ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ گرفتار لاکھوں جعلی ڈگریاں برآمد
ایف آئی اے کے سامنے شعیب شیخ اسپانسرز کی تفصیلات بتانے میں ناکام رہے جب کہ مزید کمپیوٹرز اور ڈیوائسزڈی کوڈ کرلی گئیں
جعلی ڈگری اسکینڈل میں ملوث ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ کو ایف آئی اے نے حراست میں لے لیا ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے شاہد حیات نے کہا ہے کہا ہے کہ لاکھوں جعلی ڈگریاں برآمد کر لی گئی ہیں اور ایگزیکٹ کے خلاف مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔ کراچی میں ایگزیکٹ کے ہیڈکوارٹرز کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج ہمیں اس مقام کے بارے میں علم ہوا تھا جہاں ڈگریاں، اسٹوڈنٹ کارڈ اور دیگر میٹریل پرنٹ ہوتا تھا۔ ہم نے مجسٹریٹ کو ساتھ لے کر ایگزیکٹ کی ایک عمارت پر چھاپہ مارا، تو لاکھوں کی تعداد میں ڈگریاں، اسٹوڈنٹ کارڈ، ڈی وی ڈیز اور دیگر مواد برآمد ہوا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اتنا مواد برآمد کرلیا ہے کہ ہم آسانی سے ان کیخلاف کیس درج کرسکتے ہیں اور ہم ان کیخلاف مقدمہ درج کر رہے ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع بتایا کہ جعلی ڈگریوں کی برآمدگیوں کے بعد ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران نے فوری طور پر وزارت داخلہ کو پیش رفت سے آگاہ کیا اور ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ اور سی ای ای وقاص عتیق کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی اجازت حاصل کی۔ شعیب شیخ کے خلاف الیکٹرونک ٹرانزکشن ایکٹ، پی پی سی468 اور پی پی سی420، 419اور471 کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ذرائع نے بتایا کہ مقدمے کا ڈرافٹ تیارکرلیا گیا ہے ، مقدمے میں منی لانڈرنگ اور سائبرکرائم کی دفعات بھی شامل کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شعیب شیخ کو ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل منتقل کردیاگیا ہے جب کہ ایگزیکٹ کے ہیڈ آفس کے ساتھ کمپنی کی ایک عمارت کو سیل کردیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کی ٹیم شواہد اکٹھے کرنے کیلیے مجسٹریٹ کے ہمراہ ایگزیکٹ کے دفتر پہنچی تو ایگزیکٹ کے200 سے زائد ملازمین نے احتجاجاً سڑک بلاک کردی۔ ایف آئی اے کی ٹیم کو ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے دفتر میں داخل ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا جس پر ایف آئی اے کی ٹیم نے وارننگ دی کہ ملازمیں وہاں سے ہٹ جائیں ورنہ انھیں حراست میں لے لیا جائیگا۔
قبل ازیں جعلی ڈگری اسکینڈل میں ملوث ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب شیخ نے گزشتہ روز ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کے دفتر میں دوبارہ پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا تاہم وہ اپنے اسپانسرز کی تفصیلات بتانے میں ناکام رہے۔ شعیب شیخ نے ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر شاہد حیات کی موجودگی میں بیان ریکارڈ کرایا اور ایف آئی اے کو طلب کردہ بعض دستاویزات فراہم کیں جن میں ایگزیکٹ کمپنی اور بول میںلگائے گئے آلات کی فہرست، کمپیوٹرز، ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئرز، بینک اکاؤنٹس، سرٹیفکیٹس اور ملازمین کو دی جانے والی تنخواہیں اور مراعات، ڈگری حاصل کرنیوالے طلبہ کی فہرست اور دیگر تفصیلات شامل ہیں۔ ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کمپنی کے اسپانسرزکی تفصیل اور بیرون ملک ایگزیکٹ کی برآمداتی اشیا کی رجسٹریشن کا ریکارڈ، بینک کاؤنٹس اور ٹیکس گوشوارے بھی طلب کیے تھے، تاہم شعیب شیخ اسپانسرزکی تفصیلات جمع کرانے میں ناکام رہے۔
ایف آئی اے نے شعیب شیخ سے ان کی کمپنی کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کے این او سی اور ایچ ای سی کے ساتھ الحاق کی دستاویزات بھی طلب کرلی ہیں۔ ایف آئی اے کے دفتر میں ایگزیکٹ کے6 ڈائریکٹروں کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے، جن میں کمپنی کے آئی ٹی، فنانس اور ایچ آرڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر شامل ہیں، شعیب شیخ اور ان کے ڈائریکٹروں سے الگ الگ پوچھ گچھ کی گئی۔ پھر ان سے کیے جانے والے سوالات کے جوابات کو آپس میں میچ کیا گیا تاکہ سچ اور جھوٹ کی پہچان ہو سکے۔ پوچھ گچھ کے دوران منی لانڈرنگ سے متعلق سوالات بھی کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق جب شعیب شیخ سے جعلی ڈگریوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو وہ اس سوال پر خاموش ہو گئے اور کوئی بھی جواب دینے سے گریزکیا۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کو ابھی تک ملکی اورغیرملکی تعلیمی اداروں کی مکمل فہرست نہیں دی گئی، ایف آئی اے نے ایگزیکٹ سے فیس کی مد میں وصول کی جانے والی رقوم کی تفصیلات اور ایگزیکٹ سے برآمد کردہ اشیاکی اسٹیٹ بینک سے تصدیق کی دستاویزات بھی طلب کی ہیں۔ آٹھویں روز بھی ایف آئی اے حکام ایگزیکٹ کے مین سرور سے ڈیٹا حاصل کرتے رہے۔ کمپنی کے ہیڈ آفس سے قبضے میں لی گئی ڈگریاں اور دوسری مشینری فارنسک ڈپارٹمنٹ کے ماہرین کو بھجوا دی گئی ہیں۔ تحویل میں لیے گئے مزید کمپیوٹرز اور ڈیوائسز کو بھی سائبر اور فارنسک ماہرین نے ڈی کوڈ کر لیا ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2rlggu
علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایف آئی اے کے فرانزک ماہرین کو ایگزیکٹ اسکینڈل کے متعلق سات روز میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنیکا حکم دیا ہے۔ انھوں نے کہا اس حوالے سے تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی، حکام 24 گھنٹے کام کریں اور7 روز میں معاملے کی تحقیقات مکمل کریں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے امریکی سفارت خانے کو بھجوائے گئے مراسلے میں ایگزیکٹ کے زیراستعمال ویب سائٹس کی ملکیت اور انھیں آپریٹ کرنیوالے آئی پی ایڈریس کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ مراسلہ موصول ہونے کے بعد امریکی سفارت خانہ اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کریگا جو ایف آئی اے اور ایف بی آئی کے درمیان رابطے کا کردار ادا کریگا تاکہ دونوں اداروں کے درمیان معلومات کا تبادلہ آسان اور جلد ہو سکے۔ ایگزیکٹ کے حوالے سے اب تک کی تحقیقات کے مطابق ایگزیکٹ کیخلاف کراچی اور اسلام آباد کی عدالتوں میں الگ الگ مقدمات درج ہوں گے جب کہ ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کو ضرورت پڑنے پر ایف آئی اے حکام طلب بھی کر سکیں گے۔
وزارت داخلہ نے ایگزیکٹ اسکینڈل کی تحقیقات کا دائرہ برطانیہ تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی حکومت کو خط کے ذریعے ایگزیکٹ کے زیرانتظام ایک یونیورسٹی کی تصدیق کی درخواست کی جائے گی۔
https://www.dailymotion.com/video/x2rjowb_fbi-on-axact_news
ڈائریکٹر ایف آئی اے شاہد حیات نے کہا ہے کہا ہے کہ لاکھوں جعلی ڈگریاں برآمد کر لی گئی ہیں اور ایگزیکٹ کے خلاف مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔ کراچی میں ایگزیکٹ کے ہیڈکوارٹرز کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج ہمیں اس مقام کے بارے میں علم ہوا تھا جہاں ڈگریاں، اسٹوڈنٹ کارڈ اور دیگر میٹریل پرنٹ ہوتا تھا۔ ہم نے مجسٹریٹ کو ساتھ لے کر ایگزیکٹ کی ایک عمارت پر چھاپہ مارا، تو لاکھوں کی تعداد میں ڈگریاں، اسٹوڈنٹ کارڈ، ڈی وی ڈیز اور دیگر مواد برآمد ہوا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اتنا مواد برآمد کرلیا ہے کہ ہم آسانی سے ان کیخلاف کیس درج کرسکتے ہیں اور ہم ان کیخلاف مقدمہ درج کر رہے ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع بتایا کہ جعلی ڈگریوں کی برآمدگیوں کے بعد ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران نے فوری طور پر وزارت داخلہ کو پیش رفت سے آگاہ کیا اور ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ اور سی ای ای وقاص عتیق کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی اجازت حاصل کی۔ شعیب شیخ کے خلاف الیکٹرونک ٹرانزکشن ایکٹ، پی پی سی468 اور پی پی سی420، 419اور471 کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ذرائع نے بتایا کہ مقدمے کا ڈرافٹ تیارکرلیا گیا ہے ، مقدمے میں منی لانڈرنگ اور سائبرکرائم کی دفعات بھی شامل کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شعیب شیخ کو ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل منتقل کردیاگیا ہے جب کہ ایگزیکٹ کے ہیڈ آفس کے ساتھ کمپنی کی ایک عمارت کو سیل کردیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کی ٹیم شواہد اکٹھے کرنے کیلیے مجسٹریٹ کے ہمراہ ایگزیکٹ کے دفتر پہنچی تو ایگزیکٹ کے200 سے زائد ملازمین نے احتجاجاً سڑک بلاک کردی۔ ایف آئی اے کی ٹیم کو ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے دفتر میں داخل ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا جس پر ایف آئی اے کی ٹیم نے وارننگ دی کہ ملازمیں وہاں سے ہٹ جائیں ورنہ انھیں حراست میں لے لیا جائیگا۔
قبل ازیں جعلی ڈگری اسکینڈل میں ملوث ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب شیخ نے گزشتہ روز ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کے دفتر میں دوبارہ پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا تاہم وہ اپنے اسپانسرز کی تفصیلات بتانے میں ناکام رہے۔ شعیب شیخ نے ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر شاہد حیات کی موجودگی میں بیان ریکارڈ کرایا اور ایف آئی اے کو طلب کردہ بعض دستاویزات فراہم کیں جن میں ایگزیکٹ کمپنی اور بول میںلگائے گئے آلات کی فہرست، کمپیوٹرز، ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئرز، بینک اکاؤنٹس، سرٹیفکیٹس اور ملازمین کو دی جانے والی تنخواہیں اور مراعات، ڈگری حاصل کرنیوالے طلبہ کی فہرست اور دیگر تفصیلات شامل ہیں۔ ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کمپنی کے اسپانسرزکی تفصیل اور بیرون ملک ایگزیکٹ کی برآمداتی اشیا کی رجسٹریشن کا ریکارڈ، بینک کاؤنٹس اور ٹیکس گوشوارے بھی طلب کیے تھے، تاہم شعیب شیخ اسپانسرزکی تفصیلات جمع کرانے میں ناکام رہے۔
ایف آئی اے نے شعیب شیخ سے ان کی کمپنی کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کے این او سی اور ایچ ای سی کے ساتھ الحاق کی دستاویزات بھی طلب کرلی ہیں۔ ایف آئی اے کے دفتر میں ایگزیکٹ کے6 ڈائریکٹروں کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے، جن میں کمپنی کے آئی ٹی، فنانس اور ایچ آرڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر شامل ہیں، شعیب شیخ اور ان کے ڈائریکٹروں سے الگ الگ پوچھ گچھ کی گئی۔ پھر ان سے کیے جانے والے سوالات کے جوابات کو آپس میں میچ کیا گیا تاکہ سچ اور جھوٹ کی پہچان ہو سکے۔ پوچھ گچھ کے دوران منی لانڈرنگ سے متعلق سوالات بھی کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق جب شعیب شیخ سے جعلی ڈگریوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو وہ اس سوال پر خاموش ہو گئے اور کوئی بھی جواب دینے سے گریزکیا۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کو ابھی تک ملکی اورغیرملکی تعلیمی اداروں کی مکمل فہرست نہیں دی گئی، ایف آئی اے نے ایگزیکٹ سے فیس کی مد میں وصول کی جانے والی رقوم کی تفصیلات اور ایگزیکٹ سے برآمد کردہ اشیاکی اسٹیٹ بینک سے تصدیق کی دستاویزات بھی طلب کی ہیں۔ آٹھویں روز بھی ایف آئی اے حکام ایگزیکٹ کے مین سرور سے ڈیٹا حاصل کرتے رہے۔ کمپنی کے ہیڈ آفس سے قبضے میں لی گئی ڈگریاں اور دوسری مشینری فارنسک ڈپارٹمنٹ کے ماہرین کو بھجوا دی گئی ہیں۔ تحویل میں لیے گئے مزید کمپیوٹرز اور ڈیوائسز کو بھی سائبر اور فارنسک ماہرین نے ڈی کوڈ کر لیا ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2rlggu
علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایف آئی اے کے فرانزک ماہرین کو ایگزیکٹ اسکینڈل کے متعلق سات روز میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنیکا حکم دیا ہے۔ انھوں نے کہا اس حوالے سے تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی، حکام 24 گھنٹے کام کریں اور7 روز میں معاملے کی تحقیقات مکمل کریں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے امریکی سفارت خانے کو بھجوائے گئے مراسلے میں ایگزیکٹ کے زیراستعمال ویب سائٹس کی ملکیت اور انھیں آپریٹ کرنیوالے آئی پی ایڈریس کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ مراسلہ موصول ہونے کے بعد امریکی سفارت خانہ اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کریگا جو ایف آئی اے اور ایف بی آئی کے درمیان رابطے کا کردار ادا کریگا تاکہ دونوں اداروں کے درمیان معلومات کا تبادلہ آسان اور جلد ہو سکے۔ ایگزیکٹ کے حوالے سے اب تک کی تحقیقات کے مطابق ایگزیکٹ کیخلاف کراچی اور اسلام آباد کی عدالتوں میں الگ الگ مقدمات درج ہوں گے جب کہ ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کو ضرورت پڑنے پر ایف آئی اے حکام طلب بھی کر سکیں گے۔
وزارت داخلہ نے ایگزیکٹ اسکینڈل کی تحقیقات کا دائرہ برطانیہ تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی حکومت کو خط کے ذریعے ایگزیکٹ کے زیرانتظام ایک یونیورسٹی کی تصدیق کی درخواست کی جائے گی۔
https://www.dailymotion.com/video/x2rjowb_fbi-on-axact_news