اب ہیلمٹ پہننا ہوگا۔۔۔

ٹریفک پولیس کی جانب سے ایسی خواتین کو بھی ہیلمٹ پہننے کے حکم سے عجیب وغریب صورت حال پیدا ہو گئی ہے

ہمارے ہاں کی خواتین کے لیے ہیلمٹ بالکل اجنبی پابندی ہے۔ فوٹو: ایکسپریہس

26 مئی کو کراچی ٹریفک پولیس ایک بار پھرمتحرک ہوئی۔۔۔ اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ کی پابندی کا اعلان ہوا، قابل ذکر بات یہ تھی کہ ہمارے ہاں پہلی بار اس پابندی کا اطلاق خواتین پر بھی کیا جا رہا ہے، جس سے بالکل ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔

ٹریفک پولیس نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ موٹر وہیکل آرڈیننس 1965ء کی زیر دفعہ 89-A کے تحت موٹر سائیکل پر سوار افراد کے لیے ہیلمٹ کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس پابندی پر اطلاق پہلے یکم جون سے کرنے کا اعلان ہوا، بعد ازاں اس پابندی پر عمل درآمد کی تاریخ 8 جون کردی گئی ہے۔ اس کے بعد خلاف ورزی کرنے کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔

موٹر سائیکل پر سفر محفوظ بنانے کی غرض سے اٹھائے جانے والے اقدام پر لوگوںمیں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے جتنی بار بھی ہیلمٹ کی پابندی کا اعلان ہوا، اسے صرف موٹر سائیکل چلانے والے پر ہی لاگو کیا گیا۔ اس کے ساتھ سوار شخص تک اس پابندی کو دراز نہیں کیا گیا، اس بار نہ صرف پیچھے بیٹھنے والے کو اس کا پابند بنانے کا اعلان ہوا ہے، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موٹر سائیکل پر بیٹھنے والی خواتین بھی اس پابندی سے مستثنا نہیں۔

ہمارے ہاں موٹر سائیکل متوسط اور نچلے طبقے کے لیے نہایت اہم سواری تصور کی جاتی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی اور ناکافی مسافر بسوں کے اذیت ناک سفر کے مقابلے میں موٹر سائیکل ایک سہل اور سستی سواری ہے۔ شہر قائد میں روزانہ لاکھوں افراد سفر کے اس وسیلے سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں جب بھی حالات کو جواز بنا کر ڈبل سواری پر قدغن لگتی ہے، سب سے زیادہ نچلے طبقے کے لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں۔



روزانہ کام کاج پر آنے جانے کے علاوہ کہیں بھی آنے جانے کے لیے بھی موٹر سائیکل استعمال کی جاتی ہے۔ اس طرح خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد موٹر سائیکل پر سفر کرتی ہے۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے ایسی خواتین کو بھی ہیلمٹ پہننے کے حکم سے عجیب وغریب صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ہر سماج کی الگ رسم و رواج اور رکھ رکھاؤ ہوتے ہیں، ہمارے ہاں کی خواتین کے لیے یہ بالکل اجنبی پابندی ہے۔


چند برس پیش تر ہندوستان میں بھی موٹر سائیکل پر بیٹھنے والے تمام افراد کے لیے ایسی پابندی عائد کی گئی تھی، جس میں خواتین کے ساتھ چھوٹے بچوں کے لیے بھی باقاعدہ ہیلمٹ متعارف کرائے گئے تھے۔ ظاہر ہے انسانی جان سے قیمتی اس دنیا میں بھلا اور کیا ہو سکتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں بھی اس پابندی پر عمل ختم ہوتا چلا گیا۔ لوگوں کا موقف تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو کہیں چھوڑ کر آرہے ہیں، تو کیا اس کے بعد وہ چار، چار ہیلمٹ آخر کہاں سنبھال کر رکھیں؟

اب ہمارے ہاں بھی لگ بھگ کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہو چکی ہے، اگرچہ فی الوقت موٹر سائیکل پر سوار بچوں کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا گیا، لیکن موٹر سائیکل پر سوار کرتے ہوئے صورت حال تو ان معصوم بچوں کے لیے بھی اس ہی طرح نازک ہے، جیسے ان کے بڑوں کے لیے ہے۔ دوسری طرف عام لوگوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد روزانہ یا کبھی کبھارکسی موٹر سائیکل سوار سے سواری لے کر اپنی منزل مقصود تک پہنچتی ہے۔ ایسے میں کیا موٹر سائیکل والا اپنے ساتھ اضافی ہیلمٹ لیے پھرا کرے، یا سواری کا خواہش مند یہ حفاظتی خول ہاتھ میں تھامے گھومے،کہ اگر کسی موٹر سائیکل سوار کے ساتھ آنا ہو تو اسے اوڑھ لے۔



بدقسمتی سے ہم جس معاشرے میں بستے ہیں، وہاں حفاظی اقدام کے پس پشت بھی مبینہ طور پر بہت سے دوسرے مفادات پوشیدہ بتائے جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کی باتیں تواتر سے کی جاتی رہی ہیں کہ مسلسل آلودہ پانی کی فراہمی دراصل بازارو پانی کی فروخت بڑھانے کے لیے تھی۔ کراچی میں پانی کے حالیہ بحران کے پس پشت بھی ٹینکر مافیا کو قرار دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ دنیا میں اب یہ بات بھی کوئی نئی نہیں رہی کہ یہاں دوا پہلے دریافت ہوتی ہے، اور اس کی بیماری بعد میں پھیلائی جاتی ہے، تاکہ منڈی میں اس دوا کی کھپت پیدا کی جا سکے۔ اسی طرح ناقدین آئے دن ہیلمٹ کی سختی کو بھی ہیلمٹ کی فروخت بڑھانے کا ذریعہ قرار دیتے رہے ہیں۔

اس بحث سے قطع نظر اس وقت درپیش مسئلہ خواتین کے ہیلمٹ پہننے کا ہے۔ ہر چند کہ ہماری خواتین کے پہناوے اور لگی بندھی روایات اور ثقافت کے حساب سے خواتین کا ہیلمٹ پہننا خاصا عجیب اور کچھ معیوب سا معلوم ہو گا، مگر یہ امر ان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے ہے، جسے جھٹلانا خاصا مشکل ہے۔ جو حلقے خواتین کے ہیلمٹ پہننے کے فیصلے کے خلاف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ امر دراصل شہریوں کو تنگ کرنے کے نئے ہتھکنڈے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر مستقلاً اس پابندی کو نافذ رکھا جائے، تب بھی ہمارے ہاں کی خواتین اسے دھیرے دھیرے ہی قبول کر پائیں گی اور یہ امر براہ راست ٹریفک پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر مٹھی گرم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔

ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ٹریفک پولیس کو موٹر سائیکل پر سفر کرنے والوںکی جان کے تحفظ کے لیے دیگر اقدام اٹھانے چاہئیں۔ جیسے موٹر سائیکل سواروں کے اکثر حادثات بڑی اور بھاری گاڑیوں سے ہوتے ہیں، اس لیے بڑی شاہ راہوں پر موٹر سائیکل سواروں کے لیے علیحدہ پٹی مختص کر دی جائے، جہاں صرف موٹر سائیکلیں سفر کریں، تاکہ موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے تمام افراد کا سفر آسان اورمحفوظ ہوسکے۔
Load Next Story