سانحہ ڈسکہ
وکلا کا طبقہ ضیاء الحق کی آمریت سے لے کر پرویز مشرف تک جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرتا چلا آیا ہے
پنجاب کے صنعتی اور کاروباری شہر سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں پولیس تھانیدار کی فائرنگ سے تحصیل بار کے صدر سمیت 2 وکیل جاں بحق جب کہ2وکیل اور 2 راہگیر شدید زخمی ہوگئے۔ اس سانحے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اورڈسکہ شہر میں مظاہرے شروع ہو گئے ۔ وکلاء کے ساتھ عوام بھی مظاہرے شامل ہو گئے ' ڈسکہ شہر میں تمام بینک، دکانیں، مارکیٹیں اور بازار فورا بند کردیے گئے۔
وکلاء نے جاں بحق وکلاء کیلاشیں سڑک میں رکھ کر شدید احتجاج کیا ہے۔مظاہرین نے پولیس تھانے، ڈی ایس پی آفس اورٹی ایم اے آفس ، دفتر اسسٹنٹ کمشنر اور ریسٹ ہاؤس کا گھیراؤ کرکے انھیں آگ لگا دی۔ اسسٹنٹ کمشنرنے اہلخانہ کے ہمراہ بھاگ کر جان بچائی۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ایک وکیل ٹی ایم او آفس میں کسی کام کے سلسلے میں آیا اور اس کی ٹی ایم اے ملازم سے تلخ کلامی ہوگئی جس پراس نے صدر باررانا خالد عباس کو کال کر کے بتایا ۔وہ دیگر وکلاء کے ہمراہ وہاں پہنچے ،وہاںجھگڑا ہونے پر ٹی ایم او نے سٹی پولیس کو بلا لیا ، وکلاء کی طرف سے پولیس کے خلاف نعرے بازی سے مشتعل ہوکر ایس ایچ او شہزاد وڑائچ نے فائرنگ کردی جس سے صدر بار رانا خالد عباس موقعے پر ہی جاں بحق ہوگئے جب کہ ان کے ساتھی وکلاء عرفان چوہان اورجہانزیب ساہی کو تشویشناک حالت میں گوجرانوالہ ریفر کردیا گیا ، عرفان چوہان راستے میں ہی دم توڑ گئے۔
اطلاعات کے مطابق ایس ایچ او کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔لاہور اور دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا۔منگل کو آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ ڈسکہ شہرمیں رینجر نے گشت کیا ہے۔اس سانحے کے بعد حسب روایت وزیراعظم ' وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا ہے ۔تازہ اطلاع کے مطابق جوڈیشل انکوائری کا حکم واپس لے لیا گیاہے۔ ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق ڈسکہ واقعے کی انکوائری کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیاہے۔جس میں پولیس' آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمایندے شامل ہوں گے۔وزیراعلیٰ نے ٹی ایم او ڈسکہ کو معطل اور اے سی ڈسکہ کو او ایس ڈی بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
ڈسکہ کے سانحے نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ افسر شاہی اور پولیس اہلکاروں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ معمولی نوعیت کے تنازع نے ایک سانحے کی شکل اختیار کر لی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی ناجائز رکاوٹیں یا تجاوزات ہٹانے کے عمل کے دوران رونما ہوا ' اس وقت بھی موقعے پر موجود پولیس اور دیگر افسران صبر و تحمل اور درگزر کا مظاہرہ کرتے تو ایک بڑے سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ ڈسکہ میں بھی اگر پولیس کا تھانیدار غصے اور طیش کی حدود کو کراس نہ کرتا تو سانحہ ڈسکہ رونما نہ ہوتا۔یہی نہیں اگر ٹی ایم او اور اس آفس کے دیگر اہلکار حالات کی نزاکت کو سمجھتے اور وکلاء کے ساتھ معاملات کو پرامن انداز میں حل کر لیتے تو شاید پولیس بلانے کی نوبت ہی نہ آتی۔
پولیس اور انتظامیہ کے افسران معمولی تنازعات کو بھی حل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انھیں شاید ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت ہی نہیں ہے۔ ادھر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک سانحہ رونما ہوتا ہے اور اس کے بعد جوڈیشل کمیٹی بنائی جاتی ہے اور پھر کوئی اور کمیٹی قائم کر دی جاتی ہے ۔یہ کمیٹیاں لمبی مدت تک اپنے اجلاس کرتی رہتی ہیں اور اس کے بعد سفارشات سامنے آتی ہیں ۔اس کے بعد ان سفارشات میں موجود سقم سامنے آ جاتے ہیں 'یوں معاملہ کٹھائی میں پڑ جاتا ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے سسٹم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی سانحے یا واقعے کی روٹین کے مطابق تحقیق و تفتیش کرے ۔حکمران جس طریقے سے مسلسل کمیشن اور کمیٹیاں بناتے ہیں 'اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق و تفتیش کا نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے۔
پاکستان میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی کمیٹی کی سفارشات پر حکومت نے عمل کیا ہو ۔عموماً تحقیقاتی کمیٹیاں محدود اختیارات کی مالک ہوتی ہیں اور ان کا اختیار صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ مختلف ذرایع سے معلومات اکٹھی کر کے ایک رپورٹ مرتب کر دے۔ اس کے بعد یہ معاملہ پھر حکومت کے پاس چلا جاتا ہے ۔یوں دیکھا جائے تو تحقیقاتی کمیٹیاں کسی کیس کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے کا باعث بنتی ہیں۔ سانحہ ڈسکہ نے پنجاب حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں ۔گزشتہ روز پنجاب بھر میں وکلاء نے مظاہرے کیے اور شدید ہنگامی آرائی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
وکلاء اس ملک کا پڑھا لکھا اور باوقار طبقہ ہے۔ یہ طبقہ ضیاء الحق کی آمریت سے لے کر پرویز مشرف تک جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرتا چلا آیا ہے ۔بلاشبہ کئی معاملات میں وکلاء حضرات نے بھی حدود سے تجاوز کیا ہے' اور انھوں نے پولیس اہلکاروں اور نیوز کیمرہ مینوں پر بھی تشدد کیا ہے۔ یہ رویہ بھی درست نہیں ہے ' کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ بہرحال ڈسکہ میں جو کچھ ہوا 'وہ انتہائی دکھ اور افسوس کا باعث ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کی آزادانہ ' غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیق و تفتیش یقینی بنائے تاکہ جو بھی اس سانحہ کا ذمے دار ہے 'اس کو آئین اور قانون کے مطابق سزا ملے۔
وکلاء نے جاں بحق وکلاء کیلاشیں سڑک میں رکھ کر شدید احتجاج کیا ہے۔مظاہرین نے پولیس تھانے، ڈی ایس پی آفس اورٹی ایم اے آفس ، دفتر اسسٹنٹ کمشنر اور ریسٹ ہاؤس کا گھیراؤ کرکے انھیں آگ لگا دی۔ اسسٹنٹ کمشنرنے اہلخانہ کے ہمراہ بھاگ کر جان بچائی۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ایک وکیل ٹی ایم او آفس میں کسی کام کے سلسلے میں آیا اور اس کی ٹی ایم اے ملازم سے تلخ کلامی ہوگئی جس پراس نے صدر باررانا خالد عباس کو کال کر کے بتایا ۔وہ دیگر وکلاء کے ہمراہ وہاں پہنچے ،وہاںجھگڑا ہونے پر ٹی ایم او نے سٹی پولیس کو بلا لیا ، وکلاء کی طرف سے پولیس کے خلاف نعرے بازی سے مشتعل ہوکر ایس ایچ او شہزاد وڑائچ نے فائرنگ کردی جس سے صدر بار رانا خالد عباس موقعے پر ہی جاں بحق ہوگئے جب کہ ان کے ساتھی وکلاء عرفان چوہان اورجہانزیب ساہی کو تشویشناک حالت میں گوجرانوالہ ریفر کردیا گیا ، عرفان چوہان راستے میں ہی دم توڑ گئے۔
اطلاعات کے مطابق ایس ایچ او کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔لاہور اور دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا۔منگل کو آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ ڈسکہ شہرمیں رینجر نے گشت کیا ہے۔اس سانحے کے بعد حسب روایت وزیراعظم ' وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا ہے ۔تازہ اطلاع کے مطابق جوڈیشل انکوائری کا حکم واپس لے لیا گیاہے۔ ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق ڈسکہ واقعے کی انکوائری کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیاہے۔جس میں پولیس' آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمایندے شامل ہوں گے۔وزیراعلیٰ نے ٹی ایم او ڈسکہ کو معطل اور اے سی ڈسکہ کو او ایس ڈی بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
ڈسکہ کے سانحے نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ افسر شاہی اور پولیس اہلکاروں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ معمولی نوعیت کے تنازع نے ایک سانحے کی شکل اختیار کر لی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی ناجائز رکاوٹیں یا تجاوزات ہٹانے کے عمل کے دوران رونما ہوا ' اس وقت بھی موقعے پر موجود پولیس اور دیگر افسران صبر و تحمل اور درگزر کا مظاہرہ کرتے تو ایک بڑے سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ ڈسکہ میں بھی اگر پولیس کا تھانیدار غصے اور طیش کی حدود کو کراس نہ کرتا تو سانحہ ڈسکہ رونما نہ ہوتا۔یہی نہیں اگر ٹی ایم او اور اس آفس کے دیگر اہلکار حالات کی نزاکت کو سمجھتے اور وکلاء کے ساتھ معاملات کو پرامن انداز میں حل کر لیتے تو شاید پولیس بلانے کی نوبت ہی نہ آتی۔
پولیس اور انتظامیہ کے افسران معمولی تنازعات کو بھی حل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انھیں شاید ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت ہی نہیں ہے۔ ادھر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک سانحہ رونما ہوتا ہے اور اس کے بعد جوڈیشل کمیٹی بنائی جاتی ہے اور پھر کوئی اور کمیٹی قائم کر دی جاتی ہے ۔یہ کمیٹیاں لمبی مدت تک اپنے اجلاس کرتی رہتی ہیں اور اس کے بعد سفارشات سامنے آتی ہیں ۔اس کے بعد ان سفارشات میں موجود سقم سامنے آ جاتے ہیں 'یوں معاملہ کٹھائی میں پڑ جاتا ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے سسٹم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی سانحے یا واقعے کی روٹین کے مطابق تحقیق و تفتیش کرے ۔حکمران جس طریقے سے مسلسل کمیشن اور کمیٹیاں بناتے ہیں 'اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق و تفتیش کا نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے۔
پاکستان میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی کمیٹی کی سفارشات پر حکومت نے عمل کیا ہو ۔عموماً تحقیقاتی کمیٹیاں محدود اختیارات کی مالک ہوتی ہیں اور ان کا اختیار صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ مختلف ذرایع سے معلومات اکٹھی کر کے ایک رپورٹ مرتب کر دے۔ اس کے بعد یہ معاملہ پھر حکومت کے پاس چلا جاتا ہے ۔یوں دیکھا جائے تو تحقیقاتی کمیٹیاں کسی کیس کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے کا باعث بنتی ہیں۔ سانحہ ڈسکہ نے پنجاب حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں ۔گزشتہ روز پنجاب بھر میں وکلاء نے مظاہرے کیے اور شدید ہنگامی آرائی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
وکلاء اس ملک کا پڑھا لکھا اور باوقار طبقہ ہے۔ یہ طبقہ ضیاء الحق کی آمریت سے لے کر پرویز مشرف تک جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرتا چلا آیا ہے ۔بلاشبہ کئی معاملات میں وکلاء حضرات نے بھی حدود سے تجاوز کیا ہے' اور انھوں نے پولیس اہلکاروں اور نیوز کیمرہ مینوں پر بھی تشدد کیا ہے۔ یہ رویہ بھی درست نہیں ہے ' کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ بہرحال ڈسکہ میں جو کچھ ہوا 'وہ انتہائی دکھ اور افسوس کا باعث ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کی آزادانہ ' غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیق و تفتیش یقینی بنائے تاکہ جو بھی اس سانحہ کا ذمے دار ہے 'اس کو آئین اور قانون کے مطابق سزا ملے۔