مچھلی کے غیرقانونی شکار کے خلاف وفاقی حکومت حرکت میں آگئی
پولٹری فیڈ کیلیے چھوٹی مچھلی استعمال کرنیوالوں کے لائسنس منسوخ اور فیکٹریاں سیل کردیں گے
سندھ کی سمندری حدود میں مچھلیوں کے غیرقانونی شکار کے خلاف وفاقی حکومت حرکت میں آگئی ہے۔ وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ کامران مائیکل نے کہا ہے کہ چھوٹی مچھلیوں کے شکار سے سمندری حیات کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
وفاقی حکومت چھوٹی مچھلیوں کے شکار کی روک تھام کے لیے سندھ حکومت کی معاونت کریگی، پولٹری فیڈ بنانے کے لیے چھوٹی مچھلیوں کا استعمال کرنے والی فیکٹریوں کے لائسنسن منسوخ اور فیکٹریاں سیل کردی جائیں گی۔ فش ہاربر پر چھوٹی مچھلیوں کی خریدوفروخت اور گہرے سمندر میں ٹرالرز کے ذریعے مچھلیوں کے شکار پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ سینیٹر کامران مائیکل نے صوبائی وزیر لائیو اسٹاک اینڈ فشریز جام خان شورو کے ہمراہ پی این ایس سی بلڈنگ میں میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ وفاقی حکومت سندھ میں مچھلیوں کے غیرقانونی شکار بالخصوص پولٹری فیڈ بنانے کے لیے نوزائیدہ مچھلیوں کے شکار کی روک تھام کے لیے سندھ حکومت کی مکمل معاونت کریگی۔
چھوٹی مچھلیوں سے پولٹری فیڈ بنانے والی فیکٹریوں کے لائسنس منسوخ کرکے انہیں سیل کردیا جائے گا جبکہ فشریز میں بھی چارہ بنانے کے لیے چھوٹی مچھلیوں کی خریدوفروخت پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔ سمندری حیات کی بقا کے لیے گہرے سمندر میں ٹرالنگ پر بھی سخت پابندی عائد ہوگی۔ اس سلسلے میں کسی قسم کا دبائو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سندھ میں ماہی گیروں کی تربیت اور آگہی کے لیے خصوصی مہم شروع کی جائیگی جس کے تحت ماہی گیروں کو چھوٹی مچھلیوں کے شکار سے سمندری حیات کو پہنچنے والے نقصان اور ملکی معیشت کو لاحق خطرات کے بارے میں آگہی فراہم کی جائیگی جس کے لیے غیرملکی ماہرین کی بھی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سمندری حیات کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت سندھ حکومت کی مکمل معاونت کریگی۔
مچھلی کے شکار کیلیے ممنوعہ جال کے استعمال پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ مچھلیوں کے لیے شکار کے لیے 55ملی میٹر جبکہ جھینگوں کے استعمال کے لیے 25ملی میٹر کے جال کے استعمال کی اجازت ہوگی۔ میرین فشریز ڈپارٹمنٹ خصوصی جال ڈیزائن کرکے ماہی گیروں کو فراہم کرے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سمندر اور سمندری حیات سے پاکستان کی معیشت جڑی ہوئی ہے۔ گوادر سے مچھلیوں کی ایکسپورٹ کا آغاز ہوگیا ہے، گوادر میں فشریز لیبارٹری قائم کردی گئی ہے جو جولائی سے کام شروع کردیگی۔
وفاقی حکومت چھوٹی مچھلیوں کے شکار کی روک تھام کے لیے سندھ حکومت کی معاونت کریگی، پولٹری فیڈ بنانے کے لیے چھوٹی مچھلیوں کا استعمال کرنے والی فیکٹریوں کے لائسنسن منسوخ اور فیکٹریاں سیل کردی جائیں گی۔ فش ہاربر پر چھوٹی مچھلیوں کی خریدوفروخت اور گہرے سمندر میں ٹرالرز کے ذریعے مچھلیوں کے شکار پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ سینیٹر کامران مائیکل نے صوبائی وزیر لائیو اسٹاک اینڈ فشریز جام خان شورو کے ہمراہ پی این ایس سی بلڈنگ میں میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ وفاقی حکومت سندھ میں مچھلیوں کے غیرقانونی شکار بالخصوص پولٹری فیڈ بنانے کے لیے نوزائیدہ مچھلیوں کے شکار کی روک تھام کے لیے سندھ حکومت کی مکمل معاونت کریگی۔
چھوٹی مچھلیوں سے پولٹری فیڈ بنانے والی فیکٹریوں کے لائسنس منسوخ کرکے انہیں سیل کردیا جائے گا جبکہ فشریز میں بھی چارہ بنانے کے لیے چھوٹی مچھلیوں کی خریدوفروخت پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔ سمندری حیات کی بقا کے لیے گہرے سمندر میں ٹرالنگ پر بھی سخت پابندی عائد ہوگی۔ اس سلسلے میں کسی قسم کا دبائو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سندھ میں ماہی گیروں کی تربیت اور آگہی کے لیے خصوصی مہم شروع کی جائیگی جس کے تحت ماہی گیروں کو چھوٹی مچھلیوں کے شکار سے سمندری حیات کو پہنچنے والے نقصان اور ملکی معیشت کو لاحق خطرات کے بارے میں آگہی فراہم کی جائیگی جس کے لیے غیرملکی ماہرین کی بھی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سمندری حیات کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت سندھ حکومت کی مکمل معاونت کریگی۔
مچھلی کے شکار کیلیے ممنوعہ جال کے استعمال پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ مچھلیوں کے لیے شکار کے لیے 55ملی میٹر جبکہ جھینگوں کے استعمال کے لیے 25ملی میٹر کے جال کے استعمال کی اجازت ہوگی۔ میرین فشریز ڈپارٹمنٹ خصوصی جال ڈیزائن کرکے ماہی گیروں کو فراہم کرے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سمندر اور سمندری حیات سے پاکستان کی معیشت جڑی ہوئی ہے۔ گوادر سے مچھلیوں کی ایکسپورٹ کا آغاز ہوگیا ہے، گوادر میں فشریز لیبارٹری قائم کردی گئی ہے جو جولائی سے کام شروع کردیگی۔