ماں

وہ اپنا وقت کس کے ساتھ گزار رہے ہیں اور ان کی صحبت کہاں، کس کے ساتھ ہے؟

apro_ku@yahoo.com

LOWER DIR:
یوں تو جب بچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دنیا میں آتا ہے، اس کی خدمت کا سلسلہ ماں کی طرف سے شروع ہو جاتا ہے یقیناً یہ ایک عظیم خدمت ہے جس کا اولاد کی جانب سے کوئی بدل ہو ہی نہیں سکتا لیکن ماں کی جانب سے اولاد کی تربیت کی جو خدمت ہے وہ بھی لاثانی ہوتی ہے۔ دنیا کی عظیم شخصیات کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان کو اس بلند مقام تک پہنچانے میں ماں کا کردار کلیدی رہا ہے۔

ماں کا وقت چونکہ والد کے مقابلے میں بچوں کے ساتھ زیادہ گزرتا ہے لہٰذا کوئی بھی ماں اپنے بچوں کی تربیت میں والد سے بڑھ کر اہم کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔ولیم شیکسپیئر کہتا ہے کہ بچے کے لیے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہوتا ہے۔ امریکا کا مشہور شاعر ایمرسن اپنی نظموں میں پیغام دیتا ہے کہ ماں کا پیار ایسا ہے جسے نہ تو کسی سے سیکھ کر حاصل کیا جا سکتا ہے نہ ہی اسے الفاظ کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ ماں کا پیار ہی ہوتا ہے جو بچے کو بگاڑ دے تو سلطانہ ڈاکو کا نام تاریخ میں رقم ہو جاتا ہے اور درست طور پر ہو تو پھر مولانا محمدعلی جوہر جیسے کردار تخلیق ہوتے ہیں کہ جس کی گواہی شاعر بھی اس طرح دیتے ہیں:

بولیں اماں محمدعلی کی

جان بیٹا خلاف پہ دے دو

اچھی سیرت اور ایمان و سچائی کے جوہر بھی والدہ پیدا کر سکتی ہے جیسا کہ اقبال نے کہا کہ:

سیرت فرزند ہا از امہات


جوہر صدق و صفا از امہات

شہید حکیم محمد سعید کی تربیت میں بھی ان کی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا، خود حکیم محمد سعید نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں اس مقام تک پہنچانے میں ان کی والدہ کا کردار نہایت اہم تھا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے بچوں کی تربیت کے علاوہ ہمدرد دوا خانے کے لیے بھی ایک فعال کردار ادا کیا تھا جس کا اعتراف خواجہ حسن نظامی بھی اپنی تحریروں میں کر چکے ہیں۔کسی بھی ماں کے پاس گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی صبح سے رات تک خاصا وقت ہوتا ہے جو وہ اپنے بچے کے ساتھ گزار سکتی ہے اور بچے کے ساتھ یہ گزرا ہوا وقت اسے ایک اچھی صحبت بھی فراہم کرتا ہے اور ایک اچھی صحبت سے ہی بچے کا کردار تخلیق پاتا ہے۔

اگر میرے قارئین میری اس بات سے اتفاق کر رہے ہیں تو راقم کی گزارش ہے کہ آئیے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں کہ آج ایک بچے اور ماں کی صحبت کس قدر برقرار ہے اور وہ بچے کی شخصیت کی تعمیر میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ کیا واقعی آج کے بچے کو اپنی ماں کی صحبت مل رہی ہے؟المیہ یہ ہے کہ آج اس عہد میں خاص کر شہری زندگی میں جو انتہائی کمرشلائز ہو چکی ہے جہاں معیار زندگی بڑھانے کے لیے کوئی بھی باپ صبح سے شام تک صرف ملازمت نہیں کرتا بلکہ اس کے بعد بھی وہ اوور ٹائم یا پھر پارٹ ٹائم ملازمت کی صورت میں رات تک محنت کرتا ہے اور تھک ہار کر اس وقت گھر پہنچتا ہے کہ جب اس کے بچے بھی تھک ہار کر سونے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں چنانچہ خاندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جہاں والد رات کو آ کر محض کھانا کھا کر تھوڑی دیر ٹی وی دیکھ کر پھر سونے کی تیاری کرتا ہے کیونکہ علی الصبح اسے پھر ملازمت پر جانا ہوتا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو اب شہری زندگی میں اکثر گھرانوں میں باپ کے پاس بچوں کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا، ظاہر ہے کہ جب باپ کے پاس وقت ہی نہ ہو تو پھر بھلا وہ بچوں کی تربیت کب اور کیسے کرے گا؟اس ساری صورتحال میں اب ماں کا کردار ماضی کے مقابلے میں اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے یوں اب ایک ماں کو بچوں کی صرف دیکھ بھال اور پرورش ہی نہیں کرنی بلکہ ان کی بہترین تربیت بھی کرنی ہے۔ اب یہاں چند ایک سوال انتہائی اہم ہیں کہ جن پہ غور و خوض کرنے کی اشد ضرورت ہے مثلاً کیا آج کی ماں اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت فراہم کرنے میں کامیاب ہے؟ کہیں وہ بھی کوئی ملازمت کرنے میں مصروف تو نہیں؟ اگر کوئی ماں بھی ملازمت کر رہی ہے تو پھر بچوں کو کون وقت دے رہا ہے۔

وہ اپنا وقت کس کے ساتھ گزار رہے ہیں اور ان کی صحبت کہاں، کس کے ساتھ ہے؟ راقم کے ایک قریبی عزیز دوست زیادہ سے زیادہ کمانے کے حصول میں کینیڈا چلے گئے پھر بیوی بچوں کو بھی بلا لیا مگر کینیڈا میں اپنے اخراجات پورے کرنے اور مزید کمانے کی غرض سے میاں بیوی دونوں نے ملازمت کر لی۔ بچے گھر پر اکیلے ہی رہنے لگے اسکول بھی اکیلے ہی جاتے، البتہ رات کو تمام گھر والے اکٹھے ضرور ہوتے تھے۔

اس عمل میں بچوں کی وہ تربیت ہوئی کہ اے لیول کی سطح پر ہی ان کے بچے اور بچی نے اپنے دوستوں سے شادی رچا لی، بیوی نے شوہر پر غفلت کا الزام لگایا اور شوہر نے بیوی پر۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شوہر تنگ آ کر تنہا ہی پاکستان آ گیا اور یہاں ملازمت تلاش کرنے لگا۔یہاں یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد اس غلطی کی شدت کا اظہار کرنا تھا کہ جب ماں بھی بچوں کو وقت نہ دے سکے تو پھر کیا کچھ نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ امریکا کے سابق صدر ابراہام لنکن کہتا ہے کہ ''وہ شخص غریب نہیں اگر اس کی خدا ترس ماں زندہ ہے۔''

آئیے غور کریں بحیثیت ماں بچوں کو کس قدر وقت دی رہی ہے؟ اگر کوئی باپ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے دہری ملازمت کر رہا ہے تو کیا باپ کے وقت اور تربیت کی کمی والدہ پوری کر رہی ہے؟ اگر وہ صرف گھریلو ذمے داری ہی ادا کر رہی ہے یعنی ماں ملازمت نہیں کر رہی ہے تو تب بھی وہ اپنے بچوں کی تربیت اور اچھی صحبت کے لیے کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ کیا وہ اپنی زندگی ''سوشل'' انداز میں تو بسر نہیں کر رہی کہ بچے اس کی مصروفیت سے وقت کی کمی کا شکار ہو رہے ہوں؟ کیا وہ اپنا وقت ٹی وی چینلز کے ڈراموں میں زیادہ تر گزار رہی ہے؟ کیا اس کی نظر اپنے بچوں پہ ہے کہ وہ اپنا وقت گھر کے بجائے کہیں اور گزار رہے ہوں؟ کیا وہ اپنے بچوں کو کمپیوٹر اور نیٹ دے کر بے فکر تو نہیں ہو گئی کہ بچے گھر کے اندر ہی وقت گزار رہے ہیں جب کہ یہ عمل ان کے کردار کو بھی مسخ کر رہا ہو؟ آئیے غور کیجیے۔
Load Next Story