ملتان کے تین مخدوم شہزادے
ایک وقت ایسا آیا کہ جب تینوں کو کسی کی بری نظر لگ گئی اور انھوں نے بدبختی کو دعوت دی
ملتان کا نام آتے ہی پہلے ذہن میں گدا، گرما اور گورستان یاد آتے ہیں، اس شہر کو مدینۃ الاولیاء بھی کہتے ہیں کیونکہ اس شہر پر اﷲ کے ولیوں کا سایہ ہے۔
اﷲ کی محبوب روحانی شخصیات کے وہاں مزارات واقع ہیں۔ حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ، حضرت بہاء الحقؒ، حضرت رکن عالمؒ اور حضرت شاہ شمس تبریزؒ جیسی شخصیات وہاں خوابِ استراحت ہیں، ان کے مزارات مرجع خلائق ہیں اور دنیا کے کونے کونے سے ان کے مریدین اور عشاق اپنے لیے ذہنی اور قلبی سکون کی دولت سمیٹنے کے لیے اور اپنی حاجتوں کے لیے دعائیں مانگنے ان مزارات پر حاضری دیتے ہیں۔
ملتان ایک زرخیز اور مردم خیز شہر ہے، یہاں کے باسیوں اور سیاسی قائدین نے تحریکِ پاکستان کے دوران اور پاکستان بننے کے بعد استحکام پاکستان اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور نامور ہستیاں پیدا کی ہیں۔ موجودہ دور میں یہاں کے مخدوم خاندانوں کے تین معزز اور محترم سپوتوں نے پاکستان کی سیاست میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ وہ قومی افق پر کئی عشروں سے چھائے ہوئے تھے۔ ان کی وضع قطع، شکل و صورت، سرخ و سفید چہرے، دراز قد کو دیکھ کر بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ واقعی شہزادے ہیں۔ یہ تینوں ہستیاں سیاست اور اسمبلیوں کی عزت و افتخار تھے اور پارلیمنٹ کے اندر و باہر ان کی بڑی واہ واہ تھی، اتنے طویل سیاسی کردار کی بِنا پر ان کے پاس سیاست اور پارلیمانی زندگی کے تجربات کا بڑا ذخیرہ ہے جو کہ اس ملک و قوم کے لیے بڑا اثاثہ ہے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ جب تینوں کو کسی کی بری نظر لگ گئی اور انھوں نے بدبختی کو دعوت دی اور اپنے پائوں پر خود کلہاڑیاں ماریں اور غلطیاں کر بیٹھے اور قوم کی سرمایہ افتخار پارلیمنٹ سے باہر ہوگئے اور اپنے لاکھوں حامیوں اور محبت کرنے والوں کو دکھ اور افسوس کی اذیت سے دوچار کر گئے۔ ہائے بری شدنی تم نے یہ کیا غضب کیا؟ سب سے پہلے ذکر آتا ہے مخدوم یوسف رضا گیلانی کا۔ موصوف کو ملتان سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم بننے کا شرف حاصل ہوا۔ 18 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے انھیں متفقہ طور پر وزیراعظم بنایا، وہ کسی ایک آدمی کے نمایندے نہیں تھے، لیکن انھوں نے 18 کروڑ عوام کے مفاد کو نظرانداز کیا۔ عدالت کے حکم کے مطابق سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھ دیتے اور 60 کروڑ ڈالر پاکستان میں آجاتے تو ان کا کیا بگڑتا، لیکن انھوں نے بار بار عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کی بالآخر سزا پائی، نہ صرف عدالت عظمیٰ کی توہین کا طوق لے کر بلکہ آیندہ پانچ سال کے لیے نااہلیت کا سرٹیفکیٹ بھی اپنے گلے میں لٹکا کر گھر آگئے۔
دوسرے نمبر پر مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں، ان کا خاندان پکا مسلم لیگی گھرانہ ہے۔ سابق گورنر پنجاب مرحوم مخدوم سیّد سجاد حسین قریشی کے صاحبزادے ہیں، میاں نواز شریف کے وزارت اعلیٰ کے دور میں ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے، بعد میں پیپلز پارٹی میں چلے گئے لیکن وہاں ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں صحیح موقف اختیار کرنے پر وزارت خارجہ سے مستعفی ہوگئے۔ ان کا اصل مقام مسلم لیگ ہی تھا اور وہ مسلم لیگ میں شامل ہونے والے تھے کہ پاکستان میں سونامی کا طوفان آ گیا، یہ اس میں بہہ کر تحریکِ انصاف نامی پارٹی کے میدان میں پھینک دیے گئے، جہاں شاید آیندہ کئی برس تک الیکشن میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے اور پارلیمنٹ میں نہیں جاسکیں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے سیاسی پارٹی میں شمولیت نہیں کی ہے بلکہ سیاست سے بن باس لیا ہے اور عوام کی پہنچ سے دور جا کر صحرا میں اپنا ایک جھونپڑا بنا کر آیندہ پانچ سات سال تک آرام کریں گے۔
تیسرے نمبر پر آتے ہیں مخدوم جاوید ہاشمی صاحب۔ یہ شروع سے ہی طلبا سیاست میں حصّہ لیتے رہے ہیں اور بعد میں مسلم لیگ میں شامل ہو کر قومی سیاست میں بڑا نام کمایا۔ کئی بار انتخابات جیتے۔ فوجی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے پر کئی سال تک جیل میں بھی رہے۔ گراں قدر خدمات کی بِنا پر پاکستان مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ اپنی مقبولیت کی بِنا پر 2008 کے انتخابات میں چار حلقوں سے قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتیں اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ میں رہ کر بڑی عزت کمائی اور عوام کے ہیرو بن گئے۔
ان کو اس مقام پر لے جانے میں مسلم لیگ اور میاں نواز شریف کا بھی بڑا ہاتھ ہے لیکن ان کے ساتھ بھی بدبختی یہ ہوئی کہ سونامی طوفان ان کو بھی بہا کر تحریکِ انصاف کے میدانمیں پھینک گیا، جس میں شاید ان کے آیندہ کئی برسوں تک پارلیمنٹ کی نشست جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے بارے میں بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کی طرح انھوں نے بھی سیاست سے بن باس لے لیا ہے اور اپنے محبوب عوام سے دور جا کر جنگل میں جھونپڑا بنا کر صحرا نوردی اختیار کرلی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ان تینوں مخدوم شہزادوں نے اپنی راہیں خود مسدود کی ہیں، جن میں سے مخدوم یوسف رضا گیلانی کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے، انھیں تو اگلے پانچ سال تک اپنے گھر میں آرام ہی کرنا ہوگا۔ البتہ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کے بارے میں ان کی اس ملک و قوم کے لیے طویل سیاسی جمہوری پارلیمانی خدمات کی بِنا پر روشنی کی اک کرن نظر آتی ہے، وہ پارلیمنٹ میں جاسکتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے عوام کو اپنی خدمات سے مستفید کرسکیں، لیکن یہ کام وہ خود نہیں کرسکتے بلکہ ان کے بہی خواہ ہمدرد مسلم لیگ میں ہوں یا باہر کہیں بھی ہوں، سب اکٹھے ہو کر ملتان میں ان کی حمایت میں ایک جلوس نکالیں جو یہ نعرے لگائے ''مسلم لیگ میں واپس آئو۔''
یہ جلوس ان کی رہایش گاہوں پر جائے، ان سے ملے اور ان کو پھولوں کے ہار پہنائے اور اپنے کندھوں پر اٹھا کر انھیں باہر لائے اور جلوس کی شکل میں مسلم لیگ آفس لے آئے تو مسلم لیگ کے قائدین ذرا لچک دِکھائیں، گزشتہ تازہ ماضی کو بھول جائیں، ان کو پارٹی میں اہم مقام دیں تو انقلاب آجائے گا اور مسلم لیگی قائدین پورے پاکستان کی سیاست کو اپنے کنٹرول میں کرکے آیندہ انتخابات میں انشاء اﷲ جیت جائیں گے۔ مسلم لیگیو! یہ حضرات آپ کی ضرورت ہیں، قدم بڑھائیں اور ان کو منائیں، تمہارے لیے کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔
اﷲ کی محبوب روحانی شخصیات کے وہاں مزارات واقع ہیں۔ حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ، حضرت بہاء الحقؒ، حضرت رکن عالمؒ اور حضرت شاہ شمس تبریزؒ جیسی شخصیات وہاں خوابِ استراحت ہیں، ان کے مزارات مرجع خلائق ہیں اور دنیا کے کونے کونے سے ان کے مریدین اور عشاق اپنے لیے ذہنی اور قلبی سکون کی دولت سمیٹنے کے لیے اور اپنی حاجتوں کے لیے دعائیں مانگنے ان مزارات پر حاضری دیتے ہیں۔
ملتان ایک زرخیز اور مردم خیز شہر ہے، یہاں کے باسیوں اور سیاسی قائدین نے تحریکِ پاکستان کے دوران اور پاکستان بننے کے بعد استحکام پاکستان اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور نامور ہستیاں پیدا کی ہیں۔ موجودہ دور میں یہاں کے مخدوم خاندانوں کے تین معزز اور محترم سپوتوں نے پاکستان کی سیاست میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ وہ قومی افق پر کئی عشروں سے چھائے ہوئے تھے۔ ان کی وضع قطع، شکل و صورت، سرخ و سفید چہرے، دراز قد کو دیکھ کر بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ واقعی شہزادے ہیں۔ یہ تینوں ہستیاں سیاست اور اسمبلیوں کی عزت و افتخار تھے اور پارلیمنٹ کے اندر و باہر ان کی بڑی واہ واہ تھی، اتنے طویل سیاسی کردار کی بِنا پر ان کے پاس سیاست اور پارلیمانی زندگی کے تجربات کا بڑا ذخیرہ ہے جو کہ اس ملک و قوم کے لیے بڑا اثاثہ ہے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ جب تینوں کو کسی کی بری نظر لگ گئی اور انھوں نے بدبختی کو دعوت دی اور اپنے پائوں پر خود کلہاڑیاں ماریں اور غلطیاں کر بیٹھے اور قوم کی سرمایہ افتخار پارلیمنٹ سے باہر ہوگئے اور اپنے لاکھوں حامیوں اور محبت کرنے والوں کو دکھ اور افسوس کی اذیت سے دوچار کر گئے۔ ہائے بری شدنی تم نے یہ کیا غضب کیا؟ سب سے پہلے ذکر آتا ہے مخدوم یوسف رضا گیلانی کا۔ موصوف کو ملتان سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم بننے کا شرف حاصل ہوا۔ 18 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے انھیں متفقہ طور پر وزیراعظم بنایا، وہ کسی ایک آدمی کے نمایندے نہیں تھے، لیکن انھوں نے 18 کروڑ عوام کے مفاد کو نظرانداز کیا۔ عدالت کے حکم کے مطابق سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھ دیتے اور 60 کروڑ ڈالر پاکستان میں آجاتے تو ان کا کیا بگڑتا، لیکن انھوں نے بار بار عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کی بالآخر سزا پائی، نہ صرف عدالت عظمیٰ کی توہین کا طوق لے کر بلکہ آیندہ پانچ سال کے لیے نااہلیت کا سرٹیفکیٹ بھی اپنے گلے میں لٹکا کر گھر آگئے۔
دوسرے نمبر پر مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں، ان کا خاندان پکا مسلم لیگی گھرانہ ہے۔ سابق گورنر پنجاب مرحوم مخدوم سیّد سجاد حسین قریشی کے صاحبزادے ہیں، میاں نواز شریف کے وزارت اعلیٰ کے دور میں ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے، بعد میں پیپلز پارٹی میں چلے گئے لیکن وہاں ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں صحیح موقف اختیار کرنے پر وزارت خارجہ سے مستعفی ہوگئے۔ ان کا اصل مقام مسلم لیگ ہی تھا اور وہ مسلم لیگ میں شامل ہونے والے تھے کہ پاکستان میں سونامی کا طوفان آ گیا، یہ اس میں بہہ کر تحریکِ انصاف نامی پارٹی کے میدان میں پھینک دیے گئے، جہاں شاید آیندہ کئی برس تک الیکشن میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے اور پارلیمنٹ میں نہیں جاسکیں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے سیاسی پارٹی میں شمولیت نہیں کی ہے بلکہ سیاست سے بن باس لیا ہے اور عوام کی پہنچ سے دور جا کر صحرا میں اپنا ایک جھونپڑا بنا کر آیندہ پانچ سات سال تک آرام کریں گے۔
تیسرے نمبر پر آتے ہیں مخدوم جاوید ہاشمی صاحب۔ یہ شروع سے ہی طلبا سیاست میں حصّہ لیتے رہے ہیں اور بعد میں مسلم لیگ میں شامل ہو کر قومی سیاست میں بڑا نام کمایا۔ کئی بار انتخابات جیتے۔ فوجی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے پر کئی سال تک جیل میں بھی رہے۔ گراں قدر خدمات کی بِنا پر پاکستان مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ اپنی مقبولیت کی بِنا پر 2008 کے انتخابات میں چار حلقوں سے قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتیں اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ میں رہ کر بڑی عزت کمائی اور عوام کے ہیرو بن گئے۔
ان کو اس مقام پر لے جانے میں مسلم لیگ اور میاں نواز شریف کا بھی بڑا ہاتھ ہے لیکن ان کے ساتھ بھی بدبختی یہ ہوئی کہ سونامی طوفان ان کو بھی بہا کر تحریکِ انصاف کے میدانمیں پھینک گیا، جس میں شاید ان کے آیندہ کئی برسوں تک پارلیمنٹ کی نشست جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے بارے میں بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کی طرح انھوں نے بھی سیاست سے بن باس لے لیا ہے اور اپنے محبوب عوام سے دور جا کر جنگل میں جھونپڑا بنا کر صحرا نوردی اختیار کرلی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ان تینوں مخدوم شہزادوں نے اپنی راہیں خود مسدود کی ہیں، جن میں سے مخدوم یوسف رضا گیلانی کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے، انھیں تو اگلے پانچ سال تک اپنے گھر میں آرام ہی کرنا ہوگا۔ البتہ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کے بارے میں ان کی اس ملک و قوم کے لیے طویل سیاسی جمہوری پارلیمانی خدمات کی بِنا پر روشنی کی اک کرن نظر آتی ہے، وہ پارلیمنٹ میں جاسکتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے عوام کو اپنی خدمات سے مستفید کرسکیں، لیکن یہ کام وہ خود نہیں کرسکتے بلکہ ان کے بہی خواہ ہمدرد مسلم لیگ میں ہوں یا باہر کہیں بھی ہوں، سب اکٹھے ہو کر ملتان میں ان کی حمایت میں ایک جلوس نکالیں جو یہ نعرے لگائے ''مسلم لیگ میں واپس آئو۔''
یہ جلوس ان کی رہایش گاہوں پر جائے، ان سے ملے اور ان کو پھولوں کے ہار پہنائے اور اپنے کندھوں پر اٹھا کر انھیں باہر لائے اور جلوس کی شکل میں مسلم لیگ آفس لے آئے تو مسلم لیگ کے قائدین ذرا لچک دِکھائیں، گزشتہ تازہ ماضی کو بھول جائیں، ان کو پارٹی میں اہم مقام دیں تو انقلاب آجائے گا اور مسلم لیگی قائدین پورے پاکستان کی سیاست کو اپنے کنٹرول میں کرکے آیندہ انتخابات میں انشاء اﷲ جیت جائیں گے۔ مسلم لیگیو! یہ حضرات آپ کی ضرورت ہیں، قدم بڑھائیں اور ان کو منائیں، تمہارے لیے کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔