ہتھیار نہیں قلم چاہیے

شہر کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات نے ایسا جبر کیا کہ جامعہ کراچی نے 1989ء میں رینجرز کو طلب کیا

shabbirarman@yahoo.com

شہر کراچی میں ایسا دور بھی گزرا ہے جب یہاں کی درسگاہوں میں سیاست گھس آئی تھی جس نے اپنے ساتھ ہتھیار بھی اٹھا رکھے تھے۔ پھر آئے روز درسگاہوں میں لڑائی جھگڑے معمول بن گئے تھے اور بسا اوقات اسلحے سے لیس طالب علم ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بند بھی ہوا کرتے تھے۔ طالب علم اغوا ہوا کرتے تھے، قتل و زخمی ہوا کرتے تھے۔ اساتذہ و پرنسپل یرغمال بنا دیے گئے تھے۔

تب آواز اٹھا کرتی تھی ''ہتھیار نہیں، قلم چاہیے'' نوجوانوں کو نصیحت کی جاتی تھی کہ ''ہتھیار سے زیادہ قلم میں طاقت ہے'' حالات کی ستم ظریفی دیکھیں جو اساتذہ اپنے شاگردوں کو ہتھیار سے دور رہنے کی تاکید کیا کرتے تھے آج ان ہی استادوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دیے جا رہے ہیں تا کہ وہ اپنی اور اپنے طالب علموں کی حفاظت کر سکیں۔ یہ ہماری تعلیمی تاریخ میں بہت بڑی تبدیلی ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ خاکم بدہن! ہماری درسگاہوں کی لائبریریوں میں کتابوں کی جگہ ہتھیار رکھے جائیں گے۔

پریکٹیکل کی جگہ ہتھیار استعمال کرنے کے گُر بتائے جائیں گے۔ دفاع کے نام پر جس کا آغاز پشاور سے ہوا اور پھر کراچی میں 18 فروری کو 42 اساتذہ اور 18 طالبات کر رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر میں ابتدائی طبی امداد سے لے کر مختلف ہتھیار چلانے تک کی عملی تربیت دی گئی۔ پس منظر یہ ہے کہ 16 دسمبر 2014ء کو شیطان صفت درندوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں گھس کر 140 سے زائد طلبا کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا تھا۔ اس سانحہ عظیم کے بعد ملک کے اسکولوں کے لیے حفاظتی انتظامات سخت کیے گئے تو دوسری طرف مشورہ دیا گیا کہ خدانخواستہ آیندہ کسی ایسے کٹھن مرحلے کے مقابلے کے لیے اساتذہ اور طلبا کو بھی تربیت دی جائے۔

درس گاہیں مقدس ہوتی ہیں جہاں علم و تہذیب سکھائی جاتی ہے، حالات کا جبر یہ ہے کہ اب وہاں اسلحہ چلانے کی تربیت کا اہتمام ہو رہا ہے۔ پہلے زمانے میں پولیس کو درس گاہوں کے اندر جانے سے منع کیا جاتا تھا تا کہ اس کی حرمت برقرار رہے۔

شہر کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات نے ایسا جبر کیا کہ جامعہ کراچی نے 1989ء میں رینجرز کو طلب کیا اور جو آج تک موجود ہے۔ حالات یہ ہیں کہ آج اساتذہ اور طلبا و طالبات کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کی نوبت آ گئی ہے۔ ایسے میں کچھ سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ کیا یہ تربیت مسئلے کا حل ہے؟ کیا قلم اور اسلحہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟ کیا یہ سماج کے لیے نیک شگون ہے؟ کیا یہ تعلیمی ادارے کا تقدس پامال کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ اس مختصر یا طویل اقدام سے مستقبل اور ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا ہم نے اس پر غور و فکر کیا ہے؟

اساتذہ، طلبا و طالبات کو اسلحہ چلانے کی تربیت کے حمایتی تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ''ہم حالت جنگ میں ہیں، اس لیے خواتین، مرد اساتذہ اور طلبا و طالبات کے ساتھ ہر شہری کو شہری دفاع کی مکمل تربیت ضروری ہے، ساتھ ہی ساتھ ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دی جائے تا کہ وقت پڑنے پر اپنا دفاع کیا جاسکے۔ یہ بھی تربیت دی جائے کہ اسکولوں میں اسلحہ کیسے رکھا جائے گا اور کس طرح کی نوبت آنے پر برتا جائے گا، اسلحہ کب، کہاں اور کیسے حالات میں استعمال کرنا ہوگا۔''


شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، ناکامی کی صورت میں یہی حل تجویز کیا جاتا ہے کہ لوگ اب خود ہی اپنی جان کی حفاظت کریں۔

اسلحہ چلانے کی تربیت کے مخالفین تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ''اسکول میں تو کتابیں ہوتی ہیں، وہاں ہتھیار رکھنا مسائل کا حل نہیں، بلکہ یہ طریقہ کار مسائل میں مزید اضافے کا سبب ہو گا۔ اسکول کے بڑے بچوں کی عمر بھی ناپختہ ہی ہوتی ہے، اگر ہم انھیں اسلحہ برتنا سکھا دیں گے تو خود بخود ان کی نفسیات بدل جائے گی۔ جب وہ پستول چلانا سیکھ جائے گا تو پھر اس کے رویوں اور عادات میں تبدیلی رونما ہو گی اور خدشہ ہے کہ پھر وہ جہاں برداشت اور درگزر سے کام لیتا تھا وہاں بھی اپنی بات منوانے کے لیے زورآزمائی کرنے لگے۔ ہم چاہے صرف تربیت دیں اور اسلحہ نہ دیں، تب بھی پستول چلانے کے تجربے سے اس کے لیے ہتھیار اجنبی نہیں رہیں گے اور اس کا خوف نکل جائے گا، پھر وہ کہیں سے بھی اس کا بندوبست کر کے اسے استعمال کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔''

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دہشت گرد کہہ کر نہیں آتے وہ اچانک اور پوری تیاری کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اساتذہ کلاس لے رہے ہوں تو وہ بلٹ پروف لباس میں ملبوس ہوں؟ ان کے کاندھوں پر اسلحہ لٹک رہا ہو، کمر پر کارتوس بندھے ہوئے ہوں؟ اور ہاتھ میں قلم ہو اور نگاہیں کلاس روم کے دروازے پر لگی ہوں کہ کب کون آ جائے؟ اسی طرح طالب علموں کی حالت ہو۔ کتابیں سامنے کھلی ہوئی ہوں اور ڈیسک پر ہتھیار بھی رکھا ہوا ہو، کیا یہ سب ممکن ہے؟ پھر تو یہ سوال اٹھے گا کہ اسکولوں میں دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا ہے یا کہ تعلیم دینی ہے؟

جس معاشرے میں پہلے ہی سے اسلحے کی فراوانی ہو، وہاں اسلحے کی تربیت درس گاہوں میں دی جائے تو پتھر کا زمانہ یاد آ جاتا ہے جہاں ہر آدمی اپنے دفاع کا خود ذمے دار ہوتا تھا۔ ہم 21 ویں صدی میں جی رہے ہیں جہاں اسلحے سے پاک معاشرہ ہونا چاہیے۔ ماضی اور حال کے معاشرے میں تمیز ہونی چاہیے۔ یہ عام شہریوں کا کام نہیں ہے کہ وہ ہتھیار لے کر پھریں تحفظ کی ذمے داری ان کی ہے جن کو عوام نے منتخب کیا ہوا ہے جو ریاست کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔

یہ نہایت غیر مناسب طریقہ ہے۔ اساتذہ اور طلبا قلم کے لیے ہوتے ہیں، نہ کہ بندوق کے لیے۔ اس طریقے سے براہ راست تعلیمی کارکردگی متاثر ہو گی۔ جہالت کے خلاف تعلیم ہی موثر ہتھیار ہے اس حقیقت کو نہ جھٹلایا جائے۔ ورنہ دیگر دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کی کامیابی ہو گی کہ ہم بھی ان کی طرح (دفاع کے نام پر ہی سہی) ہتھیار سنبھالنے میں لگ جائیں گے۔ ''قلم کے ساتھ پستول بھی سنبھالیں؟'' یہ آج کے دور کا وہ سوال ہے جس کا جواب پوری قوم کو دینا ہے۔ خالد علیگ نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے،

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت نرالی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
Load Next Story