ضمیر کی آواز
گزشتہ کئی بار تنخواہوں کے مسئلے پر قلم اٹھا، مگر اہل اقتدار کی سمجھ میں یہ نہ آیا کہ تنخواہوں کے مابین اتنا فرق کیوں؟
KARACHI:
گزشتہ کئی بار تنخواہوں کے مسئلے پر قلم اٹھا، مگر اہل اقتدار کی سمجھ میں یہ نہ آیا کہ تنخواہوں کے مابین اتنا فرق کیوں؟ یقیناً تنخواہوں میں فرق دنیا بھر میں ہوتا ہے، پر اس ملک میں اندھیر ہے۔ دیدہ و دانستہ ایک پریشان حال طبقہ پیدا کیا جا رہا ہے جس کا براہ راست اثر مردوں پر نہیں بلکہ عورتوں پر پڑتا ہے اور حالیہ دنوں میں ایک نامی گرامی تنخواہوں والے چینل نے دھماکا کر دیا، 80 لاکھ ایک کروڑ ماہانہ تنخواہ، ابھی کام شروع بھی نہ ہوا اور کام کے لوازمات کے ابتدائیہ کا یہ عالم کہ کئی کروڑ نہیں تقریباً ایک ارب کی رقم نگینہ لوگوں کی تلاش میں خرچ ہو چکی۔
یہ عالم ہے اس ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کا جو کامرانی کے فرائض پر سے بھی مزید بااختیار تھے۔ مگر بول میں سب بھولے تھے، یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ اگر 1000 کی چیز اگر کوئی 50 ہزار میں خرید رہا ہے تو کیوں؟ یہ تمام باتیں صاحبان اختیار کو معلوم تھیں مگر خاموشی ہر لب پہ طاری تھی۔ جب کہ حکومتی سطح پر کلرک یا اسی قسم کے مساوی لوگ جن کی تنخواہ دس گیارہ ہزار کے قریب ہے ان کی کسمپرسی کا کیا عالم ہو گا۔
کئی بار لکھ چکا ہوں تنخواہ کا تجزیہ، اگر وہ لڑکا نوجوان ہے ایک معمولی کمپیوٹر آپریٹر یا کلرک کا احوال سنیے، میاں بیوی اور 6 ماہ سے اور سال بھر کا بچہ، دودھ کم از کم زندہ رہنے کے لیے آدھا کلو، دلیہ اور سیرل وغیرہ، ڈائپر کپڑا لتہ، کبھی کبھی ادویات، مختلف ویکسین کم ازکم تقریباً کم ازکم 5 ہزار روپیہ ماہوار، بجلی ایک کمرے کی، ٹی وی، باورچی خانے، فریج، ناشتہ دو افراد 100 روپیہ روز گویا مزید پانچ ہزار کپڑے لتے، آفس جانے کا خرچ کیسے؟ اگر بائیک 40/50 روپے کا پٹرول یا بس کا کرایہ، دوپہر اور رات کا کھانا کہاں سے، اگر بوڑھے ماں باپ ہوئے تو کیا ہو گا، اگر رات کی نوکری تو مشکل ہے۔
اگر بیوی بھی پڑھی لکھی ہے تو بچہ کی دیکھ بھال کون کرے۔ گویا مجموعی طور پر معاشرہ ٹھہر گیا، لہٰذا ضرورت ایجاد کی ماں ہے؟ جب ملک میں نام نہاد بلند پایہ لوگ ہر برے کام کو سفید ہاتھوں سے کرنے کی مہارت رکھتے ہوں، رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی، ہر طریقہ سے ملک سے روپیہ باہر لے جانے کے فنون کے ماہر دبئی کو مالا مال کر رہے ہیں، میرے وطن کی مٹی بھی اپنی نااہلی سے باہر جا رہی ہے، ایک طرف تو قوم پرست محب وطن ملک سے باہر جا کر بھی زر مبادلہ باہر سے بھیج رہے ہیں تا کہ ملک معاشی طور پر چل سکے زرمبادلہ ملک کے کام آ سکے تو دوسری جانب حکمرانوں کی پروردہ (مجاز لکھنوی سے معذرت سے)
وہ ارض وطن کی اک ماہ پارہ
وہ دیر و حرم کے لیے اک شرارہ
جس کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اس کے خلاف باقاعدہ چالان بھی ابھی تک نہ کٹ سکا اور نہ اصل تصویر لوگوں کے سامنے آ سکی کہ کون ہے جو ملک کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ میرے سرسبز وطن 4 فصلوں والے ملک کو یہ غیر ملکی دیمک جڑوں کو کھا رہی ہیں، مگر یہ ملک بدستور جو رواں دواں ہے یہاں محب وطن ایماندار لوگوں کی کثرت ہے۔
مگر افسوس اس بات کا ہے کہ شعیب شیخ کو اور چھ افراد کل ملا کر ان کا ریمانڈ لیا جائے گا مگر اس گروہ کا اصل خالق کون ہے اس کا علم کسی کو بھی نہیں، ایسا کیوں ہے؟ ایگزیکٹ پر کریک ڈاؤن تو اس لیے ہو گیا کہ اس نے امریکا کے جان کیری کے دستخط اور مہریں بھی استعمال کیں، گو امریکا ایک سامراجی ملک ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا دنیا میں رکھوالا ہے، مگر کرپٹ ملک نہیں ہے، البتہ جمہوریت کے دہرے معیار ہیں۔ مصر کے معزول صدر محمد مرسی کی جمہوریت پر البرادعی کے ذریعے شب خون مارا گیا مگر اس پر پابندی عائد نہ کی گئی، مگر کرپٹ، نام نہاد جمہوری ملکوں کے رہنما ان کے مفاد میں جاتے ہیں، گو ان ممالک کے حکمراں دوسرے ملکوں میں راست گوئی کے نظام سے چشم پوشی کرتے ہیں مگر اپنے ملک میں معیار اور میرٹ کی پذیرائی میں پیش پیش ہیں۔
اللہ بھلا کرے ڈاکٹر عطا الرحمن کا جنھوں نے فرمایا کہ پاکستان کے جمہوری حکمرانوں میں 200 افراد ایسے ہیں جو جعلی ڈگری والے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ملک میں میرٹ کیا معنی۔ درحقیقت یہ عمل ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ عوام پانی، بجلی، گیس، رہائشی زمین کو ترسیں اور ہر شعبے کو مافیا کے حوالے کر دیا گیا۔ نہ عوام کو زمین دی جاتی ہے اور نہ رہائشی اسکیم کی کوئی پالیسی ہے۔ بلڈر مافیا کے ذریعے عوام کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ فلیٹوں میں رہائش پذیر ہوں، دور نہ جائیں لالوکھیت جاتے ہوئے لیاری ندی پر جو لیاری ایکسپریس بنایا گیا ندی کی مٹی نہ ہٹائی گئی اور اس مٹی کے ڈھیر پر ڈھیروں جھگی نشین وسط کراچی میں آباد ہو گئے ہیں، اگر 1974ء کی طرح کی بارش ہوئی تو جس قدر لوگ بہہ گئے۔
ریکسرلائن، پرانا گولیمار، اور ڈرگ کالونی کی ندی میں، وہ منظر 2015ء میں اگست ستمبر کے ماہ میں نظر آ سکتا ہے، مگر کسی کے ضمیر پر گراں کیوں نہ گزرا کیونکہ عوامی بیداری کرپٹ ڈیموکریسی پر یہ آواز نہیں سنائی دیتی۔ شعیب شیخ اور دیگر لوگ قانون کی گرفت میں پہلے کیوں نہ آئے، اس لیے کہ ان کی نقاب کشائی امریکا میں ہوئی اور کراچی میں لوگوں کو علم نہ تھا یا علم کے باوجود کون ہاتھ ڈالتا، کیونکہ پردہ نشین آج بھی پردہ نشین ہیں۔ سائبر کرائم پر کوئی قانون اسمبلی بنا نہ سکی تو بھلا سزا کی نوعیت کیا ہو گی۔
بقول فیض، اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو اور حکومت سے یہ مطالبہ کرو کہ نظام میں تنخواہوں کا ہزار فیصد فرق ختم کیا جائے۔ جاگیرداری نظام پر ایک بڑی ضرب لگانی ہو گی، کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا، ورنہ بے روزگار، ذہن کرپشن اور جرائم کا تر نوالہ بنتے رہیں گے۔ جماعت اسلامی نے اس مسئلے کو سمجھ کر اپنی سیاسی پالیسی میں تبدیلی پیدا کی ہے، کیونکہ رنگ علامت ہوتے ہیں نہ سرخ کی سبز سے کوئی لڑائی ہے اور نہ سبز کی سرخ سے۔ جماعت اسلامی کے موجودہ سربراہ نے جو حکمت عملی تیار کی ہے وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔ یکم مئی کو سرخ پگڑی باندھ کر قلیوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈی کلاس بن کے دکھایا ہے، یہی سبق اسلامی بھی ہے اور سوشلزم کا درس بھی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت کی بات ہے کہ آپ کھجور کے باغ میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ایک سائل وہاں سے گزر رہا تھا، اس نے کھانے کی فریاد کی آپ نے کہا نوش کرو، جب اس نے دیکھا کہ آپ جَو کی روٹی، پانی میں ڈال کر چند کھجور کے دانوں سے کھانا کھا رہے ہیں تو وہ کھانے پر تیار نہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آگے فلاں گھر جاؤ فریاد کرو وہ وہاں گیا مگر کھاتے وقت وہ کھانا چپکے چپکے جمع کر رہا تھا تو جب اس سے پوچھا گیا کہ تم یہ جمع کس کے لیے کر رہے ہو تو اس نے بتایا کہ اس شکل و صورت کا ایک آدمی ہے کہ فلاں باغ میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے تو پھر اس سائل کو بتایا گیا وہ تو خلیفہ وقت ہے، بادشاہ ملک جو حقیر ترین انداز میں بیٹھا ہے۔
اسی عمل کو سوشلسٹوں نے ڈی کلاس سے تعبیر کیا ہے، مسلم لیگ کے رہنما حسرت موہانی اپنی بود و باش میں اسی انداز میں رہا کرتے تھے، سیدالاحرار ان کا خطاب تھا، قائداعظم کی زندگی میں کسی میں جرأت نہ تھی کہ قائداعظم سے سوال و جواب کرے، ماسوائے سیدالاحرار کے، کیونکہ وہ ضمیر کی آواز کے قیدی اور ایک عظیم رہنما تھے، مگر آج کیا صورت ہے۔
گزشتہ کئی بار تنخواہوں کے مسئلے پر قلم اٹھا، مگر اہل اقتدار کی سمجھ میں یہ نہ آیا کہ تنخواہوں کے مابین اتنا فرق کیوں؟ یقیناً تنخواہوں میں فرق دنیا بھر میں ہوتا ہے، پر اس ملک میں اندھیر ہے۔ دیدہ و دانستہ ایک پریشان حال طبقہ پیدا کیا جا رہا ہے جس کا براہ راست اثر مردوں پر نہیں بلکہ عورتوں پر پڑتا ہے اور حالیہ دنوں میں ایک نامی گرامی تنخواہوں والے چینل نے دھماکا کر دیا، 80 لاکھ ایک کروڑ ماہانہ تنخواہ، ابھی کام شروع بھی نہ ہوا اور کام کے لوازمات کے ابتدائیہ کا یہ عالم کہ کئی کروڑ نہیں تقریباً ایک ارب کی رقم نگینہ لوگوں کی تلاش میں خرچ ہو چکی۔
یہ عالم ہے اس ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کا جو کامرانی کے فرائض پر سے بھی مزید بااختیار تھے۔ مگر بول میں سب بھولے تھے، یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ اگر 1000 کی چیز اگر کوئی 50 ہزار میں خرید رہا ہے تو کیوں؟ یہ تمام باتیں صاحبان اختیار کو معلوم تھیں مگر خاموشی ہر لب پہ طاری تھی۔ جب کہ حکومتی سطح پر کلرک یا اسی قسم کے مساوی لوگ جن کی تنخواہ دس گیارہ ہزار کے قریب ہے ان کی کسمپرسی کا کیا عالم ہو گا۔
کئی بار لکھ چکا ہوں تنخواہ کا تجزیہ، اگر وہ لڑکا نوجوان ہے ایک معمولی کمپیوٹر آپریٹر یا کلرک کا احوال سنیے، میاں بیوی اور 6 ماہ سے اور سال بھر کا بچہ، دودھ کم از کم زندہ رہنے کے لیے آدھا کلو، دلیہ اور سیرل وغیرہ، ڈائپر کپڑا لتہ، کبھی کبھی ادویات، مختلف ویکسین کم ازکم تقریباً کم ازکم 5 ہزار روپیہ ماہوار، بجلی ایک کمرے کی، ٹی وی، باورچی خانے، فریج، ناشتہ دو افراد 100 روپیہ روز گویا مزید پانچ ہزار کپڑے لتے، آفس جانے کا خرچ کیسے؟ اگر بائیک 40/50 روپے کا پٹرول یا بس کا کرایہ، دوپہر اور رات کا کھانا کہاں سے، اگر بوڑھے ماں باپ ہوئے تو کیا ہو گا، اگر رات کی نوکری تو مشکل ہے۔
اگر بیوی بھی پڑھی لکھی ہے تو بچہ کی دیکھ بھال کون کرے۔ گویا مجموعی طور پر معاشرہ ٹھہر گیا، لہٰذا ضرورت ایجاد کی ماں ہے؟ جب ملک میں نام نہاد بلند پایہ لوگ ہر برے کام کو سفید ہاتھوں سے کرنے کی مہارت رکھتے ہوں، رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی، ہر طریقہ سے ملک سے روپیہ باہر لے جانے کے فنون کے ماہر دبئی کو مالا مال کر رہے ہیں، میرے وطن کی مٹی بھی اپنی نااہلی سے باہر جا رہی ہے، ایک طرف تو قوم پرست محب وطن ملک سے باہر جا کر بھی زر مبادلہ باہر سے بھیج رہے ہیں تا کہ ملک معاشی طور پر چل سکے زرمبادلہ ملک کے کام آ سکے تو دوسری جانب حکمرانوں کی پروردہ (مجاز لکھنوی سے معذرت سے)
وہ ارض وطن کی اک ماہ پارہ
وہ دیر و حرم کے لیے اک شرارہ
جس کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اس کے خلاف باقاعدہ چالان بھی ابھی تک نہ کٹ سکا اور نہ اصل تصویر لوگوں کے سامنے آ سکی کہ کون ہے جو ملک کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ میرے سرسبز وطن 4 فصلوں والے ملک کو یہ غیر ملکی دیمک جڑوں کو کھا رہی ہیں، مگر یہ ملک بدستور جو رواں دواں ہے یہاں محب وطن ایماندار لوگوں کی کثرت ہے۔
مگر افسوس اس بات کا ہے کہ شعیب شیخ کو اور چھ افراد کل ملا کر ان کا ریمانڈ لیا جائے گا مگر اس گروہ کا اصل خالق کون ہے اس کا علم کسی کو بھی نہیں، ایسا کیوں ہے؟ ایگزیکٹ پر کریک ڈاؤن تو اس لیے ہو گیا کہ اس نے امریکا کے جان کیری کے دستخط اور مہریں بھی استعمال کیں، گو امریکا ایک سامراجی ملک ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا دنیا میں رکھوالا ہے، مگر کرپٹ ملک نہیں ہے، البتہ جمہوریت کے دہرے معیار ہیں۔ مصر کے معزول صدر محمد مرسی کی جمہوریت پر البرادعی کے ذریعے شب خون مارا گیا مگر اس پر پابندی عائد نہ کی گئی، مگر کرپٹ، نام نہاد جمہوری ملکوں کے رہنما ان کے مفاد میں جاتے ہیں، گو ان ممالک کے حکمراں دوسرے ملکوں میں راست گوئی کے نظام سے چشم پوشی کرتے ہیں مگر اپنے ملک میں معیار اور میرٹ کی پذیرائی میں پیش پیش ہیں۔
اللہ بھلا کرے ڈاکٹر عطا الرحمن کا جنھوں نے فرمایا کہ پاکستان کے جمہوری حکمرانوں میں 200 افراد ایسے ہیں جو جعلی ڈگری والے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ملک میں میرٹ کیا معنی۔ درحقیقت یہ عمل ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ عوام پانی، بجلی، گیس، رہائشی زمین کو ترسیں اور ہر شعبے کو مافیا کے حوالے کر دیا گیا۔ نہ عوام کو زمین دی جاتی ہے اور نہ رہائشی اسکیم کی کوئی پالیسی ہے۔ بلڈر مافیا کے ذریعے عوام کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ فلیٹوں میں رہائش پذیر ہوں، دور نہ جائیں لالوکھیت جاتے ہوئے لیاری ندی پر جو لیاری ایکسپریس بنایا گیا ندی کی مٹی نہ ہٹائی گئی اور اس مٹی کے ڈھیر پر ڈھیروں جھگی نشین وسط کراچی میں آباد ہو گئے ہیں، اگر 1974ء کی طرح کی بارش ہوئی تو جس قدر لوگ بہہ گئے۔
ریکسرلائن، پرانا گولیمار، اور ڈرگ کالونی کی ندی میں، وہ منظر 2015ء میں اگست ستمبر کے ماہ میں نظر آ سکتا ہے، مگر کسی کے ضمیر پر گراں کیوں نہ گزرا کیونکہ عوامی بیداری کرپٹ ڈیموکریسی پر یہ آواز نہیں سنائی دیتی۔ شعیب شیخ اور دیگر لوگ قانون کی گرفت میں پہلے کیوں نہ آئے، اس لیے کہ ان کی نقاب کشائی امریکا میں ہوئی اور کراچی میں لوگوں کو علم نہ تھا یا علم کے باوجود کون ہاتھ ڈالتا، کیونکہ پردہ نشین آج بھی پردہ نشین ہیں۔ سائبر کرائم پر کوئی قانون اسمبلی بنا نہ سکی تو بھلا سزا کی نوعیت کیا ہو گی۔
بقول فیض، اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو اور حکومت سے یہ مطالبہ کرو کہ نظام میں تنخواہوں کا ہزار فیصد فرق ختم کیا جائے۔ جاگیرداری نظام پر ایک بڑی ضرب لگانی ہو گی، کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا، ورنہ بے روزگار، ذہن کرپشن اور جرائم کا تر نوالہ بنتے رہیں گے۔ جماعت اسلامی نے اس مسئلے کو سمجھ کر اپنی سیاسی پالیسی میں تبدیلی پیدا کی ہے، کیونکہ رنگ علامت ہوتے ہیں نہ سرخ کی سبز سے کوئی لڑائی ہے اور نہ سبز کی سرخ سے۔ جماعت اسلامی کے موجودہ سربراہ نے جو حکمت عملی تیار کی ہے وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔ یکم مئی کو سرخ پگڑی باندھ کر قلیوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈی کلاس بن کے دکھایا ہے، یہی سبق اسلامی بھی ہے اور سوشلزم کا درس بھی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت کی بات ہے کہ آپ کھجور کے باغ میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ایک سائل وہاں سے گزر رہا تھا، اس نے کھانے کی فریاد کی آپ نے کہا نوش کرو، جب اس نے دیکھا کہ آپ جَو کی روٹی، پانی میں ڈال کر چند کھجور کے دانوں سے کھانا کھا رہے ہیں تو وہ کھانے پر تیار نہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آگے فلاں گھر جاؤ فریاد کرو وہ وہاں گیا مگر کھاتے وقت وہ کھانا چپکے چپکے جمع کر رہا تھا تو جب اس سے پوچھا گیا کہ تم یہ جمع کس کے لیے کر رہے ہو تو اس نے بتایا کہ اس شکل و صورت کا ایک آدمی ہے کہ فلاں باغ میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے تو پھر اس سائل کو بتایا گیا وہ تو خلیفہ وقت ہے، بادشاہ ملک جو حقیر ترین انداز میں بیٹھا ہے۔
اسی عمل کو سوشلسٹوں نے ڈی کلاس سے تعبیر کیا ہے، مسلم لیگ کے رہنما حسرت موہانی اپنی بود و باش میں اسی انداز میں رہا کرتے تھے، سیدالاحرار ان کا خطاب تھا، قائداعظم کی زندگی میں کسی میں جرأت نہ تھی کہ قائداعظم سے سوال و جواب کرے، ماسوائے سیدالاحرار کے، کیونکہ وہ ضمیر کی آواز کے قیدی اور ایک عظیم رہنما تھے، مگر آج کیا صورت ہے۔