کراچی اتنا بھی برا نہیں
اسفندیار ولی کو خود کراچی آکر حقائق دیکھنے چاہئیں کیونکہ کراچی ابھی اتنا بھی برا نہیں ہوا جتنا اسفندیار سمجھ رہے ہیں
اے این پی کے سربراہ اور کراچی میں آباد پختونوں کی مکمل نمایندگی کے دعوے دار اسفندیار ولی نے کہا ہے کہ
کراچی اردو، پشتو اور سندھی بولنے والوں کے تین علاقوں میں تقسیم ہوچکا ہے اور ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی اور ہماری چادر چھینی گئی تو ہم بھی دوسروں کی شال محفوظ نہیں رہنے دیں گے۔ اپنے آپ کو قومی لیڈر کہنے والے اسفند یار ولی کا یہ بیان انتہائی غیر ذمے دارانہ اور گمراہ کن ہے کیونکہ کراچی میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے جیسی اے این پی کے سربراہ نے پیش کی ہے۔
کراچی کے ہر علاقے میں پشتون کاروبار کررہے ہیں اور بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت رہایشی علاقوں میں ہے جب کہ وہاں کے کاروباری علاقوں میں پختون چھائے ہوئے ہیں اور ان کے کاروبار کا انحصار اردو بولنے والوں کی خریداری پر ہے۔ اردو بولنے والوں کے علاقوں میں جہاں کی نمایندگی متحدہ کررہی ہے، وہاں لاکھوں دکانیں، پتھارے اور ریڑھیاں پختونوں کی ملکیت ہے۔ کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ جس میں پرانے دھواں چھوڑنے والے رکشے، کالی پیلی ٹیکسیاں، منی کوچز اور پرانی بسیں شامل ہیں، زیادہ تر پشتو بولنے والوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنی آبادی میں کم اور اردو اور سندھی بولنے والوں کے علاقوں میں زیادہ سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ کراچی کے ہر علاقے میں چائے خانے اور ہوٹل پختونوں کے ہیں۔
کراچی میں عام تاثر ہے کہ پٹھان ہوٹل والے کی چائے اور پراٹھا اچھا ہوتا ہے۔ کراچی میں چوکیداری کرنے والوں میں اکثریت پٹھانوں کی ہے۔ گھروں میں ڈرائیور زیادہ تر پٹھان ہیں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ کراچی میں تعمیری کاموں کے لیے گڑھے کھودنے کا کام زیادہ تر پٹھان کرتے ہیں۔ تعمیری مشینری پٹھانوں سے ہی کرایے پر لی جاتی ہے۔ سبزی اور فروٹ منڈیوں میں پٹھانوں کا ہولڈ ہے۔ ٹھیکے دار بھی زیادہ تر پٹھان ہیں۔ اردو بولنے والوں کے علاقوں میں رات گئے تک تنگ گلیوں میں اپنی ریڑھیوں کی گھنٹی سے گاہکوں کو اپنی آمد کی اطلاع دے کر خشک میوہ فروخت کرنیوالے بھی پٹھان ہیں۔
مکئی کے دانوں اور مکئی کے بھٹے پکا کر ریڑھیوں پر فروخت کرنیوالے شہر بھر میں گھوم پھر کر فروخت کرنے والے بھی پٹھان ہیں، جن کے خریداروں کی اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے۔ کراچی میں کپڑے کے کاروبار میں بھی پٹھان آگے آگے ہیں۔ پوش علاقوں میں پھلوں اور سبزیوں کا کاروبار بھی زیادہ تر پٹھانوں کے ہاتھ میں ہے۔ پھر نہ جانے وہ علاقے کراچی میں کہاں ہیں جن کا ذکر اسفندیار ولی نے کیا ہے۔
اسفندیار ولی کو ایسا بیان دینے سے قبل اے این پی کراچی کی قیادت سے ہی ایسے علاقوں کا معلوم کرنا چاہیے تھا کہ کراچی کن علاقوں میں اردو، سندھی اور پشتو بولنے والوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ اے این پی کی مقامی قیادت بھی اس سلسلے میں بہتر طور پر جانتی ہے اور بتاسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ اسفندیار والی اپنی پارٹی کی کراچی کی قیادت سے حقائق معلوم نہیں کرتے یا مقامی قیادت انھیں غلط اور گمراہ کن معلومات فراہم کرتی ہے تاکہ شاہی سید کو میڈیا پر زیادہ سے زیادہ رہنے کا موقع ملے۔ شاہی سید سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اسفندیار ولی کے قریبی عزیز ہیں اور اسفند یار زیادہ تر ملک سے باہر یا اپنے صوبے سے باہر رہتے ہیں اور وہ کراچی بہت ہی کم آتے ہیں۔
اسفندیار خان کے والد خان ولی خان واقعی قومی اور مدبر رہنما تھے جو اپنے صوبے اور ملک میں ہی زیادہ رہتے تھے، کراچی کو اہمیت دیتے تھے اور کراچی کیا اندرون سندھ بھی جاتے تھے کیونکہ وہ صرف پٹھانوں کے رہنما نہیں تھے، ان کی پارٹی میں اردو، سندھی اور بلوچوں سمیت ہر زبان بولنے والے شامل تھے۔ اے این پی کی سیاست سندھ اور کراچی میں نہ جانے کون سی سمت چل رہی ہے۔ اسفندیار ولی اپنے صوبے کا نام ملنے پر صدر زرداری کا احسان مانتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ چلتے ہیں مگر سندھ میں اے این پی بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت سے الگ ہو کر پیپلز پارٹی کے مخالفین کے ساتھ کھڑی ہے جب کہ شاہی سید کا کہنا تھا کہ انھوں نے بلدیاتی نظام کا معاملہ اپنی مرکزی قیادت پر چھوڑ دیا ہے جب کہ مرکزی قیادت کو شاید سندھ اور کراچی کے مسئلے پر سوچنے کی فرصت نہیں ہے اور اسفندیار ولی کو نہ جانے کراچی کے کون سے علاقوں کا بتایا گیا ہے جو مکمل طور پر پٹھانوں کے زیر کنٹرول اور پٹھانوں پر ہی مشتمل ہے۔
خدانخواستہ اگر ایسی نوبت آجائے جس کا ذکر اسفند یار ولی نے کیا ہے تو کیا کراچی میں رہنے والے تقریباً تیس پینتیس لاکھ پٹھان اپنا وسیع کاروبار اپنے ہی علاقوں تک محدود کرلیں گے۔ کیا وہ اس طرح کماسکیں گے جیسے وہ اب کمارہے ہیں۔ اگر اسفندیار ولی کی سوچ یہی ہے تو اس میں مکمل نقصان پٹھانوں کا ہوگا، وہ کبھی محدود رہ کر کام نہیں کرسکیں گے۔ پٹھانوں کی ضرورت کراچی کے ہر علاقے میں ہے اور پٹھانوں کی ضرورت کوئی مخصوص علاقہ نہیں بلکہ پورا کراچی ہے، جہاں کوئی بھی رہتا ہو اور کوئی بھی زبان بولتا ہو۔
کراچی میں موچی تک کا کاروبار کرنے والے کو عزت سے خان صاحب کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ پٹھانوں کی دکانیں اور ہوٹل پشتو نہ بولنے والوں سے بھرے رہتے ہیں۔ مقامی سطح پر سب مل جل کر پیار محبت سے رہ رہے ہیں، ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور اسی طرح کراچی کا کاروبار زندگی چل رہا ہے۔ پٹھان صرف اے این پی میں نہیں ہر جماعت میں ہیں، انھیں ہی ووٹ دیتے ہیں مگر یہ ضرور ہورہا ہے کہ اے این پی کی سیاست کی وجہ سے کراچی میں جانی و مالی نقصان جتنا ہوا ہے، اتنا کبھی ولی خان مرحوم کی سیاست کے دور میں نہیں ہوا تھا۔ اسفندیار ولی کو خود کراچی آکر حقائق دیکھنے چاہئیں کیونکہ کراچی ابھی اتنا بھی برا نہیں ہوا جتنا اسفندیار سمجھ رہے ہیں۔ کراچی اتنا برا نہیں جتنا اسے بدنام کردیا گیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ کراچی کو کراچی آکر سمجھا جائے۔
کراچی اردو، پشتو اور سندھی بولنے والوں کے تین علاقوں میں تقسیم ہوچکا ہے اور ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی اور ہماری چادر چھینی گئی تو ہم بھی دوسروں کی شال محفوظ نہیں رہنے دیں گے۔ اپنے آپ کو قومی لیڈر کہنے والے اسفند یار ولی کا یہ بیان انتہائی غیر ذمے دارانہ اور گمراہ کن ہے کیونکہ کراچی میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے جیسی اے این پی کے سربراہ نے پیش کی ہے۔
کراچی کے ہر علاقے میں پشتون کاروبار کررہے ہیں اور بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت رہایشی علاقوں میں ہے جب کہ وہاں کے کاروباری علاقوں میں پختون چھائے ہوئے ہیں اور ان کے کاروبار کا انحصار اردو بولنے والوں کی خریداری پر ہے۔ اردو بولنے والوں کے علاقوں میں جہاں کی نمایندگی متحدہ کررہی ہے، وہاں لاکھوں دکانیں، پتھارے اور ریڑھیاں پختونوں کی ملکیت ہے۔ کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ جس میں پرانے دھواں چھوڑنے والے رکشے، کالی پیلی ٹیکسیاں، منی کوچز اور پرانی بسیں شامل ہیں، زیادہ تر پشتو بولنے والوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنی آبادی میں کم اور اردو اور سندھی بولنے والوں کے علاقوں میں زیادہ سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ کراچی کے ہر علاقے میں چائے خانے اور ہوٹل پختونوں کے ہیں۔
کراچی میں عام تاثر ہے کہ پٹھان ہوٹل والے کی چائے اور پراٹھا اچھا ہوتا ہے۔ کراچی میں چوکیداری کرنے والوں میں اکثریت پٹھانوں کی ہے۔ گھروں میں ڈرائیور زیادہ تر پٹھان ہیں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ کراچی میں تعمیری کاموں کے لیے گڑھے کھودنے کا کام زیادہ تر پٹھان کرتے ہیں۔ تعمیری مشینری پٹھانوں سے ہی کرایے پر لی جاتی ہے۔ سبزی اور فروٹ منڈیوں میں پٹھانوں کا ہولڈ ہے۔ ٹھیکے دار بھی زیادہ تر پٹھان ہیں۔ اردو بولنے والوں کے علاقوں میں رات گئے تک تنگ گلیوں میں اپنی ریڑھیوں کی گھنٹی سے گاہکوں کو اپنی آمد کی اطلاع دے کر خشک میوہ فروخت کرنیوالے بھی پٹھان ہیں۔
مکئی کے دانوں اور مکئی کے بھٹے پکا کر ریڑھیوں پر فروخت کرنیوالے شہر بھر میں گھوم پھر کر فروخت کرنے والے بھی پٹھان ہیں، جن کے خریداروں کی اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے۔ کراچی میں کپڑے کے کاروبار میں بھی پٹھان آگے آگے ہیں۔ پوش علاقوں میں پھلوں اور سبزیوں کا کاروبار بھی زیادہ تر پٹھانوں کے ہاتھ میں ہے۔ پھر نہ جانے وہ علاقے کراچی میں کہاں ہیں جن کا ذکر اسفندیار ولی نے کیا ہے۔
اسفندیار ولی کو ایسا بیان دینے سے قبل اے این پی کراچی کی قیادت سے ہی ایسے علاقوں کا معلوم کرنا چاہیے تھا کہ کراچی کن علاقوں میں اردو، سندھی اور پشتو بولنے والوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ اے این پی کی مقامی قیادت بھی اس سلسلے میں بہتر طور پر جانتی ہے اور بتاسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ اسفندیار والی اپنی پارٹی کی کراچی کی قیادت سے حقائق معلوم نہیں کرتے یا مقامی قیادت انھیں غلط اور گمراہ کن معلومات فراہم کرتی ہے تاکہ شاہی سید کو میڈیا پر زیادہ سے زیادہ رہنے کا موقع ملے۔ شاہی سید سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اسفندیار ولی کے قریبی عزیز ہیں اور اسفند یار زیادہ تر ملک سے باہر یا اپنے صوبے سے باہر رہتے ہیں اور وہ کراچی بہت ہی کم آتے ہیں۔
اسفندیار خان کے والد خان ولی خان واقعی قومی اور مدبر رہنما تھے جو اپنے صوبے اور ملک میں ہی زیادہ رہتے تھے، کراچی کو اہمیت دیتے تھے اور کراچی کیا اندرون سندھ بھی جاتے تھے کیونکہ وہ صرف پٹھانوں کے رہنما نہیں تھے، ان کی پارٹی میں اردو، سندھی اور بلوچوں سمیت ہر زبان بولنے والے شامل تھے۔ اے این پی کی سیاست سندھ اور کراچی میں نہ جانے کون سی سمت چل رہی ہے۔ اسفندیار ولی اپنے صوبے کا نام ملنے پر صدر زرداری کا احسان مانتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ چلتے ہیں مگر سندھ میں اے این پی بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت سے الگ ہو کر پیپلز پارٹی کے مخالفین کے ساتھ کھڑی ہے جب کہ شاہی سید کا کہنا تھا کہ انھوں نے بلدیاتی نظام کا معاملہ اپنی مرکزی قیادت پر چھوڑ دیا ہے جب کہ مرکزی قیادت کو شاید سندھ اور کراچی کے مسئلے پر سوچنے کی فرصت نہیں ہے اور اسفندیار ولی کو نہ جانے کراچی کے کون سے علاقوں کا بتایا گیا ہے جو مکمل طور پر پٹھانوں کے زیر کنٹرول اور پٹھانوں پر ہی مشتمل ہے۔
خدانخواستہ اگر ایسی نوبت آجائے جس کا ذکر اسفند یار ولی نے کیا ہے تو کیا کراچی میں رہنے والے تقریباً تیس پینتیس لاکھ پٹھان اپنا وسیع کاروبار اپنے ہی علاقوں تک محدود کرلیں گے۔ کیا وہ اس طرح کماسکیں گے جیسے وہ اب کمارہے ہیں۔ اگر اسفندیار ولی کی سوچ یہی ہے تو اس میں مکمل نقصان پٹھانوں کا ہوگا، وہ کبھی محدود رہ کر کام نہیں کرسکیں گے۔ پٹھانوں کی ضرورت کراچی کے ہر علاقے میں ہے اور پٹھانوں کی ضرورت کوئی مخصوص علاقہ نہیں بلکہ پورا کراچی ہے، جہاں کوئی بھی رہتا ہو اور کوئی بھی زبان بولتا ہو۔
کراچی میں موچی تک کا کاروبار کرنے والے کو عزت سے خان صاحب کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ پٹھانوں کی دکانیں اور ہوٹل پشتو نہ بولنے والوں سے بھرے رہتے ہیں۔ مقامی سطح پر سب مل جل کر پیار محبت سے رہ رہے ہیں، ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور اسی طرح کراچی کا کاروبار زندگی چل رہا ہے۔ پٹھان صرف اے این پی میں نہیں ہر جماعت میں ہیں، انھیں ہی ووٹ دیتے ہیں مگر یہ ضرور ہورہا ہے کہ اے این پی کی سیاست کی وجہ سے کراچی میں جانی و مالی نقصان جتنا ہوا ہے، اتنا کبھی ولی خان مرحوم کی سیاست کے دور میں نہیں ہوا تھا۔ اسفندیار ولی کو خود کراچی آکر حقائق دیکھنے چاہئیں کیونکہ کراچی ابھی اتنا بھی برا نہیں ہوا جتنا اسفندیار سمجھ رہے ہیں۔ کراچی اتنا برا نہیں جتنا اسے بدنام کردیا گیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ کراچی کو کراچی آکر سمجھا جائے۔