نیکیوں کا موسم بہاراستقبالِ رمضان اور ہماری ذمے داریاں
آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ صبر کا مہینہ ہے۔ صبر کا مطلب ہے تحمل، برداشت اور جمے رہنا
ISLAMABAD:
اﷲ رب العالمین نے عظمت والی کتاب قرآن پاک کو رمضان المبارک میں رحمۃ للعالمین پر نازل کرکے امت رسول مکرم ﷺ پر احسانِ عظیم کیا۔ رمضان کی آمد ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہم ایک مخصوص وقت تک کھانا پینا ترک کردیتے ہیں یعنی فاقہ کرتے ہیں۔ فاقہ کرنا اچھی بات ہے۔
اس سے معدہ صحیح رہتا ہے۔ فاقہ کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ان غریبوں سے ہم دردی پیدا ہوتی ہے جو فاقہ پر مجبور ہیں، یہ ہم دردی انسانیت کا جوہر ہے۔ فاقہ سے روحانیت میں بھی تازگی پیدا ہوتی ہے، یادِ خدا میں دل لگتا ہے اسی لیے ہر ایک مذہب کے اچھے لوگ فاقہ کرتے ہیں، بلکہ فاقہ کی عادت ڈالتے ہیں۔ اسلام نے اس عمل کی تعریف کی ہے مگر اس کی تعلیم یہ ہے کہ جو کچھ ہو اﷲ کے لیے ہو، فاقہ بھی ہو تو اﷲ کے لیے اور اس کے حکم کے مطابق اور آنحضرت ﷺ کے طریق پر ہو۔ رمضان المبارک میں اس عظیم کام کو امیر اور غریب سبھی کرتے ہیں اور اس کے فضائل نبی پاک ﷺ نے بتائے ہیں اسی عظیم عمل کو ہم روزہ کہتے ہیں۔
رمضان المبارک روحانیت کی فصلِ بہار
شعبان کی آخری تاریخ میں آپ ﷺ نے فرمایا: وہ مہینہ آگیا جو مستحق تعظیم ہے جس کی عظمت ضروری ہے، یہ برکتوں والا مہینہ ہے، اس میں ایک رات ایسی آتی ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اﷲ پاک نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں رات کی نفلیں اگرچہ فرض نہیں مگر ان کا ثواب بے شمار رکھا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اس مہینہ میں نفل کا ثواب ایسا ہے جیسے عام دنوں میں فرض کا ثواب ہوتا ہے اور اس مہینہ میں فرض کا ثواب دوسرے دنوں سے ستر گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اس میں کھانے پینے اور تمام بری باتوں سے رکنا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ صبر کا ثواب جنت ہے، یہ صبر اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص دوسر ے روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کو برابر کا ثواب ملتا ہے اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی۔
آپ ﷺ نے فرمایا، یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا آغاز اﷲ کی رحمتوں سے ہوتا ہے، اس کے وسط میں گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور اس کے آخری حصہ میں دوزخ سے نجات ملتی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اس مبارک مہینہ میں جو شخص اپنے نوکر چاکر، اپنے غلام یا باندی کا کام ہلکا کرتا ہے، اﷲ اس کو آتش دوزخ سے آزاد کردیتا ہے۔
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے آپ نے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ فرمایا آمین۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! یہ آمین کیسی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل ؑ نے تین باتیں کہیں، میں نے ہر ایک کے جواب میں کہا آمین۔
حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ، جس کو رمضان کا مہینہ میسر آیا اور اُس نے اس مہینہ میں عبادت کر کے اپنے گناہ نہ بخشوائے، اس کے جواب میں میں نے کہا آمین۔ پھر حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ شخص جس کو ماں باپ کی خدمت کا موقع ملا اور اس نے ان کی خدمت کر کے اپنے گناہ نہ بخشوائے۔ میں نے کہا آمین۔ پھر حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا نام لیا گیا اور اس نے مجھ (آنحضرت ﷺ ) پر درود نہیں پڑھا۔ میں نے کہا آمین۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان المبارک میں نیکیوں کا ثواب بڑھا چڑھا کردیا جاتا ہے، نفل نماز کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے اور فرض نماز کا ثواب ستر گنا۔
1۔ کلام اﷲ شریف کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کر یں، مگر صحیح، ٹھہر کر اور پورے ادب سے دل لگا کر پڑھیں۔
2۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ صبر کا مہینہ ہے۔ صبر کا مطلب ہے تحمل، برداشت اور جمے رہنا۔ پس تم بھوک پیاس تو برداشت کرتے ہی ہو کوئی بُری بات کہے اسے بھی برداشت کرو۔ غصہ ہرگز مت کرو بلکہ غصے کو ضبط کرو، خود کو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو، کوئی بری بات زبان سے نہ نکالو کسی کی غیبت نہ کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب روزہ ہو تو نہ کوئی بری بات زبان سے نکالو، نہ چلاؤ، نہ شور مچاؤ، اگر کوئی تم سے الجھنے لگے تو یہ کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ بھائی معاف رکھو میرا روزہ ہے۔
3۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ مہینہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ پس خلق خدا پر رحم کرو، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرو، یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور محتاجوں کی خبرگیری کرو، ملازمین کے کاموں کا بوجھ ہلکا کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو اپنے ماتحت کا کام ہلکا کرے گا، اﷲ پاک اس کو آتش دوزخ سے نجات دے گا۔
4۔ آنحضرت ﷺ کو اﷲ پاک نے سخاوت کا دریا بنایا تھا یہ دریا ہمیشہ بہتا ہی رہتا تھا۔ مگر رمضان شریف میں یہ دریا گویا سمندر بن جاتا تھا جس کی موجوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی تھی۔ پس کوشش کرو کہ سخاوت کا چشمہ رمضان میں جاری رہے اور زیادہ سے زیادہ خلقِ خدا اس سے سیراب ہو۔
آخری عشرہ
جب تم اس ماہ مبارک کے بیس دن اس طرح گزارلو کہ زبان پر کلام اﷲ کی تلاوت ہو یا درود شریف، دل میں غریبوں کی ہم دردی ہو، نیک کاموں کی لگن زیادہ سے زیادہ ہو۔ اس عشرے میں آنحضرت ﷺ کی چستی اور مستعدی اور زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ جیسے ہی یہ عشرہ شروع ہوتا آپ ﷺ کمر کس لیتے خود بھی رات بھر جاگتے اور گھر کے دیگر افراد کو بھی جگاتے، اور فرماتے تھے کہ وہ مسلمان بہت بڑا بدقسمت ہے کہ یہ ماہ مبارک آئے اور گزر جائے اور وہ اس میں اپنے گناہ نہ بخشوا سکے۔
اعتکاف
اچھی بات یہ ہے کہ ان دس دنوں میں تم اسی آقا اور مالک کی ڈیوڑھی پر پڑ جاؤ، جس کے حکم سے روزے رکھ رہے ہو، جس نے روزوں پر بہت بڑا اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے اسی پڑجانے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ دن رات مسجد ہی میں رہو، گویا اپنے تمام بدن اور وقت کو اﷲ کی عبادت کے لیے وقف کردو۔
1۔ اس کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ بہت سے گناہ جو ملنے جلنے، بازار جانے آنے میں ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہو گے۔
2۔ اپنے مالک اور مولا کی رضامندی کے لیے اسی مولا کے گھر میں قیام کرنا خود عبادت ہے، بس اعتکاف کے دنوں میں ہر لمحے کا تم کو ثواب ملتا رہے گا اگر تم سوگئے تو یہ وقت بھی عبادت میں صرف ہوا اس کا بھی تمہیں ثواب ملے گا کیوںکہ تم اسی کی ڈیوڑھی پر پڑے ہوئے ہو۔
3۔ تم یہاں جماعت اور نماز کے اشتیاق میں بیٹھے ہو لہذا ہر لمحہ تمہیں نماز کا ثواب مل رہا ہے۔
4۔ مسجد اﷲ کا گھر ہے۔ تم اس کے گھر میں پڑے ہو تو اس کے پڑوسی اور اس کے مہمان ہو۔
5۔ تم فرشتوں سے مشابہت پیدا کررہے ہوکہ فرشتوں کی طرح ہر وقت عباد ت اور اﷲ کی یاد میں لگے ہوئے ہو۔
6۔ کسی پڑوسی کا سودا سلف لادینا، کسی بیمار کی مزاج پُرسی کے لیے جانا، جنازے میں شرکت کرنا اور ایسے بہت سے نیک کام جس کے لیے مسجد سے جانا پڑتا ہے وہ اعتکاف کے دنوں میں نہیں کرسکو گے، لیکن اگر تم یہ کام کیا کرتے تھے تو زمانہ اعتکاف میں بغیر کیے ہی ان کا ثواب تم کو ملتا رہے گا۔
7۔ آنحضرت ﷺ کی سنت مبارکہ پر عمل ہوگا کیوںکہ آپ نے اگرچہ کبھی پورے مہینہ اور آخری سال میں بیس روز کا بھی اعتکاف کیا ہے مگر دس روز کا اعتکاف تو آپ ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔
8۔ جب اعتکاف کا ہر لمحہ عبادت ہے تو اگر ان دس دنوں میں شب قدر ہوئی تو خود بخود اس کا عظیم الشان اجر و ثواب بھی تمہارے حصہ میں آئے گا۔
9۔ جماعت کی بڑی فضیلت ہے تو معتکف کے لیے ضروری ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں کرے جس میں نماز پنج گانہ کی جماعت کا انتظام ہو۔
شب قدر
رب العزت قادر مطلق نے جس طرح ہفتے میں جمعہ کے دن کو، مہینوں میں ماہ رمضان المبارک کو بے شمار فضیلتیں بخشیں، اسی طرح راتوں میں ایک رات بنائی جسے شبِ قدر یعنی قدر والی رات کہتے ہیں۔ جو شروع شام سے لے کر طلوعِ فجر تک رحمت اور سلامتی ہے۔ جس میں اﷲ پاک کے فرشتے اﷲ کے حکم سے خیر و برکت لے کر زمین پر آتے ہیں۔ خصوصاً حضرت روح الامینؑ جو رحمت اور برکت کے فرشتوں کے سرتاج ہیں، ان کا نزول ہوتا ہے جس سے اﷲ والوں کے دلوں میں نور اور تازگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے۔ اسی کو یہ خصوصیت حاصل ہے اس مبارک رات میں قرآن پاک کا نزول ہوا۔ ہمارے لیے اس میں یہ سعادت ہے کہ فرشتوں کے لشکر اہل ایمان کو ہدیہ سلام پیش کرتے ہیں ۔ یاد رہے یہ سلسلہ ساری رات جاری رہتا ہے نصیب والے ہیں وہ لوگ جنہیں فرشتے سلام کرتے ہیں۔ قلب مومن پر ان برکتوں کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے، گریہ کی کیفیت طاری ہوتی ہے، عبادت میں دل زیادہ لگتا ہے۔ اس رات میں دعا قبول ہوتی ہے آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو ہدایت فرمائی تھی کہ شب قدر میں اس دعا کا ورد رکھیں
ترجمہ: اے اﷲ تو بہت معاف کرنے والا ہے، معاف کر دینے ہی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے بھی معاف کردے (آمین)
اﷲ رب العالمین نے عظمت والی کتاب قرآن پاک کو رمضان المبارک میں رحمۃ للعالمین پر نازل کرکے امت رسول مکرم ﷺ پر احسانِ عظیم کیا۔ رمضان کی آمد ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہم ایک مخصوص وقت تک کھانا پینا ترک کردیتے ہیں یعنی فاقہ کرتے ہیں۔ فاقہ کرنا اچھی بات ہے۔
اس سے معدہ صحیح رہتا ہے۔ فاقہ کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ان غریبوں سے ہم دردی پیدا ہوتی ہے جو فاقہ پر مجبور ہیں، یہ ہم دردی انسانیت کا جوہر ہے۔ فاقہ سے روحانیت میں بھی تازگی پیدا ہوتی ہے، یادِ خدا میں دل لگتا ہے اسی لیے ہر ایک مذہب کے اچھے لوگ فاقہ کرتے ہیں، بلکہ فاقہ کی عادت ڈالتے ہیں۔ اسلام نے اس عمل کی تعریف کی ہے مگر اس کی تعلیم یہ ہے کہ جو کچھ ہو اﷲ کے لیے ہو، فاقہ بھی ہو تو اﷲ کے لیے اور اس کے حکم کے مطابق اور آنحضرت ﷺ کے طریق پر ہو۔ رمضان المبارک میں اس عظیم کام کو امیر اور غریب سبھی کرتے ہیں اور اس کے فضائل نبی پاک ﷺ نے بتائے ہیں اسی عظیم عمل کو ہم روزہ کہتے ہیں۔
رمضان المبارک روحانیت کی فصلِ بہار
شعبان کی آخری تاریخ میں آپ ﷺ نے فرمایا: وہ مہینہ آگیا جو مستحق تعظیم ہے جس کی عظمت ضروری ہے، یہ برکتوں والا مہینہ ہے، اس میں ایک رات ایسی آتی ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اﷲ پاک نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں رات کی نفلیں اگرچہ فرض نہیں مگر ان کا ثواب بے شمار رکھا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اس مہینہ میں نفل کا ثواب ایسا ہے جیسے عام دنوں میں فرض کا ثواب ہوتا ہے اور اس مہینہ میں فرض کا ثواب دوسرے دنوں سے ستر گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اس میں کھانے پینے اور تمام بری باتوں سے رکنا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ صبر کا ثواب جنت ہے، یہ صبر اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص دوسر ے روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کو برابر کا ثواب ملتا ہے اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی۔
آپ ﷺ نے فرمایا، یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا آغاز اﷲ کی رحمتوں سے ہوتا ہے، اس کے وسط میں گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور اس کے آخری حصہ میں دوزخ سے نجات ملتی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اس مبارک مہینہ میں جو شخص اپنے نوکر چاکر، اپنے غلام یا باندی کا کام ہلکا کرتا ہے، اﷲ اس کو آتش دوزخ سے آزاد کردیتا ہے۔
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے آپ نے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ فرمایا آمین۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! یہ آمین کیسی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل ؑ نے تین باتیں کہیں، میں نے ہر ایک کے جواب میں کہا آمین۔
حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ، جس کو رمضان کا مہینہ میسر آیا اور اُس نے اس مہینہ میں عبادت کر کے اپنے گناہ نہ بخشوائے، اس کے جواب میں میں نے کہا آمین۔ پھر حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ شخص جس کو ماں باپ کی خدمت کا موقع ملا اور اس نے ان کی خدمت کر کے اپنے گناہ نہ بخشوائے۔ میں نے کہا آمین۔ پھر حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا نام لیا گیا اور اس نے مجھ (آنحضرت ﷺ ) پر درود نہیں پڑھا۔ میں نے کہا آمین۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان المبارک میں نیکیوں کا ثواب بڑھا چڑھا کردیا جاتا ہے، نفل نماز کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے اور فرض نماز کا ثواب ستر گنا۔
1۔ کلام اﷲ شریف کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کر یں، مگر صحیح، ٹھہر کر اور پورے ادب سے دل لگا کر پڑھیں۔
2۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ صبر کا مہینہ ہے۔ صبر کا مطلب ہے تحمل، برداشت اور جمے رہنا۔ پس تم بھوک پیاس تو برداشت کرتے ہی ہو کوئی بُری بات کہے اسے بھی برداشت کرو۔ غصہ ہرگز مت کرو بلکہ غصے کو ضبط کرو، خود کو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو، کوئی بری بات زبان سے نہ نکالو کسی کی غیبت نہ کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب روزہ ہو تو نہ کوئی بری بات زبان سے نکالو، نہ چلاؤ، نہ شور مچاؤ، اگر کوئی تم سے الجھنے لگے تو یہ کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ بھائی معاف رکھو میرا روزہ ہے۔
3۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ مہینہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ پس خلق خدا پر رحم کرو، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرو، یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور محتاجوں کی خبرگیری کرو، ملازمین کے کاموں کا بوجھ ہلکا کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو اپنے ماتحت کا کام ہلکا کرے گا، اﷲ پاک اس کو آتش دوزخ سے نجات دے گا۔
4۔ آنحضرت ﷺ کو اﷲ پاک نے سخاوت کا دریا بنایا تھا یہ دریا ہمیشہ بہتا ہی رہتا تھا۔ مگر رمضان شریف میں یہ دریا گویا سمندر بن جاتا تھا جس کی موجوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی تھی۔ پس کوشش کرو کہ سخاوت کا چشمہ رمضان میں جاری رہے اور زیادہ سے زیادہ خلقِ خدا اس سے سیراب ہو۔
آخری عشرہ
جب تم اس ماہ مبارک کے بیس دن اس طرح گزارلو کہ زبان پر کلام اﷲ کی تلاوت ہو یا درود شریف، دل میں غریبوں کی ہم دردی ہو، نیک کاموں کی لگن زیادہ سے زیادہ ہو۔ اس عشرے میں آنحضرت ﷺ کی چستی اور مستعدی اور زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ جیسے ہی یہ عشرہ شروع ہوتا آپ ﷺ کمر کس لیتے خود بھی رات بھر جاگتے اور گھر کے دیگر افراد کو بھی جگاتے، اور فرماتے تھے کہ وہ مسلمان بہت بڑا بدقسمت ہے کہ یہ ماہ مبارک آئے اور گزر جائے اور وہ اس میں اپنے گناہ نہ بخشوا سکے۔
اعتکاف
اچھی بات یہ ہے کہ ان دس دنوں میں تم اسی آقا اور مالک کی ڈیوڑھی پر پڑ جاؤ، جس کے حکم سے روزے رکھ رہے ہو، جس نے روزوں پر بہت بڑا اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے اسی پڑجانے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ دن رات مسجد ہی میں رہو، گویا اپنے تمام بدن اور وقت کو اﷲ کی عبادت کے لیے وقف کردو۔
1۔ اس کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ بہت سے گناہ جو ملنے جلنے، بازار جانے آنے میں ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہو گے۔
2۔ اپنے مالک اور مولا کی رضامندی کے لیے اسی مولا کے گھر میں قیام کرنا خود عبادت ہے، بس اعتکاف کے دنوں میں ہر لمحے کا تم کو ثواب ملتا رہے گا اگر تم سوگئے تو یہ وقت بھی عبادت میں صرف ہوا اس کا بھی تمہیں ثواب ملے گا کیوںکہ تم اسی کی ڈیوڑھی پر پڑے ہوئے ہو۔
3۔ تم یہاں جماعت اور نماز کے اشتیاق میں بیٹھے ہو لہذا ہر لمحہ تمہیں نماز کا ثواب مل رہا ہے۔
4۔ مسجد اﷲ کا گھر ہے۔ تم اس کے گھر میں پڑے ہو تو اس کے پڑوسی اور اس کے مہمان ہو۔
5۔ تم فرشتوں سے مشابہت پیدا کررہے ہوکہ فرشتوں کی طرح ہر وقت عباد ت اور اﷲ کی یاد میں لگے ہوئے ہو۔
6۔ کسی پڑوسی کا سودا سلف لادینا، کسی بیمار کی مزاج پُرسی کے لیے جانا، جنازے میں شرکت کرنا اور ایسے بہت سے نیک کام جس کے لیے مسجد سے جانا پڑتا ہے وہ اعتکاف کے دنوں میں نہیں کرسکو گے، لیکن اگر تم یہ کام کیا کرتے تھے تو زمانہ اعتکاف میں بغیر کیے ہی ان کا ثواب تم کو ملتا رہے گا۔
7۔ آنحضرت ﷺ کی سنت مبارکہ پر عمل ہوگا کیوںکہ آپ نے اگرچہ کبھی پورے مہینہ اور آخری سال میں بیس روز کا بھی اعتکاف کیا ہے مگر دس روز کا اعتکاف تو آپ ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔
8۔ جب اعتکاف کا ہر لمحہ عبادت ہے تو اگر ان دس دنوں میں شب قدر ہوئی تو خود بخود اس کا عظیم الشان اجر و ثواب بھی تمہارے حصہ میں آئے گا۔
9۔ جماعت کی بڑی فضیلت ہے تو معتکف کے لیے ضروری ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں کرے جس میں نماز پنج گانہ کی جماعت کا انتظام ہو۔
شب قدر
رب العزت قادر مطلق نے جس طرح ہفتے میں جمعہ کے دن کو، مہینوں میں ماہ رمضان المبارک کو بے شمار فضیلتیں بخشیں، اسی طرح راتوں میں ایک رات بنائی جسے شبِ قدر یعنی قدر والی رات کہتے ہیں۔ جو شروع شام سے لے کر طلوعِ فجر تک رحمت اور سلامتی ہے۔ جس میں اﷲ پاک کے فرشتے اﷲ کے حکم سے خیر و برکت لے کر زمین پر آتے ہیں۔ خصوصاً حضرت روح الامینؑ جو رحمت اور برکت کے فرشتوں کے سرتاج ہیں، ان کا نزول ہوتا ہے جس سے اﷲ والوں کے دلوں میں نور اور تازگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے۔ اسی کو یہ خصوصیت حاصل ہے اس مبارک رات میں قرآن پاک کا نزول ہوا۔ ہمارے لیے اس میں یہ سعادت ہے کہ فرشتوں کے لشکر اہل ایمان کو ہدیہ سلام پیش کرتے ہیں ۔ یاد رہے یہ سلسلہ ساری رات جاری رہتا ہے نصیب والے ہیں وہ لوگ جنہیں فرشتے سلام کرتے ہیں۔ قلب مومن پر ان برکتوں کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے، گریہ کی کیفیت طاری ہوتی ہے، عبادت میں دل زیادہ لگتا ہے۔ اس رات میں دعا قبول ہوتی ہے آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو ہدایت فرمائی تھی کہ شب قدر میں اس دعا کا ورد رکھیں
ترجمہ: اے اﷲ تو بہت معاف کرنے والا ہے، معاف کر دینے ہی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے بھی معاف کردے (آمین)