تعلیم سب کے لیے

علم کی جستجو اور شوق ختم ہوتا جارہا ہے اور ہوسِ زر نے انسان کو گمراہ کردیا ہے

nasim.anjum27@gmail.com

ایک خبر کے مطابق صوبائی محکمۂ تعلیم سندھ نے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے آرٹیکل 25 اے کے تحت 2015 تک مفت

اور لازمی تعلیم کے لیے قانون سازی کا مسودہ تیار کرلیا ہے اور مسودے کو منظوری سے قبل حتمی شکل دینے کے لیے محکمۂ تعلیم نے ماہرین کا اجلاس بدھ کو طلب کیا ہے۔ قانون سازی کے لیے تیار کیے جانے والے مسودے کے مطابق آبادی کے تناسب سے سرکاری اسکولوں کی تعداد کم ہونے کے سبب سندھ کے نجی اسکول اپنی مجموعی انرولمنٹ میں سے 20 فیصد داخلے 5 سال سے 16 سال تک کی عمر کے غریب بچوں کو دینے کے پابند ہوں گے، تاہم غریب طلبا ایک مقررہ حد تک فیس لینے والے نجی اسکولوں میں ہی داخلے لے سکیں گے۔

جن کے تمام اخراجات حکومتِ سندھ برداشت کرے گی، اس کے علاوہ بچوں کو اسکول نہ بھیجنے والے والدین پر جرمانے عاید کیے جائیں گے، صوبائی محکمۂ تعلیم کے ایک افسر نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ اس حوالے سے قائم کی گئی ''ٹاسک فورس'' کا اجلاس محکمۂ تعلیم کے ریفارم سپورٹ یونٹ میں طلب کیا گیا ہے، جس کی صدارت صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کریں گے'' یقیناً خبر تو اچھی ہے لیکن اس بات پر حیرت ہوئی کہ آبادی کے اعتبار سے اسکولوں کی تعداد کم ہے؟ اندرون سندھ کے گائوں اور گوٹھوں میں اسکولوں کی نہ صرف عمارات تعمیر کی جاچکی ہیں۔

بلکہ ان اسکولوں میں عملہ بھی تعینات ہے جو باقاعدہ ہر ماہ اپنی تنخواہیں وصول کرتے ہیں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اِن اسکولوں میں یا تو بڑے بڑے تالے لگے ہوئے ہیں یا پھر اسے اصطبل کی شکل دے دی گئی ہے اور گھوسٹ اساتذہ تھوڑی سی رشوت کے عوض اپنی پوری تنخواہ پابندی سے وصول کرتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو وہ کاغذی کارروائی کے حوالے سے بہ حیثیت استاد ملازمت کررہے ہیں تو دوسری جانب صبح سے شام تک کوئی دوسری نوکری یا کاروبار کررہے ہیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس کھیل میں بڑے اہم لوگ بھی شامل ہیں۔

اگر شامل نہ ہوتے تو اب تک تمام بند اسکولوں میں درس و تدریس شروع ہوچکی ہوتی، چونکہ بارہا اخبارات کی شہ سرخی کے ساتھ ایسی خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں، لیکن ملک و قوم سے محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بے اختیار ہیں اور جنھیں اﷲ تعالیٰ نے مواقع فراہم کیے ہیں، وہ مالی فوائد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں۔ اسکولوں کی کمی نہیں، تعلیم یافتہ لوگ خصوصاً معلم و معلمات بھی بے شمار ہیں جو اچھی ملازمت کے خواستگار ہیں لیکن یہ لوگ اپنے جائز حق سے اس لیے محروم ہیں کہ نہ ان کے پاس سفارش ہے اور نہ رشوت، نتیجہ اس کا یہ ہے کہ تعلیمی پس ماندگی بڑھتی ہی جارہی ہے.

علم کی جستجو اور شوق ختم ہوتا جارہا ہے اور ہوسِ زر نے انسان کو گمراہ کردیا ہے، گمراہی کی خاص وجہ تعلیم سے دوری ہے اور حصولِ تعلیم کے لیے معاشی دشواریوں نے بھی ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے۔ اگر مذکورہ مسودہ اسمبلی میں بل کی صورت منظور کرلیا جائے تو نجی اسکولوں میں غریب طلبا کو داخلہ مل سکتا ہے اور اخراجات حکومت کو برداشت کرنے ہوں گے جو کہ مثبت قدم ثابت ہوگا لیکن فوائد اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب کاغذی کارروائی سے بات عملی طور پر منظرِعام پر آئے اور عوام اس سے استفادہ کریں۔

حکومت کی طرف سے بے شمار تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں لیکن ایک بات بڑی ہی اہم ہے کہ یہ سرکاری ادارے اور اس کے ملازمین اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن سرکاری اسکولوں کی عمارات بعض علاقوں میں قابل توجہ ہیں، زیادہ تر کلاسوں میں پنکھے نہیں لگے ہوتے ہیں اور اگر کبھی کسی زمانے میں یعنی آج سے تیس چالیس سال پہلے لگے ہوں گے تو اب ان کی کارکردگی صفر ہوچکی ہے، یہ چلتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں بلکہ ہولے ہولے گھومتے ہیں، اسی طرح ٹھنڈے پانی کا مسئلہ درپیش ہے، سخت گرمیوں میں ٹھنڈا پانی میسر نہیں ہے۔ کیا وزیر تعلیم کی توجہ ان عمارات اور طلبا کے آرام و سہولتوں کی طرف بالکل نہیں ہے۔


ابھی حال ہی میں ہم نے ایک ایسے ہی اسکول کا دورہ کیا، یہاں کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا جیسا کہ دوسرے گورنمنٹ کے اسکولوں کا ہوتا ہے۔ اس اسکول کی انچارج نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے کورس کی کتابیں بہت کم ملی ہیں اور چونکہ طلبا کا تعلق غریب طبقے سے ہے، اس لیے وہ نہ کتابیں خریدنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ یونیفارم، لہٰذا بہت سے طلبا یونیفارم میں ملبوس نظر نہیں آئے، کئی اسکولوں میں فرنیچر کا بھی معقول انتظام نہیں ہوتا ہے، لیکن یہاں پر طلبا کے لیے کرسیاں موجود تھیں اور اساتذہ بھی بچوں کی تعلیم پر توجہ دینے کا حق دار سمجھتی ہیں۔

اور طلبا کی تعلیم پر توجہ بھی دی جاتی ہے ورنہ اکثریت ایسی نہیں ہے، ان کا کام تنخواہیں وصول کرنا ہے۔ مذکورہ اسکول جس علاقے میں واقع ہے، وہاں کے لوگ بقول اساتذہ کے عقل و شعور سے بے گانہ نظر آتے ہیں اس کی وجہ تعلیم سے دوری ہے۔ یہ رات کی تاریکی میں اسکول کی دوسری چھوٹی موٹی چیزیں اڑا لیتے ہیں بلکہ اسکول کا گیٹ چرانے کی نیت سے توڑ پھوڑ ڈالا۔ اکثر گلی محلے کے لڑکے اسکول میں آکر طلبا اور اساتذہ کو تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے ایک اسکول کا کیا رونا، سرکاری اسکولوں میں اس قسم کی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔

اگر طلبا کو حکومت کی طرف سے سہولتیں اور ذہنی و جسمانی اطمینان میسر ہو اور گورنمنٹ ملازمین بھی اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے سمجھیں تو صورتِ حال یکسر مختلف ہوسکتی ہے۔ طلبا و طالبات، نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے جید علماء اور نابغۂ روزگار شخصیات نے انھی اسکولوں سے تعلیم حاصل کی ہے اور اپنی محنت، کوشش اور لگن سے اعلیٰ اور ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ ملک و قوم کی خدمت کرنے میں شب و روز گزار دیے۔

پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد میں 15-20 سال سے بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان اسکولوں کا معیارِ تعلیم اگر بہتر ہے تو فیسیں اس قدر ہیں کہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنی محدود آمدنی کا نصف حصّہ پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کی ادائیگی میں خرچ کرے اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان اور انتظامیہ اتنی رحم دل اور انسانیت پرست نہیں کہ وہ اپنے اسکول میں گنتی کے 8-10 ان طلبا کو داخلہ دے دیں اور پڑھائی کی مکمل ذمے داری لے لیں جو ذہین ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے علم و ہنر کے در وا کرنا چاہتے ہیں اور جو کتابیں خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔

کمپیوٹر کی خریداری تو دور کی بات کیلکولیٹر اور دوسری تعلیمی ضرورت کی چیزیں خریدنے کی ہمت نہیں تو ملک و قوم سے محبت کرنیوالوں کی خصوصی توجہ سے ایسے بچوں کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے اور یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں۔ علم کو عام کرنا اور علم کی شمع روشن کرنا ہر صاحبِ بصیرت اور صاحبِ علم کا فرض ہے، لیکن اب ایسے لوگ خال خال نظر آتے ہیں جو معاشی بدحالی کے سبب جہالت کی دلدل میں دھنسنے سے پہلے ہی انھیں اٹھالیں۔

مثبت قدم یہ ہوگا کہ والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ نہ کرانے کی صورت میں جرمانہ بھرنے کے پابند ہوں گے۔ ویسے کیا ہی اچھا ہو زمانہ ماضی کی طرح تعلیمِ بالغاں کے اسکول و مدارس دوبارہ محلوں کوچوں میں کھل جائیں، چونکہ فی زمانہ والدین کی تعلیم و تربیت بھی بے حد ضروری ہے تاکہ وہ اپنی اولاد کی بہتر طریقے سے تربیت، پرورش اور دیکھ بھال کرسکیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو آج کے نوجوان اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، قاتل بھی وہ ہی ہیں، مقتول بھی خود۔ جس کو موقع ملتا ہے وہ اپنا کام دِکھا جاتا ہے اگر ہماری قوم کے بچّے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتے تو کسی بے گناہ کا خون نہ بہاتے۔

اپنا اچھا برا خود سوچتے۔ بہکاوے میں وہ ہی آتے ہیں جو کم علم اور کم عقل ہیں، وہ دور کی کوڑی نہیں لاتے ہیں۔ اپنے آنے والے وقت کی تباہ کاریوں سے ناواقف تاریک راہوں میں دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ تمام حالات کے قصوروار وہ خود بھی ہیں اور ان کے والدین بھی برابر کے شریک ہیں۔ حکومت نے مہنگائی، بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ کرکے لوگوں کے ذہنوں کو مفلوج کردیا ہے۔ افلاس کے خارزار بیل بوٹے ہر گھر میں اگادیے گئے ہیں، اب ان حالات میں کہاں کی تعلیم اور کیسی تربیت؟ لیکن اس کے باوجود سمجھ دار لوگ تنگی و ترشی میں بھی اپنی بھی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے، چونکہ وہ یہ بات ہرگز پسند نہیں کرتے کہ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں۔
Load Next Story