’’مردہ ڈالر‘‘ کا پیدا کردہ عالمی معاشی بحران پہلاحصہ
یورپین سرمائے سے امریکا کا صنعتی کلچر فروغ پاگیا۔
کتاب The course and phases of the world economics depression by secretariat of the league of nations Switzerland Geneva 1931کے صفحے 28 پر درج ہے۔ 1914 تک برطانیہ نے بیرونی ملکوں میں 18000.0 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔ فرانس کی 8700.0ملین ڈالر کی سرمایہ کاری تھی۔ جرمنی کی 5600.0 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری تھی۔
یورپین سرمائے سے امریکا کا صنعتی کلچر فروغ پاگیا۔ 1914 میں امریکا 5000.0ملین ڈالرکا مقروض تھا۔ امریکا کے بیرونی ملکوں میں اثاثے 2000.0 ملین ڈالر تھے۔ اس طرح امریکا 1014 تک 3000.0ملین ڈالر کا مقروض ملک تھا۔ پہلی عالمی جنگ 28 جون 1914 کے بعد تمام شکل تبدیل ہوگئی۔ اسی کتاب کے صفحے 29 پر لکھا ہے یورپی ممالک نے امریکن سیکیورٹیز امریکا کو واپس فروخت کردیں اور امریکا سے نئے قرضے لینے شروع کردیے۔ یاد رہے امریکا تمام معاہدوں سے الگ تھلگ رہا تھا۔ جب یورپی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی معاہدے کر رہے تھے۔
یعنی اس وقت تک نیوٹرل تھا جب تک امریکا جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا۔ جب یورپی ممالک 1879 سے 1907تک باہمی جنگی معاہدوں میں دو گروپوں(1) محوری سامراجی گروپ جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور ترکی۔ (2)اتحادی سامراجی گروپ برطانیہ، فرانس، روس اور جاپان میں تقسیم ہوئے اور پھر جب 28 جون 1914 کو پہلی جنگ شروع ہوئی تو امریکا 2 سال 9ماہ اور 8 روز بعد 6 اپریل 1917 کو جرمنی کے خلاف جنگ میں شریک ہوگیا تو امریکا کا نیوٹرل ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا۔ جو امریکا نے 1879 سے 5 اپریل 1917 تک اپنے نیوٹرل کا تاثر قائم کرکے یعنی 38 سالوں تک یورپی ملکوں کو دھوکے میں رکھا ہوا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے منفی اثرات تمام متحارب ملکوں کے ہر شعبے پر نمایاں ہوتے گئے۔
(1)جنگی اخراجات کے نتیجے میں ہر متحارب ملک میں غیر پیداواری اخراجات بڑھتے گئے۔ اس کے نتیجے میں ان ملکوں میں اشیاؤں کی قیمتیں بڑھتی گئیں۔ ان کی کرنسیوں کی قیمتیں ملکی اشیا کے مقابلے میں گرتی گئیں ۔ ان ملکوں میں شدید''کرنسی ایکسچینج بحران'' پیدا ہوگیا۔(2)اشیاء اورکرنسیوں میں عدم توازن کا فوری اثر سونے سے جڑی کرنسیوں کی قیمتیں بھی سونے کے مقابلے میں گرتی چلی گئیں۔ اس کے ردعمل میں تمام متحارب ممالک اوران کے زیر اثر نوآبادیوں میں کرنسیوں اور سونے کا باہمی توازن بھی ٹوٹ گیا۔(3) متحارب ملکوں میں سفارتی تجارتی تعلقات ٹوٹ گئے۔
تجارتی راستے جنگی رکاوٹوں سے بند ہوگئے۔(4)یورپی ملکوں نے امریکا کو نیوٹرل ملک سمجھ کر اپنا اپنا سونا امریکی بینکوں میں جنگ سے قبل ڈپازٹ کرنا شروع کردیا تھا۔ امریکا نے جنگ شروع ہونے کے بعد اپنے نیوٹرل ہونے کا یہ فائدہ اٹھایا امریکی اشیا مہنگی سے مہنگی فروخت کیں۔ چونکہ امریکا نیوٹرل ملک تھا۔ اس کے تجارتی جہاز آسانی سے سامان سپلائی کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ امریکا میں 1837 میں 20.67 ڈالر کا ایک اونس سونے کی قیمت مقرر کی گئی تھی۔ امریکا سونے کے اس معیار سے نہیں ہٹا تھا۔
جنگ کے نتیجے میں متحارب ممالک سونے کے معیار سے ہٹ گئے تھے۔ ان کی کرنسیوں کی قیمتیں سونے کی مقررہ ایک اونس کے مقابلے میں گرتی گئیں اور مزید امریکا نے دوران جنگ یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو تجارت کے دوران ڈالر کے مقابلے میں مقرر کرنا شروع کردیا تھا۔ یعنی امریکا غیر اعلانیہ دوران جنگ کرنسیوں کی قیمتوں کے لیے Manipulator کا درجہ اختیار کرچکا تھا۔ امریکا نے اس دوران یورپی ملکوں کو کرنسی ڈالر بھی فروخت کرنے شروع کردیے۔ امریکا کی گولڈ ٹریڈ (کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ دوم کے صفحے 434-35) 1912 میں سرپلس تھی۔ جنگ کے دباؤ کی وجہ سے 1913 اور 1914 میں خسارے میں گئی۔
اور جب امریکا جرمنی کے خلاف 6 اپریل 1917 کو جنگ میں شریک ہوگیا تو امریکا پر ان ملکوں کا اپنا ڈپازٹ کیے ہوئے سونے کے نکالنے کا دباؤ بڑھنے لگا، تو امریکا نے 7 ستمبر 1917 کو ایسے تمام ڈپازٹ کیے ہوئے سونے کے نکالنے پر پابندی لگا دی تھی۔ مجبوراً یورپی ملکوں نے اس ڈپازٹ سونے کے بدلے امریکی سرپلس اشیا مہنگی خریدنی شروع کردی تھیں۔ متذکرہ کتاب کے حصہ دوم کے صفحے 7 پر امریکی تجارتی اشیا کے سرپلس کے اعداد و شمار کیمطابق امریکا نے 1972 میں 581.145 ملین ڈالر سرپلس 1913 میں 691.422 ملین ڈالر سرپلس، 1914 میں 324.348 ملین ڈالر سرپلس اور 1915 میں جنگ کے تیز ہونے اور یورپی تعلقات کے آپس میں بری طرح ٹوٹ جانے کے نتیجے میں 1766.034 ملین ڈالر اسی طرح 1916 اسی طرح 3091.006 ملین ڈالر اور 1917 میں سونے کے نکالنے پر پابندی کے بعد 3281.045 ملین ڈالر سرپلس 1918 میں سرپلس 3117.375 ملین ڈالر 1919میں 4016.061 ملین ڈالر سرپلس حاصل کیے۔
اس طرح زمانہ امن مئی 1925 تک امریکا نے 1912 سے 1925 تک امریکا نے سرپلس تجارت میں 24166.914 ملین ڈالر حاصل کیے۔ اس میں شک نہیں کہ یورپی ملکوں کا ڈپازٹ کیے ہوئے سونے کی قیمت بھی یہی تھی۔ دوسری طرف اتحادی ملکوں سے سونے کی تجارت میں (کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ دوم کے صفحے 5 کے مطابق) امریکا نے 1912 سے جنوری 1925 تک سونے (مانیٹری گولڈ) تجارت میں 2507.407 ملین ڈالر کا سونا حاصل کیا تھا۔ امریکا کے پاس 1913 میں گولڈ ریزرو 1290.0 ملین ڈالر تھا اور 1912 سے جنوری 1925 تک امریکا میں کانوں سے 750.0ملین ڈالر کا سونا پیدا ہوا تھا۔ اس طرح مانیٹری گولڈ 4547.407 امریکا کے پاس اپنا موجود تھا۔ اور اشیا کی تجارت سے امریکا نے 24166.914 ملین ڈالر شامل کرکے 28714.321 ملین ڈالر ہوتے ہیں۔
کتاب "A Revision of the Treaty "Being a sequel to the economic consequence of the pace" by John Maynard Keynes 1922 کے صفحے 219 پر درج ہے۔ امریکا نے جولائی 1921 کو 19 یورپی ملکوں کو 11084.767575ملین ڈالر کا قرضہ دیا اس قرضے میں 9435.225329 ملین ڈالر نقد کرنسی فارن ایکسچینج ریزرو کے لیے دیے تھے۔
امریکا مالیاتی طور پر اس حد تک پھیل چکا تھا کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ دوم کے صفحے 95 پر درج ہے امریکی حکومت نے باقاعدہ دوسرے ملکوں سے سونا لے کر ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے مقرر کرنا اور قرضے دے کر ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں رد و بدل کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کے لیے امریکا نے باقاعدہ 15 دسمبر 1923 کو Exchange Equalization Fund کا ادارہ قائم کرلیا تھا۔
متذکرہ کتاب کے صفحے 92 پر لکھا ہے The Allied Countries protected there exchange in the United States, before the United States entered the war they sent gold to New York and obtained dollar loans through American banking houses.
اسی کتاب کے صفحے 95 پر لکھا ہے کہ ڈنمارک کی حکومت نے جولائی 1923 کو امریکا کو 35 لاکھ ڈالر کا سونا دیا تھا تاکہ امریکا ڈنمارک کی کرنسی Krone کرونی کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں کم کرنے سے روک دے ۔ اسی صفحے پر درج ہے سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے 1923 اور 1924 کو امریکا سے 5 کروڑ ڈالر کا قرضہ اس لیے لیا کہ امریکا اس کی کرنسی فرانک Franc کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں کم ہونے سے روک دے۔ اسی کتاب کے صفحے 3 پر لکھا ہے۔ اٹلی نے امریکا سے 5 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا تاکہ امریکا کرنسی لیرا Lira کی قیمت ڈالر کے مقابلے کم ہونے سے روک دے۔
کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' حصہ اول کے صفحے 290-92 پر درج ہے برطانیہ نے 1916 سے 1919 تک امریکا کو 63 لاکھ 90 ہزار 9 سو 5 اونس سونا جس کی اس وقت مالیت 2 کروڑ80 لاکھ پونڈ تھی اور امریکی ڈالر میں 10 کروڑ 24 لاکھ 24 ہزار ڈالر کا سونا دیا تھا (مارچ 1919 کو برطانوی پونڈ 3.658 ڈالر کا ہوگیا تھا۔ سونے کی وصولی کے بعد دسمبر 1919 کے بعد برطانوی پونڈ 4.126 ڈالر کا ہوگیا تھا۔
بیلجیم نے 1920 سے 1923 تک امریکا سے 595.899 ملین ڈالر کا قرضہ لیا۔ تاکہ امریکا ڈالر کے مقابلے میں فرانک کی قیمت کم ہونے سے روک دے۔ اسی مقصد کے لیے چیکوسلواکیہ نے 1920-21 کے دوران 5 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا قرضہ اپنی کرنسی کراؤن کی قیمت میں کمی کو روکنے کے لیے امریکا سے لیا۔ ناروے نے 1915 سے 1924 کے دوران امریکا سے 81 کروڑ 13 لاکھ 56 ہزار ڈالر کا قرضہ اپنی کرنسی کرونا کی قیمت کو کم ہونے سے روکنے کے لیے لیا۔
(جاری ہے ۔)
یورپین سرمائے سے امریکا کا صنعتی کلچر فروغ پاگیا۔ 1914 میں امریکا 5000.0ملین ڈالرکا مقروض تھا۔ امریکا کے بیرونی ملکوں میں اثاثے 2000.0 ملین ڈالر تھے۔ اس طرح امریکا 1014 تک 3000.0ملین ڈالر کا مقروض ملک تھا۔ پہلی عالمی جنگ 28 جون 1914 کے بعد تمام شکل تبدیل ہوگئی۔ اسی کتاب کے صفحے 29 پر لکھا ہے یورپی ممالک نے امریکن سیکیورٹیز امریکا کو واپس فروخت کردیں اور امریکا سے نئے قرضے لینے شروع کردیے۔ یاد رہے امریکا تمام معاہدوں سے الگ تھلگ رہا تھا۔ جب یورپی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی معاہدے کر رہے تھے۔
یعنی اس وقت تک نیوٹرل تھا جب تک امریکا جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا۔ جب یورپی ممالک 1879 سے 1907تک باہمی جنگی معاہدوں میں دو گروپوں(1) محوری سامراجی گروپ جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور ترکی۔ (2)اتحادی سامراجی گروپ برطانیہ، فرانس، روس اور جاپان میں تقسیم ہوئے اور پھر جب 28 جون 1914 کو پہلی جنگ شروع ہوئی تو امریکا 2 سال 9ماہ اور 8 روز بعد 6 اپریل 1917 کو جرمنی کے خلاف جنگ میں شریک ہوگیا تو امریکا کا نیوٹرل ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا۔ جو امریکا نے 1879 سے 5 اپریل 1917 تک اپنے نیوٹرل کا تاثر قائم کرکے یعنی 38 سالوں تک یورپی ملکوں کو دھوکے میں رکھا ہوا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے منفی اثرات تمام متحارب ملکوں کے ہر شعبے پر نمایاں ہوتے گئے۔
(1)جنگی اخراجات کے نتیجے میں ہر متحارب ملک میں غیر پیداواری اخراجات بڑھتے گئے۔ اس کے نتیجے میں ان ملکوں میں اشیاؤں کی قیمتیں بڑھتی گئیں۔ ان کی کرنسیوں کی قیمتیں ملکی اشیا کے مقابلے میں گرتی گئیں ۔ ان ملکوں میں شدید''کرنسی ایکسچینج بحران'' پیدا ہوگیا۔(2)اشیاء اورکرنسیوں میں عدم توازن کا فوری اثر سونے سے جڑی کرنسیوں کی قیمتیں بھی سونے کے مقابلے میں گرتی چلی گئیں۔ اس کے ردعمل میں تمام متحارب ممالک اوران کے زیر اثر نوآبادیوں میں کرنسیوں اور سونے کا باہمی توازن بھی ٹوٹ گیا۔(3) متحارب ملکوں میں سفارتی تجارتی تعلقات ٹوٹ گئے۔
تجارتی راستے جنگی رکاوٹوں سے بند ہوگئے۔(4)یورپی ملکوں نے امریکا کو نیوٹرل ملک سمجھ کر اپنا اپنا سونا امریکی بینکوں میں جنگ سے قبل ڈپازٹ کرنا شروع کردیا تھا۔ امریکا نے جنگ شروع ہونے کے بعد اپنے نیوٹرل ہونے کا یہ فائدہ اٹھایا امریکی اشیا مہنگی سے مہنگی فروخت کیں۔ چونکہ امریکا نیوٹرل ملک تھا۔ اس کے تجارتی جہاز آسانی سے سامان سپلائی کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ امریکا میں 1837 میں 20.67 ڈالر کا ایک اونس سونے کی قیمت مقرر کی گئی تھی۔ امریکا سونے کے اس معیار سے نہیں ہٹا تھا۔
جنگ کے نتیجے میں متحارب ممالک سونے کے معیار سے ہٹ گئے تھے۔ ان کی کرنسیوں کی قیمتیں سونے کی مقررہ ایک اونس کے مقابلے میں گرتی گئیں اور مزید امریکا نے دوران جنگ یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو تجارت کے دوران ڈالر کے مقابلے میں مقرر کرنا شروع کردیا تھا۔ یعنی امریکا غیر اعلانیہ دوران جنگ کرنسیوں کی قیمتوں کے لیے Manipulator کا درجہ اختیار کرچکا تھا۔ امریکا نے اس دوران یورپی ملکوں کو کرنسی ڈالر بھی فروخت کرنے شروع کردیے۔ امریکا کی گولڈ ٹریڈ (کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ دوم کے صفحے 434-35) 1912 میں سرپلس تھی۔ جنگ کے دباؤ کی وجہ سے 1913 اور 1914 میں خسارے میں گئی۔
اور جب امریکا جرمنی کے خلاف 6 اپریل 1917 کو جنگ میں شریک ہوگیا تو امریکا پر ان ملکوں کا اپنا ڈپازٹ کیے ہوئے سونے کے نکالنے کا دباؤ بڑھنے لگا، تو امریکا نے 7 ستمبر 1917 کو ایسے تمام ڈپازٹ کیے ہوئے سونے کے نکالنے پر پابندی لگا دی تھی۔ مجبوراً یورپی ملکوں نے اس ڈپازٹ سونے کے بدلے امریکی سرپلس اشیا مہنگی خریدنی شروع کردی تھیں۔ متذکرہ کتاب کے حصہ دوم کے صفحے 7 پر امریکی تجارتی اشیا کے سرپلس کے اعداد و شمار کیمطابق امریکا نے 1972 میں 581.145 ملین ڈالر سرپلس 1913 میں 691.422 ملین ڈالر سرپلس، 1914 میں 324.348 ملین ڈالر سرپلس اور 1915 میں جنگ کے تیز ہونے اور یورپی تعلقات کے آپس میں بری طرح ٹوٹ جانے کے نتیجے میں 1766.034 ملین ڈالر اسی طرح 1916 اسی طرح 3091.006 ملین ڈالر اور 1917 میں سونے کے نکالنے پر پابندی کے بعد 3281.045 ملین ڈالر سرپلس 1918 میں سرپلس 3117.375 ملین ڈالر 1919میں 4016.061 ملین ڈالر سرپلس حاصل کیے۔
اس طرح زمانہ امن مئی 1925 تک امریکا نے 1912 سے 1925 تک امریکا نے سرپلس تجارت میں 24166.914 ملین ڈالر حاصل کیے۔ اس میں شک نہیں کہ یورپی ملکوں کا ڈپازٹ کیے ہوئے سونے کی قیمت بھی یہی تھی۔ دوسری طرف اتحادی ملکوں سے سونے کی تجارت میں (کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ دوم کے صفحے 5 کے مطابق) امریکا نے 1912 سے جنوری 1925 تک سونے (مانیٹری گولڈ) تجارت میں 2507.407 ملین ڈالر کا سونا حاصل کیا تھا۔ امریکا کے پاس 1913 میں گولڈ ریزرو 1290.0 ملین ڈالر تھا اور 1912 سے جنوری 1925 تک امریکا میں کانوں سے 750.0ملین ڈالر کا سونا پیدا ہوا تھا۔ اس طرح مانیٹری گولڈ 4547.407 امریکا کے پاس اپنا موجود تھا۔ اور اشیا کی تجارت سے امریکا نے 24166.914 ملین ڈالر شامل کرکے 28714.321 ملین ڈالر ہوتے ہیں۔
کتاب "A Revision of the Treaty "Being a sequel to the economic consequence of the pace" by John Maynard Keynes 1922 کے صفحے 219 پر درج ہے۔ امریکا نے جولائی 1921 کو 19 یورپی ملکوں کو 11084.767575ملین ڈالر کا قرضہ دیا اس قرضے میں 9435.225329 ملین ڈالر نقد کرنسی فارن ایکسچینج ریزرو کے لیے دیے تھے۔
امریکا مالیاتی طور پر اس حد تک پھیل چکا تھا کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ دوم کے صفحے 95 پر درج ہے امریکی حکومت نے باقاعدہ دوسرے ملکوں سے سونا لے کر ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے مقرر کرنا اور قرضے دے کر ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں رد و بدل کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کے لیے امریکا نے باقاعدہ 15 دسمبر 1923 کو Exchange Equalization Fund کا ادارہ قائم کرلیا تھا۔
متذکرہ کتاب کے صفحے 92 پر لکھا ہے The Allied Countries protected there exchange in the United States, before the United States entered the war they sent gold to New York and obtained dollar loans through American banking houses.
اسی کتاب کے صفحے 95 پر لکھا ہے کہ ڈنمارک کی حکومت نے جولائی 1923 کو امریکا کو 35 لاکھ ڈالر کا سونا دیا تھا تاکہ امریکا ڈنمارک کی کرنسی Krone کرونی کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں کم کرنے سے روک دے ۔ اسی صفحے پر درج ہے سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے 1923 اور 1924 کو امریکا سے 5 کروڑ ڈالر کا قرضہ اس لیے لیا کہ امریکا اس کی کرنسی فرانک Franc کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں کم ہونے سے روک دے۔ اسی کتاب کے صفحے 3 پر لکھا ہے۔ اٹلی نے امریکا سے 5 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا تاکہ امریکا کرنسی لیرا Lira کی قیمت ڈالر کے مقابلے کم ہونے سے روک دے۔
کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' حصہ اول کے صفحے 290-92 پر درج ہے برطانیہ نے 1916 سے 1919 تک امریکا کو 63 لاکھ 90 ہزار 9 سو 5 اونس سونا جس کی اس وقت مالیت 2 کروڑ80 لاکھ پونڈ تھی اور امریکی ڈالر میں 10 کروڑ 24 لاکھ 24 ہزار ڈالر کا سونا دیا تھا (مارچ 1919 کو برطانوی پونڈ 3.658 ڈالر کا ہوگیا تھا۔ سونے کی وصولی کے بعد دسمبر 1919 کے بعد برطانوی پونڈ 4.126 ڈالر کا ہوگیا تھا۔
بیلجیم نے 1920 سے 1923 تک امریکا سے 595.899 ملین ڈالر کا قرضہ لیا۔ تاکہ امریکا ڈالر کے مقابلے میں فرانک کی قیمت کم ہونے سے روک دے۔ اسی مقصد کے لیے چیکوسلواکیہ نے 1920-21 کے دوران 5 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا قرضہ اپنی کرنسی کراؤن کی قیمت میں کمی کو روکنے کے لیے امریکا سے لیا۔ ناروے نے 1915 سے 1924 کے دوران امریکا سے 81 کروڑ 13 لاکھ 56 ہزار ڈالر کا قرضہ اپنی کرنسی کرونا کی قیمت کو کم ہونے سے روکنے کے لیے لیا۔
(جاری ہے ۔)