ارٹیکیریا جسم میں ہسٹامائن کی مقدار بڑھنے سے جنم لینے والا جلدی مرض
ارٹیکیریا ایک ایسا جلدی مرض ہے، جو تکلیف دہ اور خطرناک بھی ہے، ماہرین
QUETTA:
انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو اس کی جلد ہوتی ہے۔ جلد کی بعض بیماریاں ایسی ہیں جو انسان کے پورے جسم کو متأثر کرسکتی ہیں۔ ارٹیکیریا ایک ایسا جلدی مرض ہے، جو تکلیف دہ اور خطرناک بھی ہے۔
طبی ماہرین ابھی اس بیماری کے مختلف اسباب اور مکمل وجوہات نہیں جان سکے ہیں، لیکن اس پر تحقیق جاری ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی مرض نہیں بلکہ ایک قسم کی جلدی خرابی ہے، جس کا علاج موجود ہے۔ تاہم اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، جنہیں ابھی میڈیکل سائنس معلوم نہیں کرسکی ہے۔ ماہرین کے مطابق الرجی کی مختلف اقسام جلد کی زیادہ تر بیماریوں کی وجہ بنتی ہیں اور اس مرض کا بنیادی سبب بھی الرجی ہی ہے۔ یہ مرض کسی بھی عمر میں لاحق ہو سکتا ہے۔ تاہم زیادہ تر 20 سے 40 سال کے افراد کو جلد کی یہ بیماری متأثر کرتی ہے۔ اکثر لوگ اسے 'چھپاکی' یا 'ددوڑا' بھی کہتے ہیں، لیکن ان کے درمیان فرق ہے۔ ان جلدی امراض کی زیادہ تر علامات اور وجوہات بھی یک ساں ہوتی ہیں اور اسی لیے ان میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
طبی تحقیق کے بعد ماہرین نے بتایا ہے کہ اس بیماری کی بنیادی وجہ جسم میں موجود ہسٹامائن نامی مادّے کی جسم میں زیادتی اور دیگر حیاتیاتی عناصر کا جلد کی طرف اخراج ہے۔ جلد کی نچلی سطح میں یہ مادّے اس حصے سے گزرنے والی خون کی شریانوں کو متأثر کرتے ہیں، جس کے باعث جلد کا وہ حصہ سرخ نظر آنے لگتا ہے اور اکثر پھول کر تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ اس بیماری میں شریانوں کے ساتھ ساتھ جلد کے ٹشوز بھی متأثر ہوتے ہیں، جو جلد پر سوجن اور خارش کا سبب بنتے ہیں۔ بعض ماہرین اس مرض کی ایک وجہ پانی اور دھوپ بھی بتاتے ہیں۔
ارٹیکیریا کو ایک خطرناک الرجی Anaphylaxis کی ابتدا یا علامت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت خطرناک مرض ہے، جو شدت اختیار کرجائے تو مریض کی جان بھی ضایع ہوسکتی ہے۔ اس میں بھی مریض کی جلد پر سرخ نشانات میں درد، جلن اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ مریض لو بلڈ پریشر کا شکار ہو جاتا ہے۔ عام الرجی کی طرح اس بیماری کی صورت میں بھی مریض کو اپنے معمولات پر نظر رکھنا ہوتی ہے تاکہ اس کا سبب معلوم ہو سکے اور وجہ جاننے کے بعد اس کا علاج کیا جاسکے۔
ارٹیکیریا کے مریض کے کھانے پینے اور استعمال کی اشیا کے علاوہ اس کے ماحول کو سمجھنا پڑتا ہے، جس میں اس مرض کے جنم لینے کی وجہ پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ ارٹیکیریا کے مریض کو جلد پر خارش محسوس ہوتی ہے اور بیماری سے متأثرہ جلد کے حصوں پر سرخ نشانات نمودار ہونے لگتے ہیں۔ جلد کا متأثرہ حصّہ پھولنے لگتا ہے اور یہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ سرخ نشانات اور سوجن جسم کے کسی بھی حصہ پر ہوسکتی ہے۔ اس میں ہونٹ اور آنکھیں بھی شامل ہیں۔
ارٹیکیریا کی صورت میں جلد پر ابھرنے والے سرخ نشانات چھے ہفتوں میں غائب بھی ہوسکتے ہیں، لیکن ایسا نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ارٹیکیریا کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کو زیادہ توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سرخ نشانات چند ہفتوں میں خود ہی غائب نہ ہوں تو فوری طور پر ماہرِ امراضِ جلد سے رجوع کرنا چاہیے۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ چُھوت کا مرض نہیں اور مریض کو چُھونے، اس کے ساتھ کھانے پینے یا کسی طرح بھی اس سے میل جول رکھنے والے کسی نارمل انسان کو منتقل نہیں ہوسکتا۔ طبی محققین کے مطابق مردوں کے مقابلے میں عورتیں اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ ارٹیکیریا کی شدت بڑھانے میں ذہنی اور جذباتی دباؤ کے علاوہ گرم موسم کا بھی دخل ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں چند سال قبل اس بیماری سے متعلق اکٹھے کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 24 فی صد افراد اس مرض کی مختلف اقسام کا شکار ہیں، جب کہ دنیا کی تقریباً ایک فی صد آبادی اس میں مبتلا ہے۔
انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو اس کی جلد ہوتی ہے۔ جلد کی بعض بیماریاں ایسی ہیں جو انسان کے پورے جسم کو متأثر کرسکتی ہیں۔ ارٹیکیریا ایک ایسا جلدی مرض ہے، جو تکلیف دہ اور خطرناک بھی ہے۔
طبی ماہرین ابھی اس بیماری کے مختلف اسباب اور مکمل وجوہات نہیں جان سکے ہیں، لیکن اس پر تحقیق جاری ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی مرض نہیں بلکہ ایک قسم کی جلدی خرابی ہے، جس کا علاج موجود ہے۔ تاہم اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، جنہیں ابھی میڈیکل سائنس معلوم نہیں کرسکی ہے۔ ماہرین کے مطابق الرجی کی مختلف اقسام جلد کی زیادہ تر بیماریوں کی وجہ بنتی ہیں اور اس مرض کا بنیادی سبب بھی الرجی ہی ہے۔ یہ مرض کسی بھی عمر میں لاحق ہو سکتا ہے۔ تاہم زیادہ تر 20 سے 40 سال کے افراد کو جلد کی یہ بیماری متأثر کرتی ہے۔ اکثر لوگ اسے 'چھپاکی' یا 'ددوڑا' بھی کہتے ہیں، لیکن ان کے درمیان فرق ہے۔ ان جلدی امراض کی زیادہ تر علامات اور وجوہات بھی یک ساں ہوتی ہیں اور اسی لیے ان میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
طبی تحقیق کے بعد ماہرین نے بتایا ہے کہ اس بیماری کی بنیادی وجہ جسم میں موجود ہسٹامائن نامی مادّے کی جسم میں زیادتی اور دیگر حیاتیاتی عناصر کا جلد کی طرف اخراج ہے۔ جلد کی نچلی سطح میں یہ مادّے اس حصے سے گزرنے والی خون کی شریانوں کو متأثر کرتے ہیں، جس کے باعث جلد کا وہ حصہ سرخ نظر آنے لگتا ہے اور اکثر پھول کر تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ اس بیماری میں شریانوں کے ساتھ ساتھ جلد کے ٹشوز بھی متأثر ہوتے ہیں، جو جلد پر سوجن اور خارش کا سبب بنتے ہیں۔ بعض ماہرین اس مرض کی ایک وجہ پانی اور دھوپ بھی بتاتے ہیں۔
ارٹیکیریا کو ایک خطرناک الرجی Anaphylaxis کی ابتدا یا علامت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت خطرناک مرض ہے، جو شدت اختیار کرجائے تو مریض کی جان بھی ضایع ہوسکتی ہے۔ اس میں بھی مریض کی جلد پر سرخ نشانات میں درد، جلن اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ مریض لو بلڈ پریشر کا شکار ہو جاتا ہے۔ عام الرجی کی طرح اس بیماری کی صورت میں بھی مریض کو اپنے معمولات پر نظر رکھنا ہوتی ہے تاکہ اس کا سبب معلوم ہو سکے اور وجہ جاننے کے بعد اس کا علاج کیا جاسکے۔
ارٹیکیریا کے مریض کے کھانے پینے اور استعمال کی اشیا کے علاوہ اس کے ماحول کو سمجھنا پڑتا ہے، جس میں اس مرض کے جنم لینے کی وجہ پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ ارٹیکیریا کے مریض کو جلد پر خارش محسوس ہوتی ہے اور بیماری سے متأثرہ جلد کے حصوں پر سرخ نشانات نمودار ہونے لگتے ہیں۔ جلد کا متأثرہ حصّہ پھولنے لگتا ہے اور یہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ سرخ نشانات اور سوجن جسم کے کسی بھی حصہ پر ہوسکتی ہے۔ اس میں ہونٹ اور آنکھیں بھی شامل ہیں۔
ارٹیکیریا کی صورت میں جلد پر ابھرنے والے سرخ نشانات چھے ہفتوں میں غائب بھی ہوسکتے ہیں، لیکن ایسا نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ارٹیکیریا کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کو زیادہ توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سرخ نشانات چند ہفتوں میں خود ہی غائب نہ ہوں تو فوری طور پر ماہرِ امراضِ جلد سے رجوع کرنا چاہیے۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ چُھوت کا مرض نہیں اور مریض کو چُھونے، اس کے ساتھ کھانے پینے یا کسی طرح بھی اس سے میل جول رکھنے والے کسی نارمل انسان کو منتقل نہیں ہوسکتا۔ طبی محققین کے مطابق مردوں کے مقابلے میں عورتیں اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ ارٹیکیریا کی شدت بڑھانے میں ذہنی اور جذباتی دباؤ کے علاوہ گرم موسم کا بھی دخل ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں چند سال قبل اس بیماری سے متعلق اکٹھے کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 24 فی صد افراد اس مرض کی مختلف اقسام کا شکار ہیں، جب کہ دنیا کی تقریباً ایک فی صد آبادی اس میں مبتلا ہے۔