میں اس سے کیا کیا چھپاؤں
ایک کامیاب خوبصورت سیاستدان اپنے جوان بیٹے اور ایک کارکن کے ہمراہ گھر کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا
JAKARTA/KARACHI:
میں ان دنوں امریکا کے ایک معروف تعلیمی ادارے سے گریجویشن کر کے مزید تعلیم سے پہلے ملنے کے لیے گھر آنے والے اپنے نواسے انس حیدر اعوان سے چُھپتا پِھرتا ہوں۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ وقت اپنے نانا سے چمٹا رہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ بے فکر دوستوں سے ملتا ملاتا رہے اور خوش رہے۔ وہ پاکستان واپسی کے دوسرے دن ہی میرے پاس چلا آیا لیکن ٹی وی پر وہ کچھ دکھایا جا رہا تھا جو میں نہ دیکھنا چاہتا تھا اور نہ اسے دکھانا چاہتا تھا۔
ایک کامیاب خوبصورت سیاستدان اپنے جوان بیٹے اور ایک کارکن کے ہمراہ گھر کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا جس کا بہت بڑا جنازہ اس کی مقبولیت کا ثبوت تھا لیکن اس کی یہ مقبولیت اس کی زندگی نہ بچا سکی اور وہ کسی سیاسی اختلاف یا دشمنی کی نذر ہو گیا یعنی ہمارے ہاں سیاسی اختلاف کا حل مکالمے اور گفتگو میں نہیں گولی میں ہے اور یہ گولی ہی کوئی مسئلہ حل کر سکتی ہے۔
میں اس سیاستدان سے جو کئی بار وزیر رہا اور بار بار الیکشن جیتتا رہا کبھی ملا نہیں تھا لیکن الیکشن میں مسلسل کامیابی اور وزارتیں اس کی کامیاب سیاست کی شہادت تھیں مگر اس کی ہر سیاسی کامیابی کا حتمی نتیجہ اس کی موت کی صورت میں اس کے ووٹروں اور دوستوں کے سامنے آیا۔ پاکستانی سیاست کی یہ ایک ایسی جھلک تھی جو ہم بلاناغہ دیکھتے ہیں اب میں اپنے اس امریکا پلٹ اور وہاں کے کامیاب طالب علم کو کیا دکھاتا کہ تم جس قوم کے نوجوان ہو وہ کیا ہے اور تمہیں اس قوم میں انسانیت پیدا کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا ہو گا۔
انس نے ہمارے جیسے قلمی مزدور کی برائے نام مالی مدد اور حوصلہ افزائی سے امریکا کے ایک مشہور اور خوشحال تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی اور ایک کامیاب طالب علم بن کر وقت گزارا۔ وہ ایچی سن کا طالب علم تھا اور انٹرنیٹ کی مدد اور معلومات سے اس نے اس امریکی ادارے کی اسکالر شپ حاصل کی اور امریکیوں کو بتا دیا کہ تم لوگوں نے جس طالب علم کو اسکالر شپ دی تھی وہ اس کا حقدار تھا۔
اس نے نہ صرف تعلیم میں نمایاں کامیابی حاصل کی کالج کی زندگی میں ایک ایسا کردار ادا کیا کہ اسے اس ادارے نے اپنے خرچ پر کلاس کا مانیٹر بھی بنا دیا اور ساتھ ہی ہوسٹل کے امن و امان کا ذمے دار بھی اس طرح اس نے ایک باعزت زندگی بھی گزاری اور اب جب اس نے گریجویشن کر لی تو اس کے مضمون میں امریکا کی اول نمبر یونیورسٹی اور امریکا کی ساتویں بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔
اس یونیورسٹی میں بیرونی طلبہ میں بھارتیوں کو ہی داخلہ ملتا ہے اور پاکستانیوں کو نہیں ملا کرتا لیکن انس کا تعلیمی نتیجہ اتنا شاندار تھا کہ اسے داخلہ مل گیا اور اس کے پروفیسروں نے اسے اس کامیابی پر مبارک باد بھی دی۔ امریکا مقابلے کی دنیا ہے اگر آپ میں ہمت ہے اور آپ کامیابی کو حاصل کر سکتے ہیں تو آپ کے لیے راستہ کھلا ہے کوئی آپ کو روکے گا نہیں جتنی ہمت ہو اتنا ہی آگے بڑھتے جائیں۔
اب اس کامیاب بچے کو جب میں اپنے پاس بیٹھا دیکھتا ہوں اور اپنی گود میں اس کا بچپن یاد کرتا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی نظریں بچا کر اپنے آپ کو اپنے ملک اور اپنے ملک کے ماحول کو چھپا کر کہاں لے جاؤں اور اس کی ایک جھلک بھی اسے دیکھنے نہ دوں لیکن وہ بہر حال پاکستانی ہے اور پاکستان کو اس سے چھپایا نہیں جا سکتا۔
قتل و خونریزی ہو یا چوری اور ڈاکا زنی یہ سب اس ملک کا ایک کلچر ہے۔ وہ یا تو اسے بدلنے کی کوشش کرے یا پھر اس کے رنگ میں رنگ جائے اور قتل تو دنیا میں شاید ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن کیا دو تین آوارہ کتے بچوں کو کاٹ کاٹ کر موت کی گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ رحیم یار خان میں یہی کچھ آج ہی ہوا ہے کہ کتے بچوں کو مار گئے۔ یہ کیا ہے اور اس کے حکمران کیا ہیں جو اپنے بچوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے اور پاکستانی بچے کتے کی موت مر جاتے ہیں۔
اس ایک دن میں اور بھی بہت کچھ ٹی وی پر دکھایا گیا جو میں نے پہلے تو چینل بدل کر چھپا دیا لیکن پھر ہر چینل یہی کچھ دکھا رہا تھا جسے چھپانا ممکن نہیں تھا آخر میں ہم آپ کب تک اپنے بچوں سے اس پاکستان کو چھپاتے پھریں جو زندگی کے ہر موڑ کے پاس کھڑا ہے اور نعرہ زن ہے۔ انس نے بے حد محنت کی اور اسے احساس تھا کہ وہ گھر والوں کی خون پسینے کی کمائی سے پڑھ رہا ہے اس سے اسے ایسا نام پیدا کرنا ہے جس سے اس کے گھر والے نہ صرف مطمئن ہو جائیں بلکہ اس پر فخر بھی کریں۔
باتوں باتوں میں انس سے میں نے کہا کہ بیٹے تم خوامخواہ جان ہلکان کرتے رہے ہو میں تمہیں جس ملک کی اور جس یونیورسٹی کی ڈگری چاہو لے کر دے سکتا ہوں۔ ہم پاکستانیوں نے زندگی کے اس تعلیمی شعبے میں بھی کمال حاصل کر لیا ہے اور دنیا بھر میں ہماری تعلیمی ڈگریوں کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ پہلے تو ہم نے ملک کے اندر فتویٰ دیا اور یہ فتویٰ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ نے دیا تھا کہ ڈگری جعلی نہیں ہوتی ڈگری ڈگری ہوتی ہے چنانچہ اسی اصول کو عام کرنے کی ہمارے ایک دیہاتی نوجوان نے ٹھان لی اور پھر اس میں کمال حاصل کر لیا۔
خود اس کے ہموطن بھی حیران رہ گئے۔ پاکستانی ڈگریاں ذرا عام ہو گئی ہیں ورنہ میں بھی شوقیہ دو چار ڈگریاں لینا چاہتا تھا اور اپنے نام کے ساتھ زیادہ نہیں تو ڈاکٹر عبدالقادر حسن لکھوا لیتا۔ ہمارے ہاں حیرت انگیز طور پر احساس کمتری یا احساس برتری کے مارے ہوئے بعض لوگوں کو کسی پاکستانی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دے دی۔ ایسی ڈگری ہمارے وزیر اعظم کے پاس بھی ہو گی۔
بعض بااثر اور مشہور لوگوں نے بھی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لی اور اپنے ذرایع کی مدد سے اسے نام کے ساتھ نتھی کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے اور آخر دم تک وہ ڈاکٹر رہے آخر تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس مرض کے ڈاکٹر ہیں یا کوئی ہومیو پیتھ ڈاکٹر ہیں جو ہر مرض کا ڈاکٹر ہوتا ہے۔
میں گزشتہ دنوں معائنے کے لیے ایک دوست ڈاکٹر کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ناراض نہ ہوں آپ کیا اسی مرض کے ڈاکٹر ہیں جو مجھے لاحق ہے اور جس کے لیے میں آپ کے پاس حاضر ہوتا رہتا ہوں۔ ڈاکٹر نے جواب دیا آپ کالم لکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ بتائیں کہ فلاں تکلیف میں کچھ افاقہ ہوا ہے یا نہیں بلکہ ہماری پاکستانی ڈگریوں کا حال تو اب یہ ہے کہ کسی کے پاس بھی ایک نہیں کئی ڈگریاں اس کے بریف کیس میں محفوظ ہوتی ہیں اور وہ کوئی بھی علاج کرنا شروع کر دیتا ہے اور کسی بڑے مشکل اور مشہور موضوع پر لیکچر دینا شروع کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس موضوع کا ڈاکٹر بھی ہوتا ہے۔
ڈگریوں کی یہ ریل پیل دیکھ کر میں چاہتا ہوں کہ انس کو اس کی پسند کی کوئی ڈگری لے دوں اور اسے واپس امریکا نہ جانے دوں میں اس سے اداس ہو جاتا ہوں اور اداسی کا آسان علاج اب دستیاب ہو چکا ہے مگر بہت تاخیر سے اگر پہلے ہوتا تو ہم بھی ڈاکٹر بن کر قارئین اور ایڈیٹر تک پر رعب جما سکتے تھے لیکن اپنی اپنی قسمت اب بچوں کو اس نعمت سے مالا مال کرنے کی کوشش کیوں نہ کریں اور اس قیمتی وقت اور موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
میں ان دنوں امریکا کے ایک معروف تعلیمی ادارے سے گریجویشن کر کے مزید تعلیم سے پہلے ملنے کے لیے گھر آنے والے اپنے نواسے انس حیدر اعوان سے چُھپتا پِھرتا ہوں۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ وقت اپنے نانا سے چمٹا رہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ بے فکر دوستوں سے ملتا ملاتا رہے اور خوش رہے۔ وہ پاکستان واپسی کے دوسرے دن ہی میرے پاس چلا آیا لیکن ٹی وی پر وہ کچھ دکھایا جا رہا تھا جو میں نہ دیکھنا چاہتا تھا اور نہ اسے دکھانا چاہتا تھا۔
ایک کامیاب خوبصورت سیاستدان اپنے جوان بیٹے اور ایک کارکن کے ہمراہ گھر کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا جس کا بہت بڑا جنازہ اس کی مقبولیت کا ثبوت تھا لیکن اس کی یہ مقبولیت اس کی زندگی نہ بچا سکی اور وہ کسی سیاسی اختلاف یا دشمنی کی نذر ہو گیا یعنی ہمارے ہاں سیاسی اختلاف کا حل مکالمے اور گفتگو میں نہیں گولی میں ہے اور یہ گولی ہی کوئی مسئلہ حل کر سکتی ہے۔
میں اس سیاستدان سے جو کئی بار وزیر رہا اور بار بار الیکشن جیتتا رہا کبھی ملا نہیں تھا لیکن الیکشن میں مسلسل کامیابی اور وزارتیں اس کی کامیاب سیاست کی شہادت تھیں مگر اس کی ہر سیاسی کامیابی کا حتمی نتیجہ اس کی موت کی صورت میں اس کے ووٹروں اور دوستوں کے سامنے آیا۔ پاکستانی سیاست کی یہ ایک ایسی جھلک تھی جو ہم بلاناغہ دیکھتے ہیں اب میں اپنے اس امریکا پلٹ اور وہاں کے کامیاب طالب علم کو کیا دکھاتا کہ تم جس قوم کے نوجوان ہو وہ کیا ہے اور تمہیں اس قوم میں انسانیت پیدا کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا ہو گا۔
انس نے ہمارے جیسے قلمی مزدور کی برائے نام مالی مدد اور حوصلہ افزائی سے امریکا کے ایک مشہور اور خوشحال تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی اور ایک کامیاب طالب علم بن کر وقت گزارا۔ وہ ایچی سن کا طالب علم تھا اور انٹرنیٹ کی مدد اور معلومات سے اس نے اس امریکی ادارے کی اسکالر شپ حاصل کی اور امریکیوں کو بتا دیا کہ تم لوگوں نے جس طالب علم کو اسکالر شپ دی تھی وہ اس کا حقدار تھا۔
اس نے نہ صرف تعلیم میں نمایاں کامیابی حاصل کی کالج کی زندگی میں ایک ایسا کردار ادا کیا کہ اسے اس ادارے نے اپنے خرچ پر کلاس کا مانیٹر بھی بنا دیا اور ساتھ ہی ہوسٹل کے امن و امان کا ذمے دار بھی اس طرح اس نے ایک باعزت زندگی بھی گزاری اور اب جب اس نے گریجویشن کر لی تو اس کے مضمون میں امریکا کی اول نمبر یونیورسٹی اور امریکا کی ساتویں بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔
اس یونیورسٹی میں بیرونی طلبہ میں بھارتیوں کو ہی داخلہ ملتا ہے اور پاکستانیوں کو نہیں ملا کرتا لیکن انس کا تعلیمی نتیجہ اتنا شاندار تھا کہ اسے داخلہ مل گیا اور اس کے پروفیسروں نے اسے اس کامیابی پر مبارک باد بھی دی۔ امریکا مقابلے کی دنیا ہے اگر آپ میں ہمت ہے اور آپ کامیابی کو حاصل کر سکتے ہیں تو آپ کے لیے راستہ کھلا ہے کوئی آپ کو روکے گا نہیں جتنی ہمت ہو اتنا ہی آگے بڑھتے جائیں۔
اب اس کامیاب بچے کو جب میں اپنے پاس بیٹھا دیکھتا ہوں اور اپنی گود میں اس کا بچپن یاد کرتا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی نظریں بچا کر اپنے آپ کو اپنے ملک اور اپنے ملک کے ماحول کو چھپا کر کہاں لے جاؤں اور اس کی ایک جھلک بھی اسے دیکھنے نہ دوں لیکن وہ بہر حال پاکستانی ہے اور پاکستان کو اس سے چھپایا نہیں جا سکتا۔
قتل و خونریزی ہو یا چوری اور ڈاکا زنی یہ سب اس ملک کا ایک کلچر ہے۔ وہ یا تو اسے بدلنے کی کوشش کرے یا پھر اس کے رنگ میں رنگ جائے اور قتل تو دنیا میں شاید ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن کیا دو تین آوارہ کتے بچوں کو کاٹ کاٹ کر موت کی گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ رحیم یار خان میں یہی کچھ آج ہی ہوا ہے کہ کتے بچوں کو مار گئے۔ یہ کیا ہے اور اس کے حکمران کیا ہیں جو اپنے بچوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے اور پاکستانی بچے کتے کی موت مر جاتے ہیں۔
اس ایک دن میں اور بھی بہت کچھ ٹی وی پر دکھایا گیا جو میں نے پہلے تو چینل بدل کر چھپا دیا لیکن پھر ہر چینل یہی کچھ دکھا رہا تھا جسے چھپانا ممکن نہیں تھا آخر میں ہم آپ کب تک اپنے بچوں سے اس پاکستان کو چھپاتے پھریں جو زندگی کے ہر موڑ کے پاس کھڑا ہے اور نعرہ زن ہے۔ انس نے بے حد محنت کی اور اسے احساس تھا کہ وہ گھر والوں کی خون پسینے کی کمائی سے پڑھ رہا ہے اس سے اسے ایسا نام پیدا کرنا ہے جس سے اس کے گھر والے نہ صرف مطمئن ہو جائیں بلکہ اس پر فخر بھی کریں۔
باتوں باتوں میں انس سے میں نے کہا کہ بیٹے تم خوامخواہ جان ہلکان کرتے رہے ہو میں تمہیں جس ملک کی اور جس یونیورسٹی کی ڈگری چاہو لے کر دے سکتا ہوں۔ ہم پاکستانیوں نے زندگی کے اس تعلیمی شعبے میں بھی کمال حاصل کر لیا ہے اور دنیا بھر میں ہماری تعلیمی ڈگریوں کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ پہلے تو ہم نے ملک کے اندر فتویٰ دیا اور یہ فتویٰ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ نے دیا تھا کہ ڈگری جعلی نہیں ہوتی ڈگری ڈگری ہوتی ہے چنانچہ اسی اصول کو عام کرنے کی ہمارے ایک دیہاتی نوجوان نے ٹھان لی اور پھر اس میں کمال حاصل کر لیا۔
خود اس کے ہموطن بھی حیران رہ گئے۔ پاکستانی ڈگریاں ذرا عام ہو گئی ہیں ورنہ میں بھی شوقیہ دو چار ڈگریاں لینا چاہتا تھا اور اپنے نام کے ساتھ زیادہ نہیں تو ڈاکٹر عبدالقادر حسن لکھوا لیتا۔ ہمارے ہاں حیرت انگیز طور پر احساس کمتری یا احساس برتری کے مارے ہوئے بعض لوگوں کو کسی پاکستانی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دے دی۔ ایسی ڈگری ہمارے وزیر اعظم کے پاس بھی ہو گی۔
بعض بااثر اور مشہور لوگوں نے بھی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لی اور اپنے ذرایع کی مدد سے اسے نام کے ساتھ نتھی کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے اور آخر دم تک وہ ڈاکٹر رہے آخر تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس مرض کے ڈاکٹر ہیں یا کوئی ہومیو پیتھ ڈاکٹر ہیں جو ہر مرض کا ڈاکٹر ہوتا ہے۔
میں گزشتہ دنوں معائنے کے لیے ایک دوست ڈاکٹر کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ناراض نہ ہوں آپ کیا اسی مرض کے ڈاکٹر ہیں جو مجھے لاحق ہے اور جس کے لیے میں آپ کے پاس حاضر ہوتا رہتا ہوں۔ ڈاکٹر نے جواب دیا آپ کالم لکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ بتائیں کہ فلاں تکلیف میں کچھ افاقہ ہوا ہے یا نہیں بلکہ ہماری پاکستانی ڈگریوں کا حال تو اب یہ ہے کہ کسی کے پاس بھی ایک نہیں کئی ڈگریاں اس کے بریف کیس میں محفوظ ہوتی ہیں اور وہ کوئی بھی علاج کرنا شروع کر دیتا ہے اور کسی بڑے مشکل اور مشہور موضوع پر لیکچر دینا شروع کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس موضوع کا ڈاکٹر بھی ہوتا ہے۔
ڈگریوں کی یہ ریل پیل دیکھ کر میں چاہتا ہوں کہ انس کو اس کی پسند کی کوئی ڈگری لے دوں اور اسے واپس امریکا نہ جانے دوں میں اس سے اداس ہو جاتا ہوں اور اداسی کا آسان علاج اب دستیاب ہو چکا ہے مگر بہت تاخیر سے اگر پہلے ہوتا تو ہم بھی ڈاکٹر بن کر قارئین اور ایڈیٹر تک پر رعب جما سکتے تھے لیکن اپنی اپنی قسمت اب بچوں کو اس نعمت سے مالا مال کرنے کی کوشش کیوں نہ کریں اور اس قیمتی وقت اور موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔