بٹن دبااور 30 سیکنڈ بعد پاکستان ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا

آج ہم نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے ساتھ اپنا حساب برابر کردیا

ضلع چاغی کو ایٹمی دھماکہ کے بعد منفردپہچان ملی مگر چاغی کے باسیوں کو آج تک پسماندگی کے سوا کچھ نہیں ملا فوٹو : فائل

24جنوری1972ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم دن ہے جس کا عام چرچا تو نہیں، لیکن اس دن پاکستان نے اُس سفر کاآغاز کیا تھا جس نے 28مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی تجربات کی صورت میں ایک اہم سنگ میل عبور کیا۔

اس روز 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں شکست سے دوچار پاکستانی قوم کے لیڈر اور ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں ایک خفیہ اجلاس میں عسکری مقاصد کے لیے ایٹمی طاقت کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کرنے کا حکم دیا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن تو 1956ء میں قائم ہوا لیکن اس کے اہداف میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا کوئی نام و نشان تک نہیں تھا۔

قبل ازیں 1960ء میں جب ڈاکٹر عشرت عثمانی کمیشن کے چیئرمین بنے تو انہوں نے 1960ء سے 1967ء کے درمیان 600 بہترین نوجوان پاکستانی طلباء کو بیرون ملک تربیت کے لیے بھیجا جن میں سے 106پی ایچ ڈی کرکے واپس پاکستان لوٹ آئے اور ایٹمی تحقیق کی اولین ٹیم کا حصہ بنے۔ 1964ء میں چین کے ایٹمی دھماکوں نے بھارت کو ایٹمی صلاحیت کے حصول کی راہ پر ڈال دیا۔ 1965ء میں صدر ایوب خان اور وزیر خارجہ بھٹو بیجنگ میں چینی وزیراعظم چو این لائی سے ملے اور بھارت کی ایٹمی سرگرمیوں پر بات کی۔ یہ ملاقات بھی مستقبل میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں چینی تعاون کی بنیاد بنی۔



1967ء میں بھٹو نے اپنی ایک کتاب مکمل کی جو "The Myth of Independance" کے نام سے 1969ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں بھٹو نے صنعتی ممالک اور ایٹمی اسلحہ سے لیس بھارت کے مقابل اپنی خود مختاری کے دفاع کے لیے ایٹمی صلاحیت کے حصول کو ضروری قرار دیا تھا لیکن اپنے اس تجزیئے کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات کا موقع بھٹو کو وزیراعظم بننے کے بعد ہی نصیب ہوا۔

ملتان کے جس خفیہ اجلاس کا ذکر آغاز میںہوا یہ اجلاس بھٹو کے اقتدار سنبھالنے کے تقریباً ایک مہینہ بعد ہوا تھا۔ یہ اجلاس کوئٹہ میں ہونا تھا لیکن کوئٹہ میں انتظامات سے مطمئن نہ ہونے کے باعث پاکستان ایئرفورس نے ہنگامی طور پر اجلاس کے شرکاء کو ملتان منتقل کیا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر عبدالسلام، عشرت عثمانی اور منیر احمد خان سمیت اہم ایٹمی سائنس دان شریک تھے۔اس موقع پر بھٹو نے براہ راست شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ایٹمی صلاحیت کے بارے میں اپنے تصورات پر روشنی ڈالی اور اس اہم مقصد کے حصول کے لیے ان میں جوش و خروش پیدا ہوکیا۔

1971ء کی جنگ کے دنوں میں پاکستان اور شمالی کوریا کے درمیان بھی روابط پیدا ہوئے جنہوں نے آگے چل کر پاکستان کے میزائل پروگرام میں تعاون کی راہ ہموار کی۔ 18مئی 1974ء میں بھارت کے ایٹمی تجربے نے پہلے سے دشمن ملک کے ساتھ عسکری توازن کے لیے نبردآزما پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے مہمیز کا کام کیا لیکن دوسری جانب ایٹمی پھیلاؤ کے خلاف دنیا کی تشویش میں اضافہ بھی ہوا اور ایٹمی پروگرام میں مدد کرنے والی تمام اشیاء اور مواد کی برآمد پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔



اس موقع پر اللہ نے پاکستان کے لیے ایک اور راستہ کھولا۔ ہالینڈ میں مقیم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب سے یہ اطلاع پاکستان پہنچی کہ برطانیہ، جرمنی اور ہالینڈ پر مشتمل یورپین یورینیم اینرچمنٹ کنسورشیم نے یورینیم کو افزودہ کرنے کی نئی ٹیکنالوجی وضع کی ہے جسے سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر قدیر خود بھی اس نئے طریقے کو وضع کرنے کے منصوبے کا حصہ تھے۔

1976ء میں ڈاکٹر قدیر ہالینڈ سے پاکستان منتقل ہوگئے۔ جلد ہی ڈاکٹر قدیر اور کمیشن کے چیئرمین منیر احمد خان میں اختلافات پیدا ہوگئے جس پر وزیراعظم بھٹو نے یورینیم افزودہ کرنے کا تمام کام ڈاکٹر قدیر کے سپرد کردیا یوں یورینیم کی افزودگی کے لیے ملکی سطح پر پلانٹ تیار کرنے کا کام کہوٹہ میں شروع ہوا۔ 1977ء میں مارشل لاء آگیا اور جنرل ضیاء نے اقتدار سنبھالا لیکن اس سے ایٹمی پروگرام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

اس دوران پاکستان یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ ایٹمی پروگرام کی تمام تنصیبات ایک جگہ پر نہیں ہونی چاہئیں جس کے بعد ایٹمی صلاحیت کے حصول کے لیے درکار مختلف سہولتوں کو مختلف مقامات پر پھیلا دیا گیا۔ایک جانب یورینیم کی افزودگی پر کام جاری تھا تو دوسری جانب ایٹم بم کے ڈیزائن پر کام ہورہا تھا۔ مارچ 1974ء کو منیر احمد خان نے ایک اجلاس میں ایٹم بم کے ڈیزائن پر کام کے آغاز کے احکامات دیئے۔ اس منصوبے پر واہ میں کام شروع ہوا لیکن یہ واہ آرڈیننس فیکٹری کا حصہ نہیں تھا۔ منصوبے کے نگران حفیظ قریشی اور ڈاکٹر زمان شیخ تھے اور ٹیم کو خفیہ طور پر ''واہ گروپ'' کے نام سے جانا جاتا تھا۔

ایٹمی دھماکے کے لیے جگہ کے انتخاب اور اسے دھماکے کے لیے تیار کرنے کا کام بھی 1976ء میںشروع ہوگیا تھا۔ ایک سروے ٹیم ہیلی کاپٹر کے ذریعے مناسب جگہ کی تلاش میں مصروف تھی۔ اس مقصد کے لیے جنوب میں تربت، آواران اور خضدار جبکہ مشرق میں نوکنڈی اور خاران کے علاقوں کا جائزہ لیا گیا۔ کمیشن کو ایک ایسے پہاڑ کی تلاش تھی جو اندر سے بالکل خشک ہو اور 20کلوٹن کے ایٹمی دھماکے کو برداشت کرسکے۔



بالآخر چاغی کے راس کوہ ہل کو منتخب کیا گیا جو سینکڑوں میٹر بلند گرینائٹ کا مضبوط پہاڑ تھا۔ بعد میں صدر جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں ایک اور اجلاس بھی ہوا جس میں تجربات کے لیے متبادل مقام بھی منتخب کیا گیا جو خاران کے صحرا میں واقع ہے۔ ان علاقوں کو عوام کے لیے بند کردیا گیا تھا اور افواہ پھیل گئی کہ پاکستان بلوچستان میں امریکہ کو اڈے فراہم کررہا ہے۔

11اور13مئی 1998ء کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے لیے حالات بہت غیر موافق ہوگئے تھے۔ دنیاکے تمام بڑے ممالک پاسکتان کے ردعمل کو ہر قیمت پر روکنے کے لیے متحرک ہوچکے تھے۔ وزیراعظم اور ان کی حکومت کے لیے یہ ایک کڑے امتحان کا وقت تھا۔ اس موقع پر عملی دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھنا بہت بڑا چیلنج تھا۔ ملک کے طول و عرض میں اور حکومتی ایوانوں میں بے یقینی کی صورتحال تھی۔ کھلی بحث شروع ہوچکی تھی پاکستان کو جوابی دھماکے کرنے چاہئیں یا نہیں جس سے صورتحال اور بھی گھمبیر ہوچکی تھی۔ بالآخر حکومت وقت اس کڑے امتحان میں سرخرو ہوئی اور وزیراعظم نوازشریف نے بھارت کو مؤثر جواب دینے کا فیصلہ کرلیا۔



28مئی 1998ء کو صبح کاذب سے پہلے پاکستان میں واقع زلزلے کو محسوس کرنے والے تمام مراکز کے رابطے بیرونی دنیا سے منقطع کردیئے گئے۔تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کردیا گیا۔ پاک فضائیہ کے لڑاکا طیارے اُڑان بھرنے کے لیے رن وے پر تیار کھڑے تھے۔ علاقے کو مکمل طور پر خالی کرالیا گیا۔ دھماکے کے مقام سے دس کلومیٹر دور آبزرویشن پوسٹ پر دس ارکان پر مشتمل ٹیم پہنچ گئی جن میں کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر قدیر، ڈاکٹر ثمر مبارک کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے 4سائنس دان اور پاک فوج کی ٹیم کے قائد جنرل ذوالفقار شامل تھے۔

ان کے علاوہ دیگر عملہ بھی دس ارکان پر مشتمل تھا۔ سپہر3بجے دھماکے کی تیاری میں مصروف جوانوں کو لے کر آخری فوجی ٹرک بھی دھماکے کے مقام سے باہر نکل گیا اور علاقہ کلیئر ہونے کی اطلاع دے دی گئی۔ محمد ارشد وہ نوجوان چیف سائنٹفک آفیسر تھا جس نے دھماکہ کرنے کا نظام وضع کیا تھا، اسی نوجوان کو فائرنگ بٹن دبانے کے لیے چنا گیا۔


لبوںپر دُعاؤں کے ساتھ تین بج کر 16منٹ پر محمد ارشد نے فائرنگ بٹن دبایا۔ آبزرویشن پوسٹ اور دور راس کوہ کی چوٹی پر مکمل خاموشی چھائی تھی۔ بٹن دبانے کے بعد چھ مراحل پر مشتمل دھماکہ کرنے کے خود کار عمل نے کام شروع کردیا۔ یہ اس لیے ضروری تھا کہ بم حادثاتی طور پر نہ پھٹ جائیں۔ کچھ لمحوں بعد راس کوہ کے اردگرد کی زمین لرز اٹھی، آبزرویش پوسٹ کے درودیوار ہلنے لگے اور وہاں موجود بیس افراد نے دیکھا کہ راس کوہ کے پانچ مقامات جہاں ایٹم بم زمین کے اندر نصب تھے وہاں دھول مٹی کے دبیز بادل نمودار ہوئے اور سیاہ گرینائٹ کی چٹانیں دودھیا رنگ کی ہوگئیں۔

 



پورا پہاڑ دھول کے گہرے بادلوں میں روپوش ہوچکا تھا۔ اس دھماکے کا نظارہ کرنے والوں کے لیے بٹن دبنے سے دھماکہ ہونے تک کے 30 سیکنڈ زندگی کے طویل ترین انتظار جیسے تھے۔ بیس سال کا یہ طویل اور صبرآزما سفر اپنا اہم ترین سنگ میل عبور کرچکا تھا۔ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ وزیراعظم نے کامیاب ایٹمی تجربات کے بعد قوم سے خطاب کا آغاز اس فقرے سے کیا تھا ''آج ہم نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے ساتھ اپنا حساب برابر کردیا۔'' بے شک زندہ قومیں حساب برابر کرنے میں دیر نہیں کیا کرتیں۔

چاغی سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے
28مئی 1998کو بلوچستان کے ضلع چاغی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہاں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے۔ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان ،ڈاکٹر ثمر مبارک مند ،وفاقی ،صوبائی وزرااور دیگر چاغی آئے ۔چاغی کے بزرگوں اور عوامی حلقوں نے روزنامہ ایکسپریس کو بتایا کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے بعد خود چاغی کے صدر مقام دالبندین آئے اور ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا ۔

ایٹمی دھماکہ کے بعد میاں محمد نواز شریف نے چاغی زرعی پیکیج اور دیگر مر اعات کا اعلان کیا۔ چاغی کو بجلی کی فراہمی کا بھی وعدہ کیاتھا مگر ان تمام وعدوں کے باوجود وفاقی حکومت چاغی عوام کے لیے کچھ نہ کر سکی کیونکہ دھماکوں کے کچھ عرصہ بعد حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہ دس برس کے لیے جلا وطن کردیئے گئے۔

چاغی رقبے کی لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے ۔ چاغی کو اللہ پاک نے قدرتی ذخائر سے مالا مال کیا ہے۔( سیند ک) پروجیکٹ اور( ریکوڈک) پروجیکٹ بھی اسی ضلع کا حصہ ہیں ۔سیندک پر وجیکٹ پر گزشتہ 15سال سے چین کی ایک کمپنی کام کر رہی ہے، مگر چاغی کی ترقی میں کوئی واضح اقدامات ابھی تک سامنے نہیں آئے ۔ضلع کی پسماندگی کا اندازہ آپ اس چیز سے لگا سکتے ہیں کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ بنیادی ضرور ت پانی ،صحت ،تعلیم ہیں اس سے بھی ،ضلع چاغی کے باسی محروم ہیں۔ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین سے متصل شمال کی جانب پاک افغان باڈر اور شمال مغرب کی جانب پاک ایران باڈر واقع ہیں اور ہمسایہ ملک ایران کا اہم تجارتی اور زیروپوائنٹ گیٹ بھی چاغی ضلع کے ساتھ منسلک ہے۔

پاکستان کو ایران اور یورپ سے ملانے والی مین آر سی ڈی شاہراہ بھی اسی ضلع سے گزرتی ہے۔ایٹمی دھماکہ کے بعد جب میاں نواز شریف کی حکومت گرا دی گئی بعد میں آنے والی وفاقی حکومت نے بھی چاغی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے خوشحالی آتی۔ 2009ء کے الیکشن کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو چاغی کے صدر مقام دالبندین کو نیشنل گرڈ کے ساتھ منسلک کردیا گیا ، گرڈ کی بجلی ابھی تک چند دیہات تک محدود ہے اور تمام گنجان آباد کالونیاں ابتک بجلی سے محروم ہیں،پیپلز پارٹی کے دور حکومت تمام علاقوں کو بجلی پہنچانے کی منظوری دی گئی تھی۔

کئی علاقوں میں بجلی کے کھمبے بھی نصب کئے گئے مگر بعد میں انکا دور حکومت بھی ختم ہوگیا اسکے بعد تمام کام التوا کا شکار ہے۔ ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں پرنس فہد بن سلطان بن عبد العزیزنے 22 کروڑکی لاگت سے ہسپتال تعمیر کروایا تھا جس میں تمام سہولیات موجود ہیں مگر ڈاکٹروں کی کمی کے باعث ہسپتال کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے ،ایمرجنسی کے دوران تمام مریضوں کو کوئٹہ ریفر کر نا پڑتا ہے۔

ضلع چاغی کو ایٹمی دھماکہ کے بعد منفردپہچان ملی مگر چاغی کے باسیوں کو آج تک پسماندگی کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ضلع بھر میں تمام بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، پانی ،صحت اورمعیاری تعلیم کی کمی اور بے روزگاری عام ہے۔زندہ قومیں ان مقامات کو بھی ہر لحاظ سے خاص بنا دیتی ہیں جہاں کوئی خاص واقعہ رونما ہو یا جنہیں قومی ترقی کے کسی اہم سنگ میل کو عبور کرنے میں استعمال میں لایا گیا ہو لیکن ہمارے ہاں شاید ابھی اس مثبت روایت نے جنم نہیں لیا۔

یہ بات ضروری تھی کہ جو مقام پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے اعلان کے طور پر استعمال ہوا وہاں کا سماجی، معاشی اور تعلیمی منظر بھی یکسر تبدیل ہوجاتا۔ نہ صرف چاغی کے رہنے والے بلکہ پاکستان بھر کے عوام اس مقام کو فخر کے ساتھ دیکھتے اور یہ علاقہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس اہم کارنامے کے شایان شان شکل و صورت میں ابھر کر سامنے آتا۔

اسرائیل اور بھارت چاغی پر حملہ کرنے والے تھے؟
ہمیں ایک رپورٹ ملی کہ اسرائیل نے اپنے پندرہ ایف سولہ اور ایف پندرہ قسم کے جنگی طیارے بھارت روانہ کر دئیے ہیں۔ میں نے رپورٹ کو مارک کر کے اپنے ذرائع کو یہ کھوج لگانے کی ذمہ داری سونپ دی کہ بھارت کے کسی سرحدی ہوائی اڈے پر کوئی اسرائیلی طیارہ تو دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ رپورٹ موصول ہونے کے چند دن بعد 28 مئی 1998ء کو رات کے بارہ بج کر 30 منٹ پر مجھے اپنے سیکرٹری کی ٹیلی فون کال ملی کہ بھارت اور اسرائیل چاغی میں جوہری دھماکوں کی سائٹ پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور چنائی کے ہوائی اڈے سے یہ طیارے اڑ کر چاغی پر حملہ کریں گے۔



میں نے افغانستان اور بھارت کے نقشے اپنے بیڈ روم کی ٹیبل پر رکھے ہوئے تھے اور بھارت کے نقشے میں چنائی کو تلاش کر رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ چنائی سے چاغی پر حملے کے لئے آنے والے طیاروں کو آتے ہوئے دو مرتبہ اور واپس جاتے ہوئے ایک دفعہ ہوا میں ایندھن ہوائی ٹینکر سے لینا پڑے گا۔ اگرچہ فوری خطرے کا امکان نہیں تھا لیکن ہم نے اپنی طرف سے تمام تر حفاظتی انتظامات کرنے تھے۔

چند منٹوں کے اندر میں کرائسس مینجمنٹ سیل پہنچ گیا۔ وہاں مجھے بتایا گیا کہ ڈائریکٹر آپریشن (GHO) نے یہ خبر دی ہے کہ چنائی کے ہوائی اڈے پر طیاروں میں میزائل لوڈ کیے جا رہے ہیں تاکہ چاغی پر حملہ کیا جا سکے۔ ڈائریکٹر آپریشن چاہتے تھے کہ ہمیں چار پانچ گھنٹوں تک بھارتی حملے روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ کوئٹہ کے ہوائی اڈے پر لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے جیٹ طیاروں کے لئے کوئٹہ ایئر پورٹ سے رات کے وقت ٹیک آف اور لینڈ کرنا مشکل ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے انہیں ممکنہ بھارتی حملے کے سنگین نتائج سے آگاہ کر دیا گیا۔



جاپان سے واشنگٹن تک تمام سفارت خانوں کو خطرے سے آگاہ کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے انور کمال نے سی این این جا کر ممکنہ بھارتی حملے کے خطرے سے آگاہ کیا۔ میں نے ڈائریکٹر ملٹری آپریشن کو ہدایت کی کہ کراچی سے طیارے پرواز کرائیں اور ممکنہ بھارتی حملے کے راستے بلاک کئے جائیں جونہی حملہ آور نے اپنے ریڈار پر پاکستان کی کارروائی کی تیاریاں دیکھیں۔ چاغی پر حملے کئے جانے کے خطرات ٹل گئے۔ امریکی حکام نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ اسرائیلی سفیر ایک ریٹائرڈ ایئر چیف تھا۔

انہوں نے تصدیق کی کہ اسرائیل کے تمام ایف پندرہ اور ایف سولہ قسم کے طیارے ملک کے اندر ہی موجود ہیں۔ میں جانتا تھا کہ خطرے کی جو باتیں سامنے آئی تھیں، وہ غلط اطلاعات کی بنیاد پر الارم کے نتیجے میں تھیں ، تاہم پاکستان نے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے تمام ضروری حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے۔ پاکستان نے طے شدہ پروگرام کے تحت 28 مئی 1998 کو کامیاب جوہری دھماکے کئے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم دھماکوں کے دوسرے دن چاغی میں سائٹ پر موجود تھی۔
(گوہر ایوب خان کی کتاب'' ایوان اقتدار کے مشاہدات ''سے اقتباس)
Load Next Story