بھارتی معاشی ترقی کیلیے پاکستان سے تجارت نا گزیر قرار

بھارت اپنے زرعی شعبے کو ترقی دینے کیلیے زرتلافی کی مد میںسالانہ 1لاکھ 70ہزارکروڑ مالیت کے اخراجات کرتا ہے

بھارت کیلیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے جی ڈی پی کی شرح 8 فیصد پرمستحکم رکھنے کیلیے پاکستان کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے. فوٹو: فائل

بھارتی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے تھنک ٹینک پالیسیوں کی تشکیل میں اپنے ملکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔

بھارت اپنے زرعی شعبے کو ترقی دینے کیلیے زرتلافی کی مد میںسالانہ 1لاکھ 70ہزارکروڑ مالیت کے اخراجات کرتا ہے، بھارت کیلیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے جی ڈی پی کی شرح 8 فیصد پرمستحکم رکھنے کیلیے پاکستان کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے۔ یہ بات بھارت میں تعینات پاکستانی ٹریڈ کمشنرنعیم انور نے ہفتہ کو وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان میں تاجروں وصنعت کاروں سے خطاب کے دوران کہی، اس موقع پر ایف پی سی سی آئی کے صدر حاجی فضل قادر شیرانی، نائب صدور شکیل احمد ڈھینگرا، مجید عزیز، دائود عثمان جھکورا، عثمان شیخ اور عبدالواحدنے بھی خطاب کیا۔ نعیم انور نے بتایا کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی آبادی اورمختلف مصنوعات کی طلب بڑھنے کے نتیجے میں بھارتی مارکیٹ کا تجارتی حجم بڑھ گیا ہے۔

اور فی الوقت بھارت کو بھی توانائی کے بحران کا سامنا ہے، بھارت اپریل 2013 تک اپنی8 ہزار ٹیرف لائنوں کی شرح کو5 فیصدکی سطح پر لائے گا جس کے باعث پاکستانی تازہ اشیائے خوردونوش سمیت دیگر اشیا کو بڑی منڈی میسرآئے گی۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے پاکستانی سرمایہ کاروں کیلیے خودساختہ قواعد کے بجائے اپنے سرکاری قواعد وضوابط کے تحت سرمایہ کاری کی اجازت دی ہے، اپریل 2013 تک پاک بھارت بینکوں کی برانچیں آپریشنل ہوجائیں گی لہٰذا جاری حالات کے تناظر میں ضروری ہے کہ پاکستانی برآمدکنندگان بھارت میں ممبئی، دہلی کے بجائے یوپی، کلکتہ، ایسٹ بنگال، تامل ناڈو کی مارکیٹوں پر توجہ مرکوز کریں جو پاکستانی مصنوعات کیلیے بڑی منڈی ثابت ہوسکتی ہیں، مونابھائو کھوکھرا پارتجارتی راستے کی بحالی قومی مفادات کومدنظررکھتے ہوئے کی جائے۔


نعیم انور نے کہا کہ پاکستانی برآمدکنندگان بھارتی مارکیٹ حاصل کرنے کیلیے ریٹیل کے بجائے بڑے برآمد ی آرڈرز کے حصول کیلیے کاوشیں کریں کیونکہ 40 پچاس ملبوسات فروخت کردینے اورریٹیل کی بنیاد پر تجارتی طرز عمل سے بھارتی مارکیٹ حاصل نہیں کی جاسکتی لہٰذا پاکستانی برآمدکنندگان کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہونگی جس کے لیے ہوم ورک وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کی وزارت تجارت کے درمیان کیے گئے معاہدوں کے نتیجے میں دوطرفہ بنیادوں پرمحکمہ کسٹمزدونوں ملکوں کی مصنوعات کی کلیئرنس تیزرفتاری سے کریں گے۔

قبل ازیں ایف پی سی سی آئی کے صدر فضل قادرشیرانی نے کہا کہ بھارتی حکومت کراچی میں ویزے کی فراہمی کیلیے جلد ازجلد آفس قائم کرے، انہوں نے کہا کہ پاکستان انڈیا جوائنٹ چیمبر کے قیام پر ایف پی سی سی آئی کوتحفظات ہیں کیونکہ طویل دورانیے سے قائم انڈوپاک چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کی موجودگی میں کسی دوسرے جوائنٹ چیمبر کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تجارت میں جاری تنازعات کو جلد از جلد ختم کرکے تجارتی لین دین کی راہ ہموار کی جائے تاکہ جنوبی ایشیا میں غربت کا خاتمہ کیا جاسکے۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر شکیل احمد ڈھینگرانے کہا کہ سارک ممالک کے مابین تجارتی لین دین کی شرح صرف 5 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں بھارتی اشیا سنگاپور اور دبئی کے راستے پہنچ رہی ہیں لہٰذا پاک بھارت تجارت میں رکاوٹیں دور کرنے سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا اورعلاقائی تجارت کو فروغ حاصل ہو گا۔ ڈاکٹر مرزا اختیاربیگ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تجارتی لین دین وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اگر بھارت سیمنٹ کے سو سے زائد پلانٹ بھی لگائے توبھی پاکستانی سیمنٹ اورٹیکسٹائل مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
Load Next Story