سیاست میں اخلاقیات کا فقدان

بجلی و پانی کے وزیر مملکت اور وزیراعظم کے قریبی عزیز عابد شیر علی اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے پہلے ہی مشہور ہیں۔

بجلی و پانی کے وزیر مملکت اور وزیراعظم کے قریبی عزیز عابد شیر علی اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے پہلے ہی مشہور ہیں۔ انھوں نے حیدرآباد کے حالیہ دورے میں عمران خان سے ہاتھ ملانے کو گناہ کبیرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم بھی عمران خان سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنے ہاتھ دھوتے ہیں۔

سنجیدہ سیاست دان خواہ سینئر ہوں یا جونیئر سیاست میں اخلاقیات کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالیں جس سے ان کے کسی مخالف کی دل شکنی ہو۔ سیاست کبھی خدمت کہلاتی تھی جو اب گالی بنتی جا رہی ہے اور سیاست کو اس مقام تک لانے میں ہمارے نوجوان سیاست دان ہی نہیں بلکہ تقریباً دو عشروں سے سیاست میں موجود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی پیچھے نہیں رہے۔

جنھوں نے مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کے لیے ''اوے'' نواز شریف کا لفظ متعارف کرایا جس کے بعد اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دھرنوں میں اخلاقیات کے جو مظاہرے دیکھنے میں آئے وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں کم نظر آئے۔ مگر جھوٹ زیادہ سے زیادہ بولنے کا مقابلہ دونوں طرف جاری رہا۔

عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ہی نہیں بلکہ سرکاری افسران کے لیے بھی قابل اعتراض الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور انھوں نے ملتان کے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا پر اس لیے تنقید کی کہ انھوں نے ملتان کے جلسے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے میڈیا والوں پر حملے کی مذمت کی تھی۔ عمران خان نے آئی جی پولیس کو ملتان واقعے پر شرم کرنے کا کہا حالانکہ شرمناک حرکت آئی جی پولیس نے نہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کی تھی جس کی ملک بھر کے صحافیوں، سماجی حلقوں، وزیر اطلاعات اور متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے بھی مذمت کی ہے۔

ملکی سیاست میں اپنے مخالفین کے خلاف قابل اعتراض ناموں اور الفاظ کا استعمال سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اور ان سے بڑھ کر ان کے کزن ممتاز علی بھٹو نے شکارپور کے جلسے میں اپنے بزرگ مخالف حاجی مولابخش سومرو کے خلاف انتہائی غلط الفاظ استعمال کیے تھے اور جذبات میں وہ نہ جانے کیا کیا کہہ جاتے تھے۔

سیاسی معاملات میں جھوٹ تو ہر سیاست دان ہی بولتا ہے اور سیاسی کے علاوہ مذہبی رہنما بھی جھوٹ بولنے اور جھوٹے دعوے کرنے اور جھوٹے الزامات عائد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک سیاسی رہنما سے زیادہ مذہبی رہنما تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے سیاست سے اکتا کر اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا اور اپنی توجہ مذہبی معاملات پر مرکوز کر لی تھی۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا قیام بیرون ملک ہی رہتا ہے اور وہ کینیڈا کی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ علامہ ملکی سیاست سے بد ظن بھی رہتے ہیں اور سیاست کے بغیر چین سے بھی نہیں رہ پاتے وہ سیاسی مقاصد کے لیے جب پاکستان آتے ہیں تو بھونچال برپا کر دیتے ہیں جس سے حکومت ہی نہیں ان کے مریدین اور پیروکار بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔


گزشتہ سال دھرنے سے قبل سانحہ ماڈل ٹائون جو حکومتی نا اہلی کے باعث انتہائی شرمناک تھا اور اس میں جو جانی نقصان ہوا اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے اور ملک کے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت وزراء اور پولیس افسروں کو اس سانحے میں ملوث کر کے جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔ اس موقعے پر علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی جھوٹے الزامات کا سہارا لیا اور ہر حکومتی کمیٹی کی تحقیقات سے علیحدگی اختیار کیے رکھی اور کسی حکومتی ادارے پر اعتماد نہیں کیا تو کیا وہ اقوام متحدہ کی تحقیقات چاہتے تھے جو ناممکن تھی اور اب حکومتی کمیٹی نے یکطرفہ تحقیقات میں ڈاکٹر طاہر القادری کے سارے الزامات کو غلط قرار دے کر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو الزامات سے بری کر دیا ہے۔ سیاست میں اخلاقی حدود کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے مگر سیاسی مخالفت میں ہمارے یہاں ہر اصول کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے خواہ اپنی زبان اور دعوئوں سے پھرنا پڑے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بغیر نہیں جائوں گا۔ چاہے وہ دھرنے میں تنہا رہ جائیں، مگر کیا ہوا انھیں ہی منہ کی کھانا پڑی یہی کچھ 2013ء کے عام انتخابات کے سلسلے میں عمران خان نے کیا، معزز شخصیات پر بغیر ثبوت الزامات لگائے گئے مگر ثبوت اب عدالتوں میں پیش نہیں کیے جا رہے۔

شیخ رشید نے ڈالر سو روپے سے کم ہو جانے پر مستعفی ہو جانے کا اعلان کیا تھا مگر مستعفی نہیں ہوئے تو ان کی باتوں پر کون یقین کرے گا، بعض سیاست دان اپنی باتوں سے منحرف ہو جاتے ہیں اور ثبوت پیش کرنے پر سیاست چھوڑ دینے کا اعلان کرتے ہیں مگر اب تک تو کسی ایسے سیاست دان نے سیاست نہیں چھوڑی۔

سابق وزیر بجلی راجہ پرویز اشرف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کی جو مدت دی تھی وہ ختم ہو گئی مگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو سکی، ہمارے یہاں جھوٹ بولنے والے سیاست دانوں کا محاسبہ نہیں ہوتا بلکہ جھوٹ اور کرپشن پر ترقی دے دی جاتی ہے جس کی مثال جھوٹے وزیر کو ہٹا کر بعد میں وزیر اعظم بنا دینا ہے۔ بڑے بڑے سیاست دان ہی نہیں بلکہ چھوٹے سیاست دان بھی اپنی انتخابی مہم میں ایسے بڑے بڑے دعوے کر جاتے ہیں، جیسے وہ اسمبلی رکنیت کا نہیں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا الیکشن لڑ رہے ہوں۔

اب پہلا دور نہیں کہ جب سیاست دان جھوٹ بول کر مکر جاتے تھے کہ میں نے ایسا نہیں کہا، اخبارات نے غلط خبر شایع کی ہے اب جدید میڈیا کا دور ہے جہاں فوٹیج چلا کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا جاتا ہے اب اپنی بات سے منحرف ہونا ممکن نہیں مگر جھوٹ کے عادی سیاست دان اب بھی باز نہیں آ رہے اور اپنا جھوٹ پکڑے جانے پر بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور حقیقت ان ہی کی آواز میں آشکار ہو جانے پر یہ کہہ کر جان چھڑانا چاہتے ہیں کہ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا، عام انتخابات کے موقعے پر ہر پارٹی کا سربراہ ایسے وعدے اور دعوے کرتا ہے جیسے اس کے پاس الہ دین کا چراغ ہے اور وہ اقتدار میں آتے ہی روشن کر کے جن کو مسائل حل کرنے کا حکم دے گا اور سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔

اگر سیاست دان بولتے وقت اپنے الفاظ پر کنٹرول ہی کر لیں تو انھیں بعد میں شرمندہ نہ پڑے۔ سیاست دانوں کے منہ سے نکلی بات سچ تو ثابت نہیں ہوتی بلکہ مذاق بن جاتی ہے جیسے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی باتیں ملک بھر میں مذاق بنی ہوئی ہیں کہ ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے خواہ اصلی ہو یا جعلی'' ذمے دار سیاست دانوں اور اہم عہدیداروں کی جب ایسی بچگانہ باتیں ہوں گی تو قوم ایسے سیاست دانوں کی باتوں پر کیسے یقین کرے گی، سیاست مذاق نہیں ہمارے سیاست دان سیاست کے ذریعے ہی اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر انھیں ملک اور صوبے چلانا ہوتے ہیں۔

عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے ہوتے ہیں جو وہ پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تو پروٹوکول کے پردوں میں چھپ جاتے ہیں، عوام کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں جیسے اب سابق صدر آصف علی زرداری کارکنوں کو منانے کے لیے جواز پیش کر رہے ہیں اور انھیں صدارت سے جانے کے پونے دو سال بعد کے پی کے آنے کی فرصت ملی ہے۔

سیاست گالی اور الزام تراشی ہی کا نام نہیں خدمت کا بھی ذریعہ ہے اس لیے سیاست میں اخلاقیات کا احترام بھی ضروری ہے جھوٹ، الزام تراشیوں سے عوام کو اب مزید نہیں بہلایا جا سکتا۔
Load Next Story