چھوٹے ہمسائے اور پاگل ہاتھی
کیونکہ چینی صدر کے گزشتہ دورۂ بھارت کے دوران جو 20 بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے
نریندر مودی نے اپنا حالیہ دورۂ چین جو بظاہر چین کے ساتھ تجارت اور باہمی تعلقات کو ہمالیہ جیسی بلندی پر لے جانے کے بلند و بانگ بیانات کے ساتھ شروع کیا تھا۔ حقیقتاً وہ صرف اور صرف چینی رہنماؤں کو شیشے میں اتارکر بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن کا درجہ دلانے کے لیے ان کی حمایت حاصل کرنے کی ایک مہم جوئی کے سوا کچھ نہ تھا ،چونکہ وہ اس سے پہلے امریکا سمیت کئی مغربی ممالک کا دورہ کرچکے تھے۔
جہاں ان کے اصرار پر بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کا اشارہ مل چکا تھا چنانچہ اب انھیں صرف چین کی حمایت درکار تھی جس کا حصول ٹیڑھی کھیر سے کم تو نہ تھا تاہم وہ پھر بھی ہمت کرکے اس آخری مہم کو سر کرنے کے لیے چین یاترا پر نکل پڑے تھے۔
وہ اس اہم مہم جوئی پر بڑی شان و شوکت اور بہت تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے تھے مگر یہ ان کی بدقسمتی کہیں یا کہ بھارت ماتا کی کہ ان کا یہ منتوں و مرادوں سے بھرپور دورہ قطعی ناکام و نامراد ثابت ہوا۔ نریندر مودی کا خیال تھا کہ وہ اپنے ملک کی بڑی منڈی کا لالچ اور باہمی تجارت کو بلندیوں پر لے جانے کا لولی پوپ دے کر نہایت عاجزی کے ساتھ خود کو چین کا چھوٹا بھائی جتلا کر اپنی چکنی چپڑی باتوں سے چینی رہنماؤں کے دلوں کو نہ صرف موم بلکہ مسخر کرلیں گے اور پھر اس شادمانی کے ماحول میں ان سے وہ تاریخی کام کرالیں گے۔
جس کے لیے ان کا ملک برسوں سے تڑپ رہا ہے لیکن چینی رہنما تو نریندر مودی سے کہیں زیادہ زیرک، دور اندیش اور دشمن کی چالوں کو بھانپنے والے نکلے کیونکہ انھوں نے یقینا نریندر مودی کی چالبازی کو تاڑ لیا ہوگا کہ وہ ان سے وہ کام کرانا چاہتے ہیں جس کا خمیازہ انھیں زندگی بھر بھگتنا پڑ سکتا تھا، کیونکہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے بعد بھارت ایک پاگل ہاتھی بن کر اپنے تمام ہی چھوٹے ہمسایوں کو روند ڈالے گا اور پھر خود چین کو بھی خاطر میں نہیں لائے گا چنانچہ نریندر مودی کو چین سے ناکام و نامراد ہی واپس لوٹنا پڑا۔ البتہ 22 ارب ڈالر کے تجارتی اور ترقیاتی معاہدوں پر وہاں ضرور دستخط ہوئے مگر یہ مودی کے لیے بے مقصد ہی رہے ہوں گے۔
کیونکہ چینی صدر کے گزشتہ دورۂ بھارت کے دوران جو 20 بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے وہ اب تک جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں اور ان میں بھارت نے کوئی پیش رفت نہیں دکھائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی رہنما بھارتی لیڈروں کے مکر وفریب اور ہوس ملک گیری کے مذموم جذبے سے آج سے نہیں بلکہ پچاس کی دہائی سے واقفیت رکھتے ہیں۔ بھارتی لیڈروں کی مکاریوں کی جھلک اس وقت پہلی بار چینیوں کے سامنے آئی جب بھارت تبت کو چین سے چھین کر خود ہڑپ کرنے کے لیے پر تولنے لگا ہے۔
یہ 1959 کا زمانہ تھا اس وقت تک بھارتی حکمراں جونا گڑھ ،موناباؤ،کشمیر اور چینی علاقے جسے اب انھوں نے اروناچل پردیش کا نام دے دیا ہے ہڑپ کرچکے تھے مگر چینی رہنماؤں نے کمال ہوشیاری سے تبت کو بھارت کے جبڑوں میں سے نکال لیا تھا، البتہ اروناچل پردیش اور لداخ کے علاقے اب تک بھارتی شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں جن کی بازیابی کے لیے چین نے مذاکرات کا راستہ اختیار کر رکھا ہے مگر بھارتی حکومت نے بڑی ڈھٹائی سے کشمیر کی طرح انھیں بھی اپنا اٹوٹ انگ ہونے کی رٹ لگا رکھی ہے۔
مغربی ممالک نے بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کا جو خواب دکھایا ہے وہ سراسر ان کی مفاد پرستی اور دوغلے پن کا بین ثبوت ہے۔ وہ بھارت کی بڑی منڈی پر مرمٹے ہیں اور اس سے اپنی مصنوعات کی کھپت چاہتے ہیں مگر افسوس کہ وہ اس طرح سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے سلسلے میں منظورکی گئیں قراردادوں سے پہلو تہی کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں ان کی اس دو رنگی پالیسی نے دنیا کو جہنم بنادیا ہے۔ وہ مسلمانوں کو دہشت گردی کا طعنہ ضرور دیتے ہیں مگر مسلمانوں کو دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے والے وہ خود ہی ہیں۔
کاش کہ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقے آزاد ہوچکے ہوتے تو وہاں کے مسلمانوں کو قابض حکومتوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی مگر لگتا ہے کہ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہی وہاں کے لوگوں کو مجبوراً ہتھیار اٹھانے پڑے ہیں مگر مقبوضہ ممالک کے خلاف جدوجہد کرنے کی تو خود اقوام متحدہ کے چارٹر نے اجازت دے رکھی ہے۔
بھارت جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کا منحرف ہے اب اگر کسی طرح اسے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنالیا جاتا ہے تو پھر نہ صرف اقوام متحدہ ایک تماشا بن کر رہ جائے گا بلکہ دنیا میں پھر پتھر کے دور کا قانون رائج ہوجائے گا یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے وہ ایک اصول پرست ملک ہے اس نے کشمیر پر بھارتی قبضے کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا ہے وہ کشمیریوں کے حق خوداختیاری کا زبردست حامی ہے وہ کشمیریوں کے حقوق کے سلسلے میں کتنا مخلص ہے اس کا ثبوت وہ گزشتہ دنوں پیش کرچکا ہے۔ وہ کشمیریوں کو اپنا ویزہ بھارتی پاسپورٹ پر دینے کے بجائے ایک علیحدہ کاغذ پر دیتا رہا ہے بھارتی حکومت چینی سرکار کے اس اقدام سے سخت ناراض تھی مگر چین نے بھارتی اعتراض کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ چینی حکومت نے تو عالمی نقشوں میں بھی کشمیر کو کبھی بھارت کا حصہ نہیں دکھایا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے لیے سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے چین کی حمایت حاصل کرنا ہمیشہ ہی ایک ٹیڑھی کھیر والا معاملہ رہے گا کیونکہ چین ایک اصول پسند اور محکوم اقوام سے حقیقی ہمدردی رکھنے والا ملک ہے۔
چین کے دورے کے دوران اگرچہ وہاں کی حکومت کی جانب سے بھارتی وفد کی پذیرائی میں کوئی کسر نہیں آنے دی گئی مگر وہاں کے میڈیا کا اپنے خلاف رویہ دیکھ کر نریندر مودی دنگ رہ گئے۔ وہاں کے نجی ٹی وی چینلوں کے علاوہ سرکاری ٹی وی پر بھی بھارت کا جو نقشہ دکھایا گیا اس میں کشمیر اور اروناچل پردیش کے علاقے غائب تھے۔
وہاں کے اخباروں نے دل کھول کر بھارت کے خلاف مضامین چھاپے پھر چینی عوام بھی بھارتی حکمرانوں کی مکاریوں سے خوب واقف ہوچکے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ٹیوٹر پر مودی کے خلاف ہی نہیں بلکہ بھارت کے خلاف خوب ٹویٹ کیے اور بھارت کو ایک مفاد پرست جارح اور قابض ملک قرار دیا۔ بھارتی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ آخر چینی عوام میں ان کے خلاف کیوں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمراں اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کریں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہنا سیکھیں۔
جہاں ان کے اصرار پر بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کا اشارہ مل چکا تھا چنانچہ اب انھیں صرف چین کی حمایت درکار تھی جس کا حصول ٹیڑھی کھیر سے کم تو نہ تھا تاہم وہ پھر بھی ہمت کرکے اس آخری مہم کو سر کرنے کے لیے چین یاترا پر نکل پڑے تھے۔
وہ اس اہم مہم جوئی پر بڑی شان و شوکت اور بہت تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے تھے مگر یہ ان کی بدقسمتی کہیں یا کہ بھارت ماتا کی کہ ان کا یہ منتوں و مرادوں سے بھرپور دورہ قطعی ناکام و نامراد ثابت ہوا۔ نریندر مودی کا خیال تھا کہ وہ اپنے ملک کی بڑی منڈی کا لالچ اور باہمی تجارت کو بلندیوں پر لے جانے کا لولی پوپ دے کر نہایت عاجزی کے ساتھ خود کو چین کا چھوٹا بھائی جتلا کر اپنی چکنی چپڑی باتوں سے چینی رہنماؤں کے دلوں کو نہ صرف موم بلکہ مسخر کرلیں گے اور پھر اس شادمانی کے ماحول میں ان سے وہ تاریخی کام کرالیں گے۔
جس کے لیے ان کا ملک برسوں سے تڑپ رہا ہے لیکن چینی رہنما تو نریندر مودی سے کہیں زیادہ زیرک، دور اندیش اور دشمن کی چالوں کو بھانپنے والے نکلے کیونکہ انھوں نے یقینا نریندر مودی کی چالبازی کو تاڑ لیا ہوگا کہ وہ ان سے وہ کام کرانا چاہتے ہیں جس کا خمیازہ انھیں زندگی بھر بھگتنا پڑ سکتا تھا، کیونکہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے بعد بھارت ایک پاگل ہاتھی بن کر اپنے تمام ہی چھوٹے ہمسایوں کو روند ڈالے گا اور پھر خود چین کو بھی خاطر میں نہیں لائے گا چنانچہ نریندر مودی کو چین سے ناکام و نامراد ہی واپس لوٹنا پڑا۔ البتہ 22 ارب ڈالر کے تجارتی اور ترقیاتی معاہدوں پر وہاں ضرور دستخط ہوئے مگر یہ مودی کے لیے بے مقصد ہی رہے ہوں گے۔
کیونکہ چینی صدر کے گزشتہ دورۂ بھارت کے دوران جو 20 بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے وہ اب تک جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں اور ان میں بھارت نے کوئی پیش رفت نہیں دکھائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی رہنما بھارتی لیڈروں کے مکر وفریب اور ہوس ملک گیری کے مذموم جذبے سے آج سے نہیں بلکہ پچاس کی دہائی سے واقفیت رکھتے ہیں۔ بھارتی لیڈروں کی مکاریوں کی جھلک اس وقت پہلی بار چینیوں کے سامنے آئی جب بھارت تبت کو چین سے چھین کر خود ہڑپ کرنے کے لیے پر تولنے لگا ہے۔
یہ 1959 کا زمانہ تھا اس وقت تک بھارتی حکمراں جونا گڑھ ،موناباؤ،کشمیر اور چینی علاقے جسے اب انھوں نے اروناچل پردیش کا نام دے دیا ہے ہڑپ کرچکے تھے مگر چینی رہنماؤں نے کمال ہوشیاری سے تبت کو بھارت کے جبڑوں میں سے نکال لیا تھا، البتہ اروناچل پردیش اور لداخ کے علاقے اب تک بھارتی شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں جن کی بازیابی کے لیے چین نے مذاکرات کا راستہ اختیار کر رکھا ہے مگر بھارتی حکومت نے بڑی ڈھٹائی سے کشمیر کی طرح انھیں بھی اپنا اٹوٹ انگ ہونے کی رٹ لگا رکھی ہے۔
مغربی ممالک نے بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کا جو خواب دکھایا ہے وہ سراسر ان کی مفاد پرستی اور دوغلے پن کا بین ثبوت ہے۔ وہ بھارت کی بڑی منڈی پر مرمٹے ہیں اور اس سے اپنی مصنوعات کی کھپت چاہتے ہیں مگر افسوس کہ وہ اس طرح سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے سلسلے میں منظورکی گئیں قراردادوں سے پہلو تہی کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں ان کی اس دو رنگی پالیسی نے دنیا کو جہنم بنادیا ہے۔ وہ مسلمانوں کو دہشت گردی کا طعنہ ضرور دیتے ہیں مگر مسلمانوں کو دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے والے وہ خود ہی ہیں۔
کاش کہ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقے آزاد ہوچکے ہوتے تو وہاں کے مسلمانوں کو قابض حکومتوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی مگر لگتا ہے کہ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہی وہاں کے لوگوں کو مجبوراً ہتھیار اٹھانے پڑے ہیں مگر مقبوضہ ممالک کے خلاف جدوجہد کرنے کی تو خود اقوام متحدہ کے چارٹر نے اجازت دے رکھی ہے۔
بھارت جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کا منحرف ہے اب اگر کسی طرح اسے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنالیا جاتا ہے تو پھر نہ صرف اقوام متحدہ ایک تماشا بن کر رہ جائے گا بلکہ دنیا میں پھر پتھر کے دور کا قانون رائج ہوجائے گا یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے وہ ایک اصول پرست ملک ہے اس نے کشمیر پر بھارتی قبضے کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا ہے وہ کشمیریوں کے حق خوداختیاری کا زبردست حامی ہے وہ کشمیریوں کے حقوق کے سلسلے میں کتنا مخلص ہے اس کا ثبوت وہ گزشتہ دنوں پیش کرچکا ہے۔ وہ کشمیریوں کو اپنا ویزہ بھارتی پاسپورٹ پر دینے کے بجائے ایک علیحدہ کاغذ پر دیتا رہا ہے بھارتی حکومت چینی سرکار کے اس اقدام سے سخت ناراض تھی مگر چین نے بھارتی اعتراض کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ چینی حکومت نے تو عالمی نقشوں میں بھی کشمیر کو کبھی بھارت کا حصہ نہیں دکھایا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے لیے سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے چین کی حمایت حاصل کرنا ہمیشہ ہی ایک ٹیڑھی کھیر والا معاملہ رہے گا کیونکہ چین ایک اصول پسند اور محکوم اقوام سے حقیقی ہمدردی رکھنے والا ملک ہے۔
چین کے دورے کے دوران اگرچہ وہاں کی حکومت کی جانب سے بھارتی وفد کی پذیرائی میں کوئی کسر نہیں آنے دی گئی مگر وہاں کے میڈیا کا اپنے خلاف رویہ دیکھ کر نریندر مودی دنگ رہ گئے۔ وہاں کے نجی ٹی وی چینلوں کے علاوہ سرکاری ٹی وی پر بھی بھارت کا جو نقشہ دکھایا گیا اس میں کشمیر اور اروناچل پردیش کے علاقے غائب تھے۔
وہاں کے اخباروں نے دل کھول کر بھارت کے خلاف مضامین چھاپے پھر چینی عوام بھی بھارتی حکمرانوں کی مکاریوں سے خوب واقف ہوچکے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ٹیوٹر پر مودی کے خلاف ہی نہیں بلکہ بھارت کے خلاف خوب ٹویٹ کیے اور بھارت کو ایک مفاد پرست جارح اور قابض ملک قرار دیا۔ بھارتی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ آخر چینی عوام میں ان کے خلاف کیوں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمراں اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کریں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہنا سیکھیں۔