السّلام علیکم کہیے دلوں کو جیت لیجیے

حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات عالیہ میں سلام بھی شامل ہے، جس کی بدولت لوگوں میں اخوت و بھائی چارے میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے

رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’السلام‘‘ اﷲ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جسے اﷲ نے زمین میں (زمین والوں کے لیے) رکھ دیا ہے:فوٹو : فائل

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس کے لوگوں کے باہمی تعلقات سے لگایا جاسکتا ہے، کیوں کہ لوگوں کے درمیان خوش گوار تعلقات کی بدولت ہی مثالی معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے اپنی مثالی اور اعلیٰ تعلیمات میں معاشرے کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے پر توجہ دی اور مدینہ منورہ کا معاشرہ اتنا ارفع و اعلیٰ تھا کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس معاشرے کے لوگوں میں باہمی پیار، محبت، ایثار، قربانی اور جاں نثاری اور دیگر جذبات پوری طرح اجاگر تھے۔

حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات عالیہ میں سلام بھی شامل ہے، جس کی بدولت لوگوں میں اخوت و بھائی چارے میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ مسلمان جب بھی مسلمان بھائی سے ملے تو دونوں ہی محبت و مسرت کے جذبات کا تبادلہ کریں اور اس کا بہترین طریقہ ایک دوسرے کو سلامتی اور عافیت کی دعا دینا ہے۔ ایک السّلام علیکم کہے تو دوسرا وعلیکم السّلام کہے۔ آپس میں محبت و بھائی چارے کو بڑھانے اور استوار کرنے کا بہترین طریقہ سلام ہے۔

پیارے رسول ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ تم لوگ جنت میں نہیں جاسکتے ، جب تک مومن نہیں بنتے اور تم لوگ مومن نہیں بن سکتے، جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تمھیں وہ تدبیر نہ بتادوں جسے اختیار کرکے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ (مشکوۃ)

جب ہم اپنے کسی بھائی سے ملتے ہوئے السّلام علیکم کہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اﷲ آپ کو ہر طرح کی سلامتی اور عافیت دے، اﷲ آپ کی جان و مال کو سلامت رکھے، گھر بار سلامت رکھے، اہلِ و عیال اور متعلقین کو سلامت رکھے۔ دین و ایمان کو سلامت رکھے، دنیا بھی سلامت رکھے اور آخرت بھی۔ سلام کرکے آپ مخاطب کے لیے سلامتی اور عافیت کی ساری دعائیں سمیٹ لیتے ہیں۔ ذرا اندازہ تو کریں کہ اگر یہ الفاظ شعور کے ساتھ سوچ سمجھ کر آپ اپنی زبان سے نکالیں تو مخاطب کی ملاقات پر قلبی مسرت کا اظہار کرنے اور خلوص و محبت، خیر خواہی اور وفاداری کے جذبات کو ظاہر کرنے کے لیے اس سے بہتر کون سے الفاظ ہوسکتے ہیں۔

رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ''السلام'' اﷲ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جسے اﷲ نے زمین میں (زمین والوں کے لیے) رکھ دیا ہے۔ پس ''السلام'' کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔

زیادہ تر لوگ اپنے شناساؤں کو سلام کرتے ہیں، جب کہ راہ میں نظر آنے والے ہر فرد کو سلام کرنا چاہیے۔ اگر آپ تجربے کے طور پر یہ عمل کریں تو آپ اس کے حیرت انگیز نتائج دیکھیں گے۔ ایک شخص نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ اسلام کا بہترین عمل کون سا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ غریبوں کو کھانا کھلانا اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، چاہے تمھاری اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)

سورہ النور میں ہے کہ '' جب تم اپنے گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو، دعائے خیر اﷲ کی طرف سے تعلیم کی ہوئی بڑی ہی بابرکت اور پاکیزہ''۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے تاکید فرمائی : '' پیارے بیٹے! جب تم اپنے گھر میں داخل ہوا کرو تو پہلے گھر والوں کو سلام کیا کرو۔ یہ تمھارے لیے اور تمھارے گھر والوں کے لیے خیر و برکت کی بات ہے۔'' (ترمذی)


اپنے سے چھوٹوں کو بھی سلام کرنا چاہیے، کیوں کہ سلام تو دعا ہے۔ نبی اکرم ﷺ بچوں کو بھی سلام کیا کرتے تھے۔ عام طور پر غیروں کو سلام کرتے ہوئے جھجک آتی ہے، ایک بار ہمت کرکے اس جھجک کو ختم کردیں تو آپ محسوس کریں گے کہ اس طرز عمل سے آپ کی عزت و احترام میں کتنا اضافہ ہوگیا ہے۔ آپس میں زیادہ سے زیادہ سلام کرنے سے محبت بڑھتی ہے اور اﷲ رب العزت ہر دکھ اور نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ سلام کو خوب پھیلاؤ، اﷲ تم کو سلامت رکھے گا۔

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام ؓ آپس میں بہت زیادہ سلام کیا کرتے تھے۔ سلام کی کثرت کا یہ حال تھا کہ اگر کسی وقت آپؐ کے ساتھی کسی درخت کی اوٹ میں ہوجاتے اور پھر سامنے آتے تو پھر سلام کرتے اور آپؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اسے سلام کرلے اور اگر درخت یا دیوار یا پتھر بیچ میں اوٹ بن جائے اور پھر سامنے آئے تو اسے پھر سلام کرے۔ (ریاض الصالحین)

حضرت طفیل ؓ کہتے ہیں کہ میں اکثر حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کے ہم راہ بازار بھی جاتا، وہ راستے میں جس کے پاس سے بھی گزرتے ، اسے سلام کرتے، چاہے کوئی دکان دار ہو، چاہے کوئی غریب اور مسکین، غرض کوئی بھی ہوتا، حضرت عبداﷲ بن عمرؓ اسے سلام ضرور کرتے۔

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب مسلمان بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے، جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد عالیہ ہے کہ جب تم کسی مجلس میں پہنچو تو سلام کرو۔ اور جب وہاں سے رخصت ہونے لگو تو پھر سلام کرو اور یاد رکھو کہ پہلا سلام دوسرے سلام سے زیادہ مستحق اجر نہیں ہے (یعنی محفل میں آنے پر تو اہتمام سے سلام کیا جائے اور رخصت ہوتے وقت سلام نہ کریں)۔ ( ترمذی)

ایک اور اہم بات یہ کہ سلام کے الفاظ پوری طرح ادا کریں، یعنی السلام علیکم ۔ موجودہ دور میں بعض لوگوں کی طرح سام علیکم نہ کہیں (جس کے معنی ہیں کہ تمھیں موت آجائے) ۔ اس معاملے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ پھر سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ہی نہ کہا جائے، بلکہ وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ علیہ وبرکاتہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

ذرا غور کر یں کہ اگر معاشرے میں سلام عام ہوجائے تو کتنا فائدہ ہوگا، بازاروں میں ، دفاتر میں ، تعلیمی اداروں، کھیتوں کھلیانوں میں ہر وقت سلامتی کی صدائیں گونجیں گی، جن سے محبت، اخوت اور بھائی چارے کو فروغ ملے گا اور ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں بھی نازل ہوں گی، جن کی ہمارے معاشرے کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔
Load Next Story