آئیے ’غدار غدار‘ کھیلتے ہیں

پریشانی یہ ہے کہ کسے غدار کہیں اور کسے حب الوطنی کی سند عطا کریں؟

حب الوطنی تو صرف اشرافیہ کے محلات کی باندی ہے جو ان کے سوا کسی عام آدمی میں نہیں آ سکتی۔فوٹو:فائل

محترم جناب حسن مجتبیٰ صاحب لکھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ یا تو ''کافر'' ہے یا ''دشمن کا ایجنٹ'' یا پھر ''غدار''۔ مزید لکھتے ہوئے وہ ایسی کئی شخصیتوں کا ذکر کرتے ہیں جو پاکستانی قوم کے آئیڈئیل ہیں، یا کبھی رہ چکے ہیں۔ ان میں محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر جاوید ہاشمی صاحب تک کا ذکر ہے۔ یعنی ایک گو موگو کی سی کیفیت ہے کہ کچھ پتا نہیں کسے غدار کہیں اور کسے محب وطن۔ ''شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے'' کے مصداق ہر کوئی ایک دوسرے کو کافر و غدار کہہ کر پکارتا ہے۔



مجتبیٰ صاحب نے جو نام لیے وہ نئی نسل کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کے ہیں لہذا یہ نسل آج کے دور میں ویسے ہی نام تلاش کرتی ہے تو اسے حسین حقانی جیسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ جو امریکہ جیسی محفوظ جگہ پر بیٹھ کر پاکستان کو ایک غیر محفوظ ریاست ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب حسین حقانی کو غدار کہا جائے یا ان لوگوں کو جو اس کو لے کر آئے۔ یا وہ لوگ غدار کہلائیں گے جو حسین حقانی جیسے کئی لوگوں کو تحفظ دیتے رہے۔ اگر تحفظ دینے والے لوگ حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ پاتے ہیں تو پھر حقانی جیسے کرداروں کو کیسے غداروں کی فہرست میں رکھیں گے؟ نئی نسل کنفیوژن کا شکار ہے۔ حسن مجتبیٰ جیسے لوگوں سے راہنمائی درکار ہے۔

ایگزیکٹ نے جعلی ڈگریوں کے کاروبار سے پاکستان کا نام بدنام کیا۔ اورمیرے جیسے ایک طالبعلم کے لیے تو ملک کا نام بدنام کرنے والے بھی غدار ہی کہلائیں گے۔ لیکن یہاں بھی معاملہ اس قدر سادہ نہیں ہے۔ اگر تو ایگزیکٹ والوں کو غداری اور ملک دشمنی کی فہرست میں رکھ دیا جائے تو ان لوگوں کو کس فہرست میں رکھا جائے گا جو ایوان اقتدار کے باسی بننے کے لیے جان بوجھ کر جعلی ڈگریوں کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ ایگزیکٹ پر اگر الزام ثابت ہوتا ہے تو اس میں لوگ انجانے میں شکار ہوئے۔ لیکن جو لوگ خود جان بوجھ کر جعلی ڈگری حاصل کر کے اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لیتے ہیں کیا انہیں ہم محب وطن کہیں گے یا غدار؟

80 اور 90 کی دہائی میں ہوش سنبھالنے والی نسل کو بھاشانی، مولوی فضل حق، فیض احمد فیض کی غداری یا حب الوطنی کو سمجھنے میں تو کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن موجودہ نسل اپنے دور میں بھی غداری و حب الوطنی میں فرق کرنے کے معاملے میں گو مگو کا شکار ہے کہ جسٹس مقبول باقر کی رپورٹ، جس میں سانحہ ماڈل ٹاون کے حوالے سے کہا گیا کہ حکومت ملوث ہے تو اس رپورٹ کو ہی ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ محترم جسٹس مقبول باقر صاحب محب وطن یا غدار ہیں یا رپورٹ نہ ماننے والے غدار ہیں؟ یا پھر حالیہ فیصلہ کرنے والی JIT محب وطن ہے یا غدار؟ ( جس نے تنزیلہ جیسی مظلوم خاتون کا خون بھی خود اسی کے اپنے ہاتھوں کروا دیا ہے)۔ یہاں تو کسی کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کرنا جوئے شیر کھود لانے کے مترادف ہے کیوں کہ یہاں تمام شہر نے دستانوں کے بجائے بے حسی کے خول چڑھائے ہوئے ہیں۔


ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ آیا ماڈل ٹاون میں گولیاں برسانے والے محب وطن کہلائے جائیں گے یا گولیاں کھانے والے؟ رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والی ایک سپر ماڈل جب بن سنور کے عدالت میں پیش ہوتی ہے۔ اب سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسے غدار کہیں گے۔ سپر ماڈل کو یا پھر سپر ماڈل کے سرپرستوں کو، یا پھر ان لوگوں کو جو اس کو جیل میں بھی VIP پروٹوکول کے ساتھ ساتھ تیاری کے مکمل لوازمات تک مہیا کر رہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس میڈیا کے بارے میں بھی عام آدمی کنفیوژن کا شکار ہے کہ اس میڈیا کو وطن دوست کہیں یا غدار جو ایک قیدی کی عدالت میں رونمائی کو حالات حاضرہ کا سب سے بڑا مسئلہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اِس ملک کے عوام ایک عجیب سے مخمصے کا شکار ہیں کہ جو جوان سیاچن کی چوٹیوں پر بیٹھے ہیں ان کے بارے میں تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ملکی ترقی میں رکاوٹ ہیں جبکہ جن لوگوں کے محلات تک پاکستان سے باہر ہیں وہ اپنی مخلصی کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔

اب پریشانی یہ ہے کہ کسے غدار کہیں اور کسے حب الوطنی کی سند عطا کریں۔ یہاں کا دستور کچھ ایسا عجیب ہوگیا کہ نئے صوبے جیسا قابل عمل مطالبہ کرنے والوں کو تو ملک دشمن تک کہہ دیا جاتا ہے لیکن اپنی شان و شوکت بچانے کے لیے عوام کو کنگال کرنے والے پھر بھی مسیحا بنے رہتے ہیں۔ اب کوئی کرے تو کرے کیا ۔آدھا ملک کھا جانے والے وطن دوست ہیں یا اس ملک کے لیے اپنا آپ مٹا دینے والے؟ فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔ کیوں کہ اقتدار کا ہما تو پھر بھی انہی کے سر بیٹھتا ہے جو۔۔۔۔۔۔ !

وطن سے وفاداری کا ہی تو عالم ہے کہ بچے صحرا میں پیاس سے مر رہے ہیں۔ عزتیں نیلام ہو رہی ہیں۔ گولیاں سرحدوں کے بجائے گلیوں میں چل رہی ہیں۔ خونِ انساں ارزاں ہوگیا ہے۔ روزانہ 4 سے 5 لاشیں گریں تو اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے کہ آج ہلاکتیں زیادہ نہیں ہوئیں۔ بسوں میں گھس کر خون کی ہولی کھیلی جائے یا سکول میں گھس کر لوگوں کو مارا جائے۔ سب اچھا ہے۔ کیوں کہ اس دھرتی سے محبت کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ ان فضول معاملات پر اپنی محبت صرف کردی جائے۔ بلکہ محبت کا مطلب تو میٹرو بس بنانا ہے۔ وطن سے وفاداری کا مطلب تو یہ ہے کہ سائیں جی ساحل پر نہاتے لوگ دیکھ کر لطف اندوز ہوں۔ ان مسائل کا رونا رونے والے ہی تو اصل میں غدار ہیں کیوں کہ یہ مسائل میں الجھے لوگ ہی ایوان اقتدار کے باسیوں کو عیش و عشرت کی مستی سے جگانے کا باعث بنتے ہیں۔

خبردار!!! جو کسی نے بہتے خون ۔۔۔ پیاسے بچوں ۔۔۔ اجڑتی بستیوں ۔۔۔ گرتے لاشوں ۔۔۔ یا پھر لٹتی عزتوں ۔۔۔۔ کی طرف ارباب اختیار کی توجہ دلانے کی کوشش کی تو۔۔۔ ورنہ غداری کے سرٹیفیکیٹ تو یہاں ریڑھیوں پر بکتے ہیں۔ ہاں حب الوطنی صرف اشرافیہ کے محلات کی باندی ہے جو ان کے سوا کسی عام آدمی میں نہیں آ سکتی۔

[poll id="462"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story