تعلیم کا مثالی نمونہ
مذکورہ بالا خبر یقینا سندھ کے اسکولوں میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیارکی جانب ایک خطرناک اشارہ ہے
روزنامہ ایکسپریس میں چند روز قبل ایک خبر شائع ہوئی، خبر کیمطابق سندھ میں طلبہ کا معیار تعلیم انتہائی پست نکلا۔ تعلیم کے معیار کو جانچنے کے لیے عالمی بینک کی ہدایت پر آئی بی اے (سکھر) نے پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے طلبہ کا معیار جاننے کے لیے ایک ٹیسٹ لیا، اس ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق پرائمری کے 78 اور سیکنڈری (آٹھویں کلاس) کے 75 فی صد طلبہ ٹیسٹ میں فیل ہوگئے۔
مذکورہ بالا خبر یقینا سندھ کے اسکولوں میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیارکی جانب ایک خطرناک اشارہ ہے ، لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسکولوں کے علاوہ دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کا حال اچھا ہے؟ ایکسپریس اخبارکے کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے اپنے گزشتہ کالم میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی کی سوچ کے حوالے سے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ اب اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی فکری تربیت کا فقدان نظر آتا ہے، جو یقینا معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پروفیسر توصیف احمد خان نے توجہ دلائی کہ قتل اور دہشت گردی کے واقعات میں جو ملزمان گرفتار ہوئے ہیں ان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ شامل ہیں۔
راقم کے خیال میں ان کی بات صد فی صد درست ہے اور یہ بھی کہ اب اسکولوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک کا تعلیمی معیار نیچے کی جانب جاتا نظر آتا ہے۔ (واضح رہے کہ راقم کی نظر میں تعلیمی معیار صرف یہ نہیں کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے کتنے پروفیشنل طلبہ نکل رہے ہیں) تعلیمی معیار میں طلبہ کی فکری تعمیر اور کردار سب سے اہم ہوتا ہے اب اہم سوال یہی ہے کہ اب طلبہ کا درست فکری تعمیرکیسے ہو؟ ان کی کردار سازی کیسے ہو؟ایک استاد جماعت کے طلبہ کے لیے ''مثالی نمونہ'' ہوتا ہے۔
لہٰذا پہلے یہ غور کرنا چاہیے کہ آیا ہمارا استاد ایک ''مثالی نمونہ'' ثابت ہوتا ہے؟ اگر استاد کے انتخاب (یعنی تقرری) کے وقت کسی امیدوار کی بحیثیت استاد خوبی نہ دیکھی جائے بلکہ سفارشی پرچی، رشوت یا سیاسی وابستگی دیکھی جائے تو بھلا استاد کی کرسی پر بیٹھنے والا ''مثالی استاد'' کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟ یہ تو کھلا راز ہے کہ اسکولوں کے اساتذہ کی تقرری کے لیے جو کچھ اس ملک میں (خاص کر سندھ) میں ہو رہا ہے اس کے مطابق نظم و ضبط، قاعدے قانون سب کی دھجیاں اڑادی گئیں ہیں۔ میرٹ کا تصور صفر فی صد سے زائد نہیں۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں جو بھی استاد کے روپ میں طلبہ کے سامنے آتا ہے وہ ایک استاد نہیں بلکہ ایک دھیاڑی لگانے والے مزدور کی طرح ہوتا ہے کہ اس کا مطمع نظر صرف اور صرف تنخواہ ہوتی ہے اور اسی طرح اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پروموشن (ترقی) بھی تعبیر کسی سفارش و رشوت کے نہیں ہوگا۔ یہ وہ بنیادی غلطیاں ہیں جن پر ہمارے سیاسی و تعلیمی اداروں کے ذمے داروں نے آنکھیں بند کیں ہوئی ہیں۔ لہٰذا جب تک یہ غلطیاں درست نہیں ہوںگی۔ اسکولوں میں تعلیمی معیارکبھی بھی اوپر کی جانب نہیں آئے گا۔
ایک اور اہم خرابی جو ہمارے تعلیمی نظام ہی نہیں خود بحیثیت انسان ہم سب میں موجود ہے اور وہ ہے کہ صبر، توکل اور قناعت پورے معاشرے سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا جب یہ خرابی کسی استاد میں آتی ہے تو پھر صرف اس تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان تمام طلبہ میں منتقل ہوجاتی ہے ، جو اس استاد سے علم حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ آج شہری علاقوں میں یہ کلچر عام ہے کہ کسی کالج میں مکمل طور پر اور بروقت تسلسل کے ساتھ کلاسیں نہیں ہوتیں، استاد کمرہ جماعت میں نہیں آتا لیکن ٹیوشن سینٹر یا کوچنگ سینٹر میں ضرور پوری پابندی سے پورا وقت دیتا ہے صرف اس لیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتا ہے اس کا کردار طلبہ کو انسان بنانا نہیں بلکہ اپنے لیے پیسہ بنانے کا ہے۔
کچھ ایسا ہی کلچر جامعات میں بھی چل رہا ہے، بحیثیت ایک استاد میں خود اپنے اساتذہ کے کردار سے مطمئن نہیں ہوں۔کچھ دیرکے لیے ہر استاد یہ غور کرے کہ وہ طلبہ کوکیا دے رہا ہے؟ کیا کم از کم وہ بحیثیت استاد اپنے طلبہ کو وہ وقت دے رہا ہے کہ جس کی تنخواہ اس کو ماہانہ مل رہی ہے؟ کیا میں بحیثیت اپنی تنخواہ کا حق ادا کررہا ہوں؟
نیکی تو انسان کو راہ چلتے ہوئے راستہ بتانا ہے بھی ہے لیکن کیا میں بحیثیت استاد اپنے طلبہ کو خیر اور شر کا تصور واضح کر پا رہاہوں؟ کیا میں اپنے طلبہ کو نصاب کی تعلیم دینے کے ساتھ اپنے گفتار اور عمل سے یہ سکھارہاہوں کہ عملی زندگی میں قدم رکھ کر کس طرح خیر کو ترجیح دینی ہے اور شر سے بچنا ہے؟
یہاں راقم نے جان بوجھ کر طلبہ کی غلطیوں کو بیان نہیں کیا کیوں کہ راقم کے خیال میں ایک استاد وہ مقام اور صلاحیت رکھتا ہے کہ اپنے عمل وکردار سے طلبہ کے کردارکی بہتر تعمیر بھی کرسکتا ہے اور انھیں تراش کر ہیرا بھی بناسکتا ہے، آیئے بجائے شکایت کرنے کے مستقبل کے ہیرے تراشنے کی کوشش کریں گو کہ یہ سخت اورکٹھن مرحلہ ہوتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ البتہ ہمارے منتخب نمائندے اگر اس سلسلے میں سنجیدگی اور ذمے داری کا مظاہرہ کریں تو یہ مرحلہ با آسانی طے بھی ہوسکتا ہے۔
اگر یہ ذمے دار اس بات کا احساس کرلیں کہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اساتذہ کی بھی بے شمار مشکلات ہیں کہ جن سے وہ صبح وشام دیگر عوام کی طرح جنگ لڑتا رہتا ہے تو ان اساتذہ کے مسائل بھی کم ہوسکتے ہیں اور اساتذہ کے جس قدر مسائل کم ہوںگے انھیں ایک ''مثالی کردار'' ادا کرنے میں اس قدر مدد بھی ملے گی۔ہمارے منتخب نمائندوں خاص کر وزارت تعلیم کو اساتذہ کی تو درجوں، ترقیوں میں میرٹ کو ممکن بنانے اور ایک معقول مشاہیرے کے انتظام کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینی چاہیے ورنہ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا اور آج معیار تعلیم گر رہا ہے اور چند ایک ملزمان کا تعلق اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نکل رہا ہے تو کل یہ مزید بڑھ چکا ہوگا جہاں سے واپسی آسان نہ ہوگی۔
مذکورہ بالا خبر یقینا سندھ کے اسکولوں میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیارکی جانب ایک خطرناک اشارہ ہے ، لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسکولوں کے علاوہ دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کا حال اچھا ہے؟ ایکسپریس اخبارکے کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے اپنے گزشتہ کالم میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی کی سوچ کے حوالے سے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ اب اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی فکری تربیت کا فقدان نظر آتا ہے، جو یقینا معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پروفیسر توصیف احمد خان نے توجہ دلائی کہ قتل اور دہشت گردی کے واقعات میں جو ملزمان گرفتار ہوئے ہیں ان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ شامل ہیں۔
راقم کے خیال میں ان کی بات صد فی صد درست ہے اور یہ بھی کہ اب اسکولوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک کا تعلیمی معیار نیچے کی جانب جاتا نظر آتا ہے۔ (واضح رہے کہ راقم کی نظر میں تعلیمی معیار صرف یہ نہیں کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے کتنے پروفیشنل طلبہ نکل رہے ہیں) تعلیمی معیار میں طلبہ کی فکری تعمیر اور کردار سب سے اہم ہوتا ہے اب اہم سوال یہی ہے کہ اب طلبہ کا درست فکری تعمیرکیسے ہو؟ ان کی کردار سازی کیسے ہو؟ایک استاد جماعت کے طلبہ کے لیے ''مثالی نمونہ'' ہوتا ہے۔
لہٰذا پہلے یہ غور کرنا چاہیے کہ آیا ہمارا استاد ایک ''مثالی نمونہ'' ثابت ہوتا ہے؟ اگر استاد کے انتخاب (یعنی تقرری) کے وقت کسی امیدوار کی بحیثیت استاد خوبی نہ دیکھی جائے بلکہ سفارشی پرچی، رشوت یا سیاسی وابستگی دیکھی جائے تو بھلا استاد کی کرسی پر بیٹھنے والا ''مثالی استاد'' کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟ یہ تو کھلا راز ہے کہ اسکولوں کے اساتذہ کی تقرری کے لیے جو کچھ اس ملک میں (خاص کر سندھ) میں ہو رہا ہے اس کے مطابق نظم و ضبط، قاعدے قانون سب کی دھجیاں اڑادی گئیں ہیں۔ میرٹ کا تصور صفر فی صد سے زائد نہیں۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں جو بھی استاد کے روپ میں طلبہ کے سامنے آتا ہے وہ ایک استاد نہیں بلکہ ایک دھیاڑی لگانے والے مزدور کی طرح ہوتا ہے کہ اس کا مطمع نظر صرف اور صرف تنخواہ ہوتی ہے اور اسی طرح اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پروموشن (ترقی) بھی تعبیر کسی سفارش و رشوت کے نہیں ہوگا۔ یہ وہ بنیادی غلطیاں ہیں جن پر ہمارے سیاسی و تعلیمی اداروں کے ذمے داروں نے آنکھیں بند کیں ہوئی ہیں۔ لہٰذا جب تک یہ غلطیاں درست نہیں ہوںگی۔ اسکولوں میں تعلیمی معیارکبھی بھی اوپر کی جانب نہیں آئے گا۔
ایک اور اہم خرابی جو ہمارے تعلیمی نظام ہی نہیں خود بحیثیت انسان ہم سب میں موجود ہے اور وہ ہے کہ صبر، توکل اور قناعت پورے معاشرے سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا جب یہ خرابی کسی استاد میں آتی ہے تو پھر صرف اس تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان تمام طلبہ میں منتقل ہوجاتی ہے ، جو اس استاد سے علم حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ آج شہری علاقوں میں یہ کلچر عام ہے کہ کسی کالج میں مکمل طور پر اور بروقت تسلسل کے ساتھ کلاسیں نہیں ہوتیں، استاد کمرہ جماعت میں نہیں آتا لیکن ٹیوشن سینٹر یا کوچنگ سینٹر میں ضرور پوری پابندی سے پورا وقت دیتا ہے صرف اس لیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتا ہے اس کا کردار طلبہ کو انسان بنانا نہیں بلکہ اپنے لیے پیسہ بنانے کا ہے۔
کچھ ایسا ہی کلچر جامعات میں بھی چل رہا ہے، بحیثیت ایک استاد میں خود اپنے اساتذہ کے کردار سے مطمئن نہیں ہوں۔کچھ دیرکے لیے ہر استاد یہ غور کرے کہ وہ طلبہ کوکیا دے رہا ہے؟ کیا کم از کم وہ بحیثیت استاد اپنے طلبہ کو وہ وقت دے رہا ہے کہ جس کی تنخواہ اس کو ماہانہ مل رہی ہے؟ کیا میں بحیثیت اپنی تنخواہ کا حق ادا کررہا ہوں؟
نیکی تو انسان کو راہ چلتے ہوئے راستہ بتانا ہے بھی ہے لیکن کیا میں بحیثیت استاد اپنے طلبہ کو خیر اور شر کا تصور واضح کر پا رہاہوں؟ کیا میں اپنے طلبہ کو نصاب کی تعلیم دینے کے ساتھ اپنے گفتار اور عمل سے یہ سکھارہاہوں کہ عملی زندگی میں قدم رکھ کر کس طرح خیر کو ترجیح دینی ہے اور شر سے بچنا ہے؟
یہاں راقم نے جان بوجھ کر طلبہ کی غلطیوں کو بیان نہیں کیا کیوں کہ راقم کے خیال میں ایک استاد وہ مقام اور صلاحیت رکھتا ہے کہ اپنے عمل وکردار سے طلبہ کے کردارکی بہتر تعمیر بھی کرسکتا ہے اور انھیں تراش کر ہیرا بھی بناسکتا ہے، آیئے بجائے شکایت کرنے کے مستقبل کے ہیرے تراشنے کی کوشش کریں گو کہ یہ سخت اورکٹھن مرحلہ ہوتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ البتہ ہمارے منتخب نمائندے اگر اس سلسلے میں سنجیدگی اور ذمے داری کا مظاہرہ کریں تو یہ مرحلہ با آسانی طے بھی ہوسکتا ہے۔
اگر یہ ذمے دار اس بات کا احساس کرلیں کہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اساتذہ کی بھی بے شمار مشکلات ہیں کہ جن سے وہ صبح وشام دیگر عوام کی طرح جنگ لڑتا رہتا ہے تو ان اساتذہ کے مسائل بھی کم ہوسکتے ہیں اور اساتذہ کے جس قدر مسائل کم ہوںگے انھیں ایک ''مثالی کردار'' ادا کرنے میں اس قدر مدد بھی ملے گی۔ہمارے منتخب نمائندوں خاص کر وزارت تعلیم کو اساتذہ کی تو درجوں، ترقیوں میں میرٹ کو ممکن بنانے اور ایک معقول مشاہیرے کے انتظام کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینی چاہیے ورنہ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا اور آج معیار تعلیم گر رہا ہے اور چند ایک ملزمان کا تعلق اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نکل رہا ہے تو کل یہ مزید بڑھ چکا ہوگا جہاں سے واپسی آسان نہ ہوگی۔