سانحہ ڈسکہ وکلا کا پر تشدد احتجاج پنجاب اسمبلی پر دھاوا چوکی نذر آتش
وکلاء کی جانب سے ملتان، گجرانوالہ اور سیالکوٹ میں بھی سرکاری دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی
ڈسکہ میں پولیس کے ہاتھوں مبینہ قتل ہونیوالے دونوں وکلاکو نماز جنازہ کے بعد آبائی قبرستانوں میں سپرد خاک کر دیاگیا ، وکلاء تنظیموں کی کال پر سانحہ کیخلاف ملک بھر میں مکمل ہڑتال اورعدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا جس کے باعث ہزاروں مقدمات کی سماعت نہ ہو سکی، وکلاء نے ریلیاں نکالیں اور احتجاجی مظاہرے کیے جس ک دوران پرتشدد احتجاج کیا گیا۔
پیر کے روز پولیس کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق ہونیوالے تحصیل بار کے صدر رانا خالد عباس اور ایڈووکیٹ عرفان چوہان کی نماز جنازہ ڈسکہ میں ادا کی گئی جس میں سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور ، مقامی سیاسی شخصیات سمیت پنجاب بھر سے وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی، نماز جنازہ کے بعد مرحومین کو ان کے آبائی قبرستانوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اس دوران وکلاء میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور پولیس کیخلاف نعرے بازی بھی کی جاتی رہی۔ڈسکہ میں دوسرے دن بھی حالات بدستور کشیدہ رہے، اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کرکے رینجرز تعینات کی گئی تھی جبکہ قانون نافذ کرنیوالے دیگر ادارے بھی الرٹ رہے۔ واقعے کیخلاف شہر بھر میں سوگ کا سماں رہا ، مارکیٹیں اور ٹرانسپورٹ بھی بند رہی، امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر تعلیمی اداروں میں بھی چھٹی رہی۔
لاہور میں وکلا کی غائبانہ نماز جنازہ میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منظور ملک اور دیگر جج صاحبان سمیت وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ لاہور میں ہائیکورٹ بار کے صدر پیرمسعود چشتی کی زیر صدارت پاکستان بار کونسل ، پنجاب بار کونسل، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور بار ایسوسی ایشن اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کامشترکہ اجلاس ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ڈسکہ کے لیے جوڈیشل انکوائری کی ضرورت نہیں سانحہ میں ملوث تمام ملزمان کا سب کو علم ہے، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں چالان پیش کر کے 15دن کے اندر اندر فیصلہ سنایا جائے۔ اجلاس میں ہائیکورٹ بار کے صدر پیر مسعود چشتی نے اعلان کیا کہ ہلاکتوں کے خلاف 3 دن تک سوگ منایا جائے گا اور روزانہ 11 بجے کے بعد عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جائےگا۔
کراچی میں بھی سانحہ ڈسکہ کے خلاف وکلا نے احتجاج کیا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔دریں اثنا پنجاب بار کونسل نے ڈسکہ واقعے کیخلاف دو روزہ سوگ اور ہڑتال کا اعلان کیا ہے، بعد ازاں وکلا نے جی پی او چوک پر احتجاج کرنے کے ساتھ فیصل چوک تک احتجاجی ریلی نکالی، فیصل چوک پہنچتے ہی وکلاء نے پنجاب اسمبلی پر دھاوا بول دیا اور اسمبلی کا گھیراؤ کر لیا۔
مشتعل وکلاء نے اسمبلی کے اندر بھی داخل ہونے کی کوشش کی تاہم مرکزی دروازہ بند ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔احتجاج کے دوران مشتعل وکلاء نے اسمبلی کے مرکزی گیٹ کے باہر سیکیورٹی کے لیے بنائے گئے شیڈ اور وہاں قائم پولیس چوکی کو آگ لگا دی، اسمبلی کے باہر لگے سیکیورٹی کیمرے بھی توڑ دیے اور ٹائر جلا کر مال روڈ کو بلاک کردیا جس کے باعث ٹریفک کئی گھنٹے تک تعطل کا شکار رہی۔ بعد ازاں وکلا واپس چلے گئے جب کہ وکلا کے ایک گروپ نے مال روڈ پر ہائیکورٹ کے ججز گیٹ کے باہر دھرنا دے کر دونوں جانب کی سڑکوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا ، اس دوران راہگیروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ ایلیٹ فورس کی ایک گاڑی کو روک کرتوڑ پھوڑ کرنے کے بعد اسے آگ لگانے کی کوشش کی،گاڑی کی سیٹوں کو باہر نکال کو انھیں آگ لگا دی اورڈنڈوں سے گاڑی کے شیشے توڑ کر اسے الٹا دیا، ڈرائیور اورسادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے موبائل فون چھین لیے۔
لاہور کے علاوہ ڈسکہ ، فیروز والا ، ننکانہ صاحب ،چیچہ وطنی، اوکاڑہ، شیخوپورہ، ساہیوال،گگو منڈ ی، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ہڑپہ، ہارون آباد ،قبولہ، نورشاہ، شیر گڑھ، عار ف والا،بورے والا، منچن آباد، پاکپتن، ملتان ، اسلام آباد ، راولپنڈی، حیدرآباد، چمن سمیت ملک بھر کے دیگر شہروں میں بھی وکلا تنظیموں نے احتجاجی اجلاس منعقد کر کے اس سانحے کی مذمت اور ذمہ دارن کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں بھی وکلا سراپا احتجاج رہے، اس موقع پر واقعہ کی مذمت اور شہید وکلا رہنماؤں کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی ۔سیالکوٹ میں بھی وکلا نے ڈی پی او آفس کا گھیراؤ کیا جس پر پولیس کی جانب سے وکلا کو منتشر کرنے کیلیے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی گئی۔ شیخو پورہ میں وکلا نے ڈی پی او آفس و تھانہ بی ڈویژن کا گھیراؤ کرکے پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی، اس دوران وکلا زبردستی تھانے میںگھس گئے، رینالہ خوردمیں وکلا کے احتجاجی جلوس کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے ہوائی فائرنگ کی جس پر تھانہ سٹی کے سب انسپکٹر سمیت چار پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
https://www.dailymotion.com/video/x2rlrj3
پیر کے روز پولیس کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق ہونیوالے تحصیل بار کے صدر رانا خالد عباس اور ایڈووکیٹ عرفان چوہان کی نماز جنازہ ڈسکہ میں ادا کی گئی جس میں سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور ، مقامی سیاسی شخصیات سمیت پنجاب بھر سے وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی، نماز جنازہ کے بعد مرحومین کو ان کے آبائی قبرستانوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اس دوران وکلاء میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور پولیس کیخلاف نعرے بازی بھی کی جاتی رہی۔ڈسکہ میں دوسرے دن بھی حالات بدستور کشیدہ رہے، اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کرکے رینجرز تعینات کی گئی تھی جبکہ قانون نافذ کرنیوالے دیگر ادارے بھی الرٹ رہے۔ واقعے کیخلاف شہر بھر میں سوگ کا سماں رہا ، مارکیٹیں اور ٹرانسپورٹ بھی بند رہی، امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر تعلیمی اداروں میں بھی چھٹی رہی۔
لاہور میں وکلا کی غائبانہ نماز جنازہ میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منظور ملک اور دیگر جج صاحبان سمیت وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ لاہور میں ہائیکورٹ بار کے صدر پیرمسعود چشتی کی زیر صدارت پاکستان بار کونسل ، پنجاب بار کونسل، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور بار ایسوسی ایشن اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کامشترکہ اجلاس ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ڈسکہ کے لیے جوڈیشل انکوائری کی ضرورت نہیں سانحہ میں ملوث تمام ملزمان کا سب کو علم ہے، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں چالان پیش کر کے 15دن کے اندر اندر فیصلہ سنایا جائے۔ اجلاس میں ہائیکورٹ بار کے صدر پیر مسعود چشتی نے اعلان کیا کہ ہلاکتوں کے خلاف 3 دن تک سوگ منایا جائے گا اور روزانہ 11 بجے کے بعد عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جائےگا۔
کراچی میں بھی سانحہ ڈسکہ کے خلاف وکلا نے احتجاج کیا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔دریں اثنا پنجاب بار کونسل نے ڈسکہ واقعے کیخلاف دو روزہ سوگ اور ہڑتال کا اعلان کیا ہے، بعد ازاں وکلا نے جی پی او چوک پر احتجاج کرنے کے ساتھ فیصل چوک تک احتجاجی ریلی نکالی، فیصل چوک پہنچتے ہی وکلاء نے پنجاب اسمبلی پر دھاوا بول دیا اور اسمبلی کا گھیراؤ کر لیا۔
مشتعل وکلاء نے اسمبلی کے اندر بھی داخل ہونے کی کوشش کی تاہم مرکزی دروازہ بند ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔احتجاج کے دوران مشتعل وکلاء نے اسمبلی کے مرکزی گیٹ کے باہر سیکیورٹی کے لیے بنائے گئے شیڈ اور وہاں قائم پولیس چوکی کو آگ لگا دی، اسمبلی کے باہر لگے سیکیورٹی کیمرے بھی توڑ دیے اور ٹائر جلا کر مال روڈ کو بلاک کردیا جس کے باعث ٹریفک کئی گھنٹے تک تعطل کا شکار رہی۔ بعد ازاں وکلا واپس چلے گئے جب کہ وکلا کے ایک گروپ نے مال روڈ پر ہائیکورٹ کے ججز گیٹ کے باہر دھرنا دے کر دونوں جانب کی سڑکوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا ، اس دوران راہگیروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ ایلیٹ فورس کی ایک گاڑی کو روک کرتوڑ پھوڑ کرنے کے بعد اسے آگ لگانے کی کوشش کی،گاڑی کی سیٹوں کو باہر نکال کو انھیں آگ لگا دی اورڈنڈوں سے گاڑی کے شیشے توڑ کر اسے الٹا دیا، ڈرائیور اورسادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے موبائل فون چھین لیے۔
لاہور کے علاوہ ڈسکہ ، فیروز والا ، ننکانہ صاحب ،چیچہ وطنی، اوکاڑہ، شیخوپورہ، ساہیوال،گگو منڈ ی، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ہڑپہ، ہارون آباد ،قبولہ، نورشاہ، شیر گڑھ، عار ف والا،بورے والا، منچن آباد، پاکپتن، ملتان ، اسلام آباد ، راولپنڈی، حیدرآباد، چمن سمیت ملک بھر کے دیگر شہروں میں بھی وکلا تنظیموں نے احتجاجی اجلاس منعقد کر کے اس سانحے کی مذمت اور ذمہ دارن کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں بھی وکلا سراپا احتجاج رہے، اس موقع پر واقعہ کی مذمت اور شہید وکلا رہنماؤں کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی ۔سیالکوٹ میں بھی وکلا نے ڈی پی او آفس کا گھیراؤ کیا جس پر پولیس کی جانب سے وکلا کو منتشر کرنے کیلیے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی گئی۔ شیخو پورہ میں وکلا نے ڈی پی او آفس و تھانہ بی ڈویژن کا گھیراؤ کرکے پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی، اس دوران وکلا زبردستی تھانے میںگھس گئے، رینالہ خوردمیں وکلا کے احتجاجی جلوس کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے ہوائی فائرنگ کی جس پر تھانہ سٹی کے سب انسپکٹر سمیت چار پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
https://www.dailymotion.com/video/x2rlrj3