’’شیلا شیلا‘‘ گارہا تھا کہ ’’شیلا‘‘ آگئی اور میں مائیک پھینک کر بھاگا
پوپ سنگر سلیم جاوید کے سُرسفر کی ایک دھاڑتی چھنگاڑتی یاد.
اور سلیم جاوید کی پکار پر ''شیلا'' ان کے قریب آگئی، لیکن یہ کیا۔۔۔؟
وہ تو اُسے دیکھ کر ایسے بھاگے، جیسے وہ انھیں ہڑپ کر جائے گی، جب کہ چند لمحے قبل وہ دل کی گہرائیوں سے اُسے یاد کر رہے تھے!
پاکستان میں پاپ گائیکی کو نئی جہت دینے والے مقبول گلوکار سلیم جاوید نے 80 کی دہائی میں عروج حاصل کیا، جس کا سبب فقط منفرد طرز گائیکی نہیں، بلکہ اُن ہیراسٹائل اور جدید رجحانات سے ہم آہنگ ملبوسات کے چنائو بھی تھا، جسے اُس وقت ہزاروں نوجوانوں نے اپنایا۔
پاپ انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد اُنھوں نے ری مکس کے کئی کام یاب تجربات کیے۔ 1985میں ریلیز ہونے والے ان کے البم میں میڈم نورجہاں کے گیت ''جانم اے جانم'' کا ری مکس بھی شامل تھا، جس نے اُنھیں شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ انھوں نے لوک گیت ''لیلی او لیلی'' کو کمال مہارت سے نئے اسلوب میں ڈھالا جب کہ ''جُگنی'' کا ری مکس مارکیٹ میں آنے کے بعد تو جیسے منظر ہی بدل گیا۔ پاکستان اور بیرونِ ملک آج بھی ان کے پرستار ان کی آواز اور انداز کے دیوانے ہیں۔ ''بھلا نہ سکے'' کے لیے اُنھوں نے ایک دل چسپ واقعہ اس طرح بیان کیا۔
''غالباً ہمارے ہاں یہ اپنی نوعیت اکلوتا واقعہ ہے کہ سُر اور سنگیت کی خوش رنگ محفل میں شایستہ اور رومان پرور افراد کے درمیان ایک درندہ بھی موجود تھا۔''
'' اس بات کو تقریباً پندرہ سال بیت چکے ہیں۔ یہ میرے لیے اپنی نوعیت کا ایک عجیب و غریب واقعہ اور دل چسپ یاد ہے۔ کراچی میں معروف سیاسی راہ نما سینیٹر زاہد اختر، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان کے گھر پر ایک میوزیکل شو کا اہتمام کیا گیا، مجھے اس میں پرفارم کرنا تھا۔ اس شو کے آرگنائزر شوکت رضوی صاحب تھے، ان دنوں میرا گانا 'شیلا شیلا' بہت پسند کیا جارہا تھا اور میوزیکل شوز میں اس کی فرمائش کی جاتی تھی۔''
واضح رہے کہ زاہد اختر مرحوم کو شیر پالنے کا شوق تھا، جو عام طور پر ان کے بنگلے کے اندرونی حصّے میں پھرتے رہتے تھے۔ تاہم اس روز تمام پالتو شیر پنجروں میں قید تھے۔ سلیم جاوید کے مطابق انھیں اسٹیج پر دعوت دی گئی، تو انھوں نے حاضرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے گانے ''شیلا شیلا'' کا انتخاب کیا۔
'' میں اسٹیج پر پرفارم کر رہا تھا اور سب کی نظریں مجھ پر تھیں۔ حاضرین میرا ساتھ دیتے ہوئے جھوم رہے تھے اور خود میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے دوران گویا ہر طرف سے بے گانہ ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ حاضرین کی طرف سے مجھے کچھ آوازیں سنائی دیں، لیکن میں نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ نہ صرف مجھ سے کچھ کہنا چاہتے تھے، بلکہ ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے پیچھے دیکھنے کے لیے بھی کہہ رہے تھے، وہاں موجود بچوں نے اسٹیج کے قریب آکر مجھے کچھ بتانے کی کوشش کی اور ہاتھوں کے اشارے سے اپنی بات سمجھانی چاہی، لیکن فوری طور پر میں سمجھ نہیں پایا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔''
''خیر، پرفارمینس کے دوران اچانک میں پیچھے مڑا، تو میری جان ہی نکل گئی۔ وہاں ایک شیرنی بیٹھی ہوئی تھی، جو میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔ میں حواس باختہ ہو گیا اور مائک پھینک کر اسٹیج سے اتر کر بھاگا، تو وہ میرے پیچھے آنے لگی، میں پبلک میں گھس گیا اور اس وقت تک خوف زدہ رہا، جب تک منتظمین کی طرف سے اس شیرنی کی زنجیر نہیں تھام لی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ زاہد اختر (مرحوم) کی پالتو شیرنی تھی اور اس کا نام 'شیلا' تھا، اور یہ لفظ میرے گانے کے بول میں شامل تھا۔''
''مجھے بتایا گیا کہ وہ اپنے پنجرے میں بند تھی، لیکن جب اس نے میرے گانے کے بول یعنی 'شیلا شیلا ' سنے تو بے چین ہو گئی اور پنجرے میں ادھر ادھر بے تابی سے بھاگنے لگی۔ اس وجہ سے وہ اسے اسٹیج پر لے آئے اور وہاں بٹھا دیا۔ مجھے اس بات کا بالکل بھی علم نہیں تھا کہ میرے پیچھے کوئی درندہ موجود ہے اور وہ بھی میرے گانے سے محظوظ ہو رہا ہے۔''
سلیم جاوید کے مطابق زاہد اختر نے بعد میں انھیں بتایا کہ وہ شیرنی ان کے گھر کے ہر فرد کو پہچانتی ہے، بلکہ ان کی پوتی تو اس پر سواری بھی کرتی ہے۔ اس لیے اُس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، لیکن سلیم جاوید کا کہنا تھا کہ وہ انھیں کہاں جانتی ہے، اس لیے وہ اس شیرنی سے بے تکلف ہونے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔
سلیم جاوید بتاتے ہیں کہ ایک اور موقعے پر اسی گھر میں انھیں پرفارم کرنے کے لیے بلایا گیا، تو وہ منظر ان کی آنکھوں میں گھوم گیا۔ اس موقعے پر زاہد اختر مرحوم کے اہل خانہ نے بھی انھیں وہ واقعہ یاد دلایا اور خوب لطف اندوز ہوئے۔
وہ تو اُسے دیکھ کر ایسے بھاگے، جیسے وہ انھیں ہڑپ کر جائے گی، جب کہ چند لمحے قبل وہ دل کی گہرائیوں سے اُسے یاد کر رہے تھے!
پاکستان میں پاپ گائیکی کو نئی جہت دینے والے مقبول گلوکار سلیم جاوید نے 80 کی دہائی میں عروج حاصل کیا، جس کا سبب فقط منفرد طرز گائیکی نہیں، بلکہ اُن ہیراسٹائل اور جدید رجحانات سے ہم آہنگ ملبوسات کے چنائو بھی تھا، جسے اُس وقت ہزاروں نوجوانوں نے اپنایا۔
پاپ انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد اُنھوں نے ری مکس کے کئی کام یاب تجربات کیے۔ 1985میں ریلیز ہونے والے ان کے البم میں میڈم نورجہاں کے گیت ''جانم اے جانم'' کا ری مکس بھی شامل تھا، جس نے اُنھیں شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ انھوں نے لوک گیت ''لیلی او لیلی'' کو کمال مہارت سے نئے اسلوب میں ڈھالا جب کہ ''جُگنی'' کا ری مکس مارکیٹ میں آنے کے بعد تو جیسے منظر ہی بدل گیا۔ پاکستان اور بیرونِ ملک آج بھی ان کے پرستار ان کی آواز اور انداز کے دیوانے ہیں۔ ''بھلا نہ سکے'' کے لیے اُنھوں نے ایک دل چسپ واقعہ اس طرح بیان کیا۔
''غالباً ہمارے ہاں یہ اپنی نوعیت اکلوتا واقعہ ہے کہ سُر اور سنگیت کی خوش رنگ محفل میں شایستہ اور رومان پرور افراد کے درمیان ایک درندہ بھی موجود تھا۔''
'' اس بات کو تقریباً پندرہ سال بیت چکے ہیں۔ یہ میرے لیے اپنی نوعیت کا ایک عجیب و غریب واقعہ اور دل چسپ یاد ہے۔ کراچی میں معروف سیاسی راہ نما سینیٹر زاہد اختر، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان کے گھر پر ایک میوزیکل شو کا اہتمام کیا گیا، مجھے اس میں پرفارم کرنا تھا۔ اس شو کے آرگنائزر شوکت رضوی صاحب تھے، ان دنوں میرا گانا 'شیلا شیلا' بہت پسند کیا جارہا تھا اور میوزیکل شوز میں اس کی فرمائش کی جاتی تھی۔''
واضح رہے کہ زاہد اختر مرحوم کو شیر پالنے کا شوق تھا، جو عام طور پر ان کے بنگلے کے اندرونی حصّے میں پھرتے رہتے تھے۔ تاہم اس روز تمام پالتو شیر پنجروں میں قید تھے۔ سلیم جاوید کے مطابق انھیں اسٹیج پر دعوت دی گئی، تو انھوں نے حاضرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے گانے ''شیلا شیلا'' کا انتخاب کیا۔
'' میں اسٹیج پر پرفارم کر رہا تھا اور سب کی نظریں مجھ پر تھیں۔ حاضرین میرا ساتھ دیتے ہوئے جھوم رہے تھے اور خود میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے دوران گویا ہر طرف سے بے گانہ ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ حاضرین کی طرف سے مجھے کچھ آوازیں سنائی دیں، لیکن میں نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ نہ صرف مجھ سے کچھ کہنا چاہتے تھے، بلکہ ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے پیچھے دیکھنے کے لیے بھی کہہ رہے تھے، وہاں موجود بچوں نے اسٹیج کے قریب آکر مجھے کچھ بتانے کی کوشش کی اور ہاتھوں کے اشارے سے اپنی بات سمجھانی چاہی، لیکن فوری طور پر میں سمجھ نہیں پایا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔''
''خیر، پرفارمینس کے دوران اچانک میں پیچھے مڑا، تو میری جان ہی نکل گئی۔ وہاں ایک شیرنی بیٹھی ہوئی تھی، جو میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔ میں حواس باختہ ہو گیا اور مائک پھینک کر اسٹیج سے اتر کر بھاگا، تو وہ میرے پیچھے آنے لگی، میں پبلک میں گھس گیا اور اس وقت تک خوف زدہ رہا، جب تک منتظمین کی طرف سے اس شیرنی کی زنجیر نہیں تھام لی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ زاہد اختر (مرحوم) کی پالتو شیرنی تھی اور اس کا نام 'شیلا' تھا، اور یہ لفظ میرے گانے کے بول میں شامل تھا۔''
''مجھے بتایا گیا کہ وہ اپنے پنجرے میں بند تھی، لیکن جب اس نے میرے گانے کے بول یعنی 'شیلا شیلا ' سنے تو بے چین ہو گئی اور پنجرے میں ادھر ادھر بے تابی سے بھاگنے لگی۔ اس وجہ سے وہ اسے اسٹیج پر لے آئے اور وہاں بٹھا دیا۔ مجھے اس بات کا بالکل بھی علم نہیں تھا کہ میرے پیچھے کوئی درندہ موجود ہے اور وہ بھی میرے گانے سے محظوظ ہو رہا ہے۔''
سلیم جاوید کے مطابق زاہد اختر نے بعد میں انھیں بتایا کہ وہ شیرنی ان کے گھر کے ہر فرد کو پہچانتی ہے، بلکہ ان کی پوتی تو اس پر سواری بھی کرتی ہے۔ اس لیے اُس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، لیکن سلیم جاوید کا کہنا تھا کہ وہ انھیں کہاں جانتی ہے، اس لیے وہ اس شیرنی سے بے تکلف ہونے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔
سلیم جاوید بتاتے ہیں کہ ایک اور موقعے پر اسی گھر میں انھیں پرفارم کرنے کے لیے بلایا گیا، تو وہ منظر ان کی آنکھوں میں گھوم گیا۔ اس موقعے پر زاہد اختر مرحوم کے اہل خانہ نے بھی انھیں وہ واقعہ یاد دلایا اور خوب لطف اندوز ہوئے۔