خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے ثبوت مل گئے سپریم کورٹ

صوبائی حکومت نے اہلیت کھودی،وفاق نے بھی ذمے داری پوری نہیں کی، راہداریاں جاری کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی جائے

لاپتہ افرادکے لواحقین کو معاوضہ ادا، تمام کیس سی آئی ڈی کو دینے ، ایک لاکھ44ہزار افرادکی ڈیرہ بگٹی میں آبادکاری کا حکم،شفاف الیکشن کیلیے اقدامات کیے جائیں،چیف جسٹس. فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے بلوچستان میںامن وامان اورلاپتہ افرادکے کیس میں عبوری حکم جاری کر دیاہے جس میں کہا گیاہے کہ بلوچستان میں خفیہ اداروںکی مداخلت ثابت ہوگئی ہے۔

بلوچستان حکومت آ ئینی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ عبوری حکم چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے پڑھ کرسنایا۔ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میںچیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس کے دیگرارکان میںجسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے عبوری حکم سناتے ہو ئے کہا کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ، مسخ شدہ لاشوںکی برآمدگی، اغوا برائے تاوان، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ روکنے اورلاپتہ افرادکی بازیابی میں صوبائی حکومت ناکام ہو چکی ہے اور وفاق نے بھی صوبے میں ایسے اقدامات نہیںکیے کہ وہ اپنی ذمے داریاں پوری کرے، وفاقی حکومت نے اگرچہ ایف سی کی تعیناتی کی مگر ان کے بھی 4 سو 32 اہلکارجاں بحق جبکہ 6سو 4زخمی ہو چکے ہیں تاہم لاپتا افرادکاالزام صرف ایف سی پرعائدکیاجاتاہے،سویلین اور نان سویلین افرادکی جان ومال کاکوئی تحفظ نہیں اس لیے انارکی بڑھتی جارہی ہے، جن افراد کی لاشیں ملی ہیں حکومت انکے لواحقین کو معاوضہ دینے کاعمل تیزکرے،حکومت اس سلسلے میں ایک اسکیم بنائے تاکہ ان افرادکے گھرانوںکی کفالت کا انتظام ہوسکے۔

سپریم کورٹ نے عبوری حکم میں ڈیرہ بگٹی سے بے گھر ہونیوالے ایک لاکھ44 ہزار سے زائد افراد کی دوبارہ آبائی علاقوں میں آبادکاری سمیت انکے جان ومال کے تحفظ کو ممکن بنانے اور ڈیرہ بگٹی میں سول انتظامیہ کو فعال بنانے کی ہدایت کی ہے۔ عبوری حکم میں کہا گیا کہ بلوچستان میں خفیہ اداروںکی مداخلت ثابت ہو گئی ہے، انھوں نے لوگوںکوکابلی گاڑیوں اوراسلحہ کی راہداریاں جاری کی ہیں،اسلحہ اورکابلی گاڑیوں کی راہداریوںکا خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کو کوئی اختیار نہیں، مستقبل میں اگر کوئی اس میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موبائل سم کو ریگولیٹ کرنے کے سلسلے میں 21 مئی کی ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ عبوری حکم میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں محرومیاں بڑھ رہی ہیں اور روزگار کے مواقع نہیں، نوجوانوں کی ملازمت کے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں، صوبائی حکومت کے خلاف فنڈز کے غلط استعمال کے بھی الزامات ہیں، آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ عبوری حکم میں کہا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا ہے کہ انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے وفاق صاف اور شفاف انتخابات کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔


انہوں نے بلوچستان پولیس اور لیویز کی جانب سے زبردستی لاپتہ کئے جانے والے افراد، مسخ شدہ لاشوں، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان سمیت دیگر سے متعلق تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش کو سی آئی ڈی کے حوالے کرنے اور چالان ہائی کورٹ کو پیش کرنے کا حکم دیا اور انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان کو ہدایت کی۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم میں کالعدم تنظیموں کے بیانات سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کالعدم تنظیموں کے موقف کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کر دی، جس کے تحت پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کی جانب سے کسی بھی واقعے کی ذمے داری کی نشر و اشاعت نہیں کریں گے۔

بعد ازاں سماعت کو 31 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا۔ آئندہ سماعت اسلام آباد میں ہوگی۔ اس سے قبل سماعت کے دوران ڈی آئی جی سی آئی ڈی فیروز شاہ عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ بلوچستان میں سی آئی ڈی کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ جس پر ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پورا صوبہ ہے اور کل نفری 132 ہے جبکہ سی آئی ڈی سندھ کی 800 سے زائد نفری ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایم ظفر ایڈووکیٹ سے کہا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ہم کس قسم کا آرڈر پاس کریں تو انہوں نے کہا کہ ہمارے سارے وسائل پر ہمارا حق ہے لیکن شروع دن سے اس میں کمی کی گئی ہے، این ایف سی ایوارڈ بھی پورا نہیںدیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں اس مرتبہ آپ کے صوبے کو بہت کچھ دیا گیا جو حوصلہ افزا ہے اللہ نے اس صوبے کو ان نعمتوں سے نوازا ہے جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے سونا، تانبا، معدنیات اور پانی سمیت کسی چیز کی کمی نہیں،جب تک غریب آدمی کے گھرکا چولہا نہیں جلے گا امن کیسے ہو گا، اتنے پیسے ملنے کے باوجود یہ حال ہے کہ لوگوں کی حالت نہیں بدلی،آپ ایسے آدمی سے پوچھیں جسکے پاس اپنے بچے کی دوائی کیلئے بھی پیسے نہیں اور وہ جو آج بھی اونٹ کی پیٹھ پر سواری کرنے پر مجبور ہیں، یہاں بیڈ گورننس ہی اصل مسئلہ ہے، اگر ترقی کیلئے پیسہ آئے تو اس کو درست طور پر لگانا انہی نمائندوں کا کام ہے جن کو ہم ووٹ دیتے ہیں، ہم نے وہ راستہ اختیار کرنا ہے جو امن کی طرف جا رہا ہو، چاہتے ہیں کوئی ماں اپنے لاپتہ بچہ کی فریاد لے کر نہ آئے'ٗ ہمارے پاس دیانتدار اور حقیقی نمائندے ہونے چاہئیں' بلوچستان میں لاپتہ افراد' ٹارگٹ کلنگ کا تدارک چاہتے ہیں' نیشنل فنانس کمیشن نے کئی گنا پیسہ دیا ہے' کدھر خرچ کیا' اتنا پیسہ ملنے کے باوجود سڑک بھی نہیں ملے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عبدالرحیم زیارتوال کی پٹیشن آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔

اس موقعہ پر ایم ظفر ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس سے کہا کہ آئین میں ترمیم کیلئے آپ تجویز دے سکتے ہیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ آئین سپریم ہے ہم کوئی تجویز نہیں دے سکتے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اب تک عدالت کو شکایتیں بہت ملیں لیکن حل نہیں بتایا گیا۔ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل کو کہا کہ آج تک بہت سوں نے آئین سے تجاوز کیا ہو گا اب ہم سے یہ توقع نہ رکھیں، ہم آئین کے تحت ہی فیصلہ دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سرجوڑ کر بیٹھے گی تو پھر کوئی حل نکلے گا۔

وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے عدالت میں بیان دیا کہ بلوچستان پر ایک مکمل اور جامع رپورٹ کابینہ کے اجلاس میں پیش کی گئی ہے تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے ان سے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میٹنگ میں کچھ نیا کیا ہے یہ تو ہم آرڈرکرچکے ہیں، اس کے بعد بنچ کے ججز نے وفاقی کابینہ کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر تحفظات کا اظہارکیا۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہاکہ صوبائی حکومت کو خاموش تماشائی نہیں بننے دیا جائیگا اس لیے وفاقی حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کے جان و مال کو تحفظ دینے کیلیے موثر اقدامات کرے ۔
Load Next Story