دنیا زیروزبرکردینے والے اسامہ بن لادن کی خفیہ دستاویزات
اسامہ لائبریری کا بیشتر تحریری سرمایہ القاعدہ اور اس کی سرگرمیوں سے متعلق ہے
20 مئی 2015ء کی صبح امریکی حکومت نے وہ چھ سو سے زائد دستاویزات افشا یا ڈی کلاسیفائی کردیں جو اسے مبینہ طور پر القاعدہ کے رہنما،اسامہ بن لادن کی کوٹھی واقع ایبٹ آباد سے ملی تھیں۔ اگرچہ بقول امریکی حکومت،یہ ملنے والے دستاویزی خزانے کا معمولی حصہ ہے۔ یہ دستاویزی خزانہ اسامہ مرحوم کے کمپیوٹروں سے برآمد ہوا تھا۔ اس کی مقدار تین ٹیرا بائٹ (تین ہزار گیگا بائٹ) سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
پچھلے سال کانگریس نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جیمز کلیر کو حکم دیا تھا کہ وہ مع اپنی ٹیم اسامہ دستاویزات کی چھان بین کرے۔ مدعا یہ تھا کہ القاعدہ کے طریق عمل کو سمجھا جاسکے۔ یہ پڑتال جاری تھی کہ کچھ عرصہ قبل مشہور امریکی صحافی، سیمور ہرش نے ایک دھماکہ کر ڈالا۔
سیمور ہرش نے برطانوی رسالے، لندن ریویو آف بکس میں ''دی کلنگ آف اسامہ بن لادن'' نامی مضمون سپرد قلم کیا۔ اس میں موصوف نے دعویٰ کیا کہ حکومت پاکستان نے اسامہ کو قید کررکھا تھا اور یہ کہ اسی کے تعاون ہی سے ان پر حملہ انجام پایا۔ اس الزام کو امریکا اور پاکستان، دونوں کی حکومتوں نے غلط اور بے بنیاد قرار دیا۔
بہرحال سیمور ہرش کے مضمون نے دنیا بھر میں خاصی ہلچل مچائی۔ چناں چہ اس کا توڑ کرنے کی خاطر بھی امریکی حکومت نے اسامہ کے گھر سے ملیں چھے سو سے زائد دستاویزات افشا کردیں۔ ان میں سے اکثر اسامہ مرحوم کے متعلق نئی معلومات سامنے لائیں۔
جہاد افغانستان (1979ء تا 1989ء) کے دوران اسامہ بن لادن اور امریکی حکمران طبقے میں خاصی قربت رہی۔ لیکن جب اسامہ نے اسلامی مقبوضہ علاقے آزاد کرانے کی خاطر عالمی جہاد شروع کیا، تو لامحالہ اکلوتی سپرپاور سے ان کا ٹکراؤ شروع ہوا جو بڑھتا چلا گیا۔ یہ مجادلہ آخر مئی 2011ء میں ان کی موت پہ ختم ہوا۔
اسامہ بن لادن کی افشا کردہ دستاویزات میں وہ تحریری احکامات شامل ہیںجو لیڈر القاعدہ وقتاً فوقتاً اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے۔ وہ ذاتی خطوط بھی جو انہوں نے بیوی بچوں کو لکھے یا ان کی طرف سے موصول ہوئے۔ چار سو سے زائد دستاویزات ''اسامہ لائبریری'' سے متعلق ہیں۔ ان میں ایسی کتب، رسائل اور امریکی سرکاری رپورٹوں کا بیان ہے جو آخری وقت ان کے زیر مطالعہ تھیں۔ ان دستاویزوں سے جو انکشافات ہوئے، وہ درج ذیل ہیں۔
داعش کی بغاوت
عراق و شام اور دیگر اسلامی ممالک میں ''خلافت'' قائم کرنے کی متمنی عراقی تنظیم، آئی ایس آئی ایس یا داعش کے لیڈر پہلے القاعدہ ہی سے وابستہ تھے۔ یہی وہ لیڈر ہیںجنہوں نے بعض پاکستانی القاعدہ رہنماؤں کی طرح عراق میں حکومت اور اقلیتوں کے خلاف حملوں کا آغاز کیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ القاعدہ چیف شروع میں اس اقدام کے مخالف نہ تھے۔ رفتہ رفتہ اسامہ کو احساس ہوا کہ اسلامی ممالک میں باہمی جنگیں فتنہ بنتی جارہی ہیں۔ مزید برآں پاکستان اور عراق، دونوں میں القاعدہ سے وابستہ بعض تنظیمیں ''خلافت'' قائم کرنے کی کوششیں کرنے لگیں۔ اس حکمت عملی کو اسامہ نے پسند نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ وہ تمام جہادی سرگرمیوں کا زور امریکا کو شکست دینے پر لگاناچاہتے تھے۔2009ء میں کسی وقت اسامہ نے القاعدہ کے آپریشنل چیف، عطیہ عبدالرحمن کو ایک چشم کشا خط لکھا۔ اس میں انہوں نے ہدایات دیں:۔
''مجاہدین (لیڈروں) سے کہو کہ ابھی خلافت کے قیام کا وقت نہیں آیا، بلکہ وہ اپنے مرکزی دشمن (امریکا) کو شکست دینے کی سعی کریں۔انہیں چاہیے کہ وہ افریقا (اور دیگر براعظموں میں) امریکی سفارت خانوں پر حملے کریں۔ نیز افریقا میں امریکی تیل کمپنیوں کو نشانہ بنائیں۔''
لیکن لگتا ہے کہ تب تک داعش کے رہنما القاعدہ کی مرکزی قیادت سے بغاوت کرچکے تھے کیونکہ وہ بدستور مخالف تنظیموں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے۔ انہوں نے اسامہ کی خواہش کے برعکس امریکا کو اپنا دشمن نمبر ایک تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ گو وہ انہیں اپنا قائد تسلیم کرتے رہے۔
اسامہ بن لادن 2011ء میں دنیا سے رخصت ہوئے،تو صورتحال چند ہی برس میں تبدیل ہوگئی۔ عراق و شام میں داعش کے لیڈروں نے القاعدہ سے ناتا توڑا اور اپنی تنظیم بنالی۔ چناں چہ دونوں ممالک میں القاعدہ اور داعش کے مابین وسائل، فنڈز اور افرادی قوت حاصل کرنے کی خاطر مقابلہ شروع ہوگیا۔ اس خانہ جنگی میں دونوں تنظیموں کے سیکڑوں جنگجو مارے گئے۔ آخر جون 2014ء میں داعش نے عراق و شام کے وسیع علاقے پہ اپنی حکومت قائم کرلی۔
گویا اب القاعدہ عالم اسلام میں عالمی جہاد کی اکلوتی لیڈر نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے، پاکستان میں بھی بعض جنگجو تنظیموں نے داعش سے الحاق کا اعلان کردیا۔ اسی طرح مختلف اسلامی و غیر مسلم ممالک میں جو تنظیمیں پہلے فنڈز اور افرادی قوت حاصل کرنے کے لیے القاعد سے رابطہ کرتی تھیں، اب داعش کی حلیف بن چکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ داعش نے ان تنظیموں کو عمل کی نئی راہ دکھلادی... یہ کہ کسی علاقے پر قبضہ کرو اور وہاں کے وسائل سے استفادہ کرو، تمہیں کسی اسامہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہی وجہ ہے ،عراق، شام، لیبیا، یمن، صومالیہ اور ان تمام اسلامی ممالک میں رنگ برنگ جنگجو تنظیمیں ظہور پذیر ہوچکیں جہاں حکومت کی حکمرانی غیر حاضر یا کمزور ہے۔
ان نئی تنظیموں میں سے بعض تو داعش سے وابستہ ہیں۔ کچھ خود کو القاعدہ کی ساتھی قرار دیتی ہیں۔ بقیہ کی وابستگی واضح نہیں ہو پاتی۔ گویا اسامہ بن لادن کے بعد عالمی جہاد کا منظرنامہ بالکل تبدیل ہوچکا اور اس میں القاعدہ بنیادی اہمیت نہیں رکھتی۔ داعش کے عملی اقدامات سے عیاں ہے کہ یہ منظرنامہ خاصا متشدد اور انتہا پسندانہ ہے۔اس کی دہشت ناک سرگرمیوں دیکھنے کے بعد القاعدہ رہنما خاصے اعتدال پسند دکھائی دیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسامہ بن لادن بھی خلافت اسلامیہ کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی تمنا تھی کہ پہلے شیطان (امریکا) کو شکست فاش دی جائے۔ وہ عطیہ عبدالرحمن کے نام خط میں مزید لکھتے ہیں:
''ابھی خلافت اسلامیہ کے قیام کا وقت نہیں آیا۔ پہلے ضروری ہے کہ اپنے دشمن (امریکا) کو ہار کا مزہ چکھایا جائے۔ گووہ قلاش ہو رہا ہے' لیکن اب بھی اتنی طاقت رکھتا ہے کہ خلافت اسلامیہ پر حملہ آور ہو جائے۔ لہٰذا پہلے ہمیں دشمن کو اتنا زیادہ کمزور کر دینا چاہیے کہ وہ خلافت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکے۔ تب خلافت اسلامیہ قائم کی جائے گی۔''
ہم نے دیکھا کہ جب داعش نے شام و عراق میں اپنی خلافت کی نیو رکھی، تو واقعی امریکا اس پر حملہ آور ہوا...گو امریکی حکومت دوبارہ عراق میں اپنی افواج نہیں بھجوانا چاہتی۔ لیکن اسامہ بن لادن اس امر کا ادراک نہ کر سکے کہ نظریہ خلافت جدید مسلمانوں میں بہت مقبول ہے۔چناںچہ جیسے ہی خلافت عراق و شام کا قیام عمل میں آیا' خصوصاً یورپ اور امریکا سے سیکڑوں مسلمان نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کا حصہ بننے مشرق وسطی پہنچ گئے۔ داعش فی الوقت عراقی' شامی' ا مریکی افواج اور مقامی جنگجو تنظیموں سے بیک وقت نبرد آزما ہے' مگر اس نے ا پنی خلافت کو کسی نہ کسی طرح بحال رکھا ہوا ہے۔
القاعدہ ...ایک کمپنی
افشا کردہ دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ القاعدہ کسی مرد یا عورت کو اپنی صف میں شامل کرنے سے پہلے طویل انٹرویو لیتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک فارم بنایا گیا جس میں امیدوار سے سیکڑوں سوال پوچھے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ کبھی جیل گئے؟ عسکری تربیت لے رکھی ہے؟ خود کش حملہ کر سکو گے؟ کن بیماریوں میں مبتلا ہو؟ وغیرہ وغیرہ
ایک طرح کا یہ ''فارم برائے ملازمت '' انکشاف کرتا ہے کہ القاعدہ عام کمپنیوں کے مانند ادارہ ہے۔ اس ادارے میں لوگوں کو مختلف خفیہ کام سونپے جاتے ہیں۔ اور پھر ادارے کے منیجر ' نائب صدر' صدر' سربراہ وغیرہ رفتارِکار پر نظر رکھتے ہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنی جیسا ڈھانچہ رکھنے کی وجہ سے ہی القاعدہ اب تک زندہ ہے بلکہ جب بھی اسے موزوں ماحول ملے ' تو پھر پھلنے پھولنے لگتی ہے۔اگرکمپنی کا کوئی اہم کارندہ مارا بھی جائے تو وہ غیر مستحکم نہیں ہوتی۔ وجہ یہ کہ دوسرا شخص مقتول کی جگہ سنبھال لیتا اور کام جاری رکھتا ہے۔ اسی لیے اسامہ بن لادن کے بعد بھی القاعدہ نہ صرف زندہ رہی بلکہ عالم اسلام میں طاقتور اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔
مذہبی ہے مگر جذباتی نہیں
امریکی ویورپی ماہرین کی اکثریت القاعدہ کو مذہبی تنظیم قرار دیتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے' مذہبی دیوانے کوئی عاقلانہ فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ جذبات کے اسیر ہوتے ہیں۔ مگر حالیہ افشا کردہ دستاویزات نے اس دیو مالا کو بھی جھٹلادیا۔مثال کے طور پر جب مشرق و سطی میں ''عرب بہار'' کا آغاز ہوا' تو اسامہ نے اوائل 2011ء میں اس کی بابت اپنے دست راست' عطیہ عبدالرحمن کو ایک خط لکھا۔ اس میں اسامہ لکھتے ہیں:
''آخر عرب عوام اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اشتعال کے اس عالم میں القاعدہ کو کئی حمایتی مل جائیںگے۔ لہٰذا تم اپنے بیشتر وسائل فوراً افغانستان سے مشرق وسطی منتقل کر دو۔'' اسامہ نے پھر ایسے منصوبے بیان کیے جن پر عمل کرنے سے القاعدہ مشرق وسطی میں مقبول ہو سکتی تھی۔
اسی قسم کے دیگر خطوط سے عیاں ہے' القاعدہ رہنما دنیا کی بدلتی سیاسی' معاشی اور معاشرتی صورت حال پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ محض مذہبی رہنما نہیں بلکہ بدلتے حالات سے اپنے مفاد کی خاطر فائدہ اٹھانا جانتے ' دانائی سے چالیں چلتے اور غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں۔ مثلا جبہ النضرہ کا معاملہ دیکھیے۔
جبہ النضرہ شام میں القاعدہ کی شاخ ہے۔2012ء میں یہ شامی حکومت کے خلاف شمال مغربی شام میں متحرک ہوئی' تو اس نے بھی داعش کی طرح ہولناک انداز میں دشمنوں کو ٹھکانے لگایا۔ انہیں ایسی سزائیں دیں جن کا قرآن پاک اور ثقہ احادیث میں ذکر نہیں ملتا۔ اس خونریزی نے شامی عوام کو اس سے متنفر کر دیا۔اب القاعدہ قیادت کو احساس ہو رہا ہے کہ دین اسلام حد سے زیادہ سختی کی اجازت نہیں دیتا۔ چناںچہ جبہ النضرہ نے اپنے زیر اقتدار علاقہ میں قوانین نرم کر دیئے ۔ لوگوں کو تمباکو نوشی کرنے اور شیو کرانے کی اجازت ہے۔ خواتین سر ڈھانپ کر اپنا چہرہ کھلا چھوڑ سکتی ہیں۔ ان اقدامات سے شام میں جبہ النضرہ کی مقبولیت بڑھ گئی۔
امریکی عوام کے نام خط
نئی دستاویزات میں امریکی عوام کے نام اسامہ بن لادن کا ایک خط بھی شامل ہے۔ اس کے آغاز میں اسامہ امریکی عوام کو بتاتے ہیں کہ امریکا کی افواج عراق' افغانستان اور پاکستان میں عورتوں اوربچوں کو بھی مار رہی ہیں۔ پھر کہتے ہیں: ''ہمارے ساتھ جنگ تمہاری تاریخ میں سب سے زیادہ لمبی ہے اور جو تمہارے لیے انتہائی مہنگی بھی ثابت ہوئی۔ یہ حقائق عیاں کرتے ہیں کہ جنگ ہم جیت رہے ہیں۔''
دلچسپ بات یہ، امریکی میڈیا بھی اتفاق کرتا ہے کہ اس لحاظ سے القاعدہ فاتح رہی، اس نے معاشی و مالی طور پر امریکا کو بہت نقصان پہنچایا۔ مثال کے طور پر صرف افغانستان اور پاکستان میں جاری امریکی جنگ پر حکومت کے ''1650ارب ڈالر'' خرچ ہوئے۔ اس میں عراق جنگ کا خرچ شامل نہیں اور نہ ہی وہ اخراجات جو ذہنی وجسمانی طور پر زخمی فوجیوں کے علاج پر اٹھ رہے ہیں۔
امریکی ماہرین کاکہنا ہے' اسامہ بن لادن کی بنیادی حکمت عملی یہی تھی کہ امریکا کو معاشی طور پر کمزور کر کے اسے عالم اسلام سے باہر نکالا جائے۔ چناںچہ القاعدہ نے امریکی معاشی مرکز (جڑواں ٹاورز) کو نشانہ بنایا' امریکا کو مجبور کیا کہ وہ افغانستان و عراق میں جنگیں چھیڑ دے اور ملکی سکیورٹی کے نام پر ایسے اقدامات کرے جن پر بے پناہ اخراجات آئیں۔
امریکی حکومت کی بدقسمتی کہ وہ القاعدہ قیادت کے بچھائے جال میں پھنس گئی ۔ لہٰذا آج امریکی حکومت ''اٹھارہ ہزار ارب ڈالر'' کی مقروض ہو چکی۔ اب امریکا معاشی طور پر یہ طاقت نہیں رکھتا کہ بیرون ممالک میں براہ راست جنگیں چھیڑ کر بھاری اخراجات برداشت کر سکے۔
کتابیں جو اسامہ کے زیرمطالعہ رہیں
امریکی حکومت نے ان انگریزی کتب، رسائل، رپورٹوں اور مضامین کی فہرست بھی جاری کی ہے جو اسامہ بن لادن کے کمپیوٹروں کی ہارڈ ڈسکوں سے برآمد ہوئے۔ اس تحریری سرمائے کا تعلق مذہب، تاریخ اور حالات حاضرہ کے شعبوں سے ہے۔ امریکی حکومت نے اسے ''بن لادن بک شیلف'' کا نام دیا۔ یہ ورچوئل لائبریری 400 سے زائد کتب، رسائل، رپورٹوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔
اسامہ لائبریری کی اسلامی انگریزی کتب میں عبداللہ عزام کی لکھی کتب"Join the Caravan" اور "The Defence of Muslim Lands" نمایاںہیں جنھوں نے مسلح اسلامی تنظیموں کو بہت متاثر کیا۔ مسلح جدوجہد کے بانی سمجھے جانے والے مصری عالم دین، سید قطب کا سفرنامہ The America I Have Seen بھی برآمد ہوا۔
دور جدید میں مسلم جنگجوئوں کے امام سمجھے والے فلسطینی دانشور، ابو محمد المقدسی کی کتابDemocracy: A Religion بھی اسامہ کتب خانے سے ملی۔ المقدسی کا دعویٰ ہے کہ اسلامی ممالک میں ووٹر اپنے ووٹوں سے ظالم اور مغربی استعمار کے پٹھو حکمرانوں کو منتخب کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کا قتل بھی جائز ہے۔
اسامہ لائبریری کا بیشتر تحریری سرمایہ القاعدہ اور اس کی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ دیگر نمایاں کتب و رسائل میں درج ذیل شامل ہیں:
٭...The Rise and Fall of the Great Powers یئل یونیورسٹی کے مشہور مورخ، پال کینڈی کی تخلیق۔ اس میں 1500ء سے 1980ء تک جنم لینے والی عالمی طاقتوں کے عروج وزوال کا حال خوبصورتی سے بیان ہوا ہے۔
٭
Imperial Hubris۔سی آئی اے کے سابق افسر، مائیکل شویر کی کتاب جو 1996ء تا 2004ء اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے والے امریکی یونٹ کا سربراہ رہا۔ کتاب میں شویر لکھتا ہے: ''اسامہ بن لادن پچھلی ڈیڑھ سالہ اسلامی تاریخ میں سب سے زیادہ قابل احترام، چاہی جانے والی رومانی، کرشماتی اور شاید اہل ترین شخصیت ہے۔''
٭...Oxford History of Modern War برطانوی مورخ، چارلس ٹائون شیڈ کی تصنیف۔ اس میں چودھویں صدی سے لے کر اب تک کے فنونِ حرب کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
٭Necessary Illusions: Thought Control in Democratic Societies۔ممتاز امریکی مورخ، نوم چومسکی کی کتاب۔ یہ افشا کرتی ہے کہ سیاست دان ایک ملک میں کیونکرابتری و فساد پھیلاتے ہیں تاکہ اپنی حکومت مستحکم کرسکیں۔ مگر یوں حقیقی جمہوریت پپننے نہیں پاتی۔
٭Obama's Wars۔امریکی انوسٹی گیٹو صحافی، باب وڈورڈ کی مشہور کتاب۔ اس میں عراق و افغان جنگوں کے حوالے سے اوباما حکومت کی غلطیوں کا تذکرہ ہے۔ باب وڈورڈ کا کہنا ہے: ''اگر اسامہ میری کتاب بغور پڑھتے، تو کسی غار میں چلے جاتے۔ کیونکہ صدر کو پسند ہے، اسکواڈ بھیج کر ہائی ویلیو ٹارگٹ مار دیا جائے۔''
٭New Pearl Harbor: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11۔ امریکی پروفیسر، ڈیوڈ رے گرفن کی تحقیقی کتاب۔ اس میں گرفن نے دعویٰ کیا ہے کہ بش حکومت نے اطلاعات کے باوجود اپنے مفادات کی خاطر ''واقعہ نائن الیون'' رونما ہونے دیا اور اسے روکنے کی کوششیں نہیں کیں۔۔
٭America's "War on Terrorism"۔ معروف کینڈین ماہر معاشیات اور دانشور، مائیکل چوسوڈوسکی کی تخلیق۔ اس کتاب میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکومت نے ازخود واقعہ 9/11 انجام دیا تاکہ ایشیائی ممالک میں قدم جماسکے۔ اور یہ کہ اسامہ بن لادن امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ تھے جنہوں نے نہ صرف امریکا کو اسلامی ممالک پر قبضہ کرنے کا موقع دیا بلکہ مقبوضہ علاقوں میں جاری آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کا مترادف بنا کر انہیں سخت نقصان پہنچایا۔
٭Bloodlines of the Illuminati۔ امریکی مصنف، فرٹنر سپرنگمیئر کی تصنیف۔ اس میں امریکی مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ کرہ ارض کے امیر ترین اور بااثر خاندان مختلف چالیں چل کر دنیا میں اپنی ''عالمی حکمرانی'' قائم کرنا چاہتے ہیں۔
٭ "Best Innovations of the Year Issue" امریکی رسالے، پاپولر سائنس کا بہترین ایجادات نمبر۔
پچھلے سال کانگریس نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جیمز کلیر کو حکم دیا تھا کہ وہ مع اپنی ٹیم اسامہ دستاویزات کی چھان بین کرے۔ مدعا یہ تھا کہ القاعدہ کے طریق عمل کو سمجھا جاسکے۔ یہ پڑتال جاری تھی کہ کچھ عرصہ قبل مشہور امریکی صحافی، سیمور ہرش نے ایک دھماکہ کر ڈالا۔
سیمور ہرش نے برطانوی رسالے، لندن ریویو آف بکس میں ''دی کلنگ آف اسامہ بن لادن'' نامی مضمون سپرد قلم کیا۔ اس میں موصوف نے دعویٰ کیا کہ حکومت پاکستان نے اسامہ کو قید کررکھا تھا اور یہ کہ اسی کے تعاون ہی سے ان پر حملہ انجام پایا۔ اس الزام کو امریکا اور پاکستان، دونوں کی حکومتوں نے غلط اور بے بنیاد قرار دیا۔
بہرحال سیمور ہرش کے مضمون نے دنیا بھر میں خاصی ہلچل مچائی۔ چناں چہ اس کا توڑ کرنے کی خاطر بھی امریکی حکومت نے اسامہ کے گھر سے ملیں چھے سو سے زائد دستاویزات افشا کردیں۔ ان میں سے اکثر اسامہ مرحوم کے متعلق نئی معلومات سامنے لائیں۔
جہاد افغانستان (1979ء تا 1989ء) کے دوران اسامہ بن لادن اور امریکی حکمران طبقے میں خاصی قربت رہی۔ لیکن جب اسامہ نے اسلامی مقبوضہ علاقے آزاد کرانے کی خاطر عالمی جہاد شروع کیا، تو لامحالہ اکلوتی سپرپاور سے ان کا ٹکراؤ شروع ہوا جو بڑھتا چلا گیا۔ یہ مجادلہ آخر مئی 2011ء میں ان کی موت پہ ختم ہوا۔
اسامہ بن لادن کی افشا کردہ دستاویزات میں وہ تحریری احکامات شامل ہیںجو لیڈر القاعدہ وقتاً فوقتاً اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے۔ وہ ذاتی خطوط بھی جو انہوں نے بیوی بچوں کو لکھے یا ان کی طرف سے موصول ہوئے۔ چار سو سے زائد دستاویزات ''اسامہ لائبریری'' سے متعلق ہیں۔ ان میں ایسی کتب، رسائل اور امریکی سرکاری رپورٹوں کا بیان ہے جو آخری وقت ان کے زیر مطالعہ تھیں۔ ان دستاویزوں سے جو انکشافات ہوئے، وہ درج ذیل ہیں۔
داعش کی بغاوت
عراق و شام اور دیگر اسلامی ممالک میں ''خلافت'' قائم کرنے کی متمنی عراقی تنظیم، آئی ایس آئی ایس یا داعش کے لیڈر پہلے القاعدہ ہی سے وابستہ تھے۔ یہی وہ لیڈر ہیںجنہوں نے بعض پاکستانی القاعدہ رہنماؤں کی طرح عراق میں حکومت اور اقلیتوں کے خلاف حملوں کا آغاز کیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ القاعدہ چیف شروع میں اس اقدام کے مخالف نہ تھے۔ رفتہ رفتہ اسامہ کو احساس ہوا کہ اسلامی ممالک میں باہمی جنگیں فتنہ بنتی جارہی ہیں۔ مزید برآں پاکستان اور عراق، دونوں میں القاعدہ سے وابستہ بعض تنظیمیں ''خلافت'' قائم کرنے کی کوششیں کرنے لگیں۔ اس حکمت عملی کو اسامہ نے پسند نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ وہ تمام جہادی سرگرمیوں کا زور امریکا کو شکست دینے پر لگاناچاہتے تھے۔2009ء میں کسی وقت اسامہ نے القاعدہ کے آپریشنل چیف، عطیہ عبدالرحمن کو ایک چشم کشا خط لکھا۔ اس میں انہوں نے ہدایات دیں:۔
''مجاہدین (لیڈروں) سے کہو کہ ابھی خلافت کے قیام کا وقت نہیں آیا، بلکہ وہ اپنے مرکزی دشمن (امریکا) کو شکست دینے کی سعی کریں۔انہیں چاہیے کہ وہ افریقا (اور دیگر براعظموں میں) امریکی سفارت خانوں پر حملے کریں۔ نیز افریقا میں امریکی تیل کمپنیوں کو نشانہ بنائیں۔''
لیکن لگتا ہے کہ تب تک داعش کے رہنما القاعدہ کی مرکزی قیادت سے بغاوت کرچکے تھے کیونکہ وہ بدستور مخالف تنظیموں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے۔ انہوں نے اسامہ کی خواہش کے برعکس امریکا کو اپنا دشمن نمبر ایک تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ گو وہ انہیں اپنا قائد تسلیم کرتے رہے۔
اسامہ بن لادن 2011ء میں دنیا سے رخصت ہوئے،تو صورتحال چند ہی برس میں تبدیل ہوگئی۔ عراق و شام میں داعش کے لیڈروں نے القاعدہ سے ناتا توڑا اور اپنی تنظیم بنالی۔ چناں چہ دونوں ممالک میں القاعدہ اور داعش کے مابین وسائل، فنڈز اور افرادی قوت حاصل کرنے کی خاطر مقابلہ شروع ہوگیا۔ اس خانہ جنگی میں دونوں تنظیموں کے سیکڑوں جنگجو مارے گئے۔ آخر جون 2014ء میں داعش نے عراق و شام کے وسیع علاقے پہ اپنی حکومت قائم کرلی۔
گویا اب القاعدہ عالم اسلام میں عالمی جہاد کی اکلوتی لیڈر نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے، پاکستان میں بھی بعض جنگجو تنظیموں نے داعش سے الحاق کا اعلان کردیا۔ اسی طرح مختلف اسلامی و غیر مسلم ممالک میں جو تنظیمیں پہلے فنڈز اور افرادی قوت حاصل کرنے کے لیے القاعد سے رابطہ کرتی تھیں، اب داعش کی حلیف بن چکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ داعش نے ان تنظیموں کو عمل کی نئی راہ دکھلادی... یہ کہ کسی علاقے پر قبضہ کرو اور وہاں کے وسائل سے استفادہ کرو، تمہیں کسی اسامہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہی وجہ ہے ،عراق، شام، لیبیا، یمن، صومالیہ اور ان تمام اسلامی ممالک میں رنگ برنگ جنگجو تنظیمیں ظہور پذیر ہوچکیں جہاں حکومت کی حکمرانی غیر حاضر یا کمزور ہے۔
ان نئی تنظیموں میں سے بعض تو داعش سے وابستہ ہیں۔ کچھ خود کو القاعدہ کی ساتھی قرار دیتی ہیں۔ بقیہ کی وابستگی واضح نہیں ہو پاتی۔ گویا اسامہ بن لادن کے بعد عالمی جہاد کا منظرنامہ بالکل تبدیل ہوچکا اور اس میں القاعدہ بنیادی اہمیت نہیں رکھتی۔ داعش کے عملی اقدامات سے عیاں ہے کہ یہ منظرنامہ خاصا متشدد اور انتہا پسندانہ ہے۔اس کی دہشت ناک سرگرمیوں دیکھنے کے بعد القاعدہ رہنما خاصے اعتدال پسند دکھائی دیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسامہ بن لادن بھی خلافت اسلامیہ کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی تمنا تھی کہ پہلے شیطان (امریکا) کو شکست فاش دی جائے۔ وہ عطیہ عبدالرحمن کے نام خط میں مزید لکھتے ہیں:
''ابھی خلافت اسلامیہ کے قیام کا وقت نہیں آیا۔ پہلے ضروری ہے کہ اپنے دشمن (امریکا) کو ہار کا مزہ چکھایا جائے۔ گووہ قلاش ہو رہا ہے' لیکن اب بھی اتنی طاقت رکھتا ہے کہ خلافت اسلامیہ پر حملہ آور ہو جائے۔ لہٰذا پہلے ہمیں دشمن کو اتنا زیادہ کمزور کر دینا چاہیے کہ وہ خلافت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکے۔ تب خلافت اسلامیہ قائم کی جائے گی۔''
ہم نے دیکھا کہ جب داعش نے شام و عراق میں اپنی خلافت کی نیو رکھی، تو واقعی امریکا اس پر حملہ آور ہوا...گو امریکی حکومت دوبارہ عراق میں اپنی افواج نہیں بھجوانا چاہتی۔ لیکن اسامہ بن لادن اس امر کا ادراک نہ کر سکے کہ نظریہ خلافت جدید مسلمانوں میں بہت مقبول ہے۔چناںچہ جیسے ہی خلافت عراق و شام کا قیام عمل میں آیا' خصوصاً یورپ اور امریکا سے سیکڑوں مسلمان نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کا حصہ بننے مشرق وسطی پہنچ گئے۔ داعش فی الوقت عراقی' شامی' ا مریکی افواج اور مقامی جنگجو تنظیموں سے بیک وقت نبرد آزما ہے' مگر اس نے ا پنی خلافت کو کسی نہ کسی طرح بحال رکھا ہوا ہے۔
القاعدہ ...ایک کمپنی
افشا کردہ دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ القاعدہ کسی مرد یا عورت کو اپنی صف میں شامل کرنے سے پہلے طویل انٹرویو لیتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک فارم بنایا گیا جس میں امیدوار سے سیکڑوں سوال پوچھے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ کبھی جیل گئے؟ عسکری تربیت لے رکھی ہے؟ خود کش حملہ کر سکو گے؟ کن بیماریوں میں مبتلا ہو؟ وغیرہ وغیرہ
ایک طرح کا یہ ''فارم برائے ملازمت '' انکشاف کرتا ہے کہ القاعدہ عام کمپنیوں کے مانند ادارہ ہے۔ اس ادارے میں لوگوں کو مختلف خفیہ کام سونپے جاتے ہیں۔ اور پھر ادارے کے منیجر ' نائب صدر' صدر' سربراہ وغیرہ رفتارِکار پر نظر رکھتے ہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنی جیسا ڈھانچہ رکھنے کی وجہ سے ہی القاعدہ اب تک زندہ ہے بلکہ جب بھی اسے موزوں ماحول ملے ' تو پھر پھلنے پھولنے لگتی ہے۔اگرکمپنی کا کوئی اہم کارندہ مارا بھی جائے تو وہ غیر مستحکم نہیں ہوتی۔ وجہ یہ کہ دوسرا شخص مقتول کی جگہ سنبھال لیتا اور کام جاری رکھتا ہے۔ اسی لیے اسامہ بن لادن کے بعد بھی القاعدہ نہ صرف زندہ رہی بلکہ عالم اسلام میں طاقتور اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔
مذہبی ہے مگر جذباتی نہیں
امریکی ویورپی ماہرین کی اکثریت القاعدہ کو مذہبی تنظیم قرار دیتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے' مذہبی دیوانے کوئی عاقلانہ فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ جذبات کے اسیر ہوتے ہیں۔ مگر حالیہ افشا کردہ دستاویزات نے اس دیو مالا کو بھی جھٹلادیا۔مثال کے طور پر جب مشرق و سطی میں ''عرب بہار'' کا آغاز ہوا' تو اسامہ نے اوائل 2011ء میں اس کی بابت اپنے دست راست' عطیہ عبدالرحمن کو ایک خط لکھا۔ اس میں اسامہ لکھتے ہیں:
''آخر عرب عوام اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اشتعال کے اس عالم میں القاعدہ کو کئی حمایتی مل جائیںگے۔ لہٰذا تم اپنے بیشتر وسائل فوراً افغانستان سے مشرق وسطی منتقل کر دو۔'' اسامہ نے پھر ایسے منصوبے بیان کیے جن پر عمل کرنے سے القاعدہ مشرق وسطی میں مقبول ہو سکتی تھی۔
اسی قسم کے دیگر خطوط سے عیاں ہے' القاعدہ رہنما دنیا کی بدلتی سیاسی' معاشی اور معاشرتی صورت حال پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ محض مذہبی رہنما نہیں بلکہ بدلتے حالات سے اپنے مفاد کی خاطر فائدہ اٹھانا جانتے ' دانائی سے چالیں چلتے اور غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں۔ مثلا جبہ النضرہ کا معاملہ دیکھیے۔
جبہ النضرہ شام میں القاعدہ کی شاخ ہے۔2012ء میں یہ شامی حکومت کے خلاف شمال مغربی شام میں متحرک ہوئی' تو اس نے بھی داعش کی طرح ہولناک انداز میں دشمنوں کو ٹھکانے لگایا۔ انہیں ایسی سزائیں دیں جن کا قرآن پاک اور ثقہ احادیث میں ذکر نہیں ملتا۔ اس خونریزی نے شامی عوام کو اس سے متنفر کر دیا۔اب القاعدہ قیادت کو احساس ہو رہا ہے کہ دین اسلام حد سے زیادہ سختی کی اجازت نہیں دیتا۔ چناںچہ جبہ النضرہ نے اپنے زیر اقتدار علاقہ میں قوانین نرم کر دیئے ۔ لوگوں کو تمباکو نوشی کرنے اور شیو کرانے کی اجازت ہے۔ خواتین سر ڈھانپ کر اپنا چہرہ کھلا چھوڑ سکتی ہیں۔ ان اقدامات سے شام میں جبہ النضرہ کی مقبولیت بڑھ گئی۔
امریکی عوام کے نام خط
نئی دستاویزات میں امریکی عوام کے نام اسامہ بن لادن کا ایک خط بھی شامل ہے۔ اس کے آغاز میں اسامہ امریکی عوام کو بتاتے ہیں کہ امریکا کی افواج عراق' افغانستان اور پاکستان میں عورتوں اوربچوں کو بھی مار رہی ہیں۔ پھر کہتے ہیں: ''ہمارے ساتھ جنگ تمہاری تاریخ میں سب سے زیادہ لمبی ہے اور جو تمہارے لیے انتہائی مہنگی بھی ثابت ہوئی۔ یہ حقائق عیاں کرتے ہیں کہ جنگ ہم جیت رہے ہیں۔''
دلچسپ بات یہ، امریکی میڈیا بھی اتفاق کرتا ہے کہ اس لحاظ سے القاعدہ فاتح رہی، اس نے معاشی و مالی طور پر امریکا کو بہت نقصان پہنچایا۔ مثال کے طور پر صرف افغانستان اور پاکستان میں جاری امریکی جنگ پر حکومت کے ''1650ارب ڈالر'' خرچ ہوئے۔ اس میں عراق جنگ کا خرچ شامل نہیں اور نہ ہی وہ اخراجات جو ذہنی وجسمانی طور پر زخمی فوجیوں کے علاج پر اٹھ رہے ہیں۔
امریکی ماہرین کاکہنا ہے' اسامہ بن لادن کی بنیادی حکمت عملی یہی تھی کہ امریکا کو معاشی طور پر کمزور کر کے اسے عالم اسلام سے باہر نکالا جائے۔ چناںچہ القاعدہ نے امریکی معاشی مرکز (جڑواں ٹاورز) کو نشانہ بنایا' امریکا کو مجبور کیا کہ وہ افغانستان و عراق میں جنگیں چھیڑ دے اور ملکی سکیورٹی کے نام پر ایسے اقدامات کرے جن پر بے پناہ اخراجات آئیں۔
امریکی حکومت کی بدقسمتی کہ وہ القاعدہ قیادت کے بچھائے جال میں پھنس گئی ۔ لہٰذا آج امریکی حکومت ''اٹھارہ ہزار ارب ڈالر'' کی مقروض ہو چکی۔ اب امریکا معاشی طور پر یہ طاقت نہیں رکھتا کہ بیرون ممالک میں براہ راست جنگیں چھیڑ کر بھاری اخراجات برداشت کر سکے۔
کتابیں جو اسامہ کے زیرمطالعہ رہیں
امریکی حکومت نے ان انگریزی کتب، رسائل، رپورٹوں اور مضامین کی فہرست بھی جاری کی ہے جو اسامہ بن لادن کے کمپیوٹروں کی ہارڈ ڈسکوں سے برآمد ہوئے۔ اس تحریری سرمائے کا تعلق مذہب، تاریخ اور حالات حاضرہ کے شعبوں سے ہے۔ امریکی حکومت نے اسے ''بن لادن بک شیلف'' کا نام دیا۔ یہ ورچوئل لائبریری 400 سے زائد کتب، رسائل، رپورٹوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔
اسامہ لائبریری کی اسلامی انگریزی کتب میں عبداللہ عزام کی لکھی کتب"Join the Caravan" اور "The Defence of Muslim Lands" نمایاںہیں جنھوں نے مسلح اسلامی تنظیموں کو بہت متاثر کیا۔ مسلح جدوجہد کے بانی سمجھے جانے والے مصری عالم دین، سید قطب کا سفرنامہ The America I Have Seen بھی برآمد ہوا۔
دور جدید میں مسلم جنگجوئوں کے امام سمجھے والے فلسطینی دانشور، ابو محمد المقدسی کی کتابDemocracy: A Religion بھی اسامہ کتب خانے سے ملی۔ المقدسی کا دعویٰ ہے کہ اسلامی ممالک میں ووٹر اپنے ووٹوں سے ظالم اور مغربی استعمار کے پٹھو حکمرانوں کو منتخب کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کا قتل بھی جائز ہے۔
اسامہ لائبریری کا بیشتر تحریری سرمایہ القاعدہ اور اس کی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ دیگر نمایاں کتب و رسائل میں درج ذیل شامل ہیں:
٭...The Rise and Fall of the Great Powers یئل یونیورسٹی کے مشہور مورخ، پال کینڈی کی تخلیق۔ اس میں 1500ء سے 1980ء تک جنم لینے والی عالمی طاقتوں کے عروج وزوال کا حال خوبصورتی سے بیان ہوا ہے۔
٭
Imperial Hubris۔سی آئی اے کے سابق افسر، مائیکل شویر کی کتاب جو 1996ء تا 2004ء اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے والے امریکی یونٹ کا سربراہ رہا۔ کتاب میں شویر لکھتا ہے: ''اسامہ بن لادن پچھلی ڈیڑھ سالہ اسلامی تاریخ میں سب سے زیادہ قابل احترام، چاہی جانے والی رومانی، کرشماتی اور شاید اہل ترین شخصیت ہے۔''
٭...Oxford History of Modern War برطانوی مورخ، چارلس ٹائون شیڈ کی تصنیف۔ اس میں چودھویں صدی سے لے کر اب تک کے فنونِ حرب کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
٭Necessary Illusions: Thought Control in Democratic Societies۔ممتاز امریکی مورخ، نوم چومسکی کی کتاب۔ یہ افشا کرتی ہے کہ سیاست دان ایک ملک میں کیونکرابتری و فساد پھیلاتے ہیں تاکہ اپنی حکومت مستحکم کرسکیں۔ مگر یوں حقیقی جمہوریت پپننے نہیں پاتی۔
٭Obama's Wars۔امریکی انوسٹی گیٹو صحافی، باب وڈورڈ کی مشہور کتاب۔ اس میں عراق و افغان جنگوں کے حوالے سے اوباما حکومت کی غلطیوں کا تذکرہ ہے۔ باب وڈورڈ کا کہنا ہے: ''اگر اسامہ میری کتاب بغور پڑھتے، تو کسی غار میں چلے جاتے۔ کیونکہ صدر کو پسند ہے، اسکواڈ بھیج کر ہائی ویلیو ٹارگٹ مار دیا جائے۔''
٭New Pearl Harbor: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11۔ امریکی پروفیسر، ڈیوڈ رے گرفن کی تحقیقی کتاب۔ اس میں گرفن نے دعویٰ کیا ہے کہ بش حکومت نے اطلاعات کے باوجود اپنے مفادات کی خاطر ''واقعہ نائن الیون'' رونما ہونے دیا اور اسے روکنے کی کوششیں نہیں کیں۔۔
٭America's "War on Terrorism"۔ معروف کینڈین ماہر معاشیات اور دانشور، مائیکل چوسوڈوسکی کی تخلیق۔ اس کتاب میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکومت نے ازخود واقعہ 9/11 انجام دیا تاکہ ایشیائی ممالک میں قدم جماسکے۔ اور یہ کہ اسامہ بن لادن امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ تھے جنہوں نے نہ صرف امریکا کو اسلامی ممالک پر قبضہ کرنے کا موقع دیا بلکہ مقبوضہ علاقوں میں جاری آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کا مترادف بنا کر انہیں سخت نقصان پہنچایا۔
٭Bloodlines of the Illuminati۔ امریکی مصنف، فرٹنر سپرنگمیئر کی تصنیف۔ اس میں امریکی مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ کرہ ارض کے امیر ترین اور بااثر خاندان مختلف چالیں چل کر دنیا میں اپنی ''عالمی حکمرانی'' قائم کرنا چاہتے ہیں۔
٭ "Best Innovations of the Year Issue" امریکی رسالے، پاپولر سائنس کا بہترین ایجادات نمبر۔