پولیس گردی بمقابلہ وکلا گردی
اِس کو لمیہ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ ایک طرف آگ لگی ہوئی ہے اور دوسری جانب حکومت اپنے کاموں میں مگن ہے۔
NEW DELHI:
بچپن میں اگر گھر لوٹ آنے میں دیر ہوئی یا کبھی چھٹی کے دن صرف کھیلنے کودنے میں دن گزار دیتے تو والدین کی طرف سے سننے کو ملتا کہ بس کر دو آوارہ ''گردی'' کبھی پڑھ بھی لیا کرو ۔۔۔ جیسے جیسے وقت گزرتا رہا اور میں بڑا ہوتا گیا 'گردی' کا لفظ مختلف شکلوں میں ڈھلتی اور بڑھتی رہی۔
پھر حالات و واقعات تبدیل ہوتے رہے اور دنیا میں دہشت گردی کی لہر شروع ہوئی تو پوری دنیا اس گردی سے چھٹکارا پانے کے پیچھے لگ گئی۔
پاکستان میں میڈیا آزاد ہوا تو سب میڈیا گردی کا راگ آلاپنے لگے، وزیر داخلہ چوہدری نثار نے میڈیا کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ جس کے پیچھے میڈیا لگ جائے اس کو صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت اپنے زور پر شہر یا علاقہ بند کرواتی ہے تو دیگر جماعتیں اسے سیاسی دہشت گردی کہتے ہیں۔ لاہور میں منہاج القران کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے پولیس نے کارروائی کی جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، پھر سب نے اُسے پولیس گردی کہا۔۔۔
باقی رہ گئے قانون دان اور قانون کے محافظ یعنی وکلاء برادری تو بھائی اب ملک میں قانون بچا ہی کہاں ہے جو قانون کی حفاظت ہو۔ بس اب جہاں جس کا زور چلتا ہے وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیتے ہیں کیوںکہ آخر کوئی کب تک برداشت کرے گا؟ کون مار کھا کر بعد میں عدالتوں کے ہاتھوں تاریخ پر تاریخ کا کھیل کھیلے گا۔ قانون کے حوالے سے اکثر آپ نے سنا ہوگا کہ انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی ہونا چاہیے۔
کل ڈسکہ میں پولیس گردی کا نشانہ وکلا بنے اور دو وکیل اپنی جان کی بازی ہارگئے۔ یقیناً یہ ایک ناقابل معافی و تلافی نقصان ہے لیکن جو اِس کے جواب میں وکلاء گردی ہوئی وہ بھی کوئی احسن رد عمل ہرگز نہیں۔ وکلا برادری نے ردعمل میں ڈی ایس پی کی گاڑی اور دفتر کو آگ لگا دی۔ جو پولیس اہلکار ہاتھ آیا اُس پر خوب ہاتھ صاف کیے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے فائرنگ کرنے والے ایس ایچ او کو فائرنگ کے احکامات اِن لوگوں نے ہی دئیے ہیں۔
یہ ردعمل صرف ڈسکہ سیالکوٹ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں وکلا سراپا احتجاج ہوگئے۔ احتجاج سب کا حق ہے لیکن ایسے احتجاج جس میں قانون کے رکھوالے خود قانون شکن بن جائیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
وکلاء ہمارے معاشرے کا ایک پڑھا لکھا طبقہ ہے۔ اُن کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان میں 6 سال بعد بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی ہے اور ہمت کرکے زمبابوے ٹیم اِس وقت پاکستان کے دورے پر ہیں اور اِس وقت کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی کوئی بھی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے دشمن موقع کی تلاش میں ہیں کہ کسی طرح یہاں معاملات کو خراب کیا جائے تاکہ ایک بار پھر پاکستان کے لیے عالمی کرکٹ کے دروازے بند کردیے جائیں۔ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی پر میدان میں گرنے والی پر بال اُن کے دل پر وار بن رہی ہے۔ اِس لیے یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم دشمن کے آلہ کار بننا چاہتے ہیں یا پھر اُن کی ہر سازش کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔ یہاں کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ پولیس کی دہشتگردی کو معاف کردیا جائے بلکہ اِس بات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے کہ وہ کیا وجہ تھی کہ پولیس نے وکلاء پر فائرنگ کی اور مکمل تحقیقات کے بعد جس کسی پر بھی الزام عائد ہو اُس کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔
یہ باتیں تو اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہیں، لیکن کیا آپ نے سوچا کہ موجودہ دور حکومت میں پنجاب میں یہ تیسرا واقعہ ہے۔ پہلا ماڈل ٹاون، دوسرا سانحہ یوحناباد جس میں چرچ پر حملہ ہونے کے بعد مشتعل مظاہرین نے دو لوگوں کو زندہ جلادیا تھا اور اب یہ ڈسکہ واقع۔ گزشتہ دونوں واقعات میں حکومت ایک دن بعد جاگی، یہ بھی اچھی خبر ہے کہ ایک دن بعد جاگی تو، کیونکہ کل ہونے والے واقع کے بعد سے اب تک حکومت خاموش ہے، خاموش نہیں بلکہ چوہدری نثار کو منانے پر مصروف ہے۔ اب اِس کو المیہ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ ایک طرف آگ لگی ہوئی ہے اور دوسری جانب حکومت اپنے کاموں میں مگن ہے۔ اس لیے جہاں معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون پر عمل درآمد کرے اسی طرح حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نقصان ہونے کا انتظار نہ کرے بلکہ نقصان سے پہلے ہی جاگ جائے۔
[poll id="442"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بچپن میں اگر گھر لوٹ آنے میں دیر ہوئی یا کبھی چھٹی کے دن صرف کھیلنے کودنے میں دن گزار دیتے تو والدین کی طرف سے سننے کو ملتا کہ بس کر دو آوارہ ''گردی'' کبھی پڑھ بھی لیا کرو ۔۔۔ جیسے جیسے وقت گزرتا رہا اور میں بڑا ہوتا گیا 'گردی' کا لفظ مختلف شکلوں میں ڈھلتی اور بڑھتی رہی۔
پھر حالات و واقعات تبدیل ہوتے رہے اور دنیا میں دہشت گردی کی لہر شروع ہوئی تو پوری دنیا اس گردی سے چھٹکارا پانے کے پیچھے لگ گئی۔
پاکستان میں میڈیا آزاد ہوا تو سب میڈیا گردی کا راگ آلاپنے لگے، وزیر داخلہ چوہدری نثار نے میڈیا کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ جس کے پیچھے میڈیا لگ جائے اس کو صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت اپنے زور پر شہر یا علاقہ بند کرواتی ہے تو دیگر جماعتیں اسے سیاسی دہشت گردی کہتے ہیں۔ لاہور میں منہاج القران کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے پولیس نے کارروائی کی جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، پھر سب نے اُسے پولیس گردی کہا۔۔۔
باقی رہ گئے قانون دان اور قانون کے محافظ یعنی وکلاء برادری تو بھائی اب ملک میں قانون بچا ہی کہاں ہے جو قانون کی حفاظت ہو۔ بس اب جہاں جس کا زور چلتا ہے وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیتے ہیں کیوںکہ آخر کوئی کب تک برداشت کرے گا؟ کون مار کھا کر بعد میں عدالتوں کے ہاتھوں تاریخ پر تاریخ کا کھیل کھیلے گا۔ قانون کے حوالے سے اکثر آپ نے سنا ہوگا کہ انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی ہونا چاہیے۔
کل ڈسکہ میں پولیس گردی کا نشانہ وکلا بنے اور دو وکیل اپنی جان کی بازی ہارگئے۔ یقیناً یہ ایک ناقابل معافی و تلافی نقصان ہے لیکن جو اِس کے جواب میں وکلاء گردی ہوئی وہ بھی کوئی احسن رد عمل ہرگز نہیں۔ وکلا برادری نے ردعمل میں ڈی ایس پی کی گاڑی اور دفتر کو آگ لگا دی۔ جو پولیس اہلکار ہاتھ آیا اُس پر خوب ہاتھ صاف کیے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے فائرنگ کرنے والے ایس ایچ او کو فائرنگ کے احکامات اِن لوگوں نے ہی دئیے ہیں۔
یہ ردعمل صرف ڈسکہ سیالکوٹ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں وکلا سراپا احتجاج ہوگئے۔ احتجاج سب کا حق ہے لیکن ایسے احتجاج جس میں قانون کے رکھوالے خود قانون شکن بن جائیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
وکلاء ہمارے معاشرے کا ایک پڑھا لکھا طبقہ ہے۔ اُن کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان میں 6 سال بعد بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی ہے اور ہمت کرکے زمبابوے ٹیم اِس وقت پاکستان کے دورے پر ہیں اور اِس وقت کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی کوئی بھی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے دشمن موقع کی تلاش میں ہیں کہ کسی طرح یہاں معاملات کو خراب کیا جائے تاکہ ایک بار پھر پاکستان کے لیے عالمی کرکٹ کے دروازے بند کردیے جائیں۔ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی پر میدان میں گرنے والی پر بال اُن کے دل پر وار بن رہی ہے۔ اِس لیے یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم دشمن کے آلہ کار بننا چاہتے ہیں یا پھر اُن کی ہر سازش کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔ یہاں کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ پولیس کی دہشتگردی کو معاف کردیا جائے بلکہ اِس بات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے کہ وہ کیا وجہ تھی کہ پولیس نے وکلاء پر فائرنگ کی اور مکمل تحقیقات کے بعد جس کسی پر بھی الزام عائد ہو اُس کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔
یہ باتیں تو اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہیں، لیکن کیا آپ نے سوچا کہ موجودہ دور حکومت میں پنجاب میں یہ تیسرا واقعہ ہے۔ پہلا ماڈل ٹاون، دوسرا سانحہ یوحناباد جس میں چرچ پر حملہ ہونے کے بعد مشتعل مظاہرین نے دو لوگوں کو زندہ جلادیا تھا اور اب یہ ڈسکہ واقع۔ گزشتہ دونوں واقعات میں حکومت ایک دن بعد جاگی، یہ بھی اچھی خبر ہے کہ ایک دن بعد جاگی تو، کیونکہ کل ہونے والے واقع کے بعد سے اب تک حکومت خاموش ہے، خاموش نہیں بلکہ چوہدری نثار کو منانے پر مصروف ہے۔ اب اِس کو المیہ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ ایک طرف آگ لگی ہوئی ہے اور دوسری جانب حکومت اپنے کاموں میں مگن ہے۔ اس لیے جہاں معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون پر عمل درآمد کرے اسی طرح حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نقصان ہونے کا انتظار نہ کرے بلکہ نقصان سے پہلے ہی جاگ جائے۔
[poll id="442"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیولنکس