خواب قابل تعزیرہیں

ترقی یافتہ ممالک سے واپسی پر انسان گہری سوچ میں گم ہوجاتاہے

raomanzarhayat@gmail.com

SARGODHA:
ترقی یافتہ ممالک سے واپسی پر انسان گہری سوچ میں گم ہوجاتاہے۔صاف محسوس ہوتاہے کہ ہم ہرآنے والے دن میں تنزلی کاشکارہیں۔تنزلی بھی ایسی کہ دنیاکی تمام مہذب اورترقی یافتہ قومیں ہم سے خوف زدہ ہیں لیکن ہمارے مقتدر طبقے نے قسم کھارکھی ہے کہ ہمیں ترقی کے سفرپرکسی صورت روانہ ہونے نہیں دینگے۔

یہ کالم ابوظہبی کے ائیرپورٹ پرلکھ رہاہوں۔ یہاں دیدہ زیب دکانیں،ریستوران،کیفے اورآرام کرنے کی سہولتیں موجودہیں۔یہاں کوئی کسی کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہیں دیکھ رہا۔کئی خواتین نے نقاب لیاہواہے اور اکثرمغربی لباس میں۔ ابوظہبی ایک اسلامی ملک ہے۔ جب ان لوگوں نے محسوس کرلیاکہ اگر وہ دنیاکے ساتھ قدم ملاکرنہ چلے،تو تاریخ کے جزدان میں گم ہوجائینگے توپھر ہمارا مسئلہ کیاہے؟ کیا ہمارے ملک کادین ان عربیوں سے مختلف ہے؟یہ ایک بہت مشکل سوال ہے۔مگراب آنے والے دنوں میں اس پرسیر حاصل بحث ضرورکرونگا۔

ماسکومیں میرااورہمارے سرکاری وفدکاہرسرکاری اور غیرسرکاری سطح پررابطہ رہا۔پہلی بات تویہ کہ روسی حکومت پاکستان کے قطعاًخلاف نہیں ہے مگرہمارے حکومتی حلقے اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں پس وپیش کا شکار ہیں۔ماضی کی گرہیں ہم بہت مشکل سے کھول سکتے ہیں۔ مگر صاحبان! ان رکاوٹوں کوعبورکیے بغیرہم ان رستوں پرروانہ ہوسکتے ہیں جنکی کوئی منزل نہیں۔ آپکے لیے شایدیقین کرنامشکل ہو لیکن روس میں اَن گنت نوجوان طالبعلم اورطالبات اردوسیکھنے میں مصروف ہیں۔وہاں اردوپڑھانے والے روسی اساتذہ موجود ہیں۔ٹھیٹھ پنجابی زبان بولنے والے بھی ہیں۔

خالص سکھوں کے لہجے میں!حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ کیسے کیا،بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ کیوں کیا۔ وہاں،ایک تعلیمی دسگاہ میں گیا۔زیرتعلیم بچوں اوربچیوں نے اردوکے متعلق انتہائی مدبرانہ سوال کیے۔ایک نوجوان لڑکی نے پورے وفد سے پوچھاکہ آپ پاکستان میں اردوکے کن کن ادیبوں کو پڑھتے ہیں۔سعادت حسن منٹوسے لے کر دورِ حاضر تک کے درجنوں نام گنوادیے۔اس لڑکی نے ان میں اکثرلکھاریوں کو پڑھا ہواتھا۔

ایک نوجوان طالبعلم نے نلترمیں پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹرکے حادثہ کے متعلق پوچھاکہ کیاوہ طالبان نے کیایاوہ واقعی ایک حادثہ تھا؟ میں نے میکینکل خرابی کے متعلق تفصیل سے بتایا۔ نوجوان چپ ضرور ہوگیا مگر وہاں یہ تاثرعام ہے کہ یہ ایک حادثہ نہیں بلکہ طالبان کی دہشت گردی ہے۔بہرحال اس تاثرکوزائل کرنے کی مکمل کوشش کی کیونکہ میں ذاتی طورپراس اَمرکاقائل ہوں کہ یہ محض ایک حادثہ تھا۔لیکن اسطرح کے حادثے صرف ہمارے ملک میں کیوں ہوتے ہیں؟ میرے پاس اپنے اس سوال کاکوئی بھی جواب نہیں!

پاکستان کے متعلق سینٹرمیں سوال وجواب کی طویل نشست ہوئی۔وہاں روس کے دانشور، مفکر، لکھاری اور اہل علم موجودتھے۔مجھے ایسے محسوس ہواکہ یہ لوگ ہمارے ملک کوہم سے بہترجانتے ہیں۔سینٹرکے پروفیسرسرگی ستر برس کے تھے۔ان کے سوالات انتہائی سنجیدہ اورتیکھے تھے۔ سب سے پہلے انھوں نے پاکستان اورچین کے حالیہ معاہدوں پربحث کی۔ ان کی ماہرانہ نظرمیں پاکستان میں وہ اسطاعت نہیں کہ ان معاہدوں کی تکمیل کرپائے۔ پروفیسر نے ہمارے سیاسی نظام پرمکمل تحقیق کی ہوئی تھی۔

بہرحال اس کے جواب میں ظفرحسن نے پوری دلیل سے بات کی۔ظفرحسن شنگھائی میں چھ سال پاکستانی حکومت کی جانب سے قونصل جنرل رہے ہیں۔ مگر پروفیسرنے اپنی رائے تبدیل نہیں کی۔وفدکے ایک رکن عصمت اللہ کاکڑ نے بلوچستان کے اندرونی حالات پرسیر حاصل بحث کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹراکرم نے پاکستان کے ٹیکس کے نظام پر بھرپور بات کی۔میری ذاتی رائے ہے کہ ہمارے وفدکی باتوں کاان پربھرپوراثرہوا۔نشست کے اختتام پرایک خاتون پروفیسرنے سوال کیاکہ ہم لوگ انگریزی کیوں بول رہے ہیںجب کہ ہندوستان وفدان سے ہندی میں بات کرتا ہے۔

جاپانی وفدجاپانی بولتاہے۔میرے پاس صرف ایک دلیل تھی کہ اس محفل میں اردوبولنے اورسمجھنے والوں کی تعداددس فیصدسے بھی کم تھی لہذاہم میں اکثراس زبان کاسہارالینے پر مجبورتھے جوسب کوسمجھ آتی ہے۔بہرحال وہ پروفیسرمیری بات سے متفق نہیں ہوئی۔انکانام پروفیسر لوڈیلاواسلوا تھا۔یہ اردودان ہیں اورانکوہماری مختلف حکومتوں نے کئی اعزازی انعامات سے نوازاہے۔ڈاکٹرسرگی اور ڈاکٹر لڈمیلاواسلواروس کے حکومتی حلقوں میں بہت احترام کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔


وفدکے ہمراہ پروفیسروکٹرکریمنکوف سے ملنے کا اتفاق ہوا۔یہ امریکا پرتحقیقی ادارہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ڈاکٹر وکٹر کانظریہ تھاکہ روس اس لیے ترقی نہیں کررہا کہ وہ صرف اورصرف اسلحہ اورجنگی سامان بنانے اور بیچنے کواپنا ہنر سمجھتاہے۔اس کے بقول فوج اورجدیداسلحہ بے معنی چیزیں ہیں۔کہنے لگاکہ روس ایٹم بم توبنا سکتا ہے مگرکارنہیں بنا سکتا۔ جنگی جہازتوبناسکتاہے مگر کھانے پینے کی اشیاء میں خودکفیل نہیں۔ ڈاکٹر وکٹرکے بقول اصل ترقی عام لوگوں کی خوشحالی میں پوشیدہ ہے۔ وکٹر نے سویت یونین کی عظمت کوبھی دیکھا تھااوراس کو بکھرتے بھی۔ دلیل سے کہتاتھاکہ مضبوط فوج کسی بھی ملک کوبہت کمزور کر سکتی ہے اورسویت یونین اس کی ایک مثال ہے۔

بین الاقوامی سطح کے طلباء اورطالبات کے لیے روس کی ہر یونیورسٹی میں انتہائی منظم نظام موجودہے۔رشین صدارتی اکیڈمی اسی طرزکاایک بہت مستحکم اورعالیشان ادارہ ہے۔ یہاں غیرملکی لوگوں کے لیے مواقع فراہم کیے گئے ہیں کہ وہ سائنس، آرٹس اورتجارت سے منسلک تمام علوم آسانی سے سیکھ سکیں۔روسی زبان کے لیے طلباء کوایک سال کاایک کورس کروایا جاتاہے جسکی کوئی فیس نہیں۔ وہاں کافی تعدادمیں پاکستانی لوگ زیرتعلیم ہیں اوران کی تعدادروزبروزبڑھ رہی ہے۔وہاں میری ملاقات ڈاکٹرمتالی متراسے ہوئی۔انکاتعلق دہلی سے ہے اوروہ بہت شائستہ اردوبولتی ہیں۔

سیاسیات اورشعبہ تجارت میں پی ایچ ڈی ہیں۔عرصہ درازسے اس صدارتی سینٹر سے منسلک ہیں۔اردوشاعری اورادب پرگہری نظر تھی۔ میرتقی میر، غالب،اقبال،فیض احمدفیض کے بے شمار اشعار ازبر تھے۔ ماسکوکے چمبرآف کامرس کے صدر سورن داردن بان کاکہناتھاکہ پاکستانی تاجرروس کی مارکیٹ سے فائدہ اٹھانے میںناکام رہے ہیں۔ان کے بقول وہ ہمارے تجارتی شعبہ سے بھرپورتعاون کرنا چاہتے ہیں مگرہماری طرف سے کوئی بھی آگے بڑھنے کو تیارنہیں۔یہ ہمارے نجی شعبہ کی بے حسی ہے یا ان کا غیرفعال ہونا!یہ تبصرہ کم ازکم میں نہیں کرنا چاہتا۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں نااہلی بھی شامل ہو؟

ہمارے سفارت خانے کے افسران کامران تاج اور جعفربھی انتہائی بھلے لوگ ہیں۔وہ جس طرح ہمارے وفد کے ہمراہ دن رات مصروف کار رہے، وہ واقعی قابل تعریف عمل ہے۔دونوں کاتعلق سندھ سے ہے۔ پاکستان کے سفارت خانے میں ایک عجیب مرددرویش سے ملاقات ہوئی۔ اس کانام اطہرقیوم ہے۔پانچ سال سے سفارت خانہ میں پریس اتاشی ہے۔انتہائی پڑھا لکھا اور عاجز انسان۔کافی حدتک ملامتی صوفی۔ ماسکو کے ادبی حلقوں میں اس شخص کی بے پناہ عزت ہے۔ بذات خودکئی کتابوں کا منصف اور مترجم ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک شرمیلا سا شاعر بھی۔ تعجب ہواکہ وہ سرکاری نوکری کے باوجود پڑھنے لکھنے میں اتنامتحرک کیسے رہ گیا۔اطہراتنی نفاست اور شائستگی سے اپنے تمام ہنرکو چھپاتا ہے کہ کئی بارشک ہونے لگتاہے کہ وہ واقعی شاعراورمصنف بھی ہے یاوہ کوئی اور اطہرقیوم ہے۔ مگر اصل میں دونوں رخ ایک ہی شخصیت کے ہیں۔ اطہرقیوم کی کتاب "نقشِ ثانی"سے چند اشعار آپکی نذرکرتاہوں

اب فکرگرانباریِٔ زنجیرنہیں ہے
لیکن یہ مرے خواب کی تعبیرنہیں ہے
اس شہرکی تقدیرمیں لکھی ہے تباہی
وہ شہرجہاں علم کی توقیرنہیں ہے
صدحیف،خیالات کے اظہارپہ قدغن
صدشکرمرے خوابوں پہ تعزیرّنہیں ہے

ہمارے علم دشمن معاشرہ میں یہ بھی غنیمت ہے کہ بہترمستقبل کے خواب دیکھنے پرکوئی پابندی نہیں۔ان پرکسی قسم کی کوئی سزا نہیں۔ مگرمیراخیال ہے کہ یہ مہلت بھی بہت کم رہ گئی ہے۔ تھوڑے سے عرصے میں اسطرح کے خواب دیکھنے پربھی کڑی سزاتجویزکی جائے گی۔بندآنکھوں سے ملکی ترقی اورخوشحالی کے خواب دیکھنابھی قابل تعزیرقرارپایاجائیگا۔وہ وقت بہت نزدیک نظرآرہاہے۔بہت نزدیک۔شائدشاہ رگ سے بھی قریب!
Load Next Story