تھیلیسیمیا…مہلک مرض سے آئندہ نسلوں کو کیسے محفوظ رکھا جائے
ان ممالک نے تھیلیسیمیا کے حوالے سے سخت قانون سازی کی ہے اوراس کے مضمرات سے نجات پانے میں کامیاب ہو چکے ہیں
تھیلیسیما ایک موروثی بیماری ہے جو والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد کو منتقل ہو جاتی ہے، اس بیماری میں مبتلا افراد و بچوں میں خون کم بنتا ہے جبکہ عمومی علامات میں نوزائیدہ کی پیدائش سے تین ماہ کی عمر تک بچہ نارمل رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ خون کے سرخ خلیے بننے کا عمل سست ہونے کی وجہ سے اس کا رنگ پیلا ہونا شروع ہو جاتا ہے، مریض کو بھوک کم لگتی ہے اور وہ کمزوری کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ابھی تک اسے ایک ایسی بیماری مانا جاتا ہے جو تمام عمر ٹھیک نہیں ہو سکتی۔
جینیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بِیٹا تھیلیسیمیا کہتے ہیں۔ نارمل انسانوں کے خون کے ہیموگلوبن میں دو الفا اوردو بِیٹا زنجیریں ہوتی ہیں۔ہیمو گلوبن کی الفا زنجیر بنانے کے ذمہ دار دونوں جین کروموزوم نمبر 16 پر ہوتے ہیں جبکہ بِیٹا زنجیر بنانے کا ذمہ دار واحد جین ایچ بی بی کروموزوم نمبر 11 پر ہوتا ہے۔ الفا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیموگلوبن کی الفا زنجیر کم بنتی ہے جبکہ بِیٹا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیموگلوبن کی بِیٹا زنجیر کم بنتی ہے۔ اس طرح خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں۔
شدید ترین قسم تھیلیسیمیا ''میجر'' کہلاتی ہے اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا ''مائینر'' کہلاتی ہے جبکہ درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا ''انٹرمیڈیا'' کہلاتی ہے۔ ایک طرح کا تھیلیسیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا یعنی الفا تھیلیسیمیا کبھی بھی بِیٹا تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بِیٹا کبھی الفا میں۔ اسی طرح نہ تھیلیسیمیا مائنر کبھی تھیلیسیمیا میجربن سکتا ہے اور نہ ہی میجر کبھی مائنر بن سکتا ہے۔
اسی طرح ان کے مرض کی شدت میں اضافہ یا کمی نہیں ہو سکتی۔ تھیلیسیمیا میجر صرف اسی صورت میں لاحق ہوتا ہے جب مریض کے ماں اور باپ دونوں کسی نہ کسی طرح کے تھیلیسیمیا کے حامل ہوں۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور انکی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔ کمزور اور بیمار چہرے والے یہ بچے کھیل کود اور تعلیم دونوں میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں صحیح مقام نہ پانے کی وجہ سے خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں۔
بار بار خون لگانے کے اخراجات اور ہسپتالوں کے چکر والدین کو معاشی طور پر انتہائی خستہ کر دیتے ہیں جس کے بعد نامناسب علاج کی وجہ سے ان بچوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہترین علاج کے باوجود یہ مریض 30 سال سے 40 سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے مریضوں کی عمر لگ بھگ دس سال ہوتی ہے۔ اگر ایسے بالغ مریض کسی نارمل انسان سے شادی کر لیں تو ان کے سارے بچے لازماً تھیلیسیمیا مائینر کے حامل ہوتے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائینر کی وجہ سے مریض کو کوئی تکلیف یا شکایت نہیں ہوتی اور نہ اسکی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔
ایسے لوگوں کی تشخیص صرف لیبارٹری ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی ، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔
تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا خواتین جب حاملہ ہوتی ہیں تو ان میں خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا مائنر کی شرح جاننے کیلئے حکومتی سطح پر پاکستان میں اس کے لئے کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے لیکن بلڈ بینکس اور پرائیویٹ اداروں کے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بِیٹا تھیلیسیمیا پایا جاتا ہے اور بِیٹا تھیلیسیمیا مائینر کی شرح 6 فیصد ہے ۔ جن خاندانوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے ان میں لگ بھگ 15 فیصد افراد تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہیں۔ این جی اوز کے تیار کردہ تحریری مواد کے مطابق اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور ہر سال ان مریضوں میں 6ہزار کا اضافہ ہورہا ہے۔
تھیلیسیمیا میجر کا علاج ہڈی کے گودے کی تبدیلی یعنی ''بون میرو ٹرانسپلانٹ'' سے ہی ہو سکتا ہے جس پر کم و بیش 15سے 20لاکھ روپے خرچ آتا ہے، اور تھیلیسیمیا میجر ہی کی بیماری میں مبتلا بچوں کی تلی بڑھ جاتی ہے جس سے ان کا پیٹ پھول جاتا ہے، اس تلی (Spleen)کو سرجری (جراحی) کے ذریعے کاٹنا پڑتا ہے، اس عمل پر بھی کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔
خون کی کمی کے باعث مریضوں کو روزانہ ایک ملی گرام فولک ایسڈ کی گولیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں تاکہ زیادہ کمی نہ ہونے پائے جس سے مزید پیچیدگیاں جنم لینے کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ہر دو سے چار ہفتوں کے بعد خون چڑھانے کی ضروری پڑتی ہے۔ خون کی ایک بوتل میں تقریباً 250ملی گرام آئرن موجود ہوتا ہے جسے انسانی جسم پوری طرح خارج نہیں کر سکتا۔
بار بار خون کی بوتل چڑھانے سے جسم میں آئرن کی مقدار نقصان دہ حد تک بڑھ سکتی ہے اور اس طرح ایک دوسری پیچیدہ بیماری ہیمو سائیڈروسس میں مبتلا ہونے کے 100فیصد امکانات ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری دل اور جگر کو بہت ہی کمزور کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ معالجین بار بار خون لگوانے والے مریضوں کوایسی دوائیں استعمال کرواتے ہیں جو جسم سے زائد آئرن کو خارج کر دیتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بیماری کی تشخیص کیسے ممکن ہے؟ تو اس کیلئے خون کا ایک ٹیسٹ جسے ہیمو گلوبن الیکٹرو فوریسز کہتے ہیں ،اس بیماری کی تشخیص کر سکتا ہے۔ ابتدائی چھ ماہ کی عمر کے بعد یہ ٹیسٹ زندگی میں ایک ہی دفعہ کرایا جاتا ہے۔
اس مہلک بیماری کا سدِ باب ممکن ہے؟ افسوس کہ اس بیماری کا ابھی کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے، جو افراد اس یں مبتلا ہیں ان کو تو احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اس کے ساتھ ہی گذارا کرنا پڑے لیکن آئندہ نسلوں کو اس سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور یقینا آپ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ آپ کی آنے والی نسلیں اس مہنگی و جان لیوا بیماری کا شکار ہو کر معدوم ہوتی چلی جائیں۔ کزن میرج میں جینیاتی منتقلی کے ساتھ ساتھ تھیلیسیمیا کو منتقل ہونے میں آسانی ہوتی ہے اسلئے ایسے خاندان کزن میرج نہ کریں۔
اپنے بچوں کی شادی کے وقت نہ صر ف اپنی بچوں کے ٹیسٹ کروائیں بلکہ فریقین سے بھی یہی ٹیسٹ طلب کریں۔ آج سے ہر کوئی یہ اعادہ کر لے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس بیماری سے ہم مستقل طور پر چھٹکارہ حاصل نہ کر سکیں۔ اس حوالے سے اٹلی، قبرص، یونان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ترکی اور ایران ہمارے لئے روشن مثال ہیں۔
ان ممالک نے تھیلیسیمیا کے حوالے سے سخت قانون سازی کی ہے اور اس کے مضمرات سے نجات پانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ مریضوں کیلئے سستے اور معیاری علاج معالجے کے مراکز اور ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کے قیام کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام الناس میں شعور و آگاہی پیدا کر کے اس مہلک بیماری سے اپنی آئندہ نسلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تحفظ دے سکیں۔
جینیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بِیٹا تھیلیسیمیا کہتے ہیں۔ نارمل انسانوں کے خون کے ہیموگلوبن میں دو الفا اوردو بِیٹا زنجیریں ہوتی ہیں۔ہیمو گلوبن کی الفا زنجیر بنانے کے ذمہ دار دونوں جین کروموزوم نمبر 16 پر ہوتے ہیں جبکہ بِیٹا زنجیر بنانے کا ذمہ دار واحد جین ایچ بی بی کروموزوم نمبر 11 پر ہوتا ہے۔ الفا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیموگلوبن کی الفا زنجیر کم بنتی ہے جبکہ بِیٹا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیموگلوبن کی بِیٹا زنجیر کم بنتی ہے۔ اس طرح خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں۔
شدید ترین قسم تھیلیسیمیا ''میجر'' کہلاتی ہے اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا ''مائینر'' کہلاتی ہے جبکہ درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا ''انٹرمیڈیا'' کہلاتی ہے۔ ایک طرح کا تھیلیسیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا یعنی الفا تھیلیسیمیا کبھی بھی بِیٹا تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بِیٹا کبھی الفا میں۔ اسی طرح نہ تھیلیسیمیا مائنر کبھی تھیلیسیمیا میجربن سکتا ہے اور نہ ہی میجر کبھی مائنر بن سکتا ہے۔
اسی طرح ان کے مرض کی شدت میں اضافہ یا کمی نہیں ہو سکتی۔ تھیلیسیمیا میجر صرف اسی صورت میں لاحق ہوتا ہے جب مریض کے ماں اور باپ دونوں کسی نہ کسی طرح کے تھیلیسیمیا کے حامل ہوں۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور انکی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔ کمزور اور بیمار چہرے والے یہ بچے کھیل کود اور تعلیم دونوں میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں صحیح مقام نہ پانے کی وجہ سے خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں۔
بار بار خون لگانے کے اخراجات اور ہسپتالوں کے چکر والدین کو معاشی طور پر انتہائی خستہ کر دیتے ہیں جس کے بعد نامناسب علاج کی وجہ سے ان بچوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہترین علاج کے باوجود یہ مریض 30 سال سے 40 سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے مریضوں کی عمر لگ بھگ دس سال ہوتی ہے۔ اگر ایسے بالغ مریض کسی نارمل انسان سے شادی کر لیں تو ان کے سارے بچے لازماً تھیلیسیمیا مائینر کے حامل ہوتے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائینر کی وجہ سے مریض کو کوئی تکلیف یا شکایت نہیں ہوتی اور نہ اسکی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔
ایسے لوگوں کی تشخیص صرف لیبارٹری ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی ، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔
تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا خواتین جب حاملہ ہوتی ہیں تو ان میں خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا مائنر کی شرح جاننے کیلئے حکومتی سطح پر پاکستان میں اس کے لئے کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے لیکن بلڈ بینکس اور پرائیویٹ اداروں کے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بِیٹا تھیلیسیمیا پایا جاتا ہے اور بِیٹا تھیلیسیمیا مائینر کی شرح 6 فیصد ہے ۔ جن خاندانوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے ان میں لگ بھگ 15 فیصد افراد تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہیں۔ این جی اوز کے تیار کردہ تحریری مواد کے مطابق اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور ہر سال ان مریضوں میں 6ہزار کا اضافہ ہورہا ہے۔
تھیلیسیمیا میجر کا علاج ہڈی کے گودے کی تبدیلی یعنی ''بون میرو ٹرانسپلانٹ'' سے ہی ہو سکتا ہے جس پر کم و بیش 15سے 20لاکھ روپے خرچ آتا ہے، اور تھیلیسیمیا میجر ہی کی بیماری میں مبتلا بچوں کی تلی بڑھ جاتی ہے جس سے ان کا پیٹ پھول جاتا ہے، اس تلی (Spleen)کو سرجری (جراحی) کے ذریعے کاٹنا پڑتا ہے، اس عمل پر بھی کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔
خون کی کمی کے باعث مریضوں کو روزانہ ایک ملی گرام فولک ایسڈ کی گولیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں تاکہ زیادہ کمی نہ ہونے پائے جس سے مزید پیچیدگیاں جنم لینے کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ہر دو سے چار ہفتوں کے بعد خون چڑھانے کی ضروری پڑتی ہے۔ خون کی ایک بوتل میں تقریباً 250ملی گرام آئرن موجود ہوتا ہے جسے انسانی جسم پوری طرح خارج نہیں کر سکتا۔
بار بار خون کی بوتل چڑھانے سے جسم میں آئرن کی مقدار نقصان دہ حد تک بڑھ سکتی ہے اور اس طرح ایک دوسری پیچیدہ بیماری ہیمو سائیڈروسس میں مبتلا ہونے کے 100فیصد امکانات ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری دل اور جگر کو بہت ہی کمزور کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ معالجین بار بار خون لگوانے والے مریضوں کوایسی دوائیں استعمال کرواتے ہیں جو جسم سے زائد آئرن کو خارج کر دیتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بیماری کی تشخیص کیسے ممکن ہے؟ تو اس کیلئے خون کا ایک ٹیسٹ جسے ہیمو گلوبن الیکٹرو فوریسز کہتے ہیں ،اس بیماری کی تشخیص کر سکتا ہے۔ ابتدائی چھ ماہ کی عمر کے بعد یہ ٹیسٹ زندگی میں ایک ہی دفعہ کرایا جاتا ہے۔
اس مہلک بیماری کا سدِ باب ممکن ہے؟ افسوس کہ اس بیماری کا ابھی کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے، جو افراد اس یں مبتلا ہیں ان کو تو احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اس کے ساتھ ہی گذارا کرنا پڑے لیکن آئندہ نسلوں کو اس سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور یقینا آپ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ آپ کی آنے والی نسلیں اس مہنگی و جان لیوا بیماری کا شکار ہو کر معدوم ہوتی چلی جائیں۔ کزن میرج میں جینیاتی منتقلی کے ساتھ ساتھ تھیلیسیمیا کو منتقل ہونے میں آسانی ہوتی ہے اسلئے ایسے خاندان کزن میرج نہ کریں۔
اپنے بچوں کی شادی کے وقت نہ صر ف اپنی بچوں کے ٹیسٹ کروائیں بلکہ فریقین سے بھی یہی ٹیسٹ طلب کریں۔ آج سے ہر کوئی یہ اعادہ کر لے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس بیماری سے ہم مستقل طور پر چھٹکارہ حاصل نہ کر سکیں۔ اس حوالے سے اٹلی، قبرص، یونان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ترکی اور ایران ہمارے لئے روشن مثال ہیں۔
ان ممالک نے تھیلیسیمیا کے حوالے سے سخت قانون سازی کی ہے اور اس کے مضمرات سے نجات پانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ مریضوں کیلئے سستے اور معیاری علاج معالجے کے مراکز اور ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کے قیام کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام الناس میں شعور و آگاہی پیدا کر کے اس مہلک بیماری سے اپنی آئندہ نسلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تحفظ دے سکیں۔