ٹریفک حادثات میں ایک ہزار افراد کی ہلاکت
ڈاکٹر غفور بلوچ اپنے دوست کے بیٹے کے ولیمے کی دعوت میں مدعو تھے۔
KARACHI:
ڈاکٹر غفور بلوچ اپنے دوست کے بیٹے کے ولیمے کی دعوت میں مدعو تھے۔ ان کا 17 سالہ بیٹا ماجد موٹر سائیکل لے کر گلستانِ جوہر دوستوں سے ملنے گیا ہوا تھا۔ غفور بلوچ نے کھانا شروع ہوتے ہی بیٹے کو فون کیا مگر ان کا بیٹا دوستوں کے ساتھ مگن تھا، یوں ا س نے ٹیلیفون کا جواب نہیں دیا۔ ڈاکٹر صاحب تقریب کے خاتمے پر لیاری اپنے گھر چلے گئے۔
رات گئے جناح اسپتال کی ایمرجنسی سے آنے والے ٹیلی فون کے ذریعے انھیں اپنے بیٹے کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع ملی۔ وہ اپنے گھر سے تقریباً 20 کلومیٹر دور جناح اسپتال پہنچے۔ ان کا بیٹا سر میں شدید ضرب لگنے کی وجہ سے بے ہوش تھا۔ جناح اسپتال میں اس وقت وینٹی لیٹر خالی نہیں تھا، ماجد علی کو آغا خان اسپتال منتقل کیا گیا۔ 7 دن تک زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ماجد علی انتقال کر گیا۔ ماجد علی کی موٹر سائیکل کو کارساز روڈ پر ایک تیز رفتار کار نے ٹکر ماری تھی۔ کار ڈرائیور نے حادثے کے بعد رکنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی۔
ایدھی ایمبولینس نے سڑک پر گرے ماجد علی کو اسٹریچر پر ڈال کر اسپتال منتقل کیا۔ ماجد علی کی موت نے ڈاکٹر غفور بلوچ اور ان کی اہلیہ کی زندگی سے خوشی چھین لی۔ یہ صرف ڈاکٹر غفور بلوچ کی ہی کہانی نہیں، گزشتہ سال کراچی میں ٹریفک حادثات میں ایک ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ ان سب خاندانوں کی ایسی ہی کہانی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والے 30 سے 40 فیصد افراد کے سر میں چوٹ لگی تھی جب کہ 10 سے 20 فیصد اموات کی وجہ کچھ اور تھی۔
ہلاک ہونے والے بیشتر افراد موٹر سائیکل پر سوار تھے اور بیشتر نے ہیلمٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ حکومتِ سندھ کے Road Traffic Injury Research and Prevention Centre کے مرتب کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 2013ء میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1130 تھی۔ اس سینٹر نے کراچی کے 5 بڑے اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں پہنچنے والے زخمیوں اور ہلاک ہونے والے افراد سے یہ اعداد و شمار حاصل کیے ہیں۔ جو لوگ دیگر اسپتالوں میں گئے اور وہاں ان کی اموات ہوئیں ان کی تعداد کو جمع کیا جائے تو مرنے والے افراد کی تعداد بڑھ جائے گی۔ کراچی میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح کے مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے عملے کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حادثات موٹر سائیکل سواروں کے ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکل چلانے والے افراد خواہ ان کی عمر کچھ ہی ہو ٹریفک کے قانون کی بالعموم خلاف ورزی کرتے ہیں۔
کراچی کے ایک سینئر شہری کا کہنا ہے کہ نوجوان، بوڑھے، کلین شیو اور داڑھی والے سبھی ٹریفک سگنل توڑتے ہیں، ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ایک اسکوٹر پر عموماً ماں، بیوی اور اپنے دو تین بچوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور اتنی زیادہ سواریوں کے ساتھ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سرخ بتی پر رکنا اپنے لیے توہین کا باعث سمجھتے ہیں۔ کراچی میں اوور ہیڈ بریجز کی تعمیر اور سگنل فری کاریڈور بنانے کے ساتھ ہی ٹریفک کی خلاف ورزیاں بڑھتی چلی گئیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ نئی نسل ٹریفک قوانین کی پابندی پر یقین ہی نہیں رکھتی، نوجوانوں میں ون ویلنگ ڈرائیونگ جیسے خطرناک رجحانات حادثات کی تعداد میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
کراچی کی ٹریفک پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر کہتے ہیں کہ کراچی میں بڑی بسوں کی کمی، منی بسوں اور ویگن کی نایابی کی بناء پر موٹر سائیکل کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ چین کی تیار کردہ موٹر سائیکل 30 سے 40 ہزار روپے تک دستیاب ہے اور کمپنیاں قسطوں پر موٹر سائیکلیں فروخت کرتی ہیں۔ یوں تقریباً ہر شخص موٹر سائیکل خرید سکتا ہے۔ کراچی کی ترقی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو گیا ہے۔
آزادی کے وقت کراچی میں ٹرام چلا کرتی تھی۔ شہر میں بڑی بسیں موجود تھیں، شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سرکاری شعبے کی بسیں چلتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں سرکلر ریلوے چلنا شروع ہو گئی۔ یہ سرکلر ریلوے ایک طرف پپری سے شروع ہو کر کینٹ اور سٹی اسٹیشن کے راستے وزیر منشن پر ختم ہوتی تھی۔ سرکلر ریلوے کی دوسری لائن وزیر منشن، سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلشنِ اقبال سے ہوتی ہوئی ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن پر سرکلر ریلوے کی مرکزی لائن سے منسلک ہو جاتی تھی۔ پھر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پہلے ٹرام وے سروس کو ختم کیا گیا، سرکلر ریلوے کی سروس انحطاط کا شکار ہوئی۔ سرکاری شعبے میں چلنے والی بس سروس بھی معطل کر دی گئی۔ شہر میں پیلی منی بسیں چلنے لگیں۔ ان بسوں میں مسافر مرغا بن کر سفر کرتے تھے۔
پہلے دوسری چھوٹی بسیں سڑکوں پر لائی گئیں۔ سابق وزیر ٹرانسپورٹ دوست محمد فیضی نے ایئرکنڈیشنڈ بس سروس شروع کی۔ سابق ناظم نعمت اﷲ نے بینکوں کے قرضوں سے نجی شعبے میں چلنے والی بڑی بسوں خاص طور پر ایئرکنڈیشنڈ بسوں کی حوصلہ افزائی کی۔ کچھ مہینوں تک تو کراچی کے شہریوں کو بڑی اور جدید بسیں میسر آئیں مگر ٹرانسپورٹ مالکان نے بینکوں کو قرضے ادا نہیں کیے۔
کچھ مالکان زیادہ منافع کمانے کے لیے بسوں کو پنجاب لے گئے۔ سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اور مصطفی کمال نے اپنے آخری دور میں CNG سے چلنے والی گرین بس کی سروس شروع کی تھی۔ یہ بسیں نارتھ کراچی سے لانڈھی، کھوکھرا پار سے صدر اور ٹاور تک جاتی تھیں مگر کچھ عرصے بعد یہ سروس معطل ہو گئی۔ اب بھی کچھ گرین بسیں سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ اس صورتحال میں بڑی بسیں نایاب ہو گئیں۔ شہر میں ہنگاموں میں بسوں کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات کے بعد چھوٹے ٹرانسپورٹروں نے سرمایہ کاری چھوڑ دی۔ اسی طرح پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے مکینوں کے لیے چین کا تیار کردہ موٹر سائیکل سے چلانے والا رکشہ ہی رہ گیا۔
اس دوران لاہور میں میٹرو بس منصوبہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مکمل بھی ہو گیا۔ لاہور شہر میں 20 روپے میں جدید بسوں میں عوام سفر کرنے لگے۔ اب میاں شہباز شریف چین کی مدد سے لاہور میں اورینج ٹرین کا منصوبہ شروع کرنے والے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد، ملتان اور فیصل آباد وغیرہ میں میٹرو بس کے منصوبے شروع کیے اور اب راولپنڈی سے اسلام آباد تک کے پروجیکٹ کا افتتاح ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے اور سہراب گوٹھ سے ٹاور تک جدید بس سروس شروع کرنے کے اعلانات کیے مگر یہ تمام اعلانات محض اخبارات تک محدود رہ گئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی بناء پر عام شہری نے موٹر سائیکل اور کاروں کی خریداری پر توجہ دی۔
ایک طرف سڑکوں پر رش بڑھ گیا تو دوسری طرف CNG، گیس اور پیٹرول کی قلت پیدا ہو گئی۔ اس سے حادثات کی شرح بڑھ گئی۔ کراچی میں گزشتہ سال ٹریفک کے حادثات میں ہلاک ہونے والے افراد میں بیشتر نوجوان تھے۔ ان میں سے کچھ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ یوں ان افراد کی ہلاکت نے نئے انسانی سانحات کو جنم دیا۔ اگر شہر میں بڑی بسیں، انڈرگراؤنڈ ٹرین اور ٹرام سروس کا جال بچھایا جائے، اس کے ساتھ ہی ٹریفک قوانین پر بھی سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے تو نہ صرف نوجوانوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے بلکہ ایندھن کی مد میں خرچ ہونے والی رقم ترقی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر غفور بلوچ اپنے دوست کے بیٹے کے ولیمے کی دعوت میں مدعو تھے۔ ان کا 17 سالہ بیٹا ماجد موٹر سائیکل لے کر گلستانِ جوہر دوستوں سے ملنے گیا ہوا تھا۔ غفور بلوچ نے کھانا شروع ہوتے ہی بیٹے کو فون کیا مگر ان کا بیٹا دوستوں کے ساتھ مگن تھا، یوں ا س نے ٹیلیفون کا جواب نہیں دیا۔ ڈاکٹر صاحب تقریب کے خاتمے پر لیاری اپنے گھر چلے گئے۔
رات گئے جناح اسپتال کی ایمرجنسی سے آنے والے ٹیلی فون کے ذریعے انھیں اپنے بیٹے کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع ملی۔ وہ اپنے گھر سے تقریباً 20 کلومیٹر دور جناح اسپتال پہنچے۔ ان کا بیٹا سر میں شدید ضرب لگنے کی وجہ سے بے ہوش تھا۔ جناح اسپتال میں اس وقت وینٹی لیٹر خالی نہیں تھا، ماجد علی کو آغا خان اسپتال منتقل کیا گیا۔ 7 دن تک زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ماجد علی انتقال کر گیا۔ ماجد علی کی موٹر سائیکل کو کارساز روڈ پر ایک تیز رفتار کار نے ٹکر ماری تھی۔ کار ڈرائیور نے حادثے کے بعد رکنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی۔
ایدھی ایمبولینس نے سڑک پر گرے ماجد علی کو اسٹریچر پر ڈال کر اسپتال منتقل کیا۔ ماجد علی کی موت نے ڈاکٹر غفور بلوچ اور ان کی اہلیہ کی زندگی سے خوشی چھین لی۔ یہ صرف ڈاکٹر غفور بلوچ کی ہی کہانی نہیں، گزشتہ سال کراچی میں ٹریفک حادثات میں ایک ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ ان سب خاندانوں کی ایسی ہی کہانی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والے 30 سے 40 فیصد افراد کے سر میں چوٹ لگی تھی جب کہ 10 سے 20 فیصد اموات کی وجہ کچھ اور تھی۔
ہلاک ہونے والے بیشتر افراد موٹر سائیکل پر سوار تھے اور بیشتر نے ہیلمٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ حکومتِ سندھ کے Road Traffic Injury Research and Prevention Centre کے مرتب کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 2013ء میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1130 تھی۔ اس سینٹر نے کراچی کے 5 بڑے اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں پہنچنے والے زخمیوں اور ہلاک ہونے والے افراد سے یہ اعداد و شمار حاصل کیے ہیں۔ جو لوگ دیگر اسپتالوں میں گئے اور وہاں ان کی اموات ہوئیں ان کی تعداد کو جمع کیا جائے تو مرنے والے افراد کی تعداد بڑھ جائے گی۔ کراچی میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح کے مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے عملے کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حادثات موٹر سائیکل سواروں کے ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکل چلانے والے افراد خواہ ان کی عمر کچھ ہی ہو ٹریفک کے قانون کی بالعموم خلاف ورزی کرتے ہیں۔
کراچی کے ایک سینئر شہری کا کہنا ہے کہ نوجوان، بوڑھے، کلین شیو اور داڑھی والے سبھی ٹریفک سگنل توڑتے ہیں، ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ایک اسکوٹر پر عموماً ماں، بیوی اور اپنے دو تین بچوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور اتنی زیادہ سواریوں کے ساتھ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سرخ بتی پر رکنا اپنے لیے توہین کا باعث سمجھتے ہیں۔ کراچی میں اوور ہیڈ بریجز کی تعمیر اور سگنل فری کاریڈور بنانے کے ساتھ ہی ٹریفک کی خلاف ورزیاں بڑھتی چلی گئیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ نئی نسل ٹریفک قوانین کی پابندی پر یقین ہی نہیں رکھتی، نوجوانوں میں ون ویلنگ ڈرائیونگ جیسے خطرناک رجحانات حادثات کی تعداد میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
کراچی کی ٹریفک پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر کہتے ہیں کہ کراچی میں بڑی بسوں کی کمی، منی بسوں اور ویگن کی نایابی کی بناء پر موٹر سائیکل کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ چین کی تیار کردہ موٹر سائیکل 30 سے 40 ہزار روپے تک دستیاب ہے اور کمپنیاں قسطوں پر موٹر سائیکلیں فروخت کرتی ہیں۔ یوں تقریباً ہر شخص موٹر سائیکل خرید سکتا ہے۔ کراچی کی ترقی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو گیا ہے۔
آزادی کے وقت کراچی میں ٹرام چلا کرتی تھی۔ شہر میں بڑی بسیں موجود تھیں، شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سرکاری شعبے کی بسیں چلتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں سرکلر ریلوے چلنا شروع ہو گئی۔ یہ سرکلر ریلوے ایک طرف پپری سے شروع ہو کر کینٹ اور سٹی اسٹیشن کے راستے وزیر منشن پر ختم ہوتی تھی۔ سرکلر ریلوے کی دوسری لائن وزیر منشن، سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلشنِ اقبال سے ہوتی ہوئی ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن پر سرکلر ریلوے کی مرکزی لائن سے منسلک ہو جاتی تھی۔ پھر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پہلے ٹرام وے سروس کو ختم کیا گیا، سرکلر ریلوے کی سروس انحطاط کا شکار ہوئی۔ سرکاری شعبے میں چلنے والی بس سروس بھی معطل کر دی گئی۔ شہر میں پیلی منی بسیں چلنے لگیں۔ ان بسوں میں مسافر مرغا بن کر سفر کرتے تھے۔
پہلے دوسری چھوٹی بسیں سڑکوں پر لائی گئیں۔ سابق وزیر ٹرانسپورٹ دوست محمد فیضی نے ایئرکنڈیشنڈ بس سروس شروع کی۔ سابق ناظم نعمت اﷲ نے بینکوں کے قرضوں سے نجی شعبے میں چلنے والی بڑی بسوں خاص طور پر ایئرکنڈیشنڈ بسوں کی حوصلہ افزائی کی۔ کچھ مہینوں تک تو کراچی کے شہریوں کو بڑی اور جدید بسیں میسر آئیں مگر ٹرانسپورٹ مالکان نے بینکوں کو قرضے ادا نہیں کیے۔
کچھ مالکان زیادہ منافع کمانے کے لیے بسوں کو پنجاب لے گئے۔ سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اور مصطفی کمال نے اپنے آخری دور میں CNG سے چلنے والی گرین بس کی سروس شروع کی تھی۔ یہ بسیں نارتھ کراچی سے لانڈھی، کھوکھرا پار سے صدر اور ٹاور تک جاتی تھیں مگر کچھ عرصے بعد یہ سروس معطل ہو گئی۔ اب بھی کچھ گرین بسیں سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ اس صورتحال میں بڑی بسیں نایاب ہو گئیں۔ شہر میں ہنگاموں میں بسوں کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات کے بعد چھوٹے ٹرانسپورٹروں نے سرمایہ کاری چھوڑ دی۔ اسی طرح پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے مکینوں کے لیے چین کا تیار کردہ موٹر سائیکل سے چلانے والا رکشہ ہی رہ گیا۔
اس دوران لاہور میں میٹرو بس منصوبہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مکمل بھی ہو گیا۔ لاہور شہر میں 20 روپے میں جدید بسوں میں عوام سفر کرنے لگے۔ اب میاں شہباز شریف چین کی مدد سے لاہور میں اورینج ٹرین کا منصوبہ شروع کرنے والے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد، ملتان اور فیصل آباد وغیرہ میں میٹرو بس کے منصوبے شروع کیے اور اب راولپنڈی سے اسلام آباد تک کے پروجیکٹ کا افتتاح ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے اور سہراب گوٹھ سے ٹاور تک جدید بس سروس شروع کرنے کے اعلانات کیے مگر یہ تمام اعلانات محض اخبارات تک محدود رہ گئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی بناء پر عام شہری نے موٹر سائیکل اور کاروں کی خریداری پر توجہ دی۔
ایک طرف سڑکوں پر رش بڑھ گیا تو دوسری طرف CNG، گیس اور پیٹرول کی قلت پیدا ہو گئی۔ اس سے حادثات کی شرح بڑھ گئی۔ کراچی میں گزشتہ سال ٹریفک کے حادثات میں ہلاک ہونے والے افراد میں بیشتر نوجوان تھے۔ ان میں سے کچھ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ یوں ان افراد کی ہلاکت نے نئے انسانی سانحات کو جنم دیا۔ اگر شہر میں بڑی بسیں، انڈرگراؤنڈ ٹرین اور ٹرام سروس کا جال بچھایا جائے، اس کے ساتھ ہی ٹریفک قوانین پر بھی سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے تو نہ صرف نوجوانوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے بلکہ ایندھن کی مد میں خرچ ہونے والی رقم ترقی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔