سندھ کے سرکاری محکموں میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف
صرف محکمہ خوراک میں خریدی ہوئی گندم کو غیرمناسب طریقے سے ذخیرہ کرنے کی مد میں 7ارب 19 کروڑ کی بے ضابطگی ہوئی
سندھ کے مختلف سرکاری محکموں میں فنڈزکے استعمال میں سال 14-2013 کے دوران اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کاانکشاف ہوا ہے، ان محکموں میں سرفہرست محکمہ خوراک، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت، محکمہ داخلہ، محکمہ ریونیو، محکمہ خزانہ، محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن، محکمہ توانائی، محکمہ آبپاشی، محکمہ ورکس اینڈ سروسز، محکمہ لائیواسٹاک اینڈ فشریز اور وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ شامل ہیں۔
مالی بے ضابطگیوں کاانکشاف حکومت سندھ کے سالانہ اکاؤنٹس (2013-2014)کے کیے گئے آڈٹ میں ہواہے، مذکورہ آڈٹ رپورٹ ڈائریکٹرجنرل آڈٹ سندھ غلام اکبرسوہو نے حال ہی میں گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو پیش کی تھی۔ مذکورہ رپورٹ میں36صوبائی اداروں کے اکاؤنٹس سے متعلق 403 آڈٹ پیراز پر مشتمل ہے۔ایکسپریس کودستیاب مذکورہ آڈٹ رپورٹ کی کاپی کے مطابق محکمہ خوراک نے 7ارب 19 کروڑ کی بے ضابطگی خریدی ہوئی گندم کو غیرمناسب طریقے سے ذخیرہ کرنے کی مدمیں ہوئی جبکہ محکمے کی جانب سے 82کروڑ سے زائد رقم پر مشتمل گندم کی ٹرانسپورٹیشن کا ٹھیکہ بھی غیر قانونی طریقے سے دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ خوراک کے افسران کی نااہلی اور لاپرواہی کے باعث سرکاری خزانے کو20 کروڑ روپے سے زائدرقم کا نقصان بھی ہوا۔رپورٹ میں انکشاف کیاگیاکہ گزشتہ مالی سال کے دوران محکمہ ریوینیونے ایک ارب 84کروڑ روپے کے اخراجات بغیرٹینڈرکیے،جبکہ ایک88کروڑروپے کی ادائیگیاں غیرقانونی طور پر کیں، اور مختلف محصولات کی کٹوتی نہ کرکے سرکاری خزانہ کو 20 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان بھی پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم تین ارب روپے سے زائد کی بے مالی ضابطگیاں سامنے آئیں جن میں یورپین یونین سے ایک ارب 44کروڑ روپے کی گرانٹ حاصل کرنے میں ناکامی اور67کروڑ روپے کی فراہم کردہ رقم استعمال نہ کرنا شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیاہے محکمہ صحت میں 71کروڑ روپے کی رقم کا خلاف ضابطہ استعمال دوائیوںکی خریداری کی مد میں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ داخلہ نے ایک ارب 34کروڑروپے کی رقم غیرقانونی طورپر ہاتھ سے بنائے گئے،تنخواہوں کے بل اداکرنے پرخرچ کر ڈالی۔محکمہ لائیواسٹاک اینڈ فشریز نے 3 ارب 36 کروڑ روپے مالیت کے ٹھیکے غیرشفاف طور پر دے دیے جبکہ محکمہ خزانہ کے افسران نے18 کروڑ سے زائد کی رقم جعلی ملازمین پر خرچ کردی۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری محکموں کو قوائدو ضوابط کے تحت کام کرنے کی ہدایات جاری کرنے والا محکمہ سروسز اینڈجنرل ایڈمنسٹریشن بھی بے ضابطگیوں میں پیچھے نہیں رہا اور مذکورہ محکمے نے 58کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ٹھیکے ایکنیک سے منظوری لیے بغیر دے دیے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس سندھ کے افسران نے بھی سرکاری خزانے کے غیرقانونی استعمال میں کسر نہیں چھوڑی اوروزیر اعلیٰ ہاؤس کے اکاؤنٹس میں بھی تقریباً ایک ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ ہاؤس میں 71 کروڑ روپے سے زائد رقوم کی غیر قانونی منتقلیاں ریکارڈ کی گئیں،جبکہ واجبات وصول نہ کرکے سرکاری خزانہ کو 29 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان الگ سے پہنچایا گیا۔محکمہ آبپاشی کے افسران نے سخاوت کا مظاہرہ کرکے ایک ٹھیکیدار کو71 کروڑروپے دیدیے حالانکہ مذکورہ ٹھیکیدارنے دیاگیاکام ہی مکمل نہیں کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ ورکس اینڈسروسز میں بھی 43کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں نوٹ کی گئیں جو پی سی ون کی منظوری کے بغیر ٹھیکیداروں سے کام کرانے کی مدمیں سامنے آئیں۔محکمہ توانائی نے بھی بجلی پرمحصولات وصول نہ کرکے سرکاری خزانہ کو 17کروڑ روپے کانقصان پہنچایا۔
مالی بے ضابطگیوں کاانکشاف حکومت سندھ کے سالانہ اکاؤنٹس (2013-2014)کے کیے گئے آڈٹ میں ہواہے، مذکورہ آڈٹ رپورٹ ڈائریکٹرجنرل آڈٹ سندھ غلام اکبرسوہو نے حال ہی میں گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو پیش کی تھی۔ مذکورہ رپورٹ میں36صوبائی اداروں کے اکاؤنٹس سے متعلق 403 آڈٹ پیراز پر مشتمل ہے۔ایکسپریس کودستیاب مذکورہ آڈٹ رپورٹ کی کاپی کے مطابق محکمہ خوراک نے 7ارب 19 کروڑ کی بے ضابطگی خریدی ہوئی گندم کو غیرمناسب طریقے سے ذخیرہ کرنے کی مدمیں ہوئی جبکہ محکمے کی جانب سے 82کروڑ سے زائد رقم پر مشتمل گندم کی ٹرانسپورٹیشن کا ٹھیکہ بھی غیر قانونی طریقے سے دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ خوراک کے افسران کی نااہلی اور لاپرواہی کے باعث سرکاری خزانے کو20 کروڑ روپے سے زائدرقم کا نقصان بھی ہوا۔رپورٹ میں انکشاف کیاگیاکہ گزشتہ مالی سال کے دوران محکمہ ریوینیونے ایک ارب 84کروڑ روپے کے اخراجات بغیرٹینڈرکیے،جبکہ ایک88کروڑروپے کی ادائیگیاں غیرقانونی طور پر کیں، اور مختلف محصولات کی کٹوتی نہ کرکے سرکاری خزانہ کو 20 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان بھی پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم تین ارب روپے سے زائد کی بے مالی ضابطگیاں سامنے آئیں جن میں یورپین یونین سے ایک ارب 44کروڑ روپے کی گرانٹ حاصل کرنے میں ناکامی اور67کروڑ روپے کی فراہم کردہ رقم استعمال نہ کرنا شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیاہے محکمہ صحت میں 71کروڑ روپے کی رقم کا خلاف ضابطہ استعمال دوائیوںکی خریداری کی مد میں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ داخلہ نے ایک ارب 34کروڑروپے کی رقم غیرقانونی طورپر ہاتھ سے بنائے گئے،تنخواہوں کے بل اداکرنے پرخرچ کر ڈالی۔محکمہ لائیواسٹاک اینڈ فشریز نے 3 ارب 36 کروڑ روپے مالیت کے ٹھیکے غیرشفاف طور پر دے دیے جبکہ محکمہ خزانہ کے افسران نے18 کروڑ سے زائد کی رقم جعلی ملازمین پر خرچ کردی۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری محکموں کو قوائدو ضوابط کے تحت کام کرنے کی ہدایات جاری کرنے والا محکمہ سروسز اینڈجنرل ایڈمنسٹریشن بھی بے ضابطگیوں میں پیچھے نہیں رہا اور مذکورہ محکمے نے 58کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ٹھیکے ایکنیک سے منظوری لیے بغیر دے دیے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس سندھ کے افسران نے بھی سرکاری خزانے کے غیرقانونی استعمال میں کسر نہیں چھوڑی اوروزیر اعلیٰ ہاؤس کے اکاؤنٹس میں بھی تقریباً ایک ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ ہاؤس میں 71 کروڑ روپے سے زائد رقوم کی غیر قانونی منتقلیاں ریکارڈ کی گئیں،جبکہ واجبات وصول نہ کرکے سرکاری خزانہ کو 29 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان الگ سے پہنچایا گیا۔محکمہ آبپاشی کے افسران نے سخاوت کا مظاہرہ کرکے ایک ٹھیکیدار کو71 کروڑروپے دیدیے حالانکہ مذکورہ ٹھیکیدارنے دیاگیاکام ہی مکمل نہیں کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ ورکس اینڈسروسز میں بھی 43کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں نوٹ کی گئیں جو پی سی ون کی منظوری کے بغیر ٹھیکیداروں سے کام کرانے کی مدمیں سامنے آئیں۔محکمہ توانائی نے بھی بجلی پرمحصولات وصول نہ کرکے سرکاری خزانہ کو 17کروڑ روپے کانقصان پہنچایا۔