شب براتاہل ایمان کے لئے بخشش اورمغفرت کی رات

شب برأت میں اﷲ تعالیٰ بندوں پرغیرمعمولی اور خاص رحمت وعنایت فرماتا ہے،اس شب مانگی جانے والی دعاؤں کوقبولیت بخشتا ہے

ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت عطا کروں؟ فوٹو: فائل

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''اﷲ عزوجل (خاص طور پر) ان چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے، عیدالاضحی کی رات، عیدالفطر کی رات، شعبان کی پندرھویں رات (اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اس سال) حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں) عرفہ (نو ذی الحج کی رات، آذان فجر تک)۔''

پندرہ شعبان المعظم کی رات بہت اہم ہے کہ اس میں نہ جانے کس کی قسمت میں کیا لکھ دیا جائے۔

''غنیتہ الطالبین'' میں آیا ہے: ''بہت سے کفن دھل کرتیاررکھے ہوتے ہیں، مگر کفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھررہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہوتی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالاں کہ ان کی موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے۔ بہت سے مکانات کی تعمیر کا کام مکمل ہونے والا ہوتا ہے، مگر ساتھ ہی ان مکانوں کے مالکان کی موت کا وقت بھی سرپرپہنچ چکا ہوتا ہے۔''

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور کہا: یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے، اس رات میں اﷲ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں، مگر کافر اور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور (ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے، اور شراب کے عادی، ان لوگوں کی طرف اﷲ تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرماتا۔''

امام محمد غزالی ؒ فرماتے ہیں: ''شراب کا عادی، زنا کا عادی، ماں باپ کا نافرمان، رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والا، نشے باز اور چغل خور کی اس رات بخشش نہیں۔''

ایک روایت میں نشے باز کی جگہ تصویریں بنانے والا بھی آیا ہے۔ اسی طرح کاہن، جادوگر، تکبر کے ساتھ پاجاما یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکالنے والے، دو مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے والے اور کسی مسلمان سے کینہ رکھنے والے پر بھی اس رات مغفرت سے محرومی کی وعید ہے۔ چناں چہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر وہ خدانخواستہ وہ متذکرہ گناہوں میں سے کسی گناہ میں ملوث ہوں تو شب برأت کے آنے سے پہلے ہی دل سے سچی توبہ کرلیں اور تمام معاملات صاف کرلیں۔

حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظیم ہے: ''جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام (یعنی عبادت) کرو اور دن میں روزے رکھو! بے شک، اﷲ غروب آفتاب کے بعد آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے: ''ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت عطا کروں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا، اور یہ اس وقت تک فرماتا رہتا ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔''

شب برأت میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں، لہٰذا ممکن ہو تو چودھویں شعبان المعظم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے، تاکہ اعمال نامے کے آخری دن بھی روزہ ہو۔ 14 شعبان کو عصر کی نماز پڑھ کر مسجد میں نفلی اعتکاف کی نیت سے قیام کیا جائے، تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہونے کے آخری لمحات میں مسجد کی حاضری اور اعتکاف لکھا جائے۔

معمولات اولیائے کرام میں سے ہے کہ مغرب کے فرض و سنت وغیرہ کے بعد چھ رکعت نفل دو دو رکعت کرکے ادا کیے جائیں۔ پہلی دو رکعت سے پہلے یہ نیت کریں: ''یااﷲ! ان کی برکت سے درازی عمر بالخیر عطا فرما۔''

اس کے بعد دو رکعت میں یہ نیت کریں: ''یااﷲ! ان کی برکت سے تمام بلاؤں اور آفات سے میری حفاظت فرما۔''

اس کے بعد والی دو رکعتوں کے لیے یہ نیت کریں: ''یا اﷲ! ان کی برکت سے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر!''

ہر دو رکعت کے بعد اکیس بار قل ہو اﷲ احد (پوری سورت) یا ایک بار سورۂ یٰسین پڑھیں، بلکہ ہوسکے تو دونوں ہی پڑھ لیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک فرد یٰسین شریف بلند آواز سے پڑھے اور دوسرے خاموشی سے سنیں۔ اس میں یہ خیال رکھیں کہ دوسرا اس دوران زبان سے یٰس شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے۔ انشاء اﷲ رات شروع ہوتے ہی ثواب کا انبار لگ جائے گا۔ ہر بار یٰس شریف کے بعد دعائے نصف شعبان بھی پڑھیں۔

مغرب کے بعد کی جانے والی یہ عبادت نفلی ہے، فرض یا واجب نہیں۔ مغرب کے بعد نوافل و تلاوت کی شریعت میں کہیں ممانعت بھی نہیں لہٰذا ممکن ہو تو تمام حضرات اپنی مساجد میں اس کا اہتمام فرمائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں۔ خواتین اپنے گھروں میں اس کا اہتمام کریں۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات سرور کائنات ﷺ کو جنت البقیع میں دیکھا۔ آپؐ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ''بے شک! اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے۔''

شب برأت میں مردوں کا قبرستان جانا سنت ہے، البتہ خواتین کو شرعاً اجازت نہیں ہے۔ شب برأت، جہنم کی آگ سے برأت یعنی چھٹکارا پانے کی رات ہے۔ اس میں دل و جان سے اﷲ کی عبادت کی جائے، اس کی رضا اور خوش نودی حاصل کی جائے اور آتش بازی جیسے فعل حرام سے اجتناب کیا جائے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو اس مقدس رات کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

دعائے شب برات
ترجمہ: '' اے اﷲ عزوجل، اے احسان کرنے والے کہ جس پر احسان نہیں کیا جاتا، اے بڑی شان و شوکت والے، اے فضل و انعام والے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پریشان حالوں کا مددرگار، پناہ مانگنے والوں کو پناہ اور خوف زدوں کو امان دینے والا ہے۔

اے اﷲ! اگر تو اپنے یہاں اُم الکتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مجھے شقی (بدبخت)، محروم، دھتکارا ہوا اور رزق میں تنگی دیا ہوا لکھ چکا ہے تو اے اﷲ! اپنے فضل و کرم سے میری بدبختی، محرومی، ذلت اور رزق کی تنگی کو مٹادے اور اپنے پاس ام الکتاب میں مجھے خوش بخت، رزق دیا ہوا اور بھلائیوں کی توفیق دیا ہوا ثبت فرما دے کہ تو نے ہی تیری نازل کی ہوئی کتاب میں تیرے ہی بھیجے ہوئے نبیؐ کی زبان کا فرمانا اور تیرا فرمانا حق ہے: '' اﷲ جو چاہے مٹاتا ہے اور ثابت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے۔''

اے اﷲ! تجلی اعظم کے وسیلے سے جو نصف شعبان المکرم کی رات میں ہے کہ جس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام اور اٹل کر دیا جاتا ہے۔ یا اﷲ! ان تمام مصیبتوں اور مشکلات کو ہم سے دور فرما کہ جنھیں ہم جانتے اور جنھیں ہم نہیں جانتے جب کہ تو انھیں سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ بے شک تو سب سے بڑھ کر قوت والا اور عزت والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے سردار محمد (ﷺ) پر اور آپ کی آل و اصحابؓ پر درود و سلام بھیج، تمام تر خوبیاں سب جہاں کے پالنے والے اﷲ تعالیٰ کے لیے ہیں۔''

شب برأت، عبادت کی رات
آئیے، رحیم ربّ کی بارگاہ میں ندامت کے
آنسو بہائیں اور خلوصِ دل سے توبہ کریں
امام ترمذی ''السنن'' میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ایک رات میں نے حضور نبی اکرمؐ کو (بستر مبارک پر) موجود نہ پایا تو میں آپؐ کی تلاش میں نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپؐ (مدینہ منورہ کے قبرستان) جنت البقیع میں موجود ہیں۔

آپؐ نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: ''اے عائشہ! کیا تم اس با ت کا خوف رکھتی ہوکہ اﷲ اور اس کے رسولؐ تمھارے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی ناانصافی کریں گے۔'' میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: '' شعبان کی پندرہویں شب اﷲ تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف ایک خاص شان کے ساتھ نازل ہوتا ہے، اور (عرب میں سب سے زیادہ بکریاں رکھنے والے) قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو بخشتا ہے۔

امام ابن ماجہ ''السنن'' میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو اس رات قیام کیا کرو اور دن میں روزہ رکھا کرو۔ اس رات غروب آفتاب کے وقت سے ہی اﷲ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان قدرت کے ساتھ) نزولِ اِجلال فرماتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے گناہوں کی معافی مانگنے والا سو میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کے رزق میں وسعت پیدا کر دوں، ہے کوئی مصائب و آلام میں مبتلا شخص کہ مجھ سے مانگے سو میں اسے عافیت عطا کر دوں، ہے کوئی ایسا شخص ، کوئی ایسا شخص ہے، کوئی ایسا شخص ہے (ساری رات اﷲ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا رہتا ہے اور اپنی عطا و سخا کے دامن کو پھیلائے رکھتا ہے) حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔


آج کی رات جب رحمت الہٰی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیوں کہ اس وقت رحمت الہٰی پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی ہے بخشش مانگنے والا کہ اسے بخش دوں، کوئی ہے رزق کا طلب گار کہ میں اس کا دامن مراد بھردوں۔ امام ابن ماجہ ''السنن'' میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ سے بہترین دعا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ترجمہ: '' اے اﷲ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ پس اے بخشنے والے! ہمیں بھی بخش دے۔''

یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برات کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت و سعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔ من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بدامنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے۔

آئیے اس غفار، رحمن اور رحیم ربّ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہائیں اور خلوصِ دل سے توبہ کریں، حسبِ توفیق تلاوت کلام پاک کریں، نوافل پڑھیں۔ استغفار اور دیگر مسنون اَذکار کے ساتھ دلوں کی زمین میں بوئی جانے والی فصل تیار کریں اور پھر اسے آنسوؤں کی نہروں سے سیراب کریں تاکہ رمضان المبارک میں معرفت و محبت الہٰی کی کھیتی اچھی طرح نشوونما پاکر تیار ہو سکے۔

قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اْگی خود رَو جھاڑیوں کو (جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں) اکھاڑ سکے گی اور ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے قبولیت اور انجذاب کا مادہ پیدا ہو گا۔ سو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ماہ شعبان المعظم، عظیم ماہ رمضان المبارک کا ابتدائیہ اور مقدمہ ہے، جس میں ہم خود کو بہتر طور پر آنے والے مقدس مہینے کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔

لیلۃ البرأت
دعائوں کے مقبول ہونے کی رات
اہل ایمان اس مبارک شب میں عبادت، تسبیح،
تقدیس، ذکر اور تلاوت قرآن مجید میں مصروف رہیں اور اگلے دن کا روزہ رکھیں
شعبان نیکیوں اور بھلائیوں کا مہینہ ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ شعبان المعظم میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔

شعبان کو معظم و مکرم اس لیے کہا گیا ہے، کیوں کہ اس ماہ مبارک کی چودھویں اور پندرھویں تاریخوں میں فضیلت و برکت والی وہ رات آتی ہے جسے ''لیلۃ البرأت'' کہا گیا ہے۔ برأت کے معنیٰ کسی کو کسی ذمے داری سے آزاد کردینے کے ہیں۔ اس کو عوام الناس شب برأت کہتے ہیں جس کے بے شمار اوصاف بیان ہوئے ہیں۔

قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''قسم ہے اس روشن کتاب کی! بے شک! ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، اس شب میں ہر حکمت والا کام ہمارے حکم سے بانٹ دیا جاتا ہے۔ بے شک! ہم بھیجنے والے ہیں۔'' اس آیت میں برکت والی رات سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔ پس اس آیت مبارکہ سے اس ماہ اور خاص کر پندرھویں رات کی فضیلت واضح ہوگئی۔

حضور نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:''جب نصف شعبان کی پندرھویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ اس رات میں سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کوئی ہے مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ کوئی ہے روزی مانگنے والا کہ میں اسے روزی دوں، اور ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے صحت و عافیت مرحمت کروں؟''

شب برأت میں بندہ سال گذشتہ کے حساب کتاب سے بری ہوجاتا ہے اور آئندہ سال کے لیے بے مرادوں کو مراد، رزق سے محروم لوگوں کو رزق، بے روزگاروں کو روزگار، بے اولادوں کو اولاد، پریشان حالوں کو اطمینان ، بے قراروں کو سکون اور تنگ دستوں کو خوش حالی کی دولت سے سرفراز فرمایا جاتا ہے۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا:''نصف شعبان کی رات اﷲ تعالیٰ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زاید لوگوں کو بخش دیتا ہے۔''

اسی لیے اس رات کو لیلۃ الرحمہ یعنی رحمت والی رات بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عباس سے روایت ہے کہ جبرئیل امین بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:''یا رسول اﷲ! یہ وہ رات ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ آپؐ نماز پڑھیے اور دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائیے۔''
حضور ﷺ نے دریافت فرمایا:''یہ رات کیسی ہے؟''

جبرئیل ؑنے عرض کیا:''یہ وہ رات ہے جس میں رحمت کے تین سو دروازے کھل جاتے ہیں، اﷲ تعالیٰ اس رات میں ہر اس شخص کی مغفرت فرماتا ہے جو مغفرت مانگے، سوائے ان دس افراد کے:
مشرک، کاہن، جادوگر، کینہ پرور، والدین کا نافرمان، سود خور، چغل خور، شرابی، زانی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔''
یہی وہ رحمتوں بھری رات ہے جس میں رحمتوں کے حصول کی خاطر حضور ﷺ تمام شب عبادتوں میں گزار دیتے تھے۔

حضور ﷺ کا ارشاد پاک ہے:''شعبان کی فضیلت دوسرے مہینوں پر ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تمام انبیائے کرام پر۔''
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:''اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں سے جو شخص مالا مال ہونا چاہے تو اس کو چاہیے کہ وہ شعبان المعظم میں تزکیہ نفس، اصلاح باطنی اور طہارت روح کا خاص طور پر اہتمام کرے، یعنی اپنے کو توبہ و استغفار کرکے گناہوں سے پاک و صاف کرے اور اپنے باطن یعنی دل کو کدورت، کینہ، بغض و حسد سے خالی کرکے دربار خداوندی میں عاجزی و انکساری سے دعا کرے۔''

شب برأت میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر غیر معمولی اور خاص رحمت و عنایت فرماتا ہے اور اس شب مانگی جانے والی دعائوں کو شرف قبولیت بخشتا ہے۔ امت مسلمہ پر اﷲ رب العزت کے یہ احسانات عظیم ہمارے پیارے نبی سرور عالم ﷺکے صدقے میں ہیں کہ آپؐ خاتم الانبیاء ہیں اور امت مسلمہ، خاتم الامم، اب قیامت تک نہ کوئی نبی اور رسول مبعوث ہوگا اور نہ کوئی امت وجود میں آئے گی۔

جس طرح رب کریم نے اپنے محبوب ﷺ پر اپنی نعمتوں کی تکمیل فرما دی ہے، اسی طرح آپؐ کی امت پر بھی ان تمام نعمتوں کی تکمیل فرما دی جن نعمتوں سے سابقہ امتوں کو نوازا گیا تھا۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب اور تقرب الی اﷲ حاصل کرنے کے لیے امت محمدی ﷺ کو ایسے دن اور ایسی ایسی راتیں اور ایسی ساعتیں دے دی گئی ہیں کہ جن میں عبادت کا ثواب اور دنوں کے مقابلے میں بے حد و حساب عطا فرمایا گیا ہے، تاکہ امت محمدیہؐ مختصر وقت میں اتنا اجر و ثواب حاصل کرلے جتنا سابقہ امتوں کو طویل عرصے تک عبادت میں بھی حاصل نہ ہوسکا۔

حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ''جو شخص بہ نیت عبادت پندرھویں شب کو غسل کرے تو پانی کے ہر قطرے کے عوض اﷲ تعالیٰ اسے اجر و ثواب عطا فرمائے گا، بعد غسل تحت الوضو پڑھے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک بار اور سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھے، اس کے بعد آٹھ رکعت نماز نفل، دو دو رکعت کی نیت کرکے اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک مرتبہ، سورۂ اخلاص پچیس مرتبہ پڑھے تو اﷲ تبارک تعالیٰ اس کو گناہوں سے پاک کردے گا۔''

مزید ارشاد ہوتا ہے:''جو شخص سو رکعت دو دو رکعت کی نیت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے تو اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، اس کی تمام حاجات پوری ہوں گی، جنت اس کے لیے حلال اور دوزخ اس کے لیے حرام ہوگی۔''

اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ اس مبارک شب میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت، تسبیح، تقدیس، ذکر اور تلاوت قرآن مجید میں مصروف رہیں اور اگلے دن کا روزہ رکھیں۔ جو شخص پندرہ شعبان المعظم کو روزہ رکھے گا، دوزخ کی آگ اسے نہ چھوئے گی۔

حدیث میں آیا ہے:''جو شخص اس رات میں سو نوافل ادا کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس شخص کے لیے سو فرشتوں کو مامور کردیتا ہے۔ تیس اسے جنت کی بشارت دیں، تیس عذاب و غضب سے امان دیں، تیس دنیا کی بلائوں آفتوں سے دور رکھیں، اور دس شیطان کے مکر و فریب اور دھوکے سے بچائیں۔''

شب برأت تجلیات و انوار کی رات ہے، اﷲ تعالیٰ اس شب میں تمام امت مسلمہ کو اعمال صالح کی توفیق عطا فرمائے اور اس شب کی برکات و انوار سے مستفید فرمائے، آمین
Load Next Story