وزیراعظم نوازشریف کے خلاف تاحیات نااہلی کی درخواستیں 24 سال بعد خارج
کسی صدر،وزیراعظم،وزرا یا افسران سے نہیں ڈرتے،جوجج انصاف نہیں کرے گا وہ جہنم کے نچلے درجے میں ہوگا،عدالت کے ریمارکس
KARACHI:
ہائی کورٹ کے فل بینچ نے وزیراعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دینے کی 24 سال پرانے کیس کی درخواستیں خارج کردیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس فرخ عرفان خان کی سربراہی میں فل کورٹ نے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دینے کی 24 سال پرانی درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے خلاف آج تک کسی جج نے فیصلہ دینے کی جرأت نہیں کی جس پرعدالت نے غیر متعلقہ دلائل دینے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس فرخ عرفان خان نے درخواست گزار کے دلائل پر ریمارکس میں کہا کہ ہم کسی صدر، وزیراعظم، وزرا یا افسران سے نہیں ڈرتے، جو جج انصاف نہیں کرے گا وہ جہنم کے نچلے درجے میں ہوگا۔ عدالت نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 24 سال قبل دائر درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف مقامی شہری نے 1991 میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے غیر قانونی اثاثے قائم کیے ہیں اس لئے وہ آئین کے تحت وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے اہل نہیں ہیں۔
ہائی کورٹ کے فل بینچ نے وزیراعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دینے کی 24 سال پرانے کیس کی درخواستیں خارج کردیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس فرخ عرفان خان کی سربراہی میں فل کورٹ نے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دینے کی 24 سال پرانی درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے خلاف آج تک کسی جج نے فیصلہ دینے کی جرأت نہیں کی جس پرعدالت نے غیر متعلقہ دلائل دینے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس فرخ عرفان خان نے درخواست گزار کے دلائل پر ریمارکس میں کہا کہ ہم کسی صدر، وزیراعظم، وزرا یا افسران سے نہیں ڈرتے، جو جج انصاف نہیں کرے گا وہ جہنم کے نچلے درجے میں ہوگا۔ عدالت نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 24 سال قبل دائر درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف مقامی شہری نے 1991 میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے غیر قانونی اثاثے قائم کیے ہیں اس لئے وہ آئین کے تحت وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے اہل نہیں ہیں۔