجی کمیشن کی طرف سے کراچی الیکٹرک کو نجی سیکٹر کے حوالے کرتے وقت صوبائی حکومت کو اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ ادھر صوبائی حکومت کے زیر اثر ادارہ فراہمی آب (KW&SB) بقول کراچی الیکٹرک کے یہ ادارہ بھی واجبات کی عدم ادائیگی کا شکار ہے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ کراچی کے عوام کو ریلیف مل سکے۔