گلوکار محمد رفیع کے تین شاگرد
ریڈیو اسٹیشن جاتا تھا میں نے اسے مشورہ دیا کہ یار! تم بھی نئے گلوکاروں کے ریڈیو پروگرام میں حصہ لینے جایا کرو۔
میں کراچی کے ایک بہت ہی پرانے علاقے میں رہتا تھا، جہاں انگریز کے زمانے کی بنائی ہوئی سو سال سے بھی زیادہ پرانی بلڈنگیں بھی تھیں جو لال مضبوط پتھر کی بنائی ہوئی تھیں ان ہی میں سے ایک بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر ہمارا گھر تھا اور اسی محلے میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مشہور عظیم پریم راگی قوالی بھی رہتے تھے۔
ان کا ایک بیٹا سلیم شہزاد بھی اپنے والد کی قوالی کے پروگراموں میں قوالی کی ٹیم کا ایک ممبر ہوا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ میری ان سے دوستی ہوگئی تھی اور دوستی کی بنیاد اس کی خوبصورت اور سریلی آواز تھی اور وہ گلوکار محمد رفیع کے گیت بڑے اچھے انداز میں گاتا تھا۔ سلیم شہزاد کی گائیکی کے قصے تو میں بعد میں بیان کروں گا پہلے اس کے عظیم والد عظیم پریم راگی کی اس لاجواب قوالی کا تذکرہ کروں گا جس کی سارے ہندوستان اور پاکستان میں بھی بڑی دھوم تھی۔ ہندوستان سے ہجرت سے پہلے پریم راگی ہندوستان میں صف اول کے قوال مشہور تھے۔
ان کی گائی ہوئی ایک قوالی کی سارے ہندوستان میں بڑی شہرت تھی اور ہندوستان کا کوئی شہر ایسا نہ تھا جہاں اس قوالی کے چرچے نہ ہوں۔ وہ قوالی ہر ایک کے دل میں اتر جاتی تھی اور اس قوالی کا صوفیانہ رنگ ہی سب سے الگ تھا۔ وہ ایک خاصے کی چیز تھی اور ایک تاریخی حیثیت رکھتی تھی۔ اس قوالی کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں:
سکھی ری ڈولی میں ہو جا سوار
ابھی دور ہے پیا کا دوار' سکھی ری ڈولی میں ہو جا سوار
میکے کی یاد اب دل سے بھلا دے
کلمہ نبیؐ کا پڑھ کے سنادے
قالُو بلا کا قول نبھا دے
رونا ہے اب بے کار' سکھی ری ڈولی میں ہو جا سوار
کنبہ قبیلہ چھوڑ کے واری
اگلے گھر کی کر تیاری
یوں نہ سمجھیو اکیلی سدھاری
سب ہی چلیں گے باری باری
چار کے کاندھے سوار' سکھی ری ڈولی میں ہو جا سوار
اس قوالی کی ملک گیر شہرت سے متاثر ہوکر اور اس قوالی کو کیش کرانے کے لیے برصغیر کی مشہور EMI گراموفون کمپنی نے اس قوالی کے ریکارڈز بنانے کے لیے عظیم پریم راگی قوال کو اس دور کے حساب سے ایک بہت بڑی آفر دی جو اس سے پہلے کسی قوالی کو نہیں دی گئی تھی مگر یہ آفر عظیم پریم راگی قوال نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی تھی کہ EMI کمپنی کے ریکارڈوں پر کتے کی تصویر بنی ہوئی ہے اور میری قوالی کے پاکیزہ کلام کی عظمت کے منافی ہے۔ اور مجھے لاکھوں کی آفر بھی کسی صورت میں قبول نہیں ہے۔ یہ تھی بڑے کردار کی بات۔ آج کے دور میں ایسے کردار کے لوگ کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔
اب میں آتا ہوں عظیم پریم راگی کے صاحبزادے سلیم شہزاد کی طرف جو خود کو گلوکار محمد رفیع کا شاگرد کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتا تھا اور محمد رفیع کو اپنا روحانی استاد سمجھتا تھا۔ مجھے اکثر سلیم شہزاد محمد رفیع کے گیت سنایا کرتا تھا۔ ہم چند دوست اپنی بلڈنگ کی بڑی سی فٹ پاتھ پر اکثر رات گئے تک بیٹھا کرتے تھے۔ دن میں سخت گرمی ہوتی تھی اور راتوں کو سمندر کا طواف کرتی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں ہمارے محلے تک آجاتی تھیں اور فضا میں خنکی بھر جاتی تھی اور پتھر کی ٹھنڈی ٹھنڈی فٹ پاتھ بھی اچھی لگتی تھی اور بلڈنگوں میں رہنے والے بہت سے افراد اپنے گھروں کی بجائے فٹ پاتھ پر چادریں بچھائے رات گئے تک بیٹھے رہتے تھے اور جب چاند کی چودھویں رات ہوتی تھی تو فٹ پاتھوں پر رت جگے ہوا کرتے تھے۔
ایسے موقعے پر میں کہیں نہ کہیں سے سلیم شہزاد کو ڈھونڈ کر اپنے دوستوں کی محفل میں لے آتا تھا اور پھر سلیم شہزاد سے گانوں کی فرمائش شروع ہوجاتی تھی پہلے تو سلیم شہزاد کچھ نخرے دکھاتا تھا پھر میرے اصرار پر پہلے اپنا موڈ بناتا اور پھر آنکھیں بند کر کے محمد رفیع بن جاتا تھا اور اپنی سریلی آواز میں محمد رفیع کے سدا بہار گیت اس طرح سناتا کہ سارے ماحول میں سروں کے پھول کھل اٹھتے تھے خاص طور پر یہ چند گیت بڑے ڈوب کر گاتا:
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو۔۔۔۔
کھویا کھویا چاند کھلا آسمان۔۔۔۔
پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا۔۔۔۔
رمیّا وتہ ویّا میں نے دل تجھکو دیا۔۔۔
تُو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا۔۔۔۔
اور پھر آخر میں محمد رفیع کا لازوال گیت میری فرمائش پر بڑی پاٹ دار آواز کے ساتھ اونچے سروں میں سناتا تھا :
او دنیا کے رکھوالے' سن درد بھرے میرے نالے
اس گیت کا وہ ایسا سماں باندھتا تھا کہ بس وہ محمد رفیع ہی لگتا تھا۔ سلیم شہزاد کو بھی فلموں میں گانے کا جنون سوار تھا۔ اب میں محمد رفیع کے دوسرے شاگرد رفیق چوہدری کی طرف آتا ہوں جو رامسوامی ہی کے علاقے کی بغل میں بنے ہوئے جوبلی سینما کے پاس رہتا تھا۔ میں اس کے علاقے میں بچپن میں کرکٹ کھیلنے جاتا تھا اور اسی دوران میری رفیق چوہدری سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس زمانے میں صدر کے علاقے میں چوہدری فرزند علی قلفی ہاؤس اور اس کی دکان پر ٹوکن لے کر لوگ قلفی خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے تھے میں جب بھی شام کے وقت صدر سے گزرتا تو قلفی ہاؤس ضرور جاتا تھا کیونکہ شام کو قلفی کی دکان پر رفیق چوہدری کی ڈیوٹی لگتی تھی اور رفیق چوہدری مجھ سے دوستی کی وجہ سے کبھی قلفی کے پیسے نہیں لیتا تھا۔ رفیق چوہدری کو محمد رفیع بہت پسند تھا اور وہ اس کے گیت بڑے سُر اور لے میں گاتا تھا۔ ان دنوں میں شاعری کرنے لگا تھا۔
ریڈیو اسٹیشن جاتا تھا میں نے اسے مشورہ دیا کہ یار! تم بھی نئے گلوکاروں کے ریڈیو پروگرام میں حصہ لینے جایا کرو۔ رفیق چوہدری بھی ریڈیو جانے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ریڈیو سے ہلکی پھلکی موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لینے لگا۔ سلیم شہزاد بھی اس دوران ریڈیو کے موسیقی کے پروگراموں سے وابستہ ہوچکا تھا، جتنے بھی اس دور کے مشہور محمد رفیع کے گیت تھے سلیم شہزاد اور رفیق چوہدری فنکشنوں میں بھی گانے لگے تھے۔ سلیم شہزاد اپنی سادگی اور رفیق چوہدری اپنی دکان کی ذمے داریوں کی وجہ سے اپنی کوئی پی۔
آر نہ بنا سکے جیسی کہ اس دور میں تحسین جاوید، اخلاق احمد اور افراہیم کی تھی، اسی دوران محمد رفیع کے ایک تیسرے شاگرد سے بھی میری ملاقات ہوگئی تھی جو ان دنوں نیا نیا ہندوستان سے آیا تھا۔ ایک دن ریڈیو اسٹیشن کراچی کی کینٹین میں محمد افراہیم سے استاد امیر احمد خان نے میرا تعارف کرایا۔ افراہیم نے اس ملاقات میں بتایا کہ وہ گلوکار محمد رفیع کا باقاعدہ شاگرد ہے ۔کراچی میں وحید مراد نے پہلی فلم ''ہیرا اور پتھر'' بنائی جس کے مصنف اقبال رضوی تھے، موسیقار سہیل رعنا نے ''ہیرا اور پتھر'' میں پہلی بار سلیم شہزاد سے ایک ڈوئیٹ گوایا۔ جو سلیم شہزاد کے ساتھ ریڈیو کی مشہور صداکارہ طلعت صدیقی نے گایا تھا ۔گیت مسرور انور نے لکھا تھا جس کے بول تھے:
مجھے ایک لڑکی سے پیار ہوگیا
خالی پیلی کہتا ہے پیار ہوگیا
سلیم شہزاد کو دوسرا موقع فلمساز و ہیرو فیروز نے اپنی فلم ''السلام علیکم'' میں دیا۔ فلم کے موسیقار نذر صابر اور شاعر شبی فاروقی تھے اور گیت کا مکھڑا تھا:
محبت کے دیے جلالو
وفا کے گیت گنگنا لو
اب سلیم شہزاد باقاعدہ گلوکاروں کی صف میں آچکا تھا، اس دوران اس نے ٹی وی کے لیے بھی بہت سے گیت گائے میں ان دنوں کمرشل پروڈیوسر تھا سلیم شہزاد نے میرے بھی کئی کمرشل گیت گائے اور سلیم شہزاد کا گایا میرا لکھا ہوا ایک گیت ''دریا کی فریاد'' بھی بہت مشہور ہوا تھا۔یہ تھیم سانگ آلودگی سے متعلق تھا جس کے بول تھے:
اے انسانو اے نادانو
مرے دل سے اٹھی فریاد سنو
سلیم شہزاد نے کمرشل سانگ کے علاوہ پرویز ملک کی فلم ''سوغات'' میں گیت گایا تھا پھر سلیم شہزاد ایک فلم ''کون اپنا کون پرایا'' میں اداکار بن کر بھی آیا۔ اب میں محمد رفیع کے تیسرے شاگرد رفیق چوہدری کی طرف آتا ہوں۔ رفیق چوہدری فنکشنوں میں تو گاتا تھا مگر اسے کسی فلم میں گیت گانے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ اپنے دیرینہ شوق کو پورا کرنے کے لیے رفیق چوہدری نے کراچی میں ایک فلم ''پھر صبح ہوگی'' بنائی جس کے ہدایت کار ہندوستان سے آئے ہوئے سینئر ترین ہدایت کار باپو رفیق رضوی تھے اور فلم میں وحید مراد اور دیبا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
یہ اپنے دور کی ایک اچھی فلم تھی اور موسیقار ناشاد نے رونا لیلیٰ اور رفیق چوہدری کو پہلی بار اس فلم میں بطورگلوکار روشناس کرایا تھا۔ ایک ہی محلے میں رہنے والے گلوکار محمد رفیع کے یہ تینوں شاگرد جب کراچی میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے میں کراچی چھوڑ کر لاہور شفٹ ہوگیا تھا۔ اور وہاں بحیثیت فلم نویس اور نغمہ نگار مصروف ہوگیا تھا۔ اب میں کافی عرصے سے امریکا میں سکونت پذیر ہوں اور جب بھی کراچی جاتا ہوں تو پھر پرانے دوستوں سے ملاقاتیں رہتی ہیں،پیار بھری محفلیں سجتی ہیں، یاروں کے رت جگے رہتے ہیں اور پھر اپنے دامن میں ڈھیر ساری میٹھی میٹھی یادیں لے کر واپس امریکا آجاتا ہوں۔
ان کا ایک بیٹا سلیم شہزاد بھی اپنے والد کی قوالی کے پروگراموں میں قوالی کی ٹیم کا ایک ممبر ہوا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ میری ان سے دوستی ہوگئی تھی اور دوستی کی بنیاد اس کی خوبصورت اور سریلی آواز تھی اور وہ گلوکار محمد رفیع کے گیت بڑے اچھے انداز میں گاتا تھا۔ سلیم شہزاد کی گائیکی کے قصے تو میں بعد میں بیان کروں گا پہلے اس کے عظیم والد عظیم پریم راگی کی اس لاجواب قوالی کا تذکرہ کروں گا جس کی سارے ہندوستان اور پاکستان میں بھی بڑی دھوم تھی۔ ہندوستان سے ہجرت سے پہلے پریم راگی ہندوستان میں صف اول کے قوال مشہور تھے۔
ان کی گائی ہوئی ایک قوالی کی سارے ہندوستان میں بڑی شہرت تھی اور ہندوستان کا کوئی شہر ایسا نہ تھا جہاں اس قوالی کے چرچے نہ ہوں۔ وہ قوالی ہر ایک کے دل میں اتر جاتی تھی اور اس قوالی کا صوفیانہ رنگ ہی سب سے الگ تھا۔ وہ ایک خاصے کی چیز تھی اور ایک تاریخی حیثیت رکھتی تھی۔ اس قوالی کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں:
سکھی ری ڈولی میں ہو جا سوار
ابھی دور ہے پیا کا دوار' سکھی ری ڈولی میں ہو جا سوار
میکے کی یاد اب دل سے بھلا دے
کلمہ نبیؐ کا پڑھ کے سنادے
قالُو بلا کا قول نبھا دے
رونا ہے اب بے کار' سکھی ری ڈولی میں ہو جا سوار
کنبہ قبیلہ چھوڑ کے واری
اگلے گھر کی کر تیاری
یوں نہ سمجھیو اکیلی سدھاری
سب ہی چلیں گے باری باری
چار کے کاندھے سوار' سکھی ری ڈولی میں ہو جا سوار
اس قوالی کی ملک گیر شہرت سے متاثر ہوکر اور اس قوالی کو کیش کرانے کے لیے برصغیر کی مشہور EMI گراموفون کمپنی نے اس قوالی کے ریکارڈز بنانے کے لیے عظیم پریم راگی قوال کو اس دور کے حساب سے ایک بہت بڑی آفر دی جو اس سے پہلے کسی قوالی کو نہیں دی گئی تھی مگر یہ آفر عظیم پریم راگی قوال نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی تھی کہ EMI کمپنی کے ریکارڈوں پر کتے کی تصویر بنی ہوئی ہے اور میری قوالی کے پاکیزہ کلام کی عظمت کے منافی ہے۔ اور مجھے لاکھوں کی آفر بھی کسی صورت میں قبول نہیں ہے۔ یہ تھی بڑے کردار کی بات۔ آج کے دور میں ایسے کردار کے لوگ کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔
اب میں آتا ہوں عظیم پریم راگی کے صاحبزادے سلیم شہزاد کی طرف جو خود کو گلوکار محمد رفیع کا شاگرد کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتا تھا اور محمد رفیع کو اپنا روحانی استاد سمجھتا تھا۔ مجھے اکثر سلیم شہزاد محمد رفیع کے گیت سنایا کرتا تھا۔ ہم چند دوست اپنی بلڈنگ کی بڑی سی فٹ پاتھ پر اکثر رات گئے تک بیٹھا کرتے تھے۔ دن میں سخت گرمی ہوتی تھی اور راتوں کو سمندر کا طواف کرتی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں ہمارے محلے تک آجاتی تھیں اور فضا میں خنکی بھر جاتی تھی اور پتھر کی ٹھنڈی ٹھنڈی فٹ پاتھ بھی اچھی لگتی تھی اور بلڈنگوں میں رہنے والے بہت سے افراد اپنے گھروں کی بجائے فٹ پاتھ پر چادریں بچھائے رات گئے تک بیٹھے رہتے تھے اور جب چاند کی چودھویں رات ہوتی تھی تو فٹ پاتھوں پر رت جگے ہوا کرتے تھے۔
ایسے موقعے پر میں کہیں نہ کہیں سے سلیم شہزاد کو ڈھونڈ کر اپنے دوستوں کی محفل میں لے آتا تھا اور پھر سلیم شہزاد سے گانوں کی فرمائش شروع ہوجاتی تھی پہلے تو سلیم شہزاد کچھ نخرے دکھاتا تھا پھر میرے اصرار پر پہلے اپنا موڈ بناتا اور پھر آنکھیں بند کر کے محمد رفیع بن جاتا تھا اور اپنی سریلی آواز میں محمد رفیع کے سدا بہار گیت اس طرح سناتا کہ سارے ماحول میں سروں کے پھول کھل اٹھتے تھے خاص طور پر یہ چند گیت بڑے ڈوب کر گاتا:
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو۔۔۔۔
کھویا کھویا چاند کھلا آسمان۔۔۔۔
پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا۔۔۔۔
رمیّا وتہ ویّا میں نے دل تجھکو دیا۔۔۔
تُو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا۔۔۔۔
اور پھر آخر میں محمد رفیع کا لازوال گیت میری فرمائش پر بڑی پاٹ دار آواز کے ساتھ اونچے سروں میں سناتا تھا :
او دنیا کے رکھوالے' سن درد بھرے میرے نالے
اس گیت کا وہ ایسا سماں باندھتا تھا کہ بس وہ محمد رفیع ہی لگتا تھا۔ سلیم شہزاد کو بھی فلموں میں گانے کا جنون سوار تھا۔ اب میں محمد رفیع کے دوسرے شاگرد رفیق چوہدری کی طرف آتا ہوں جو رامسوامی ہی کے علاقے کی بغل میں بنے ہوئے جوبلی سینما کے پاس رہتا تھا۔ میں اس کے علاقے میں بچپن میں کرکٹ کھیلنے جاتا تھا اور اسی دوران میری رفیق چوہدری سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس زمانے میں صدر کے علاقے میں چوہدری فرزند علی قلفی ہاؤس اور اس کی دکان پر ٹوکن لے کر لوگ قلفی خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے تھے میں جب بھی شام کے وقت صدر سے گزرتا تو قلفی ہاؤس ضرور جاتا تھا کیونکہ شام کو قلفی کی دکان پر رفیق چوہدری کی ڈیوٹی لگتی تھی اور رفیق چوہدری مجھ سے دوستی کی وجہ سے کبھی قلفی کے پیسے نہیں لیتا تھا۔ رفیق چوہدری کو محمد رفیع بہت پسند تھا اور وہ اس کے گیت بڑے سُر اور لے میں گاتا تھا۔ ان دنوں میں شاعری کرنے لگا تھا۔
ریڈیو اسٹیشن جاتا تھا میں نے اسے مشورہ دیا کہ یار! تم بھی نئے گلوکاروں کے ریڈیو پروگرام میں حصہ لینے جایا کرو۔ رفیق چوہدری بھی ریڈیو جانے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ریڈیو سے ہلکی پھلکی موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لینے لگا۔ سلیم شہزاد بھی اس دوران ریڈیو کے موسیقی کے پروگراموں سے وابستہ ہوچکا تھا، جتنے بھی اس دور کے مشہور محمد رفیع کے گیت تھے سلیم شہزاد اور رفیق چوہدری فنکشنوں میں بھی گانے لگے تھے۔ سلیم شہزاد اپنی سادگی اور رفیق چوہدری اپنی دکان کی ذمے داریوں کی وجہ سے اپنی کوئی پی۔
آر نہ بنا سکے جیسی کہ اس دور میں تحسین جاوید، اخلاق احمد اور افراہیم کی تھی، اسی دوران محمد رفیع کے ایک تیسرے شاگرد سے بھی میری ملاقات ہوگئی تھی جو ان دنوں نیا نیا ہندوستان سے آیا تھا۔ ایک دن ریڈیو اسٹیشن کراچی کی کینٹین میں محمد افراہیم سے استاد امیر احمد خان نے میرا تعارف کرایا۔ افراہیم نے اس ملاقات میں بتایا کہ وہ گلوکار محمد رفیع کا باقاعدہ شاگرد ہے ۔کراچی میں وحید مراد نے پہلی فلم ''ہیرا اور پتھر'' بنائی جس کے مصنف اقبال رضوی تھے، موسیقار سہیل رعنا نے ''ہیرا اور پتھر'' میں پہلی بار سلیم شہزاد سے ایک ڈوئیٹ گوایا۔ جو سلیم شہزاد کے ساتھ ریڈیو کی مشہور صداکارہ طلعت صدیقی نے گایا تھا ۔گیت مسرور انور نے لکھا تھا جس کے بول تھے:
مجھے ایک لڑکی سے پیار ہوگیا
خالی پیلی کہتا ہے پیار ہوگیا
سلیم شہزاد کو دوسرا موقع فلمساز و ہیرو فیروز نے اپنی فلم ''السلام علیکم'' میں دیا۔ فلم کے موسیقار نذر صابر اور شاعر شبی فاروقی تھے اور گیت کا مکھڑا تھا:
محبت کے دیے جلالو
وفا کے گیت گنگنا لو
اب سلیم شہزاد باقاعدہ گلوکاروں کی صف میں آچکا تھا، اس دوران اس نے ٹی وی کے لیے بھی بہت سے گیت گائے میں ان دنوں کمرشل پروڈیوسر تھا سلیم شہزاد نے میرے بھی کئی کمرشل گیت گائے اور سلیم شہزاد کا گایا میرا لکھا ہوا ایک گیت ''دریا کی فریاد'' بھی بہت مشہور ہوا تھا۔یہ تھیم سانگ آلودگی سے متعلق تھا جس کے بول تھے:
اے انسانو اے نادانو
مرے دل سے اٹھی فریاد سنو
سلیم شہزاد نے کمرشل سانگ کے علاوہ پرویز ملک کی فلم ''سوغات'' میں گیت گایا تھا پھر سلیم شہزاد ایک فلم ''کون اپنا کون پرایا'' میں اداکار بن کر بھی آیا۔ اب میں محمد رفیع کے تیسرے شاگرد رفیق چوہدری کی طرف آتا ہوں۔ رفیق چوہدری فنکشنوں میں تو گاتا تھا مگر اسے کسی فلم میں گیت گانے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ اپنے دیرینہ شوق کو پورا کرنے کے لیے رفیق چوہدری نے کراچی میں ایک فلم ''پھر صبح ہوگی'' بنائی جس کے ہدایت کار ہندوستان سے آئے ہوئے سینئر ترین ہدایت کار باپو رفیق رضوی تھے اور فلم میں وحید مراد اور دیبا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
یہ اپنے دور کی ایک اچھی فلم تھی اور موسیقار ناشاد نے رونا لیلیٰ اور رفیق چوہدری کو پہلی بار اس فلم میں بطورگلوکار روشناس کرایا تھا۔ ایک ہی محلے میں رہنے والے گلوکار محمد رفیع کے یہ تینوں شاگرد جب کراچی میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے میں کراچی چھوڑ کر لاہور شفٹ ہوگیا تھا۔ اور وہاں بحیثیت فلم نویس اور نغمہ نگار مصروف ہوگیا تھا۔ اب میں کافی عرصے سے امریکا میں سکونت پذیر ہوں اور جب بھی کراچی جاتا ہوں تو پھر پرانے دوستوں سے ملاقاتیں رہتی ہیں،پیار بھری محفلیں سجتی ہیں، یاروں کے رت جگے رہتے ہیں اور پھر اپنے دامن میں ڈھیر ساری میٹھی میٹھی یادیں لے کر واپس امریکا آجاتا ہوں۔