کیا ہے یہ دنیا
اس افسر کا ایک دوست تھا۔ دونوں ہم عمر اور جگری یار۔ زندگی کے بہت سے کام دونوں کے ساتھ ساتھ ہوئے تھے۔
وہ آفیسر نہایت سخت مزاج تھا۔ شوہر تھا تو نہ پیار کرنے والا اور نہ خیال رکھنے والا۔ باپ تھا جسے بچے دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے۔ دفتر کا اسٹاف اپنے صاحب سے سخت نالاں تھا۔ یہ ایوب دور کی بات ہے جب لوگوں کے پاس گاڑیاں کم کم ہوتی تھیں۔ یہ افسر پھر بھی روزانہ ٹیکسی کے ذریعے دفتر جاتا اور آتا۔ بس اسٹاپ پر ٹیکسی ڈھونڈنے میں اسے بڑی کوفت ہوتی۔
اس افسر کا ایک دوست تھا۔ دونوں ہم عمر اور جگری یار۔ زندگی کے بہت سے کام دونوں کے ساتھ ساتھ ہوئے تھے۔ بیوی، بچوں اور اسٹاف سے سختی کرنے والا افسر جب اپنے اس جگری یار سے ملتا تو بالکل بدلا ہوا انسان نظر آتا۔ بچپن کے اس ساتھی سے جب افسر ملتا تو لگتا کہ دنیا ہی بدل گئی ہے۔ دونوں گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔ دوست اپنے افسر دوست کو سمجھاتا کہ مزاج میں نرمی پیدا کرو لیکن وہ افسر وعدے کے بعد بیوی بچوں اور اسٹاف کو دیکھ کر سب کچھ بھول جاتا۔
''گزارا ہو جاتا ہے'' یہ وہ جملہ تھا جو یہ افسر ہر ایک سے پوچھتا۔ اسے شکوہ تھا کہ اس کی تنخواہ کم ہے۔ حکومت اور معاشرے نے اس کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی۔ اسے جس انداز میں ترقی ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ جب ٹیکسی ڈھونڈتے ہوئے وہ لوگوں کو بسوں میں سوار ہوتے دیکھتا تو کڑھتا۔ ایک دن افسر نے دیکھا کہ ایک لنگڑا شخص بس میں سوار ہونے کے لیے بس اسٹاپ پر کھڑا ہے۔
افسر نے اس سے پوچھا کہ تم بس میں کس طرح سوار ہو گے؟ اس نے جواب دیا کہ کئی برسوں سے ٹانگ سے معذور ہوں۔ اب تو ان چیزوں کا عادی ہو چکا ہوں۔ افسر نے پوچھا کہ تم ٹیکسی میں کیوں نہیں چلے جاتے۔ اس نے جواب دیا کہ میری تنخواہ اتنی زیادہ نہیں کہ یہ عیاشی کر سکوں۔ اگر ٹیکسی میں سفر کروں تو ساری تنخواہ اسی میں لگ جائے تو کھاؤں کیا؟
افسر اور اس کے دوست کی زندگی میں عجیب و غریب مماثلت تھی۔ کئی چیزیں دونوں کی ملتی جلتی تھیں۔ افسر کی عمر اپنے دوست سے ٹھیک ایک ہفتے کم تھی۔ دوست کی منگنی کے ایک ہفتے بعد افسر کی منگنی ہوئی تھی۔ دوست کی شادی کے ایک ہفتے بعد افسر کی شادی ہوئی۔ دوست کے گھر بیٹے کی ولادت کے سات دن بعد افسر کو اللہ نے ایک بیٹا دیا۔
دونوں جگری یاروں کی اس ملتی جلتی کیفیت کو دونوں کے گھر والے خوبصورت فلمی اتفاق کا نام دیتے۔ ایک دن افسر اپنے گھر سے چھوٹے سے لان میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی نے پانی مانگا۔ وہ غریب شخص طویل سفر کر کے آیا تھا۔ افسر نے اس آدمی کے لیے پانی منگوایا۔ اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آ رہا ہے؟ اس نے جو علاقہ بتایا وہ سترہ اٹھارہ کلومیٹر دور تھا۔
افسر نے حیرت کا اظہار کیا کہ تم اتنی دور سے پیدل آ رہے ہو؟ کہاں جانا ہے؟ اس نے جو جگہ بتائی وہ بھی اٹھارہ بیس کلو میٹر دور تھی۔ افسر نے اس غریب آدمی سے سفر کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میری بیٹی کے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ پیسے اتنے ہیں کہ بس کا کرایہ دیتا یا بچی کے لیے کوئی تحفہ لے لیتا۔ اس مجبوری کے سبب پیدل سفر کر رہا ہوں۔ افسر نے پوچھا ''گزارا ہو جاتا ہے؟'' اس نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے۔ دنیا کیا ہے کے موضوع پر ہمارا کالم منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اس واقعے نے افسر پر بڑا اچھا اثر چھوڑا لیکن وقتی طور پر۔ اسٹاف کے ایک شخص نے ایڈوانس تنخواہ کے لیے درخواست دی تو افسر نے مسترد کر دی۔ کلرک نے خوشامد کی تو افسر نے ڈانٹ کر بھگا دیا۔ بیوی سے بھی بدتمیزی اور جھڑکنا۔ وہ غریب چپکی رہتی اور صاحب کے اچھے موڈ میں آنے کا انتظار کرتی۔ ایسا ہی تعلق افسر کا ان کے بچوں کے ساتھ تھا۔ بیٹے زیادہ تر باہر رہتے جب ان کا باپ گھر پر ہوتا۔ ماں بھی چاہتی کہ باپ بیٹوں میں کوئی تکرار نہ ہو۔ اسٹاف بھی دفتر میں اکثر ایک دوسرے سے صاحب کے موڈ کے بارے میں سوال کرتا۔
ایک دن ایک بری خبر ملی۔ افسر کے دوست کا اچانک انتقال ہو گیا۔ یکایک ایک خیال افسر کے ذہن میں آیا۔ نماز جنازہ اور قبرستان میں یہ خیال نہیں آیا تھا لیکن رات کو سوتے وقت خیال آیا تو افسر پسینے پسینے ہو گیا۔ اسے یاد آیا کہ دونوں کی تاریخ پیدائش میں ایک ہفتے کا فرق تھا۔ منگنی اور شادی کی تقریبات بھی دوست کے ایک ہفتے بعد ہوئی تھیں۔ بچوں کی پیدائش میں بھی ٹھیک سات دن کا فرق تھا۔ کیا اب اسے ایک ہفتے بعد اس دنیا سے چلے جانا ہے؟ افسر کو اس سوال نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سوچا کہ اب اس کے پاس صرف چھ دن رہ گئے ہیں۔ اس خیال نے اس کی نیند اڑا دی۔
اب سخت گیر افسر کا رویہ بدل گیا۔ صبح پہلی مرتبہ بیگم سے خوشگوار موڈ میں بات کی۔ بچوں سے ان کی تعلیم اور دلچسپیوں کے بارے میں پوچھا۔ کلرک کو بلا کر فوراً اس کی ایڈوانس تنخواہ کی پرانی درخواست پر دستخط کر دیے۔ سب کے سامنے اچھے موڈ میں رہنے والا افسر تنہائی میں پریشان رہتا کہ اب اس کی زندگی کے تین چار دن رہ گئے ہیں۔
موت کے خوف نے افسر کی زندگی میں تبدیلی پیدا کر دی۔ خوشگوار تبدیلی۔ اب اس نے نماز بھی پڑھنی شروع کر دی اور تلاوت قرآن بھی۔ اب اس کا زیادہ وقت مسجد میں گزرتا کہ صرف دو دن بعد اسے دنیا سے رخصت ہو جانا ہے۔
افسر کو یقین تھا کہ پیدائش سے منگنی اور شادی سے بچوں کی ولادت تک ہر کام میں ایک ہفتے پیچھے رہنے والے کے پاس اب ایک دن رہ گیا ہے۔ قریبی عزیزوں اور دوستوں سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ جن سے اختلافات تھے ان سے معافی تلافی شروع کر دی۔ اب ٹھیک وہ وقت آنے میں چند گھنٹے رہ گئے تھے، جو وقت دوست کے انتقال کا وقت تھا۔ وہ سوچتا کہ زندگی کیا ہے؟ ریلوے پلیٹ فارم کی انتظار گاہ یا ایئرپورٹ بورڈنگ لاؤنج۔
کمرے کو بند کر کے بستر پر بیٹھا سخت گیر افسر اب ٹوٹ گیا تھا۔ اسے ایک ایک کر کے اپنے غلط کام یاد آ رہے تھے اور وہ ان کی صفائی مانگ رہا تھا۔ گھڑی ٹِک ٹِک کر رہی تھی۔ اب صرف چند منٹ رہ گئے تھے۔ اب مصلے پر بیٹھا شخص اندھیرے کمرے میں گڑ گڑا رہا تھا۔ وقت پورا ہو گیا لیکن وہ زندہ تھا۔ چند منٹ اوپر ہو گئے اور پھر چند گھنٹے۔ افسر کو یہ سب کچھ وہم معلوم ہو رہا تھا۔
چار اتفاقات صرف بائی چانس تھے؟ قدرت ابھی اسے چند مہینے یا کچھ سال اور زندہ رکھنا چاہتی ہے؟ اس افسر نے شکرانے کے نفل ادا کیے اور کمرے سے باہر آ گیا۔ اب وہ بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔ کئی سال پہلے بلکہ پچھلی صدی میں پی ٹی وی سے یہ ڈرامہ نشر ہوا تھا جس میں افسر کا کردار قوی نے ادا کیا تھا۔ سخت گیری سے اپنے آپ کو بدل کر خوش مزاج بنتا انسان۔ غالباً یہ ڈرامہ اشفاق احمد نے تحریر کیا ہو گا لیکن محمد قوی خان آج بھی سوچتے ہوں گے کہ کیا ہے یہ دنیا؟
اس افسر کا ایک دوست تھا۔ دونوں ہم عمر اور جگری یار۔ زندگی کے بہت سے کام دونوں کے ساتھ ساتھ ہوئے تھے۔ بیوی، بچوں اور اسٹاف سے سختی کرنے والا افسر جب اپنے اس جگری یار سے ملتا تو بالکل بدلا ہوا انسان نظر آتا۔ بچپن کے اس ساتھی سے جب افسر ملتا تو لگتا کہ دنیا ہی بدل گئی ہے۔ دونوں گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔ دوست اپنے افسر دوست کو سمجھاتا کہ مزاج میں نرمی پیدا کرو لیکن وہ افسر وعدے کے بعد بیوی بچوں اور اسٹاف کو دیکھ کر سب کچھ بھول جاتا۔
''گزارا ہو جاتا ہے'' یہ وہ جملہ تھا جو یہ افسر ہر ایک سے پوچھتا۔ اسے شکوہ تھا کہ اس کی تنخواہ کم ہے۔ حکومت اور معاشرے نے اس کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی۔ اسے جس انداز میں ترقی ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ جب ٹیکسی ڈھونڈتے ہوئے وہ لوگوں کو بسوں میں سوار ہوتے دیکھتا تو کڑھتا۔ ایک دن افسر نے دیکھا کہ ایک لنگڑا شخص بس میں سوار ہونے کے لیے بس اسٹاپ پر کھڑا ہے۔
افسر نے اس سے پوچھا کہ تم بس میں کس طرح سوار ہو گے؟ اس نے جواب دیا کہ کئی برسوں سے ٹانگ سے معذور ہوں۔ اب تو ان چیزوں کا عادی ہو چکا ہوں۔ افسر نے پوچھا کہ تم ٹیکسی میں کیوں نہیں چلے جاتے۔ اس نے جواب دیا کہ میری تنخواہ اتنی زیادہ نہیں کہ یہ عیاشی کر سکوں۔ اگر ٹیکسی میں سفر کروں تو ساری تنخواہ اسی میں لگ جائے تو کھاؤں کیا؟
افسر اور اس کے دوست کی زندگی میں عجیب و غریب مماثلت تھی۔ کئی چیزیں دونوں کی ملتی جلتی تھیں۔ افسر کی عمر اپنے دوست سے ٹھیک ایک ہفتے کم تھی۔ دوست کی منگنی کے ایک ہفتے بعد افسر کی منگنی ہوئی تھی۔ دوست کی شادی کے ایک ہفتے بعد افسر کی شادی ہوئی۔ دوست کے گھر بیٹے کی ولادت کے سات دن بعد افسر کو اللہ نے ایک بیٹا دیا۔
دونوں جگری یاروں کی اس ملتی جلتی کیفیت کو دونوں کے گھر والے خوبصورت فلمی اتفاق کا نام دیتے۔ ایک دن افسر اپنے گھر سے چھوٹے سے لان میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی نے پانی مانگا۔ وہ غریب شخص طویل سفر کر کے آیا تھا۔ افسر نے اس آدمی کے لیے پانی منگوایا۔ اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آ رہا ہے؟ اس نے جو علاقہ بتایا وہ سترہ اٹھارہ کلومیٹر دور تھا۔
افسر نے حیرت کا اظہار کیا کہ تم اتنی دور سے پیدل آ رہے ہو؟ کہاں جانا ہے؟ اس نے جو جگہ بتائی وہ بھی اٹھارہ بیس کلو میٹر دور تھی۔ افسر نے اس غریب آدمی سے سفر کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میری بیٹی کے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ پیسے اتنے ہیں کہ بس کا کرایہ دیتا یا بچی کے لیے کوئی تحفہ لے لیتا۔ اس مجبوری کے سبب پیدل سفر کر رہا ہوں۔ افسر نے پوچھا ''گزارا ہو جاتا ہے؟'' اس نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے۔ دنیا کیا ہے کے موضوع پر ہمارا کالم منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اس واقعے نے افسر پر بڑا اچھا اثر چھوڑا لیکن وقتی طور پر۔ اسٹاف کے ایک شخص نے ایڈوانس تنخواہ کے لیے درخواست دی تو افسر نے مسترد کر دی۔ کلرک نے خوشامد کی تو افسر نے ڈانٹ کر بھگا دیا۔ بیوی سے بھی بدتمیزی اور جھڑکنا۔ وہ غریب چپکی رہتی اور صاحب کے اچھے موڈ میں آنے کا انتظار کرتی۔ ایسا ہی تعلق افسر کا ان کے بچوں کے ساتھ تھا۔ بیٹے زیادہ تر باہر رہتے جب ان کا باپ گھر پر ہوتا۔ ماں بھی چاہتی کہ باپ بیٹوں میں کوئی تکرار نہ ہو۔ اسٹاف بھی دفتر میں اکثر ایک دوسرے سے صاحب کے موڈ کے بارے میں سوال کرتا۔
ایک دن ایک بری خبر ملی۔ افسر کے دوست کا اچانک انتقال ہو گیا۔ یکایک ایک خیال افسر کے ذہن میں آیا۔ نماز جنازہ اور قبرستان میں یہ خیال نہیں آیا تھا لیکن رات کو سوتے وقت خیال آیا تو افسر پسینے پسینے ہو گیا۔ اسے یاد آیا کہ دونوں کی تاریخ پیدائش میں ایک ہفتے کا فرق تھا۔ منگنی اور شادی کی تقریبات بھی دوست کے ایک ہفتے بعد ہوئی تھیں۔ بچوں کی پیدائش میں بھی ٹھیک سات دن کا فرق تھا۔ کیا اب اسے ایک ہفتے بعد اس دنیا سے چلے جانا ہے؟ افسر کو اس سوال نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سوچا کہ اب اس کے پاس صرف چھ دن رہ گئے ہیں۔ اس خیال نے اس کی نیند اڑا دی۔
اب سخت گیر افسر کا رویہ بدل گیا۔ صبح پہلی مرتبہ بیگم سے خوشگوار موڈ میں بات کی۔ بچوں سے ان کی تعلیم اور دلچسپیوں کے بارے میں پوچھا۔ کلرک کو بلا کر فوراً اس کی ایڈوانس تنخواہ کی پرانی درخواست پر دستخط کر دیے۔ سب کے سامنے اچھے موڈ میں رہنے والا افسر تنہائی میں پریشان رہتا کہ اب اس کی زندگی کے تین چار دن رہ گئے ہیں۔
موت کے خوف نے افسر کی زندگی میں تبدیلی پیدا کر دی۔ خوشگوار تبدیلی۔ اب اس نے نماز بھی پڑھنی شروع کر دی اور تلاوت قرآن بھی۔ اب اس کا زیادہ وقت مسجد میں گزرتا کہ صرف دو دن بعد اسے دنیا سے رخصت ہو جانا ہے۔
افسر کو یقین تھا کہ پیدائش سے منگنی اور شادی سے بچوں کی ولادت تک ہر کام میں ایک ہفتے پیچھے رہنے والے کے پاس اب ایک دن رہ گیا ہے۔ قریبی عزیزوں اور دوستوں سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ جن سے اختلافات تھے ان سے معافی تلافی شروع کر دی۔ اب ٹھیک وہ وقت آنے میں چند گھنٹے رہ گئے تھے، جو وقت دوست کے انتقال کا وقت تھا۔ وہ سوچتا کہ زندگی کیا ہے؟ ریلوے پلیٹ فارم کی انتظار گاہ یا ایئرپورٹ بورڈنگ لاؤنج۔
کمرے کو بند کر کے بستر پر بیٹھا سخت گیر افسر اب ٹوٹ گیا تھا۔ اسے ایک ایک کر کے اپنے غلط کام یاد آ رہے تھے اور وہ ان کی صفائی مانگ رہا تھا۔ گھڑی ٹِک ٹِک کر رہی تھی۔ اب صرف چند منٹ رہ گئے تھے۔ اب مصلے پر بیٹھا شخص اندھیرے کمرے میں گڑ گڑا رہا تھا۔ وقت پورا ہو گیا لیکن وہ زندہ تھا۔ چند منٹ اوپر ہو گئے اور پھر چند گھنٹے۔ افسر کو یہ سب کچھ وہم معلوم ہو رہا تھا۔
چار اتفاقات صرف بائی چانس تھے؟ قدرت ابھی اسے چند مہینے یا کچھ سال اور زندہ رکھنا چاہتی ہے؟ اس افسر نے شکرانے کے نفل ادا کیے اور کمرے سے باہر آ گیا۔ اب وہ بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔ کئی سال پہلے بلکہ پچھلی صدی میں پی ٹی وی سے یہ ڈرامہ نشر ہوا تھا جس میں افسر کا کردار قوی نے ادا کیا تھا۔ سخت گیری سے اپنے آپ کو بدل کر خوش مزاج بنتا انسان۔ غالباً یہ ڈرامہ اشفاق احمد نے تحریر کیا ہو گا لیکن محمد قوی خان آج بھی سوچتے ہوں گے کہ کیا ہے یہ دنیا؟