پولیس اور سیاستدان
جون کا مہینہ آب و تاب سے آگ برسا رہا ہے، گزشتہ سال کے یہی دن تھے جب لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا
جون کا مہینہ آب و تاب سے آگ برسا رہا ہے، گزشتہ سال کے یہی دن تھے جب لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا۔ اب حال ہی میں ڈسکہ میں پولیس کوایک بار پھر ندامت کا سامنا کرنا پڑ ا، یہ بعد کی بات ہے کہ ایس ایچ او نے پرانی دشمنی کی وجہ سے وکلاء کو قتل کیا یا سرکاری احکامات کی تعمیل کی یا یہ کوئی انسانی نفسیاتی برتری کا عمل تھا، اس کا ذکر میں اگلے کالم میں کروں گا۔ کسی بھی سیاسی و دینی جماعت سے ہزار اختلاف مگر ریاست کا اپنے عوام پر اس طرح تشدد کرنا ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ہر دور کے حکمران پولیس کو بہتر انداز میں چلانے کے ہزار ہا دعوے کرتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پولیس سو فیصد سیاست میں ملوث ہے۔
پاکستانی پولیس قیام پاکستان سے لے کر 2002ء تک یعنی 55سال انگریزوں کے قائم کردہ پولیس ایکٹ 1861 کے تحت کام کرتی رہی۔ اس قانون کا تاریخی پس منظر یہ تھا کہ یہ 1857 کی ناکام جنگِ آزادی کے کُچلے جانے کے بعد ردّعمل کے طور پر نافذ کیا گیا تھا تاکہ مقامی آبادی میں اُٹھنے والی ہر حکومت مخالف سرگرمی کو طاقت کے زور پر دبایا جاسکے۔ یہ عوام کو ظلم وستم اور زیادتیوں سے بچانے کے لیے نہیں بلکہ انھیں مزید دبانے کے لیے لاگو کیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد بھی چہرے بدل گئے مگر قانون کا مزاج نہیں بدلا بلکہ مقامی حکمران طبقوں نے اس میں مزید آمرانہ روایات کا اضافہ کیا۔
1980کی دہائی میں معاشرے میں ہر طرف سے پولیس کی کارکردگی سے مایوسی کی آوازیں اُٹھنا شروع ہوئیں اور پولیس نظام میں اصلاحات کی باتیں شروع ہوئیں۔ اب تک 30 سے زیادہ ہائی لیول کمیٹیاں اور کمیشن تشکیل دیے جاچکے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔ بقول شاعر
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
ماضی میں ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں نے میرٹ کو نظرانداز کرکے پولیس میں اپنے لوگ بھرتی کرائے۔ ان غیر قانونی بھرتیوں میںکسی کا کردار دیکھا گیا نہ بیک گراؤنڈ۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے ملک بھر میں پولیس سیاست میں ملوث ہے۔
پولیس افسروں کے تقرر و تبادلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں اسی لیے تو حکومت بدلنے کے ساتھ ہی اعلیٰ سطح سے لے کر نچلی سطح تک کے تبادلے شروع ہوجاتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ پولیس خالصتاََ حکمرانوں کے 'احسانات' تلے دبا ہوا ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں پولیس تھانے کے بادشاہ بن جاتے ہیں۔
ایک ایم پی اے کے حلقے میں اوسطاً تین اور ایم این اے کے حلقہ میں 6تھانے آتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان تھانوں میں ان کی مرضی کے SHO تعینات کیے جائیں تاکہ وہ انھیں اپنے مقاصد میں استعمال کرسکیں۔ ہر حکمران جماعت پولیس کو اپنے ذاتی ملازمین کی طرح استعمال کرتی ہے۔ پولیس افسران اپنی نوکری بچانے اور اپنی مرضی کی پوسٹنگ کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پولیس کے 25فیصد سے 35فیصد تک حاضر سروس ملازمین کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو وہ کسی نہ کسی جرم یا الزام میں ملوث ہونے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ پولیس میں محکمانہ سزاؤں کا نظام بہت کمزور ہے۔
SHO کے خلاف انکوائری ہو تو اس کی تحقیقات کرنے والے اس کے رُفقائے کار ہی ہوتے ہیں جو اسے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ پولیس کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ایک پرائیویٹ TV چینل نے خبر دی ہے کہ ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹوں میں وزیراعلیٰ پنجاب کو لکھا گیا ہے کہ ضلع فیصل آباد میں پولیس کے بعض افسران اغواء برائے تاوان کے واقعات میں ملوث ہیں۔ خبر کے مطابق وزیراعلیٰ کے پاس ایسے افسران کا ریکارڈ موجود ہے ۔
میں اگر کھلے لفظوں بات کروں گا تو کئی دوست ناراض ہو جائیں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس محکمے میں جتنی کرپشن ہے، شاید ہی کسی ادارے میں ہوگی۔ ہمارے پولیس والے حکمرانوں کی شہہ پر فرعون بن جاتے ہیں۔ رفیق سندیلوی اسے اپنے شعر میں یوں بیان کرتے ہیں۔
چمن میں جو بھی تھے نافذ اصول اْس کے تھے
تمام کانٹے ہمارے تھے، پھول اْس کے تھے
پولیس کی نئی بھرتی کے وقت سیاست دانوں کی طرف سے لسٹیں آجاتی ہیں کہ ان لوگوں کو بھرتی کرو۔۔۔ مستحق اور میرٹ پر پورا اترنے والے امیدوار بے چارے صبح شام دھکے کھاتے ہیں انھیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پولیس میں ہر سائز کا دماغ خصوصاََ موٹا دماغ ضرور ملے گا جن کی غفلت کی وجہ ہی سے اس محکمے کی ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ہے۔
مثلاََ کبھی ہماری پولیس گجرات کی مقامی عدالت میں بڑے جرم کے الزام میں 12ماہ کے ننھے فرشتے محمد ابراہیم کو جعلی ووٹ کاسٹ کرنے اور وال چاکنگ کے الزام میںپیش کرتی ہے تو کبھی 8 سالہ 'پتنگ باز' کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کرتی ہے، کبھی 4سالہ کمسن بچے پر ڈکیتی کا مقدمہ درج کرکے عدالت پیش کرتی ہے تو کبھی دوسری جماعت کے طالب علم کو راہزنی کے مقدمے میں نامزد کرتی ہے اور تو اور ایک چھ سالہ بچہ اپنی ماں اور ماموں کے ساتھ عدالت کینٹ کچہری پہنچتا ہے جس پر خاتون سے چھیڑ خانی اور لڑائی جھگڑے کا مقدمہ درج ہے۔
اگر ہماری پولیس ایک آزاد ادارہ ہوتی تو کبھی کوئی سیاستدان پولیس کو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال نہ کرتا۔ زیادتیوں، جعلی مقابلوں، رشوت، لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھانسنے، بے گناہوں پر ظلم اور بااثر افراد کی خوشنودی کے لیے غیر قانونی کاموں کے لیے آخری حد تک چلے جانے کی جتنی شکایات ہیں اتنی شکایات کسی اور ملک کی پولیس کی نہیں ہوسکتیں۔ عوام کی خدمت، جرائم کا سدباب، مجرموں کی گرفت اب اکثر پولیس افسروں اور اہلکاروں کا فرض نہیں رہا، اسی لیے بدامنی اور جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
اگر فرض شناس اعلیٰ افسران پولیس کی رہی سہی عزت بچانا اور شہریوں کے دلوں میں احترام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں خود کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ آج بھی پولیس میں اچھے اور مثالی افسران موجود ہیں جن کی تقلید کی جانی چاہیے۔ عوام کو ایک عوام دوست پولیس فورس چاہیے۔ وہ دستیاب ہوجائے تو بدامنی کا خاتمہ نا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی حالات، نئی ٹیکنالوجی، سائنسی ایجادات، نئے سماجی وسیاسی حالات، بڑھتی ہوئی عوامی اُمنگوں اور سیکیورٹی خدشات کے پسِ منظر میں عوام الناس فطری طور پر ایسی پولیس کی توقع کرتے ہیں جو مستعد، ایماندار، جوابدہ، پیشہ وارانہ مہارت، عوام دوستی، کرائم فائٹنگ اور فوری حرکت میں آنے جیسی خوبیوں سے لیس ہو کیونکہ ہر معاشرے میں داخلی صورتحال میں ہم آہنگی کی بنیادی ذمے داری پولیس پر ہی ہوتی ہے، یہی وہ ایجنسی ہے جو سب سے پہلے مجرم کے مقام پر پہنچتی ہے اور ہمیشہ مجرموں کے خلاف سب سے پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔
ہمیں ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جس میں پولیس کے ترقیوں اور تبادلوں کا اختیار سیاستدانوں سے لے کر کسی مستقل ادارے کے پاس چلا جائے تو بہتری ہو سکتی ہے۔ اگر ہماری پولیس اپنی اصلاح خود کر لے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں جیسے نہتے شہریوں پر ظلم و ستم کرنے کے غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈر نہ مانے، معصوم شہریوں ماورائے عدالت قتل کرنے، عدلیہ بچاؤ تحریک میں جس طرح اپنی وردیاں اور بیلٹ اتار کر پھینک دیے گئے تھے اسی تسلسل کو آگے بڑھائے تاکہ جابر حکمرانوں اور افسران اپنی حدود میں رہیں تو ہر شہری پولیس زندہ باد کے نعرے لگائے گا۔
دہشت گردی اور بدامنی کرنیوالوں کو پروٹوکول نہ دیا جائے، پولیس، افواج اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والوں کیخلا ف میرٹ پر کارروائیاں ہوں، نہتے اور مظلوم شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیا جائے، قانون کی حکمرانی ہو، طاقتور اور مظلوم کے لیے ایک ہی قانون ہو توپھر کوئی بھی شہری پولیس گردی کا رونا نہیں روئے گا، ہر شخص کی زبان پر یہی الفاظ ہوں گے کہ انھیں اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرو انھیں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ،مظلوموں کی داد رسی کے لیے رہنے دو۔کیونکہ یہ لوگ بھی ہم سے اور ہم ان سے ہیں۔
پاکستانی پولیس قیام پاکستان سے لے کر 2002ء تک یعنی 55سال انگریزوں کے قائم کردہ پولیس ایکٹ 1861 کے تحت کام کرتی رہی۔ اس قانون کا تاریخی پس منظر یہ تھا کہ یہ 1857 کی ناکام جنگِ آزادی کے کُچلے جانے کے بعد ردّعمل کے طور پر نافذ کیا گیا تھا تاکہ مقامی آبادی میں اُٹھنے والی ہر حکومت مخالف سرگرمی کو طاقت کے زور پر دبایا جاسکے۔ یہ عوام کو ظلم وستم اور زیادتیوں سے بچانے کے لیے نہیں بلکہ انھیں مزید دبانے کے لیے لاگو کیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد بھی چہرے بدل گئے مگر قانون کا مزاج نہیں بدلا بلکہ مقامی حکمران طبقوں نے اس میں مزید آمرانہ روایات کا اضافہ کیا۔
1980کی دہائی میں معاشرے میں ہر طرف سے پولیس کی کارکردگی سے مایوسی کی آوازیں اُٹھنا شروع ہوئیں اور پولیس نظام میں اصلاحات کی باتیں شروع ہوئیں۔ اب تک 30 سے زیادہ ہائی لیول کمیٹیاں اور کمیشن تشکیل دیے جاچکے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔ بقول شاعر
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
ماضی میں ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں نے میرٹ کو نظرانداز کرکے پولیس میں اپنے لوگ بھرتی کرائے۔ ان غیر قانونی بھرتیوں میںکسی کا کردار دیکھا گیا نہ بیک گراؤنڈ۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے ملک بھر میں پولیس سیاست میں ملوث ہے۔
پولیس افسروں کے تقرر و تبادلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں اسی لیے تو حکومت بدلنے کے ساتھ ہی اعلیٰ سطح سے لے کر نچلی سطح تک کے تبادلے شروع ہوجاتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ پولیس خالصتاََ حکمرانوں کے 'احسانات' تلے دبا ہوا ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں پولیس تھانے کے بادشاہ بن جاتے ہیں۔
ایک ایم پی اے کے حلقے میں اوسطاً تین اور ایم این اے کے حلقہ میں 6تھانے آتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان تھانوں میں ان کی مرضی کے SHO تعینات کیے جائیں تاکہ وہ انھیں اپنے مقاصد میں استعمال کرسکیں۔ ہر حکمران جماعت پولیس کو اپنے ذاتی ملازمین کی طرح استعمال کرتی ہے۔ پولیس افسران اپنی نوکری بچانے اور اپنی مرضی کی پوسٹنگ کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پولیس کے 25فیصد سے 35فیصد تک حاضر سروس ملازمین کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو وہ کسی نہ کسی جرم یا الزام میں ملوث ہونے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ پولیس میں محکمانہ سزاؤں کا نظام بہت کمزور ہے۔
SHO کے خلاف انکوائری ہو تو اس کی تحقیقات کرنے والے اس کے رُفقائے کار ہی ہوتے ہیں جو اسے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ پولیس کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ایک پرائیویٹ TV چینل نے خبر دی ہے کہ ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹوں میں وزیراعلیٰ پنجاب کو لکھا گیا ہے کہ ضلع فیصل آباد میں پولیس کے بعض افسران اغواء برائے تاوان کے واقعات میں ملوث ہیں۔ خبر کے مطابق وزیراعلیٰ کے پاس ایسے افسران کا ریکارڈ موجود ہے ۔
میں اگر کھلے لفظوں بات کروں گا تو کئی دوست ناراض ہو جائیں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس محکمے میں جتنی کرپشن ہے، شاید ہی کسی ادارے میں ہوگی۔ ہمارے پولیس والے حکمرانوں کی شہہ پر فرعون بن جاتے ہیں۔ رفیق سندیلوی اسے اپنے شعر میں یوں بیان کرتے ہیں۔
چمن میں جو بھی تھے نافذ اصول اْس کے تھے
تمام کانٹے ہمارے تھے، پھول اْس کے تھے
پولیس کی نئی بھرتی کے وقت سیاست دانوں کی طرف سے لسٹیں آجاتی ہیں کہ ان لوگوں کو بھرتی کرو۔۔۔ مستحق اور میرٹ پر پورا اترنے والے امیدوار بے چارے صبح شام دھکے کھاتے ہیں انھیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پولیس میں ہر سائز کا دماغ خصوصاََ موٹا دماغ ضرور ملے گا جن کی غفلت کی وجہ ہی سے اس محکمے کی ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ہے۔
مثلاََ کبھی ہماری پولیس گجرات کی مقامی عدالت میں بڑے جرم کے الزام میں 12ماہ کے ننھے فرشتے محمد ابراہیم کو جعلی ووٹ کاسٹ کرنے اور وال چاکنگ کے الزام میںپیش کرتی ہے تو کبھی 8 سالہ 'پتنگ باز' کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کرتی ہے، کبھی 4سالہ کمسن بچے پر ڈکیتی کا مقدمہ درج کرکے عدالت پیش کرتی ہے تو کبھی دوسری جماعت کے طالب علم کو راہزنی کے مقدمے میں نامزد کرتی ہے اور تو اور ایک چھ سالہ بچہ اپنی ماں اور ماموں کے ساتھ عدالت کینٹ کچہری پہنچتا ہے جس پر خاتون سے چھیڑ خانی اور لڑائی جھگڑے کا مقدمہ درج ہے۔
اگر ہماری پولیس ایک آزاد ادارہ ہوتی تو کبھی کوئی سیاستدان پولیس کو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال نہ کرتا۔ زیادتیوں، جعلی مقابلوں، رشوت، لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھانسنے، بے گناہوں پر ظلم اور بااثر افراد کی خوشنودی کے لیے غیر قانونی کاموں کے لیے آخری حد تک چلے جانے کی جتنی شکایات ہیں اتنی شکایات کسی اور ملک کی پولیس کی نہیں ہوسکتیں۔ عوام کی خدمت، جرائم کا سدباب، مجرموں کی گرفت اب اکثر پولیس افسروں اور اہلکاروں کا فرض نہیں رہا، اسی لیے بدامنی اور جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
اگر فرض شناس اعلیٰ افسران پولیس کی رہی سہی عزت بچانا اور شہریوں کے دلوں میں احترام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں خود کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ آج بھی پولیس میں اچھے اور مثالی افسران موجود ہیں جن کی تقلید کی جانی چاہیے۔ عوام کو ایک عوام دوست پولیس فورس چاہیے۔ وہ دستیاب ہوجائے تو بدامنی کا خاتمہ نا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی حالات، نئی ٹیکنالوجی، سائنسی ایجادات، نئے سماجی وسیاسی حالات، بڑھتی ہوئی عوامی اُمنگوں اور سیکیورٹی خدشات کے پسِ منظر میں عوام الناس فطری طور پر ایسی پولیس کی توقع کرتے ہیں جو مستعد، ایماندار، جوابدہ، پیشہ وارانہ مہارت، عوام دوستی، کرائم فائٹنگ اور فوری حرکت میں آنے جیسی خوبیوں سے لیس ہو کیونکہ ہر معاشرے میں داخلی صورتحال میں ہم آہنگی کی بنیادی ذمے داری پولیس پر ہی ہوتی ہے، یہی وہ ایجنسی ہے جو سب سے پہلے مجرم کے مقام پر پہنچتی ہے اور ہمیشہ مجرموں کے خلاف سب سے پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔
ہمیں ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جس میں پولیس کے ترقیوں اور تبادلوں کا اختیار سیاستدانوں سے لے کر کسی مستقل ادارے کے پاس چلا جائے تو بہتری ہو سکتی ہے۔ اگر ہماری پولیس اپنی اصلاح خود کر لے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں جیسے نہتے شہریوں پر ظلم و ستم کرنے کے غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈر نہ مانے، معصوم شہریوں ماورائے عدالت قتل کرنے، عدلیہ بچاؤ تحریک میں جس طرح اپنی وردیاں اور بیلٹ اتار کر پھینک دیے گئے تھے اسی تسلسل کو آگے بڑھائے تاکہ جابر حکمرانوں اور افسران اپنی حدود میں رہیں تو ہر شہری پولیس زندہ باد کے نعرے لگائے گا۔
دہشت گردی اور بدامنی کرنیوالوں کو پروٹوکول نہ دیا جائے، پولیس، افواج اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والوں کیخلا ف میرٹ پر کارروائیاں ہوں، نہتے اور مظلوم شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیا جائے، قانون کی حکمرانی ہو، طاقتور اور مظلوم کے لیے ایک ہی قانون ہو توپھر کوئی بھی شہری پولیس گردی کا رونا نہیں روئے گا، ہر شخص کی زبان پر یہی الفاظ ہوں گے کہ انھیں اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرو انھیں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ،مظلوموں کی داد رسی کے لیے رہنے دو۔کیونکہ یہ لوگ بھی ہم سے اور ہم ان سے ہیں۔