’’اور ہوس جیت گئی‘‘
اگر سارے مرد ہم جنس پرست ہوجائیں یا ساری خواتین اس ہوس میں مبتلا ہو جائیں تو انسانیت کی بقاء کا کیا ہوگا؟
FAISALABAD:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ اللہ نے تو سب کچھ اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے تو پھر انسان کے اختیار میں کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُسے کہا کہ اپنی ایک ٹانگ اُٹھا لو، اُس نے اُٹھا لی، پھر کہا اب دوسری ٹانگ بھی اُٹھا لو، تو وہ کہنے لگا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ بیک وقت دونوں ٹانگیں اُٹھا لی جائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کچھ فطری چیزوں کے علاوہ اللہ نے ہر چیز انسان کے اختیار میں دی ہے۔ بیان کر نے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اگر فطرت کے خلاف جائے گا تو نقصان اُٹھائے گا، اگر بیک وقت دونوں ٹانگیں اُٹھانے کی کوشش کرے گا تو منہ کے بَل زمین پر آ گِرے گا، کھانا منہ کے بجائے ناک سے کھانے کی کوشش کرے گا تو سانس بند ہونے کے باعث موت کے منہ میں پہنچ جائے گا۔
دنیا میں کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنہیں معاشرتی طور پر بالعموم اور مذہبی طور پر بالخصوص اچھا نہیں سمجھا جاتا، ہم اِن لوگوں سے نفرت نہیں کرتے لیکن اِن لوگوں سے ہمدردی بھی نہیں رکھتے، ہم انہیں الگ تھلگ نہیں سمجھتے لیکن ہم انہیں معاشرے کا حصہ بھی نہیں جانتے، کسی شخص میں کسی بھی طرح کی معذوری یا محرومی ہونا غلط نہیں ہے، وہ قدرتی طور پر ہوسکتی ہے، کسی میں بھی ہو سکتی ہے، کسی بھی وقت ہوسکتی ہے، کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے، لیکن اس طرح کی کسی بھی کمزوری یا طاقت کا غلط استعمال جو معاشرتی طور پر مناسب نہ ہو وہ کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
میرا اشارہ ہم جنس پرستی کی جانب ہے۔ چند دنوں پہلے آئرلینڈ میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں 62 فیصد لوگوں نے ملک کے آئین میں ترمیم کرکے 'گے' اور 'لیسبین' جوڑوں کو شادی کرنے کی اجازت دینے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ دنیا میں آئرلینڈ پہلا ملک ہے جس نے ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
طبّی ماہرین، ہم جنس پرستی کو ایک نفسیاتی مسئلہ قرار دیتے ہیں، ان کے مطابق ہم جنس مردوخواتین چاہے جتنے مرضی تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں لیکن اس معاملے میں وہ صرف اور صرف ایک جنسی اور نفسیاتی مریض کی حیثیت رکھتے ہیں، جب ایسے افراد اس فعل کے عادی ہوجاتے ہیں تو اس کو فطری لباس پہنانے کی ناکام کوششیں کرتے نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے قوانین منظور کروانے کے در پے ہوتے ہیں۔
ماہرینِ عمرانیات کہتے ہیں کہ ہم جنس پرستی کا کوئی واضح جواز نظر نہیں آتا کیونکہ اس کا براہِ راست نقصان انسانیت کو پہنچتا ہے. اگر سارے مرد ہم جنس پرست ہوجائیں یا ساری خواتین اس مرض میں مبتلا ہوجائیں تو انسانیت کی بقاء کا کیا ہوگا؟ اگر نسلِ انسانی ہی منقطع ہوجائے اور انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ ٹوٹ جائے تو کائنات کا وجود ہی خطرے میں پڑسکتا ہے۔
فوٹو:فیس بک
میری رائے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی بنیادی طور پر ایک بُری لَت ہے. یہ بس ایک ہَوَس ہے جس سے کوشش کر کے بچا جا سکتا ہے، جس طرح چَرس پینا ایک بُری لَت ہے اور اس سے بچنا بھی ممکن ہے بالکل اسی طرح ہم جنس پرستی سے بھی کِنارہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چند دنوں پہلے ایک خبر میری نظروں سے گزری کہ یورپ میں دو ہم جنس پرست خواتین نے ایک یتیم خانے سے ایک بچہ گود لیا کیونکہ وہ اپنی زندگی میں ایک ننھے مہمان کی کمی نہایت شدت سے محسوس کر رہی تھیں اور چونکہ وہ دونوں مل کر بھی اس چیز سے ''قاصر'' تھیں تو انہوں نے ایک بچہ گود لینے کا فیصلہ کیا، اب بھلا ان دونوں خواتین کو کون سمجھائے کہ آپ دونوں کا یہ بچہ گود لینے کا فعل ہی اس بات کا بَیّن ثبوت ہے کہ یہ ایک غیر فطری عمل ہے اور اس کے بغیر صاحبِ اولاد ہونا ناممکن ہے۔
جانور تک اس بَد فعل کے قریب بھی نہیں پھٹکتے، وہ بھی جانتے ہیں کہ نسل میں بڑھوتری کا فطری ذریعہ کیا ہے اور وہ اُسی فطریت پر عمل پیرا ہیں، تو کیا اب انسان جانوروں سے بھی گیا گزرا ہوگیا ہے؟ افسوس کہ اب وہم کے ساتھ ساتھ ہَوَس کا بھی کوئی علاج دنیا میں باقی نہیں رہا۔
بقول شاعر
[poll id="450"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ اللہ نے تو سب کچھ اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے تو پھر انسان کے اختیار میں کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُسے کہا کہ اپنی ایک ٹانگ اُٹھا لو، اُس نے اُٹھا لی، پھر کہا اب دوسری ٹانگ بھی اُٹھا لو، تو وہ کہنے لگا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ بیک وقت دونوں ٹانگیں اُٹھا لی جائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کچھ فطری چیزوں کے علاوہ اللہ نے ہر چیز انسان کے اختیار میں دی ہے۔ بیان کر نے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اگر فطرت کے خلاف جائے گا تو نقصان اُٹھائے گا، اگر بیک وقت دونوں ٹانگیں اُٹھانے کی کوشش کرے گا تو منہ کے بَل زمین پر آ گِرے گا، کھانا منہ کے بجائے ناک سے کھانے کی کوشش کرے گا تو سانس بند ہونے کے باعث موت کے منہ میں پہنچ جائے گا۔
دنیا میں کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنہیں معاشرتی طور پر بالعموم اور مذہبی طور پر بالخصوص اچھا نہیں سمجھا جاتا، ہم اِن لوگوں سے نفرت نہیں کرتے لیکن اِن لوگوں سے ہمدردی بھی نہیں رکھتے، ہم انہیں الگ تھلگ نہیں سمجھتے لیکن ہم انہیں معاشرے کا حصہ بھی نہیں جانتے، کسی شخص میں کسی بھی طرح کی معذوری یا محرومی ہونا غلط نہیں ہے، وہ قدرتی طور پر ہوسکتی ہے، کسی میں بھی ہو سکتی ہے، کسی بھی وقت ہوسکتی ہے، کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے، لیکن اس طرح کی کسی بھی کمزوری یا طاقت کا غلط استعمال جو معاشرتی طور پر مناسب نہ ہو وہ کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
میرا اشارہ ہم جنس پرستی کی جانب ہے۔ چند دنوں پہلے آئرلینڈ میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں 62 فیصد لوگوں نے ملک کے آئین میں ترمیم کرکے 'گے' اور 'لیسبین' جوڑوں کو شادی کرنے کی اجازت دینے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ دنیا میں آئرلینڈ پہلا ملک ہے جس نے ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
طبّی ماہرین، ہم جنس پرستی کو ایک نفسیاتی مسئلہ قرار دیتے ہیں، ان کے مطابق ہم جنس مردوخواتین چاہے جتنے مرضی تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں لیکن اس معاملے میں وہ صرف اور صرف ایک جنسی اور نفسیاتی مریض کی حیثیت رکھتے ہیں، جب ایسے افراد اس فعل کے عادی ہوجاتے ہیں تو اس کو فطری لباس پہنانے کی ناکام کوششیں کرتے نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے قوانین منظور کروانے کے در پے ہوتے ہیں۔
ماہرینِ عمرانیات کہتے ہیں کہ ہم جنس پرستی کا کوئی واضح جواز نظر نہیں آتا کیونکہ اس کا براہِ راست نقصان انسانیت کو پہنچتا ہے. اگر سارے مرد ہم جنس پرست ہوجائیں یا ساری خواتین اس مرض میں مبتلا ہوجائیں تو انسانیت کی بقاء کا کیا ہوگا؟ اگر نسلِ انسانی ہی منقطع ہوجائے اور انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ ٹوٹ جائے تو کائنات کا وجود ہی خطرے میں پڑسکتا ہے۔
فوٹو:فیس بک
میری رائے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی بنیادی طور پر ایک بُری لَت ہے. یہ بس ایک ہَوَس ہے جس سے کوشش کر کے بچا جا سکتا ہے، جس طرح چَرس پینا ایک بُری لَت ہے اور اس سے بچنا بھی ممکن ہے بالکل اسی طرح ہم جنس پرستی سے بھی کِنارہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چند دنوں پہلے ایک خبر میری نظروں سے گزری کہ یورپ میں دو ہم جنس پرست خواتین نے ایک یتیم خانے سے ایک بچہ گود لیا کیونکہ وہ اپنی زندگی میں ایک ننھے مہمان کی کمی نہایت شدت سے محسوس کر رہی تھیں اور چونکہ وہ دونوں مل کر بھی اس چیز سے ''قاصر'' تھیں تو انہوں نے ایک بچہ گود لینے کا فیصلہ کیا، اب بھلا ان دونوں خواتین کو کون سمجھائے کہ آپ دونوں کا یہ بچہ گود لینے کا فعل ہی اس بات کا بَیّن ثبوت ہے کہ یہ ایک غیر فطری عمل ہے اور اس کے بغیر صاحبِ اولاد ہونا ناممکن ہے۔
جانور تک اس بَد فعل کے قریب بھی نہیں پھٹکتے، وہ بھی جانتے ہیں کہ نسل میں بڑھوتری کا فطری ذریعہ کیا ہے اور وہ اُسی فطریت پر عمل پیرا ہیں، تو کیا اب انسان جانوروں سے بھی گیا گزرا ہوگیا ہے؟ افسوس کہ اب وہم کے ساتھ ساتھ ہَوَس کا بھی کوئی علاج دنیا میں باقی نہیں رہا۔
بقول شاعر
ہَوَس کی دُھوم دھام ہے نگر نگر گلی گلی
[poll id="450"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس