ایگزیکٹ کی جعلسازی کا بھانڈا پھوڑنے والے مزید سابق ملازمین میدان میں آگئے
ایگزیکٹ کی ایک کمپنی قبرص میں رجسٹرڈ ’کنیکٹ شفٹ‘ تھی جس کے کاغذات میں مالک کا نام شعیب شیخ درج ہے،سابق ملازم
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے مبینہ جعلی ڈگریوں کی فروخت کرنے والی آئی ٹی کمپنی "ایگزیکٹ" کے مزید سابق ملازمین کے بیانات کی روشنی میں نئے انکشافات کئے ہیں۔
امریکی اخبارلکھتا ہے کہ ایگزیکٹ کے ملازمین کو دس پندرہ دن میں ڈگری جاری کرنے کا ٹاسک ملتا تھا اورایگزیکٹ سے آن لائن ڈپلومہ حاصل کرنے والوں میں زیادہ تعداد امریکی نوجوانوں کی تھی جو فوج میں شامل ہو کرافغانستان اورعراق جانا چاہتے تھے اور جعلی ڈگری اسکینڈل سامنے آنے کے بعد جعلی یونیورسٹیوں کے نمبرزبھی بند ہوچکے ہیں۔
اخبار نے ایگزیکٹ کے سابق ملازم سکندر ریاض کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سکندر ریاض ایگزیکٹ میں سیلزایجنٹ کے طورپر'ہینک مُوڈی' کے نام سے کام کرتا تھا جو ہاروڈ یونیورسٹی اور نکسن یونیورسٹی کی ڈگریاں فروخت کرتا تھا جب کہ اس نے 3 ماہ کے دوران تقریبا 5ً لاکھ ڈالر کی جعلی ڈگریاں فروخت کیں۔ ایگزیکٹ کے سابق ملازم کاکہنا تھا کہ کسٹمرزمیں بڑی تعداد ان امریکی نوجوانوں کی تھی جو آن لائن ڈگریاں حاصل کر کے فوج میں جانا چاہتے تھے اورکمپنی جعلی ڈگریوں کی فروخت سے روزانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک کماتی تھی۔
ایگزیکٹ کے سابق ملازم نے مزید انکشاف کیا کہ جعلی ڈگریوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بیرون ملک قائم 20 سے زائد کمپنیوں کے ذریعے وصول کی جاتی تھی جب کہ ایگزیکٹ کی ایک کمپنی قبرص میں رجسٹرڈ 'کنیکٹ شفٹ' تھی جس کے کاغذات میں مالک کا نام شعیب شیخ درج ہے۔
امریکی اخبارلکھتا ہے کہ ایگزیکٹ کے ملازمین کو دس پندرہ دن میں ڈگری جاری کرنے کا ٹاسک ملتا تھا اورایگزیکٹ سے آن لائن ڈپلومہ حاصل کرنے والوں میں زیادہ تعداد امریکی نوجوانوں کی تھی جو فوج میں شامل ہو کرافغانستان اورعراق جانا چاہتے تھے اور جعلی ڈگری اسکینڈل سامنے آنے کے بعد جعلی یونیورسٹیوں کے نمبرزبھی بند ہوچکے ہیں۔
اخبار نے ایگزیکٹ کے سابق ملازم سکندر ریاض کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سکندر ریاض ایگزیکٹ میں سیلزایجنٹ کے طورپر'ہینک مُوڈی' کے نام سے کام کرتا تھا جو ہاروڈ یونیورسٹی اور نکسن یونیورسٹی کی ڈگریاں فروخت کرتا تھا جب کہ اس نے 3 ماہ کے دوران تقریبا 5ً لاکھ ڈالر کی جعلی ڈگریاں فروخت کیں۔ ایگزیکٹ کے سابق ملازم کاکہنا تھا کہ کسٹمرزمیں بڑی تعداد ان امریکی نوجوانوں کی تھی جو آن لائن ڈگریاں حاصل کر کے فوج میں جانا چاہتے تھے اورکمپنی جعلی ڈگریوں کی فروخت سے روزانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک کماتی تھی۔
ایگزیکٹ کے سابق ملازم نے مزید انکشاف کیا کہ جعلی ڈگریوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بیرون ملک قائم 20 سے زائد کمپنیوں کے ذریعے وصول کی جاتی تھی جب کہ ایگزیکٹ کی ایک کمپنی قبرص میں رجسٹرڈ 'کنیکٹ شفٹ' تھی جس کے کاغذات میں مالک کا نام شعیب شیخ درج ہے۔